بدلنا بہار کا دائمی خزاں میں


ہمارے ہوسٹل کی پچھلی دیوار کی طرف کچھ فاصلے پر چھاونی تھی۔ نارمل حالات میں وہاں ہمارا جانا ہوتا تھا۔ 25 پنجاب رجمنٹ کے ساتھ خصوصی مراسم تھے۔ وہ اکثر اپنی تقریبات میں ہمیں مدعو کرتے تھے۔ وہ بھی ہمارے ہوسٹل میں ہمیں ملنے آ جاتے تھے۔ موجودہ حالات میں ہمارا ملنا نہیں ہوتا تھا مگر وہ ہماری خبر رکھتے تھے۔ ہمارا وہاں رہنا جب مشکل ہوا انہوں نے ہمارے ڈھاکہ لے جانے کا پروگرام بنایا۔ ڈھاکہ پہنچنا ان حالات میں آسان نہیں تھا کیونکہ ان دنوں جو ریل گاڑیاں ڈھاکہ پہنچتی تھیں ان میں سے غیر بنگالیوں کو سٹیشن سے باہر نہیں جانے دیتے تھے اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ریل گاڑی سراج گنج گھاٹ پہنچاتی تھی اور وہاں سے فیری میں سوار ہونا دو گھنٹے کے قریب فیری کا سفر جگر ناتھ گھاٹ پر فیری کو چھوڑنا اور دوبارہ گاڑی میں سوار ہونا خاصہ مشکل عمل تھا۔ اس کے لئے تفصیل سے منصوبہ بندی کی گئی۔ چیدہ چیدہ پوائنٹ مندرجہ ذیل تھے

* راجشاہی ہوسٹل سے ہم دو گروپ بنائیں گے۔ پہلے ایک گروپ روانہ ہو گا تا کہ پہلے گروپ کے ساتھ اگر خدانخواستہ انہہونی ہو تو دوسرا گروپ محفوظ رہے۔

* پہلا گروپ خیریت سے ڈھاکہ پہنچ جانے کے بعد دوسرے گروپ کو روانہ کیا جائے گا۔
* ہر کسی کے بیگ کا وزن اتنا ہو جتنا وہ اٹھا کر بھاگ سکے۔

* ایسی گاڑی کا انتخاب کیا جائے گا کہ گھاٹ پر اترنے فیری کا سفر جگر ناتھ گھاٹ پر فیری کو چھوڑنا اور دوبارہ گاڑی میں سوار ہونا یہ ساری کارروائی رات کے وقت میں ہو۔

* ہر شخص بازو پر سیاہ ربن باندھے گا کیونکہ بنگالی احتجاج کے طور پر یہ کر رہے تھے۔

* ڈھاکہ چھاونی سٹیشن پہلے آتا ہے اور شہر بعد میں۔ چھاونی سٹیشن پر گاڑی نہ بھی رکی تو آھستہ ہونے پر چھلانگ لگا دی جائے گی۔

* چھاونی سٹیشن کے پیچھے جھاڑیوں میں تھوڑا سا چلیں گے تو آگے سڑک پر فوجی جیپس ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی۔

* راجشاہی ہوسٹل کی پچھلی دیوار کے بعد سڑک پر رکشے ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے جو ہمیں ریلوے سٹیشن لے جائیں گے اور پیچھے کچھ فاصلے پر جیپس ہمیں حفاظت دیں گی۔

* ٹکٹ فرسٹ کلاس کے خریدے جائیں گے تاکہ گاڑی اور فیری دونوں میں کیبن ملے۔

* فیری والی ساری کارروائی دو دو کی ٹولیوں میں ہو گی مگر ہر ٹولی ایک مناسب فاصلے سے ایک دوسرے کو نظر میں رکھے گی۔

* ہم ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کریں گے تاوقتیکہ بہت ضروری بات ہو۔

13 مارچ 1971 دوپہر تین بجے والی گاڑی منتخب کی گئی تھی۔ ہوسٹل سے نکلنے کا وقت آ گیا اپنے کمرے میں چاروں طرف حسرت سے نظر دوڑائی اور اس امید پر کمرے سے باہر قدم رکھا کہ شاید پھر سے لوٹنا نصیب ہو۔ دوسرے گروپ والوں نے نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کیا خاص طور پر میرے روم میٹ عصر احمد رضوی نے کہا فکر نہ کرو پرسوں ہم بھی آ جائیں گے۔ کاش ایسا ہی ہوتا۔ وہ ڈھاکہ آنے کی بجائے میمن سنگھ چلا گیا۔ وہاں اس کا کزن آرمی میں پوسٹڈ تھا۔ رضوی کا خیال تھا کہ اس کے کزن کو چھٹی نہیں ملے گی لہذا وہ اس کی فیملی کو سیالکوٹ لے جائے گا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اور اس کا کزن فیملی سمیت مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔

پلاننگ کے مطابق ہم ٹرین میں سوار ہو گئے۔ ٹرین میں بیٹھ کر ہم نے شٹر گرا دیے۔ ہمارے لئے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ جب گاڑی سٹیشن کی حدود میں ہو ہم شٹرگراے رکھیں گے۔ دوستوں کے ساتھ سفر کرنے میں تو مزہ ہی اور ہوتا ہے مگر یہ کیسا سفر ہے؟ سب کے چہرے مرجھائے ہوئے کسی گہری سوچ میں مستغرق اور آنے والے لمحوں کے انجانے خوف کی فضا سب پر چھائی ہوئی تھی۔ میں نے گپ شپ کے آغاز کے طور پر پوچھا ہم سراج گنج گھاٹ کب تک پہنچیں گے کیونکہ اس جانب میرا یہ پہلا سفر تھا۔

جواب ملا کہ شام کے بعد کسی وقت۔ بات چیت کا ایک سلسلہ شروع ہوا مگر زیادہ تر موضوع گفتگو دوران سفر کی منصوبہ بندی ہی تھا۔ دن کی روشنی میں تو نگاہیں سرسبز کھیتوں پر ٹرین کی رفتار سے پھسلتی رہیں جبکہ اندھیرا ہو جانے کے بعد کیبن کے اندر مقید رہیں۔ تقریباً عشا کے بعد کا وقت ہو گا پہلی منزل طے ہوئی اور ہم سراج گنج گھاٹ پہنچ گئے۔ سب چونک گئے۔ پہلے چند منٹ دوسرے مسافروں کو اترنے کا موقعہ دیا پھر ہم دو دو کی ٹولیوں میں اترے اور گھاٹ کی طرف چل دیے حتی کہ فیری تک پہنچے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments