محمد حنیف اور پرویز ہودبھائی پر غداری کا الزام لگانے والے صحافی کا اپنا کردار


1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام کے ساتھ ملک کی اہم اپوزیشن سیاسی قوتیں ’پاکستان نیشنل الائنس‘ (پی این اے ) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دے کر مشترکہ پلیٹ فارم سے ”اینٹی بھٹو موومنٹ“ کا آغاز کر چکی تھیں جو دراصل یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سی آئی اے سپانسرڈ تحریک تھی، جس کا واحد مقصد ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہ ہونے کی امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار پر پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے ہٹانا بلکہ انہیں عبرت کی مثال بنانا تھا۔ ملک میں سخت ترین کشیدگی کی فضا تھی، قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ماسوائے پی ٹی وی کے ملک میں صرف پرنٹ میڈیا تھا جو ”نشر و اشاعت“ کی ماہر جماعت اسلامی کی سرکردگی میں مکمل طور پر رائٹ ونگ سیاسی قوت ”پی این اے“ کے ساتھ تھا۔

وفاقی وزارت اطلاعات ایک پراپیگنڈہ پرچہ بند کرتی تو راتوں رات نئے ڈیکلریشن کے ساتھ دوسرا نکال لیا جاتا۔ ذرائع ابلاغ کے میدان پر خصوصی فوکس رکھنے والی جماعت اسلامی پاکستان اور جناب الطاف حسن قریشی اور محترم مجیب الرحمن شامی جیسے اس کے سکہ بند ہم خیال صحافی اس مشن پر دن رات ایک کیے ہوئے تھے، ایک پرچے پر پابندی لگتے ہی یہ لوگ کوئی ڈمی ڈیکلریشن ڈھونڈ کر اسے فعال کرلیتے اور ban ہو جانے والے پرچے کو متبادل نام (نئے ڈیکلریشن) کے ساتھ شائع کر دیا جاتا۔ بالکل اسی طرح جیسے ”لشکر طیبہ“ کو دہشت گرد قرار دے کر کالعدم کردینے پر جہادی جتھہ ”جماعتہ الدعوہ“ کے نام سے کام جاری رکھے یا ”سپاہ صحابہ“ پر پابندی لگے تو دوسرے مسلک کو کافر قرار دینے کا سرٹیفیکیٹ بانٹنے والے ”جماعت اہلسنت“ کے لیبل کے ساتھ بدستور سرگرم رہیں۔

حکومت ہفت روزہ ”زندگی“ پر پابندی لگاتی تو اگلے ہفتے ہفت روزہ ”الحدید“ اپنی پیشانی میں ”زندگی“ کی پیشانی سموئے مارکیت میں ہوتا، ”الحدید“ ban کیا جاتا تو جناب مجیب الرحمن شامی راتوں رات پاکستان میں اپنے آبائی شہر پاکپتن جا کر اپنے ایک قریبی عزیز شیخ منصور طیب سے ان کے نام جاری ہوا ”اسلامی جمہوریہ“ کا ڈمی ڈیکلریشن لا کر اسے فعال کر لیتے اور ”زندگی“ کا سفر جاری رکھتے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وفاقی حکومت نے وزارت اطلاعات کے لئے ایک اہم خفیہ پالیسی وضع کی جو حکومتی ترجمان ہونے کی بنا پر صرف روزنامہ مساوات کے ایڈیٹوریل سیکشن کے ساتھ شیئر کی گئی جبکہ ”مساوات“ کے نیوز روم، بالخصوص مین ڈیسک (لوکل ایڈیشن) پر موجود سب ایڈیٹرز میں رحیم یار خان سے آنے والا ایک بغدادی طبع جونیئر کارکن بھی شامل تھا جس نے پیشہ ورانہ بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت اطلاعات کی پوری کی پوری خفیہ پالیسی فی الفور لاہور میں ’منصورہ‘ یعنی پی این اے کی سب سے سرگرم رکن جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر جاکر leak کردی

جی یہ وہی خلیفہ بغدادی صحافی المعروف ”حضور والا“ ہیں جو آج ٹی وی اینکر بنے ہوئے ہیں، اور جن کے پاس طویل عرصہ سے غالباً جنرل ضیاء الحق دور سے پاکستان آرمی کے تمام میس یعنی باورچی خانوں کو مصالحہ جات کی سپلائی کا کنٹریکٹ بتایا جاتا ہے۔ جو اوجڑی کیمپ کی مبینہ ’خونیں کمائی‘ سے قائم ”پیپسی“ (پاکستان) کے مالکان سے بھاری رقم لے کر ان کی فرمائش پر ”افغان فساد“ کے آرکیٹیکٹ جنرل اختر عبدالرحمن کو ”فاتح“ کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ بتایا جاتا ہے جنرل اختر عبدالرحمن کے بیٹوں اور جنرل ضیاء الحق کے فرزند اعجاز الحق کے مابین 1988 کے بعد اس بات پر سخت مقابلہ شروع ہوچکا تھا کہ ”افغان فساد“ یا ان کے نزدیک سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے محاز کا اصل ہیرو یا فاتح ان کا باپ تھا۔

2014 میں موصوف کی گاڑی سے رات کے وقت ایک نوجوان کی موٹر سائیکل کی ٹکر ہوگئی، لڑکے کی ہزار منت سماجت اور ٹریفک پولیس کی درخواست کے باوجود ”حضور والا“ کا دل ذرا نہ پسیجا اور دونوں پارٹیاں متعلقہ تھانے پہنچا دی گئیں جہاں پہنچتے ہی موصوف نے سب سے پہلے ایک حدیث پڑھی اور پھر پورا بھاشن دے کر نوجوان کو ہر قیمت پر سزا کا حقدار ٹھہرایا۔ موصوف ان دنوں روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے تھے۔ مذکورہ نوجوان کوئی جاب مل جانے پر پہلی بار ملک سے باہر جا رہا تھا اور اگلی صبح اس کی فلائٹ تھی، اعلیٰ پولیس افسران نے بھی ”حضور والا“ سے درخواست کی کہ بچے کو معاف کردیں اور گھر جانے دیں کہ صبح اس نے ماں باپ سے دور جانا اور سفر پر روانہ ہونا ہے، بھاشن باز صحافی کسی صورت نہ مانا اور بچے کے والدین سے گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کی خاطر علی الصبح 70 ہزار روپے بطور ہرجانہ وصول کر کے ہی جان چھوڑی لیکن بھاشن باز صحافی نے جب پیسے اپنی جیب میں ڈال لیے تو پولیس سے درخواست کرتا ہے ”مجھے اس کی ایک رسید بنیادیں تاکہ میں اتنی ہی رقم ادارہ“ جنگ ”سے بھی وصول کر سکوں جس نے مجھے یہ گاڑی دی ہوئی ہے“ یہ پوری روئیداد متعلقہ علاقہ کے ایس پی نے خود اپنی زبانی لاہور کے ایک سینیئر کرائم رپورٹر کو سنائی تھی۔

”حضور والا“ کتنے بڑے صحافی ہیں اور ذاتی و پیشہ ورانہ طور پر کس قدر دیانت دار ہیں، اس کی مزید تصدیق کے لئے ان کی پچھلے دنوں سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ایک آڈیو کال سے کیا جاسکتا ہے جس میں وہ روایتی اخباری ”نمندوں“ یعنی چھوٹے قصبات کے نامہ نگاروں کی طرح کسی ملزم کو چھڑوانے کے لئے متعلقہ ایس ایچ او کو ”حکم“ دے رہے اور جواب میں مثالی عزت افزائی کروا رہے ہیں۔

موصوف صحافتی حلقوں میں مقامی اور غیر مقامی مشروبات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں اس لئے کہ اپنے ہر شو میں کم از کم دو بار قرآنی آیات اور احادیث لازمی پڑھنے والے یہ صحافی مائع طرب انگیز کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ چند برس قبل لاہور گلبرگ میں کینال روڈ پر پینے پلانے کی ایک محفل میں ”استاد“ کی سرخوشی اس درجے کو پہنچ گئی کہ وہ کپڑوں سے باہر ہوگئے، مطلب انہوں نے حالت مخموری میں اپنی شرٹ بھری محفل میں اتار پھینکی، مرحوم رپورٹر اختر حیات شرارت میں بوتل قبضے میں لے کر اٹھ کر بھاگ لیا تو موصوف نے اسی حالت میں اس کے پیچھے دوڑ لگا دی تھی۔

جب نئے نئے نکلنے والے روزنامہ پاکستان کے میگزین سیکشن سے وابستہ تھے تو دو روز کے لئے اسلام آباد گئے تو اخبار کی نو آموز لیڈی رپورٹر کو بھی خفیہ طور پر ساتھ لے گئے، اور اسے oblige کرنے کی غرض سے واپسی سے قبل رات کو ٹن حالت ہی میں افغان جنگ کی بابت اہم پیش رفت سے متعلق ایک ایکسکلوژو سٹوری اس کے نام سے اخبار کے دفتر فیکس کردی، صبح خبر دیکھ کر اخبار کا بظاہر ”ان پڑھ“ مالک اکبر بھٹی ششدر رہ گیا جس نے انتظامی سٹاف سے اسلام آباد والے ہوٹل کا بل نکلوایا جہاں ”خلیفہ بغدادی“ ٹھہرے تھے تو پتہ چلا کہ ہوٹل میں ڈبل بیڈ والا ایک روم لیا گیا تھا جس پر اس بے چاری خاتون صحافی کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔

بھاشن باز صحافی اس قدر اصول پسند اور ”نظریاتی“ ہیں کہ روزنامہ ایکسپریس کے مالک سلطان علی لاکھانی چند برس قبل دائیں بازو کے ایک ”مقبول“ دانشور کالم نگار کی خدمات خریدنے کی غرض سے خصوصی طور پر لاہور آئے اور کہا میرے اخبار میں اتفاق سے سب لیفٹ کے کالم نگار جمع ہو گئے ہیں اس لئے مجھے دو چار رائٹسٹ کالم نگاروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ اخبار کا ایڈیٹوریل پیج ”متوازن“ نظر آئے۔ سیٹھ نے ”مقبول“ کالم نگار سے بھاشن باز سے بھی بات کرنے کو کہا تو موصوف نے نخرے کرتے ہوئے یہ کہہ کے انکار کر دیا ”میں آغا خانیوں کے اخبار میں کالم نہیں لکھ سکتا“ مگر چند روز بعد جب دوبارہ پوچھا گیا تو شرط رکھی کہ ”حسن نثار سے ایک ہزار روپے زیادہ لوں گا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments