جب میری بیٹی جنس بدل کر بیٹا بنی


فرزانہ میری ایسی دوست ہے جس کی فرزانگی، علم دوستی اور خلوص و محبت نے مجھے اس وقت سے ہی اپنا بنا لیا تھا جب میں ابتدا میں امریکہ منتقل ہوئی تھی۔ باوجود اس کے کہ اب گزشتہ سات سالوں سے ہم ایک دوسرے سے بہت دور ریاستوں میں رہتے ہیں، ہمارے درمیان قربت اور اعتماد کا رشتہ ابھی بھی برقرار ہے۔ جبھی تو اس نے کچھ سال قبل مجھے وہ ای میل لکھی جو کوئی اپنے با اعتماد دوست کو ہی لکھ سکتا ہے۔ اپنی زندگی کے ایک ایسے موڑ کے متعلق جس کا اس نے کبھی سوچا ہی نہ ہوگا۔

اس نے لکھا۔ ”اب جبکہ ہم ایک دوسرے سے بہت دور ہیں میں نہیں چاہتی کہ تمہیں کسی اور سے یہ بات پتہ چلے کہ میری بیٹی فرحین ڈاکٹر کی تشخیص کے مطابق ٹرانس جینڈر ہے۔ یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ سفر ہے، بالخصوص فرحین کے لیے کیونکہ ابھی وہ طبی تجزیے، سرجیکل اور قانونی مراحل سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو اسے ایک لڑکی سے لڑکا بننے کے عمل میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ویسے ابھی وہ تعلیم کے مراحل میں بھی ہے۔ گو ہم خاندانی پرائیویسی پہ یقین رکھتے ہیں مگر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو سچی اور شفاف زندگی گزاریں۔“

”لہٰذا ہم باتوں کو راز میں رکھنے کے قائل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان میں رہنے والے دوست احباب اور رشتہ داروں کو بھی فرحین کی جنس کی تبدیلی کے متعلق بتا رہے ہیں۔ فرحین نے اپنا نیا نام وقار منتخب کیا ہے۔ گو وہ یہیں کی پیدائش ہے مگر اس نے بجائے کسی انگریزی نام کے اپنی زبان کے نام کا انتخاب کیا ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہے کہ ہمارے کلچر میں ٹرانسجینڈر کو وقار سے گرا ہوا تصور کیا جاتا ہے۔“

”ہاں اگر کوئی سوال ہو تو پلیز مجھے لکھنا۔ گو ابھی ہم خود بھی اس پورے عمل کو سمجھنے کے کوشش کر رہے ہیں۔ امید ہے جلد ہی ہم پوری طرح اس تبدیلی کو قبول کر سکیں گے۔ فرحین اب وقار پکاری جائیں گی اور ہمیں اس کی نئی شناخت کی عادت ڈالنی ہوگی“ ۔

فرحین کی زندگی میں ہونے والی اس واقعہ کے کچھ سال بعد فرزانہ نے ایک دن مجھے ”وقار“ کی دھوم دھام سے ہونے والی شادی کا دعوت نامہ بھی بھیجا۔ میں اس وقت ملک سے باہر ہونے کے سبب دل مسوس کے رہ گئی۔ ہاں البتہ شادی کی تصاویر ضرور دیکھیں۔ وقار جسے میں نے سولہ سترہ سال کی عمر میں ایک نوجوان لڑکی کے روپ میں دیکھا تھا اب ایک ہینڈ سم لڑکا تھا۔ اس کی اپنی دلکش مسکراتی ہوئی دلہن سارہ کے ساتھ خوبصورت تصاویر۔ مجھے خوشی تھی کہ فرزانہ نے اپنی اولاد کی خوشی کا بھرپور اہتمام کیا۔ عام پاکستانی والدین کی اس طرح اسے گھر سے نکالا اور نہ ہی اس تبدیلی کو نہ قبول کرتے ہوئے چھپایا۔

پچھلے دنوں جب کسی کانفرنس کے سلسلہ میں جب فرزانہ کا مشی گن آنا ہوا تو مجھے فرزانہ سے پہلی بار وقار کے سلسلے میں گفتگو کا موقعہ ملا۔ جو من و عن آپ کی نذر ہے۔

سوال۔ کیا کبھی بچپن میں ایسا محسوس ہوا کہ نفسیاتی طور پہ وقار میں کوئی بات مختلف ہے؟

جواب۔ نہیں وقار کے ساتھ ایسی کوئی واضح علامت نہیں تھی۔ بچپن میں وہ ننھی فرحین کے طور پہ اپنی باربی گڑیوں سی کھیلتا۔ وہ اندر کیا کچھ سوچتا ہوگا کسی کو کیا پتہ؟ البتہ اپنی چوتھی سالگرہ پہ اس کا اصرار تھا کہ وہ یہ ڈریس نہیں پہنے گی۔ اس کی دادی نے اصرار بھی کیا کہ فراک پہنو مگر اس نے حامی نہیں بھری اور اس نے وہی مخصوص لڑکوں والے کپڑے پہنے۔

پھر کچھ اور بڑا ہونے پہ مردانہ چیزوں کے استعمال کی خواہش بڑھ گئی۔ تاہم اس وقت بھی ہم اکثر خصوصاً عید تہوار وغیرہ پہ شلوار قمیض پہننے کو کہتے تو وہ زبردستی ہی سہی، پہن بھی لیتے مگر کسی خاص شوق سے نہیں۔ ہاں البتہ جب ٹین عمر آئی تو خاصا لڑکی پن آیا اور ”سپر وومن“ کی طرح رہنے لگے یعنی کچھ میک اپ، نیل پولش اور لڑکیوں کے کپڑے۔ وہ ایک جاذب نظر اور خوبصورت لڑکی پن کا دور تھا۔ اور وہی زمانہ تھا کہ جب اس کی آٹھ دس لڑکیوں سے دوستی تھی۔ اب وقار نے ایک حساس شاعرہ کی طرح شاعری لکھنی شروع کردی جس میں رومانس کا عنصر نمایاں تھا۔ تاہم اسکول کے اواخر کا زمانہ اس کی نفسیاتی صحت کے لیے مشکل تھا کیونکہ پینک اٹیک کی وجہ سے اس کا نفسیاتی علاج ہو رہا تھا۔

جب ہائی اسکول ختم ہوا تو اس کا انتخاب ایک پرائیویٹ کالج تھا جو ہماری اسٹیٹ میں نہیں تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا پرائیویٹ لڑکیوں کا کالج تھا۔ باوجود اس کے کہ مضامین پسند کے تھے تعلیمی اعتبار سے کامیابی نے ان پینک اٹیک کو کم نہیں کیا۔ اس کی تھراپی جاری رہی۔ اس وقت واضح طور پہ جنس بدلنے کی خواہش کا اندازہ ہو سکتا تھا۔

سوال: مثلاً کن سی باتیں تھیں؟

جواب: ایسے وقت میں عموماً ٹرانس جینڈر اپنے سینے کو چھپانے کے لیے اس پر پٹی باندھنے لگتے ہیں۔ وقار (اس وقت فرحین) نے جب کالج کے بعد یونیورسٹی شروع کی اور اس کا تفصیلی معائنہ ہوا تو پتہ چلا کہ اس کے لیے وہ وقت انتہائی بھرپور تکلیف کا ہوتا تھا جب وہ ماہانہ حیض کے دورانیہ سے گزرتی تھی۔ خود مجھے یاد آیا کہ اس کی تیراکی کی کلاس بھی اس کے لیے اسکول کی زمانہ میں بھی بہت تکلیف دہ تھی۔ وہ مجھے کہتی کہ خط لکھ دیں کہ مجھے excuse کر دیا جائے۔

بہرحال جب اس کی ٹیسٹنگز کے بعد یہ پورے طور پہ طے ہوا کہ جنس بدلنا ہے تو انٹرنیشنل ہیلتھ ایسوسی ایشن نے پہلے تو اس کی مکمل evaluation کی پھر اس کو چھ ماہ تک جینڈر بدلنے کے قواعد پہ عمل پیرا کروایا جس میں مردوں کی طرح کپڑے پہننے اور زندگی بسر کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مگر آواز بدلنے کے لیے ہارمون تھراپی کی جاتی ہے۔

سوال: فرزانہ اس تبدیلی نے گھر والوں پہ کیا اثر ڈالا؟

جواب: بطور ماں میں ہمیشہ ہی میں نے اس کی آنکھوں میں وہ بات محسوس کی ہے جو اپنے ٹرانسجینڈر مریضوں میں دیکھی لیکن میں کچھ کہنے سے ڈرتی تھی۔ اہم یہ ہے کہ اس بات کے حتمی ہونے کے بعد پہلی بات کس سے کرتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس انکشاف کے بعد اتفاقاً پہلا فون میری بہن کا آیا۔ اس کی گفتگو تسلی سے بھرپور تھی اور پھر دوسرا فون میری ایک دوست کا تھا جس نے ایک ٹرانسجینڈر سینٹر میں کام کیا تھا۔ اس کی گفتگو بھی حوصلہ افزا تھی۔

مگر ہمارے خاندان کے لیے یہ تبدیلی ٹرامیٹک (سانحہ) تھی۔ میری روایتی اور قدامت پرست ساس نے جب یہ خبر سنی تو وہ ہسٹیریکل ہو کر چیخنے لگیں۔ ”نہیں۔ وہ کنفیوز ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا“ ۔ پھر انہوں نے مجھے اس واقعہ کا ”موردالزام“ ٹھہراتے ہوئے کہا۔ ”یہ سب ماں کی وجہ سے ہوا ہے جس نے اولاد کو کچھ سمجھایا نہیں۔“ میرے شوہر کو بھی اس بات کو قبول کرنے کے لیے وقت چاہیے تھا۔ اس کی قبولیت میں شرم کا عنصر مانع تھا۔ ”لوگ کیا کہیں گے؟“ ۔

میں اس شرمندگی سے پوری طرح واقف تھی جس سے میں اپنے بچپن میں اپنی ماں کی ذہنی بیماری بائی پولر ڈس آرڈر کی وجہ سے گزری تھی۔ جب وہ شدید ڈپریشن اور مینیک maniac دور سے گزرتی تھیں تو ہم سارے بہن بھائی بھی اسی قسم کی شرم سے گزرتے تھے۔ سارے لوگوں سے مختلف نظر آنے کی وہ شرم ایک ٹرانسجینڈر والدین ہونے سے کتنی مماثلت رکھتی ہے۔ یہاں میری ساس کا کہنا تھا۔ ”لوگ کیا کہیں گے ہماری تو ناک کٹ جائے گی۔ “ ادھر میری ماں جو عبادت گزار اور مذہبی ہونے کے باوجود میرے اس سوال پہ کہ میں کیا کروں؟

کہتی ہیں۔ ”تمھیں اپنی اولاد کا خیال رکھنا ہے۔ تم اپنے بچے کی مدد کرو“ میں نے اپنی اولاد کی کامیابیوں کی جانب توجہ دی۔ یونیورسٹی میں اس کی شاندار پیپر کی پریزنٹیشن پہ شوہر کے ساتھ کالج گئی تو اساتذہ نے اس کی بہت تعریفیں کیں۔ جس کو سن کر میرے شوہر اتنے متاثر ہوئے کہ بے اختیار کہہ اٹھے ”ایک کشتی جو طوفان میں ڈول رہی تھی مجھے لگتا ہے کہ وہ کنارے پہ آن لگی ہے۔“

سوال: تبدیلی کے اس سفر میں وقار کون سی سرجری سے گزرے؟

جواب: ان کی پہلی سرجری breast removal (سینے کا نکال دینا) کی تھی۔ اس کے بعد Hysterectomy یعنی بچہ دانی نکال دی گئی۔ جو سرجری اور طبی اعتبار سے مشکل اور تکلیف دہ تجربہ تھا۔ مگر اسے اپنے شناخت کی تبدیلی کے لیے اس سے گزرنا منظور تھا۔

سوال۔ کمیونٹی نے اس تبدیلی کو کس طرح لیا؟

جواب۔ کچھ ہی عرصے کے بعد وقار کا یونیورسٹی سے گریجویشن کا وقت آ گیا۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ گئی مگر ان کی فیملی نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ لیکن اب وقت تھا کہ ہم سچائی سے اپنے ملنے والوں کو اس اس تبدیلی سے آگاہ کریں۔ کچھ کو زبانی تو کچھ کو خط کے ذریعے۔ کچھ لوگوں نے اس بات کی مبارکباد اس طرح دی۔ ”مبارک ہو خدا نے آپ کو بیٹا دیا۔“ کچھ نے اس تبدیلی پہ تحائف بھی دیے لیکن ساس اور میری نندوں کو اس حقیقت کو قبول کرنے میں سب سے زیادہ مشکل تھی۔ ان کا یہ رویہ تکلیف دہ تھا۔ میرے سسرال والے ایک بے نام سے خوف سے گزر رہے تھے۔ اتنا کہ جب وقار کو دیکھا تو میری ساس ”نو نو“ کہتی ہوئی اس کمرے سے بھاگ کر اپنے بیڈ روم میں دو دن کے لیے مقفل ہو گئیں۔ اس سے دعائیں پڑھنے کا کہا۔

سوال۔ : کیا ان کے خیال میں یہ ایک ایسی بیماری تھی جس کو دعاؤں سے دور کرنے کی ضرورت تھی؟ یا گناہ و ثواب کا خوف؟

جواب: ان کا کہنا تھا کہ میرا تو ان لوگوں نے منہ ہی نوچ لیا کہ آپ کے گھر میں کیا ہورہا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو لوگوں کو بتانا تھا کہ یہ لوگ پاگل نہیں۔ پھر ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اس کی وجہ سے اب وقار کی چھوٹی بہنوں بتول اور رابعہ سے کوئی ملنے نہیں آئے گا۔ وہ لوگوں کی ریجیکشن سے خوفزدہ تھیں۔

جبکہ میرا کہنا تھا کہ دوسرے بچے نہ آئیں مگر ان میں ایک دوسرے کے لیے قبولیت ضرور ہونی چاہیے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے نہ صرف ہم سب بلکہ ہماری دونوں بیٹیاں بھی تھراپی سے گزر رہی ہیں۔

سوال۔ وقار کی شادی کے متعلق کچھ بتائیں؟

جواب۔ وقار کی سارہ کے لیے پسندیدگی طالب علمی کے زمانے سے تھی۔ ہم نے اس کی پسند کا احترام کرتے ہوئے پورے اہتمام سے شادی کی۔ سارہ ہمارے سامنے ایک ہنستی مسکراتی انسان تھی لیکن یہ شادی محض کچھ سال ہی چلی۔ وقار نے بتایا کہ وہ ذہنی طور پہ بہت ڈسٹرب انسان ثابت ہو رہی تھی۔ اور اس سے قبل کہ یہ شادی محبت کے بجائے ایک تلخ رشتے میں تبدیل ہو دونوں نے راستے بدل لیے۔

سوال: اب کیا صورتحال ہے؟

جواب: وقار کی ہارمون تھرپی ابھی بھی جاری ہے۔ اور اس نے محسوس کیا کہ اس کی جینڈر تبدیلی ابھی بھی سفر میں ہے۔ گو یہ طلاق آسان نہ رہی ہوگی زندگی کے بدلتے موڑ پہ وقار نے محسوس کیا کہ اس کا رجحان مردوں کی طرف ہے اور اس طرح حال ہی میں اس نے ایک لائف پارٹنر چنا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔

سوال: اس تجربہ سے کیا سبق ملا جو اپنی دوسری اولاد پہ لاگو ہوگا؟

جواب: یہ کہ اگر اولاد بظاہر ”پر فیکٹ“ نہ بھی سمجھی جائے ہمیں چاہیے کہ اس کو قبول کریں اور اپنائیں۔ اس سماج میں heterosexuality قابل قبول ہے مگر کسی ٹرانسجینڈر کو اپنانا مشکل۔ حالانکہ وہ کس قدر پریشانیوں سے گزرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ سماج کو اس کے متعلق روشناس کیا جائے۔ کیونکہ یہ جنس بناؤٹی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور ایسے لوگوں کو ہماری مدد درکار ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم میاں بیوی تعلیم یافتہ تھے، اس کے حوالے سے ہمیں تھرپی کے ساتھ parental guidance کے لیے مختلف اصطلاحات سے سے واقفیت پیدا کی گئی۔ مثلاً جینڈر شناخت اور سیکشویل اورینٹیشن sexual orientations اور دوسری متعلقہ اصطلاحات۔ میری گزارش ہے کہ اس موضوع سے نفرت کرنے کے بجائے اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

کچھ اصطلاحات

1: پیدائشی جنس (natal sex) : پیدائش کے وقت بچے کے بیرونی جنسی عضلات کی ساخت کی بنیاد پہ جنس کے تعین کو پیدائشی جنس کہا جاتا ہے۔

2: سسجینڈر (cisgender) : اگر کوئی اپنی پیدائشی جنس سے ہی مطابقت رکھے مثلاً لڑکا پیدا ہوا اور لڑکا ہی رہے تو اس کے لیے سسجینڈر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

3: ٹرانسجینڈر: اگر جنسی رویہ پیدائشی جنسی رویے سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسے ٹرانسجینڈر کہا جاتا ہے۔ جو کہ ایک ”چھتری اصطلاح ہے جس کی ذیل میں گے (gay) ، straight، bisexual وغیرہ کی اصطلاحات ہیں۔

4: میل ٹو فیمیل وہ ٹرانسجینڈر ہیں جو پیدائش کے وقت مرد تھے۔
5: فیمیل ٹو میل وہ ٹرانسجینڈر ہیں جو پیدائش کے وقت عورت تھیں۔

6: ایک سے دوسری جنس میں تبدیلی کا عمل ٹرانزیشن کہلاتا ہے۔ جس میں عمومی طور پہ تین اہم پہلو ہوتے ہیں سماجی، میڈیکل اور قانونی پہلو۔ سماجی تبدیلیاں مثلاً کس انداز میں چلا پھرا جاتا ہے، نام اور رشتوں میں تبدیلی، میڈیکل سطح پہ سرجری، ہارمونز کا استعمال اور ذہنی صحت کے لیے علاج۔ قانونی طور پہ جنس میں تبدیلی کے حساب سے نام اور قانونی دستاویزات اور شناخت میں تبدیلی وغیرہ کو ٹرانزیشن کا عمل کہا جاتا ہے۔

7: جنسی شناخت: sexual identity: یہ کسی فرد کا ذاتی اور منفرد طریقہ ہے جو اس کی خواہشات اور جنسی اظہار کا تعین کرتا ہے۔

8: جینڈر: یہ ایک سوچ یا کانسپٹ ہے جو مرد انیت اور عورت پن کے کردار کے لیے سماجی اور ثقافتی اعتبار سے متعین کی گئی ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے نہیں کہ کسی کا جنسی رجحان کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments