ڈرٹی نیلی کی گیبریلا اور مردوں کی محبت


پھر وہ مسکرائی تھی اور آہستہ سے بولی کہ ”تم مجھے جانتے ہی کتنا ہو کہ مجھ سے شادی کرلو۔ مجھ میں کوئی ایسی برائی ہو گی کہ وہ مجھے چھوڑ گیا، بہت بڑا جوا کھیلو گے تم مجھ سے شادی کر کے۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔

 ”میں تمہیں جانے بغیر شادی کروں گا لیکن تم یہ جان لو کہ میں پاکستان سے آیا ہوں، کبھی واپس نہیں جانے کے لے۔ اب یہی میرا ملک ہے اوریہیں رہ کر مرجاؤں گا۔ میری زندگی میں کبھی کوئی لڑکی نہیں آئی ہے، تم پہلی لڑکی ہو اور آخری بھی اور میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ “ میں نے آہستہ سے اس کے ہاتھ کو تھام لیا جسے اس نے چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی۔

اس دن ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے تھے، دنیا جہان کی باتیں۔ میں اسے اپنے بارے میں بتاتا رہا کہ میں پاکستان سے کس طرح انگلینڈ پھر آئرلینڈ پہنچا تھا، پھر پاکستان واپس گیا اور اب آسٹریلیا پہنچ گیا ہوں۔ وہ سب بڑی دلچسپی سے سنتی رہی تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اس کے دل میں اپنے لیے جگہ بنالی ہے، دیر گئے رات کو ہم دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔ یہ سوچ کر میرے بے قرار دل کو قرار تھا کہ اس نے میری بات سنی تھی اور اس کی آنکھوں میں میرے لیے محبت نہیں تو عزت ضرور تھی۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔

ہماری اگلی ملاقات یونیورسٹی میں ہی ہوئی تھی، میں اس کے شعبے میں چلا گیا تھا جہاں وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھی ہوئی اپنے کمپیوٹر پر کچھ کام کررہی تھی۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ ایک دوستانہ سی مسکراہٹ، میں نے اس کی آنکھوں میں پیار دیکھ لیا تھا۔

 ”میں نے سوچا تمہارے ساتھ کافی پی لوں مس گیبریلا کیا یہ ممکن ہے۔ “ میں نے پوچھا تھا۔

 ”ضرور“، اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا اور ہم دونوں اٹھ کر کافی کے کمرے میں آگئے تھے۔ تھوڑی دیر کی بات کے بعد میں نے اسے دوبارہ سے کھانے پر مدعو کر لیا جس نے اسے قبول کر لیا تھا۔

وہ بھی اپنے ساتھ سرخ وائن لے کر آئی تھی، اور میں نے مصالحے والا پاکستانی کھانا بنایا تھا۔ چار گھنٹے کھاتے پیتے اور باتیں کرتے ہوئے بہت آسانی سے گزر گئے تھے۔

میں اسے اپنے بارے میں، پاکستان کے بارے میں اپنے خاندان کے بارے مں آئرلینڈ کے بارے میں نہ جانے کا کیا کچھ بتائے جا رہا تھا۔ وہ کبھی دلچسپی سے سنتی اور کبھی کچھ سوچنے لگتی تھی۔ وہ میرے پاس ہوتے ہوئے بھی کہیں چلی جاتی تھی کہ میں اس سے پوچھ بیٹھا تھا ”گیبریلا تم کچھ پریشان سی ہو مجھے بتاؤ تو شاید میں کچھ مدد کرسکوں۔ “

 ”میں بتاؤں گی تمہیں۔ “ اس نے فوراً ہی کہا تھا۔ ”تم“ گے ”لوگوں کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ “ ساتھ ہی اس نے سوال کر دیا تھا۔

میرے لیے یہ سوال بڑا غیر متوقع تھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی لڑکی اس طرح سے سوال کر بیٹھے گی۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا اس نے دوسرا سوال کر لیا تھا۔

 ”کیا میں سیکسی ہوں؟ “ وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔

 ”تم بہت خوبصورت ہو، بہت حسین، اتنی حسین کہ تمہیں دیکھ کر بار بار تمہیں دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ سیکسی اور کیا ہو سکتی ہو۔ “ میں نے بڑے پیار سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔

 ”اس نے ایک مرد کے لیے مجھے چھوڑدیا تھا۔ میرے بچوں کے باپ، میرے شوہر نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں میں ناکام ہوگئی اس محبت میں؟ کیا کمی تھی مجھ میں جو اسے کسی مرد کے سہارے کی ضرورت پڑی۔ وہ کیسے ’گے‘ ہو گیا؟ یہی سوچ سوچ کر میں اندر اندر غصے سے پاگل ہوئی جاتی ہوں۔ یہی ہے نفرت کی وجہ اور اس نفرت کے ساتھ میں کسی نئے رشتے کو کیسے نباہ سکوں گی؟ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے! “

یورپین لوگ عجیب ہوتے ہیں آئرلینڈ میں ہوں یا آسٹریلیا میں۔ ان کے اندر سچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ کچھ چھپاتے نہیں ہیں۔ سب کچھ بتا دیتے ہیں، یہی ایک کمی ہے ہمارے لوگوں میں اوپر سے بھی جھوٹے، اندر سے بھی کھوٹے، یہی وجہ تھی کہ مجھے پاکستان چھوڑنا پڑا تھا۔ مجھے اس کی بات سمجھ میں آ گئی تھی۔

میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا بہت پیار سے۔ ”تم غلط سمجھ رہی ہو اسے تم سے شدید پیار تھا اسی لیے تو شادی کی تھی اس نے تم سے، مگر وہ اپنے اندر اپنی تعمیر کے فارمولے سے نہیں لڑسکا۔ لڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں اپنے بال کو کتنا ہی رنگ لگا کر سرخ کرلوں اندر سے تو سیاہ ہی نکلے گا۔ جب وہ اس مرد کی محبت میں گرفتار ہوا تو چاہنے کے باوجود وہ تم سے رشتہ قائم نہیں رکھ سکتا تھا، قصور اس کا نہیں تھا، تمہارا ہے، جو یہ بات نہیں سمجھ سکی ہے، اس نے تو تمہیں سب کچھ سچ سچ بتا دیا، یہ تم ہی ہو جو سچ برداشت نہیں کرسکی ہو۔ تم اس کے لیے کشش کھو چکی تھیں کیوں کہ اس کے اندر کا ’گے‘ انسان اپنا کھوج لگاچکا تھا۔ “

تمہیں اپنے قصور کی وجہ سے اس سے تو نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ ”میں نے بڑے اعتماد سے کہا تھا۔ اس نے تم سے جھوٹا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جھوٹ نہیں بولا، وہ بول سکتا تھا، دہری زندگی گزارسکتا تھا، وہ اپنے اند ر کے سچ سے لڑتا رہا پھر جب لڑ لڑ کر تھک گیا تو سب کچھ سچ سچ کہہ دیا اس نے۔ وہ مجھے غور سے سن رہی تھی۔

 ”یہ اینتھراپولوجی کا پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے، یہ جینیات کا مسئلہ ہے جین کا۔ وہ اپنے اس جینیات کے ساتھ تمہارے بچوں کا باپ بھی ہے۔ اسے دھتکارنے اور اس سے نفرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تم نے کبھی بھی اس سے محبت کی تھی تو اسے اپنے طریقے سے زندگی گزارنے دو۔ “ یہ انسان اور اس کی زندگی کروڑوں برس کے ارتقا کی پیچیدہ حقیقت ہے جو کبھی بھی یکایک آشکار ہوجاتی ہے، اس نے اس حقیقت کے ساتھ سچ بولا ہے۔

مجھے لگا تھا کہ وہ میری بات سمجھ گئی ہے، اس کے چہرے پر ایک اطمینان کی سی چادر پھیلتی ہوئی نظر آئی تھی۔ زندگی نے ایک بار پھر ایک نئے نصاب کے صفحات سامنے رکھ دیے تھے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments