بدلنا بہار کا دائمی خزاں میں


فیری میں داخل ہوئے کیبنز تک گئے۔ تمام کیبنز مسافروں سے بھرے ہوئے تھے۔ اور وہاں ایسے لوگ برا جمان تھے جو حقیقتاً فرسٹ کلاس کے مسافر نہ تھے۔ ہم نے کسی سے بات نہ کی اور اس ایریا سے نکل گئے۔ فیری اتنی بڑی ہو گی مجھے اندازہ نہیں تھا۔ یہی طے پایا کہ ادھر ہی یہیں کہیں وقت گزار لیا جائے۔ میرا ساتھی تو ظفر عالم تھا مگر تھوڑے تھوڑے وقفے سے روشن علی گھلو میرے پاس آتا تھا اور مجھے کہتا آ یار ذرا گھوم کے آتے ہیں۔

اس طرح ہم فیری کے مختلف حصوں میں گھومتے رہے۔ ایکدفہ کہنے لگا پا خالق یہ سیڑھیاں نیچے جا رہی ہیں چلو اترتے ہیں۔ میں نے کہا تنگ سی سیڑھی ہے انجن کی طرف جاتی ہو گی۔ بضد ہوا تو ہم بہت نیچے تہ خانے میں انجن تک پہنچ گئے۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وہاں ایک شخص کو کہا ہمیں انجن دیکھنا ہے۔ اس نے ہمیں انجن کے بارے میں جانکاری دی اور کہا اس سے مزید نیچے نہیں لے جا سکتا۔ اب آپ جائیں۔

وہاں سے واپس ظفر عالم کے پاس پہنچا۔ ہم دونوں نے عرشہ پر پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا اور فیری کی نوک کا پانی میں راستہ بنانے سے پیدا ہونے والی میوزک کی آواز بہت مسحور کن تھی۔ اسی دلکشی میں کھوے ہوئے تھے کہ فیری کا زور دار ہارن بجا اور ہم پار جا لگے تھے۔ وقت آدھی رات سے کچھ اوپر تھا۔

ھمارا مستعدی دکھانے کا وقت آ گیا ہم نے جلد از جلد ریل گاڑی کے کیبن میں سوار ہونا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں کیبن خالی ملے۔ ہمارے لئے دو کیبن تھے مگر ہم سب نے ایک ہی میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔

اس کارروائی کے دوران راجشاہی یونیورسٹی کے تین ویسٹ پاکستانی طالبعلم ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان میں سے دو پہلے سے ہمارے دوست تھے خالد اور طاہر دونوں مکینیکل انجینیئرنگ پہلے سال میں پڑھتے تھے۔ دونوں کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ تیسرے کا نام اللہ بچاؤ اونڑ تھا اور تعلق سندھ سے۔ اب دل دھڑک رہے تھے کہ اگلی منزل ڈھاکہ ہو گی۔ ڈھاکہ ریلوے سٹیشن پر قتل و غارت کے قصے زبان زد عام تھے۔ انجانا خوف مگر تسلی یہ تھی کہ چھاونی سٹیشن پہلے آتا ہے۔ سب نے طے پایا کہ ہم جاگتے رہیں گے اونڑ کہنے لگا شاید زندگی کی آخری شب ہے اچھا وقت گزارتے ہیں۔ اور اس نے ایک لطیفہ سنایا اور پھر لطیفے بازی چلتی رہی۔

سورج نکلا ہی تھا اور ساتھ ہی ڈھاکہ چھاونی سٹیشن کے آثار نظر آئے۔ حسب ہدایت گاڑی آھستہ ہوئی اور ہم نے پلیٹ فارم پر چھلانگیں لگا دیں۔ اتفاق سے جھاڑیوں والا نکلنے کا راستہ قریب ہی تھا۔ کچھ ہی دور چلے تو آگے جیپز کھڑی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments