ڈرٹی نیلی کی گیبریلا اور مردوں کی محبت


چلتے چلتے اس نے کہا ”پھر ملیں گے مسٹر خان۔ “

 ”ضرور۔ “ میں نے ہنس کر جواب دیا۔

وہ مجھے اچھی لگی، اس کی انگلیوں میں کوئی انگوٹھی نہیں تھی، مجھے حیرت ہوئی کہ اچھی خاصی خوبصورت اورجاذب نظر ہونے کے باوجود وہ اکیلی کیوں تھی۔ پہلی دفعہ زندگی میں دل کی موجودگی کا احساس ہوا تھا مجھے۔

دوسرے دن میں اسے تلاش کرتا ہوا اس کے شعبے میں پہنچ گیا۔ اس نے مجھے اپنی لائبریری دکھائی اورکچھ کتابیں جو وہ پڑھ رہی تھی، ہم دونوں نے ساتھ ہی کافی پی اور اسے میں نے پاکستانی کھانا کھانے کے لیے دوسرے دن کی شام کو مدعو کر لیا۔ اس نے کچھ سوچ کر آنے کا وعدہ کر لیا تھا۔

دوسرے دن شام کو وہ نہیں آسکی، دوپہر کے بعد اس کا فون آیا تھا کہ اس کی بیٹی بیمار پڑگئی ہے اور اسے تیز بخار ہے جس کی وجہ سے اسے گھر پر ہی رہنا پڑے گا۔ اس نے دوسرے دن مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دیدی تھی۔ ”میں تو تمہارا کھانا نہیں کھاسکی کل تم میرے گھر آجاؤ۔ “ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”کچھ سڈنی کا کھانا کھلاؤں گی، رئیل آسٹریلین اسٹیک“، میں نے وعدہ کر لیا تھا یہ سوچتے ہوئے کہ یہ تو شادی شدہ اور بچوں والی نکلی۔ کیا مصیبت ہے ایک عورت اچھی لگی تو وہ بھی ایسی کہ اس کا حصول ممکن نہیں تھا۔ واہ رے قسمت! واہ رے زندگی۔

اس کا چھوٹا سا مکان سڈنی کے اچھے سے علاقے میں سمندر کے ساتھ تھا جہاں وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اس کی اپنے شوہر سے طلاق ہوگئی تھی۔ اس کا بیٹا چھ سال کا اور بیٹی آٹھ سال کی تھی اور اس کی طلاق تین سال قبل ہی ہوئی تھی۔ بظاہر وہ خوش تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے اپنے بچوں کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہی ہے، گھر داخل ہوتے وقت اس نے مجھے یہ بات بتا دی تھی تاکہ میں بچوں کے سامنے ان کے باپ کے بارے میں نہ پوچھ بیٹھوں۔ گھر پہنچتے ہی اس نے مجھے ایک خوشگوار حقیقت بتائی، اس کا کھارا کھردرا چہرہ مجھے بہت خوبصورت لگا تھا۔

میں اپنے ساتھ ساؤتھ افریقہ کی سرخ وائن کی بوتل لے گیا تھا۔ اس نے بہت اچھا کھانا بنایا تھا۔ آسٹریلین لوگ گوشت بہت کھاتے ہیں، شراب پیتے ہیں اورزندگی سمندر میں تیرتے ہوئے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی نہ کسی قسم کے کھیلوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس نے بھی گوشت کے بڑے بڑے پارچوں کو بھون کر پکایا تھا، ساتھ میں چاول اور پکی پکائی روٹی تھی۔ سرخ وائن کے ساتھ کھانے کا مزا آ گیا۔ میرے دوستانہ رویئے کی وجہ سے اس کے بچے جلد ہی مجھ سے مانوس ہوگئے تھے۔ کھانے کے بعد بچے سونے چلے گئے، اور میں گیبریلا کے ساتھ گپیں مارتا رہا۔ مجھے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ مجھے اس سے ہی شادی کرنا ہوگی۔ شاید میں کسی ایسی ہی لڑکی کا منتظر تھا۔

مجھے پتا تھا کہ وہ طلاق یافتہ ہے، گوری نسل سے اس کا تعلق ہے اور وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔ میرے گھر والے کبھی بھی یہ پسند نہیں کریں گے کہ میں کسی غیر مسلم طلاق یافتہ سے شادی کروں جو پہلے ہی دو بچوں کی ماں ہے۔ پھر مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وہ خود مجھ میں کتنی دلچسپی رکھتی ہے۔ یورپ امریکا آسٹریلیا جیسے ممالک میں شادی کا فیصلہ یک طرفہ طور پر والدین نہیں کرتے ہیں بلکہ بہت سوچ سمجھ کر ایک ساتھ رہنے کے باوجود جوڑے شادی کا فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں۔ میرے فیصلے یا سوچنے سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، مجھے یہ سوچ سوچ کر پریشانی ہو رہی تھی میری زندگی میں اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ زندگی میں اتنی غیریقینی ہو سکتی ہے مجھے اندازہ نہیں تھا۔

ہماری دوستی بڑھتی گئی، اس نے بتایا کہ ”وہ بہت غصہ ور ہے اوراس کا سابق شوہر اس کے غصے کو برداشت نہیں کر پاتا تھا اور ان کی لڑائی شروع ہو جاتی تھی اور بعض دفعہ اتنی شدید ہوتی کہ کئی کئی دنوں تک ان کے درمیان بات بھی نہیں ہو پاتی تھی۔ محبت کے باوجود دونوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا۔ پھر اس کی محبت تقسیم ہو گئی جو میں برداشت نہیں کرسکی۔ میں اس سے بہت لڑی اور ہماری لڑائیاں بڑھتی چلی گئیں۔ آہستہ آہستہ مجھے اس سے نفرت ہوگئی۔ دو فرد نفرتوں کے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتے ہیں۔ ایک دن وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ پھر ہماری طلاق ہو گئی۔ طلاق کے باوجود میرے اندر اس کے خلاف بڑی نفرت ہے، شدت کے ساتھ۔ میں نارمل نہیں ہوں۔

مجھے حیرت ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب میں طلاق بہت غیر معمولی بات نہیں ہے۔ طلاق پر اس قسم کا غصہ، نفرت اور رویہ میرے لیے نیا تھا۔ میں اس کی بات صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکا تھا کیوں کہ عام طور پر مغربی تہذیب میں طلاق کے باوجود لوگوں کے تعلقات خراب نہیں ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں۔ وہ میاں بیوی نہیں رہتے لیکن ماں باپ کی طرح سے اچھے تعلقات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ایک دن ساحل سمندر کے ساتھ بنے ہوئے سڈنی کے بڑے سے آپرا ہال کی عمارت کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہوئے اس نے بتایا کہ ”طلاق کے بعد میں کافی پریشان اور ڈپریس رہی تھی۔ میرا سابق شوہر برا آدمی نہیں تھا۔ مجھے اس سے نفرت نہیں کرنی چاہیے، اگر اس کی محبت ختم ہوگئی ہے تو مجھے سمجھنا چاہیے کہ ایسا ہو سکتا ہے، ایسا ہو جاتا ہے، اس سے نفرت کر کے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ سمجھنے کے باوجود میری نفرت میں کمی نہیں ہوتی ہے۔ اس نے عجیب سے لہجے میں بات کی تھی جیسے وہ کچھ اور کہنا چاہتی ہے۔

 ”محبت یونہی تو ختم نہیں ہوتی ہے۔ “ میں نے سوال کیا۔ ”کوئی وجہ تو ہو گی شاید تمہارا غصہ اس کی وجہ ہو۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ پچھلے کئی مہینوں میں میں نے تمہیں غصے میں نہیں دیکھا۔ “ یہ کہہ کر میں ہنس دیا تھا۔

”ضرورت نہیں پڑی غصے کی۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ”بات یہ ہے کہ میرے تمہارے تعلقات اتنے پرانے نہیں ہیں کہ مجھے تم پر غصہ آئے گو کہ مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے تعلقات میں صرف دوستی نہیں رہی ہے، تم میرے بارے میں سنجیدہ لگتے ہو، جب میں بھی سنجیدہ ہو جاؤں گی تو شاید مجھے تم پر غصہ آنے لگے گا۔ “ اس نے زور سے ہنستے ہوئے کہا۔

نہ جانے کیوں اسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا اور اس کی ہنسی کے ختم ہونے کے ساتھ ہی میں نے کہا تھا کہ پھر سنجیدہ ہوجاؤ اس میں کیا برائی ہے ”مجھ سے شادی کر لو۔ میں تمہارا ہر غصہ برداشت کرلوں گا، تم مجھے اچھی لگتی ہو، بہت اچھی۔ “

اسے اس قسم کی کسی بات کی توقع نہ تھی۔ اس کا چہرہ پھر سرخ ہو گیا۔ وہ تھوڑی دیر تک مجھے تکتی رہی۔ وائن کے گلاس سے ایک بڑا گھونٹ لے کر مجھے غورسے دیکھنے لگی، اس کے چہرے کے تاثر کو میں بے یقینی نہیں کہہ سکتا لیکن اسے شاید حیرت ہوئی تھی کہ میں نے اچانک ہی اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments