اب لڑکوں کو بھی نقاب کروا دیں؟


تب تو یہ کہہ کر جان چھڑوا لیتے ہیں کہ جواں سال لڑکیوں اور خواتین سے جنسی زیادتی اس لیے ہوتی ہے کہ ان کا لباس ٹھیک نہیں، حجاب یا عبایہ نہیں پہنا ہوا، اسلامی احکامات کی پاسداری نہیں کر رہیں۔ لیکن کوئی یہ تو بتلا دے کہ کم سن لڑکوں کے ساتھ درندگی کا کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے؟ شلوار قمیض میں ملبوس یہ پانچ دس برس کے ہنستے مسکراتے بچے کون سی آیات کی تکذیب کرتے ہیں؟ کس مغربی کلچر کے نام لیوا ہوتے ہیں؟ کون سی غلط روایات کے علمبردار ہونے کا عذاب جنسی درندگی کی صورت میں جھیلتے ہیں؟ خدا کے دین کا علم بانٹنے کی جگہ ہو یا ٹیوشن اکیڈمی، میرا نابالغ بچہ اب کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ بھیڑئیے اس کی طاق میں ہیں، جہاں موقع ملا ماں باپ کے راج دلارے کا بچپن مسل کے رکھ دیں گے۔

خبر ہے کہ ضلع خیرپور، سندھ میں ٹیوشن اکیڈمی کے استاد سارنگ شر نے نہ صرف اپنے کم سن شاگرد سے شیطانی کھیل کھیلا بلکہ درندگی کے اس عمل کو فلمایا بھی۔ اب یہی عکس بند مناظر اکیڈمی کے بند دروازے پھلانگ کر سوشل میڈیا کی ہوا کے دوش پر سوار دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔ خبر سننے، پڑھنے والا ہر ذی شعور رنج و الم کی کیفیت میں ہے۔ بدقسمتی سے میری نظر سے بھی وہ تصویر گزر گئی۔ تب سے شدید کرب میں ہوں۔ بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی، بہت دکھ دینے والی خبر ہے۔ ظلم کرنے والا استاد تھا، یہ اس سے بھی لرزا دینے والی بات ہے لیکن میرا کرب اس تصویر میں بچے کی لاچاری نے سوا کیا۔ وہ معصوم مزاحمت کی بجائے سر جھکا کر، بے بسی سے، ظالم کا ظلم ختم ہونے کے انتظار میں ہے۔

میرا سوال ہے، چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے والدین کے سامنے ضد کرنے والے، شور مچانے والے ہمارے کمسن بچوں کی آخر کون سی ایسی مجبوری ہے جو انہیں ظالم درندوں کی وحشت کے خلاف مزاحمت کرنے اور آواز اٹھانے سے روکتی ہے؟

خیر پور کا سارنگ شر ہو، مانسہرہ کا قاری شمس ہو، قصور میں سینکڑوں بچوں کا بچپن مسلنے والے درندے ہوں یا اس قبیل کے دیگر سینکڑوں ہزاروں لوگ، ہمارے متاثرہ بچوں کے یہ سب تو مجرم ہیں ہی، قصور وار ہم بھی ہیں۔

ہم نے اپنے بچوں کو جنسی ہراسگی سے بچنے کے لیے تعلیم نہیں دی، ہم نے اپنے بچوں سے فاصلہ پیدا کیا کہ وہ ہم پر اعتماد نہیں کرتے، معاشرے کی غلیظ نظروں اور طعن و تشنیع نے زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا وجود گالی بنا دیا۔ اس لیے ظلم کا شکار ہوتا ہوا بچہ چپ چاپ ستم سہہ جاتا ہے لیکن آواز اٹھا کر گالی نہیں بننا چاہتا۔

ہم کب یہ سمجھیں گے کہ ہماری اور ہمارے خاندان کی عزت ہمارے بچوں کی شرمگاہوں میں نہیں چھپی ہوئی؟ اگر کوئی درندہ صفت ان کے ساتھ ظلم کرتا ہے تو اس میں قصوروار ہمارے متاثرہ بچے نہیں ہیں۔ ہمارا خاموش رہنا اور حصول انصاف کی کوشش نہ کرنا درحقیقت ظالم کی مدد کرنا ہے۔ آج اگر ہمارے بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو بدنامی کے ڈر سے چپ سادھ کر ہم نے کل کسی اور کے بچے کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی بنیاد رکھ دی ہے۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ قصور، مانسہرہ یا خیرپور جیسا واقعہ سامنے آنے پر ملزمان کی سرعام پھانسی کی سزا کا مطالبہ بھی جرم کم کرنے میں معاون نہیں ہو سکتا۔ کسی ایک ظالم کو عبرتناک سزا دینے کی بجائے ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے چائلڈ ایبیوز کا ہر مجرم لازمی سزا پائے۔ ملزم کا دینی مدرسے کا مہتمم ہونا، اسکول کا ہیڈ ٹیچر ہونا، کسی نمایاں سیاسی یا سماجی شخصیت کا حامل ہونا، یا کسی بھی حوالے سے با اثر ہونا فائدہ نہ پہنچا سکے۔ اگر ظالم درندے اور مظلوم بچے دونوں کو یقین ہو کہ مجرم کبھی قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکے گا تو ظالم چونکہ بزدل ہوتا ہے، سو ظلم کرنے سے قبل ہزار بار سوچے گا اور مظلوم کبھی چپ نہیں رہے گا۔ ہمارے کمزور قانونی و عدالتی نظام نے ظالم کو شہ دی ہے اور مظلوم کے منہ پر تالے لگا دیے ہیں۔

ہمیں چھوٹے بچوں کو جنسی ہراسگی اور زیادتی سے محفوظ رہنے کے لیے گھر اور اسکولوں میں تعلیم بھی دینی پڑے گی۔ بچے کو اچھے اور برے لمس (Good Touch، Bad Touch) کا اوائل عمری سے بتانا پڑے گا۔ ہمیں بچوں کو اتنا اعتماد بھی دینا ہو گا کہ کسی بھی پریشان کن صورتحال میں وہ سب سے پہلے گھر میں والدین یا بڑے بہن بھائیوں کو بتائیں۔ اور بچوں کی یہ ذہن سازی بھی بہت ضروری ہے کہ اگر ان کے ساتھ کوئی جنسی زیادتی کرتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں بچے یا والدین کی بے عزتی نہیں ہے۔ بچہ بے قصور ہے اور اسے لوگوں کی قبیح نظروں اور باتوں سے بچانا والدین سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

ہمیں اس جھوٹے نظریاتی خول سے بھی نکلنا ہو گا کہ کم سن بچوں یا خواتین سے زیادتی ان کے لباس یا مذہبی روایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مجرم زیادتی کرنے والا ہے اور ہر لحاظ سے ذمہ دار بھی وہی ہے۔ فضول تاویلات صرف ظالم کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔

خدارا جاگیں، اگر یہ معاشرہ بچوں کے لیے محفوظ نہیں تو یہ جہنم سے بدتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments