بدلنا بہار کا دائمی خزاں میں


راجشاہی میڈیکل کالج کے ہوسٹل کی بود و باش میں تقریباً سوا سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ اس دوران وہاں مقامی رہنے والوں سے دوستی اور تعلقات قائم ہو چکے تھے اور جہاں تک ویسٹ پاکستانی طالبعلموں کی بات ہے ہم ایک فیملی کی مانند تھے۔ آپس کی ہمدردی اور سینیئرز کی شفقت قابل رشک تھی۔ شروع شروع میں ایک روز چھٹی کے دن صبح صبح میں سیر کے لیے نکلا۔ اور واپس ہوسٹل پہنچنے تک ایک بج چکا تھا۔ ہوسٹل میں سب پریشان مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ سینیئرز سے وہ ڈانٹ پڑی کہ آج تک یاد ہے۔ جب سب کا موڈ بہتر ہوا تو پوچھا کہاں گئے تھے؟ بتایا کہ موسم خوشگوار تھا اور راستہ خوبصورت ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلتا گیا حتی کہ تین سٹیشن گزر گئے بھوک کا احساس ہوا تو واپس چل پڑا۔ سب ہنسنے لگے اور کہا آئندہ تم ریلوے لائن کی طرف کبھی نہیں جاؤ گے۔

جنوری 71 سے ہمارے حالات دگرگوں ہوتے جا رہے تھے۔ مختلف محکموں کی ہڑتالیں شروع ہو چکی تھیں۔ محکمہ ڈاک کی ہڑتال سے ہم بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ جہاں تین ماہ سے ہم گھر والوں سے رابطہ میں نہیں تھے وہاں اسی عرصہ سے منی آرڈر بھی نہیں آ رہے تھے۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ ویسٹ پاکستانیوں کے بنک اکاونٹ بھی منجمد کر دیے گئے چاہے وہ تجارت پیشہ تھے یا طالب علم۔ آخری ایام میں ڈپٹی کمشنر صاحب نے ہماری اس طرح مدد کی کہ ہمیں پچاس روپے فی کس بطور قرض دلوائے اور تحریر لے لی گئی۔

یکم مارچ 1971 ایک بجے کے قریب حجام کی دکان میں تھا۔ حجام کی قینچی چل رہی تھی کہ ریڈیو پر خبروں کا پیشگی میوزک بجا اور پہلی خبر یہی تھی کہ اسمبلی سیشن جو دو روز بعد ہونا طے پا چکا تھا موخر کر دیا گیا تھا۔ یہ خبر کیا تھی آسمانی بجلی کی کوند تھی جسے قومی اسمبلی میں 53.3 % برتری اور صوبائی اسمبلی میں 96 % برتری والی پارٹی اور اس کے ہر ووٹر نے محسوس کیا اور اس کا رد عمل دکھایا۔ میں فارغ ہوا سائکل رکشہ (وہاں کی واحد سواری ) پکڑا اور ہوسٹل آ گیا۔

پندرہ منٹ لگے جبکہ اس اثنا میں جلوس نکل چکا تھا۔ اس خبر کے بعد جو صورت حال راجشاہی میں پہلے سے تھی وہ پورے ایسٹرن ونگ میں آگ کی طرح پھیل گئی اس کے شعلے بلند ہوتے گئے اور اس کی تمازت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ اور اب یہ باقاعدہ قتل و غارت میں تبدیل ہو چکی تھی جس کی بھینٹ ویسٹ پاکستانی ان کی فیمیلیز اور ان کے مال و اسباب اور کاروبار چڑھائے گئے۔

اسی دوران میرا ایک دوست انور جو بنگالی تھا مگر مولانا بھاشانی گروپ میں تھا مجھے اپنے گھر لے گیا۔ ایسٹ پاکستان سٹوڈنٹ لیگ اور ایسٹ پاکستان سٹوڈنٹ یونین بڑے سٹوڈنٹ گروپ تھے جو بالترتیب مجیب اور بھاشانی کی پارٹیوں کے ذیلی گروپ تھے۔ اسلامی چھاترو شنگو جماعت اسلامی کا ذیلی گروپ تیسرے نمبر پر تھا جو تعداد میں کم تھے ان سے ہمیں خطرہ قطعاً نہیں تھا مگر وہ ہماری کھلی حمایت نہیں کر سکتے تھے۔ میں بتا رہا تھا کہ انور مجھے اپنے گھر لے گیا۔ ناشتہ کرایا اور پھر دوپہر کا کھانا۔ انور کے والد امجد صاحب ایک شریف اور نہایت ہی نفیس انسان تھے۔ وہ راجشاہی چیمبر آف کامرس کے پریزیڈنٹ تھے۔ ایک دفعہ آل پاکستان چیمبر آف کامرس کی میٹنگ میں وہ اسلام آباد آئے تھے۔ انہی دنوں میں تعطیلات گزارنے راولپنڈی آیا ہوا تھا۔ ہم نے انہیں اپنے گھر مدعو کیا اور اگلے روز میں ان کو دو دن کے لئے مری لے گیا تھا۔ گرمیاں تھیں مری کا موسم انہیں بہت بھایا کہنے لگے مجھے دارجلنگ یاد آ گیا۔

انور کے گھر دوپہر کو گپ شپ رہی۔ امجد صاحب نے مجھے پیشکش کی کہ اس دوران میں جب تک چاہوں ان کے گھر پناہ لے سکتا ہوں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور واضح طور پر کہا کہ مجھے علم ہے کہ یہ آپ کے لئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے اور مزید یہ کہ میرا جینا اور مرنا میرے ساتھیوں کے ساتھ ہے اور یہی حرف آخر ہے اس لیے آپ مجھے میرے ہوسٹل تک پہنچا دیں۔ وہ کافی افسردہ ہوئے اور کہا ابھی محفوظ نہیں رات کو پہنچا دیں گے۔ رات کے کھانے کے بعد انور اور اس کے گھر والوں نے مجھے انتہائی شفقت کے ساتھ دکھ بھری فضا میں اشکبار آنکھوں سے رخصت کیا انور کی امی خاص طور پر بہت پریشان ہوئیں۔ اللہ ان بزرگوں کو جوار رحمت میں جگہ عطا کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

امجد صاحب مجھے اپنی گاڑی میں ہوسٹل چھوڑ گئے تھے مگر اس روز میں پہلی مرتبہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ دیر تک سو نہ سکا۔ ذہنی بالیدگی اس عمر میں پختگی تک نہیں پہنچی تھی اس لئے بدلتے حالات کی تاب لانے کی کما حقہ سکت نہ تھی۔ کیا لمحوں میں دوستیاں ختم ہو سکتی ہیں اپنے غیر بن سکتے ہیں چاہنے کے باوجود ملنے سے گریز کر سکتے ہیں بغیر ذاتی وجوہ کے جانی دشمن پیدا ہو سکتے ہیں جنت نظیر ماحول جہنم میں تبدیل ہو سکتا ہے؟ ؟

ہوسٹل میں ہمارا عرصہ حیات تنگ ہو چکا تھا۔ بنگالی طالبعلموں نے ہمارے میس سٹاف کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیا تھا۔ باورچی چوری چھپے کھانا بنا جاتا تھا۔ میں اگر کہوں کہ وہ ہمارے ایام اسیری تھے تو غلط نہ ہو گا۔ دن تو جیسے تیسے کٹ جاتا مگر رات کو خوف و ہراس کی فضا چھا جاتی تھی۔ ہوسٹل میں ہم اوپر کی منزل میں سامنے والی ونگ میں مقیم تھے۔ رات کے وقت حملہ سے بچاؤ کے لئے باری باری پہرہ دیتے تھے اور چاقو خنجر ڈنڈوں سے لیس ہوتے تھے۔ جو ساتھی سو رہے ہوتے ان کے ہتھیار بھی ان کے تکیہ کے نیچے ہوتے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments