بدلنا بہار کا دائمی خزاں میں


کچھ ہی دیر میں ہم ائرپورٹ پہنچ گئے اور فلائٹ کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ اب فیاض حیدر صاحب نے تفصیل بتائی کہ وہ لوگ آدمجی سائنس کالج میں سوے ہوئے تھے کہ آدھی رات کے وقت کچھ فوجی آئے اور انہیں اٹھا دیا گیا اور کہا گیا کہ کمرہ خالی کر دیں یہاں کچھ مہمان آرہے ہیں اور ہم سامان سمیٹ کر کمرے سے باہر آئے۔ نہ صرف ہم بلکہ تمام کمرے خالی کروائے جا رہے تھے اور سب طلباء کو کمروں سے بیدخل کر دیا گیا اور مہمانوں کو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بند کر دیا گیا اور کمروں کے باہر پہرہ دار بٹھا دیے گئے۔ یہ لوگ شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھی تھے جو گرفتار کر کے لاے گئے تھے اور گولہ باری کی آوازیں آتی رہیں جو رات بھر جاری رہیں۔ دراصل اپریش سرچ لائٹ شروع ہو چکا تھا اور اس وقت کرفیو بھی نافذ تھا۔

ھم سب طلباء نے رات کمروں سے باہر گزاری اور صبح فیصلہ ہوا کہ تمام طلبا کو یکمشت کراچی روانہ کر دیا جائے ہمیں ائرپورٹ پہنچا دیا گیا جہاں دو سی۔ 130 طیارے تیار کھڑے تھے طلباء سوار ہو گئے طیاروں نے ٹیک آف کر لیا اور ہم لوگ کراچی کی طرف محو پرواز تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی اڑان کے بعد ایک جہاز میں کچھ خرابی پیدا ہوئی اور جہاز واپس ڈھاکہ ائرپورٹ پر لینڈ کر گیا اور سب لوگ جہاز سے اترے اور کہا گیا کہ انتظار کریں جہاز ٹھیک ہو گا تو روانہ ہو گا۔

اسی اثنا میں فیاض حیدر کو اچانک یاد آیا کہ آدمجی سائنس کالج سے باہر جو طالبعلم کسی بنگلے میں رہائش پذیر تھے وہ تو آئے ہی نہیں۔ انہوں نے کسی افسر سے بات کی کہ چار طالبعلم چھاونی میں پیچھے رہ گئے ہیں اور انہیں لانے کے لئے درخواست کی افسر نے ایک سٹاف کار دی اور کہا جلدی سے ان کو لے آو۔ اور یوں جہاز کا خراب ہونا ہمارے کراچی جانے کا سبب بنا۔

کچھ دیر کے انتظار کے بعد اعلان ہوا کہ جہاز تیار ہے سب لوگ سوار ہو جائیں۔ ہم سب لوگ سوار ہوئے اور جہاز ٹیک آف کر گیا اور اس انداز میں ہم اپنے وطن کے اس حصے سے الوداع ہوئے جسے ہم دوبارہ اپنا نہ کہہ سکے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ احساس ہے مگر ایک سچی حقیقت۔ ایسا کیوں ہوا اس پر میں لب کشائی کی جرآت نہیں کروں گا کیونکہ بہت اصحاب ذی علم اس پر تبصرہ فرما چکے اور تاریخ دان کتب ہاے تاریخ میں قلمبند کر چکے ہیں۔ میں نے تو صرف اپنی واقعاتی اور جذباتی روداد سفر کو قلمبند کیا ہے۔

ڈھاکہ سے کراچی ویسے تو پی آئی اے کے جہاز سے کوئی سوا گھنٹے کا سفر ہے مگر اس وقت بھارتی حدود میں پرواز کی پابندی کی وجہ سے یہ سفر ساڑھے آٹھ گھنٹے کا تھا۔ راستہ میں کولمبو ائرپورٹ پر ری فیولنگ بھی کروانی ہوتی تھی۔ جبکہ ہمارا سی 130 جہاز پر یہی سفر گیارہ گھنٹے پر محیط تھا۔ کولمبو تک تقریباً آدھے سفر کا اختتام ہوتا تھا۔ جھاز کی سیٹس عارضی ہوتی ہیں جو فولڈ بھی ہوتی ہیں۔ نوار سے بنی ہوئی سیٹیں اتنی سٹیبل نہ تھیں۔ ونڈوز سیٹس سے کوئی پانچ فٹ اوپر تھیں۔ ریفریشمنٹ بھی نہیں کیونکہ یہ مال بردار جھاز تھا۔ لمبا سفر کاٹنے کے لئے میں نے قلم اور کاغذ نکالا اور سیالکوٹ شہر کا نقشہ بنانا شروع کر دیا۔ نقشہ نویسی ہمیشہ سے میرا مشغلہ رہا ہے۔ کولمبو پہنچنے تک نقشہ تیار تھا اور وقت کا بھی پتہ نہ چلا۔

کولمبو ائرپورٹ ٹرانزٹ کے دوران ڈھاکہ سے پی آئی اے کی وہ پرواز بھی ری فیولنگ کے لئے لینڈ کی جس میں ذوالفقار علی بھٹو مذاکرات کی ناکامی کے بعد واپس کراچی جا رہے تھے۔ لاؤنج میں ہم نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی اور ان سے ویسٹ پاکستان میں میڈیکل کالج میں داخلہ کی بات بھی کی۔ بھٹو صاحب نے کہا آپ فکر نہ کریں اور ساتھ ہی اپنے ساتھی سے کہا قصوری ان بچوں کی بات سنو اور ہمیں قصوری صاحب کے حوالے کیا۔ قصوری صاحب نے بھی ہمیں یقین دہانی کرائی کہ داخلہ ہو جائے گا۔

میں واضح کر دوں یہ قصوری صاحب وہ نہ تھے جن کے والد صاحب کا قتل بھٹو صاحب کے لئے باعث اختتام زندگی بنا۔ یہ محمود علی قصوری تھے جو بھٹو صاحب کے فارن منسٹر بھی رہے۔ دوسرے والے احمد رضا قصوری تھے جہنوں نے جلد ہی پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد سفر کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ پرواز کا یہ دورانیہ میں نے راولپنڈی شہر کا نقشہ بنانے میں گزارا اور ہم رات گیارہ بجے کے قریب کراچی میں کورنگی کریک ائرپورٹ پر لینڈ کر گئے۔

ہم نے ٹیکسی لی اور ڈرائیور سے کہا کسی مناسب سے ہوٹل میں لے چلو۔ وہ کینٹ کے ایک ہوٹل میں اتار گیا۔ ہم چار لوگ تھے۔ شدت کی بھوک لگی تھی گزشتہ شام سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ہم نے آٹھ لوگوں کے لئے کھانا آرڈر کیا۔ کھانے کا جتنا انتظار تھا اتنی ہی دیر ہو رہی تھی۔ دوبارہ پوچھا تو لڑکے نے کہا کھانا تیار ہے باقی چار لوگوں کا انتظار ہے۔

میرے ایک رومیٹ منصور شریف جو انتشار کے دور سے قبل مائگریش کروا کے کراچی آ گئے تھے۔ وہ فائنل ائر کے طالبعلم تھے میرا بہت خیال رکھا کرتے تھے میں انہیں بھائی جان کہتا ہوں انہوں نے ہی مجھے زندگی کی اونچ نیچ سکھائی۔ میں کراچی میں ان سے ملاقات کے بعد راولپنڈی جانا چاہتا تھا۔ ان کا ایڈریس میرے پاس موجود تھا۔ مجھے ان کا گھر تلاش کرنے میں ناکامی ہوئی۔ شام ہونے لگی سوچا کل پھر تلاش کروں گا۔ کراچی جانے کا میرا پہلا اتفاق تھا اس لیے شہر کی واقفیت نہ تھی۔ اگلا روز اتوار کا تھا اس لیے کالج بھی بند تھا۔ میں نے گھر تلاش کرنے کو ہی ترجیح دی۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن کے قریب ایک شخص سے عید گاہ کا راستہ معلوم کیا اور پوچھا کتنی دور ہے؟ اسنے غالباً میرا لہجہ پہچان کر جواب دیا جتنا سیالکوٹ سے ڈسکہ۔

پیر کے روز ڈاؤ میڈیکل کالج جا کر منصور بھائی کو تلاش کیا۔ انہوں نے تین چار روز میں کراچی خوب گھمایا اور اس کے بعد ہم تیزگام پر راولپنڈی کے لئے سوار ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments