کراچی آپریشن: 1990 کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے ’آپریشن بلیو فوکس‘ کی دل دہلا دینے والی داستان


’فاروق دادا اور راؤ انوار‘

سینیئر صحافی افضل ندیم ڈوگر جنگ اور جیو نیوز سے منسلک ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ریاست کو ایک منظم دہشت گردی کا سامنا تھا، لیکن اگر صورتحال کو سیاسی و قانونی انداز سے ’ڈیل‘ کیا جاتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔

’اگر یہ سیاسی دہشت گردی تھی تو نواز شریف یا بینظیر بھٹو کی حکومتیں 10، 10 برس تک اسی جماعت کے ساتھ اتحاد بنا کر اقتدار میں کیوں رہیں؟ یہ بھی درست ہے کہ ایسے واقعات ہو رہے تھے کہ ایک بس اغوا کر کے ’نو گو ایریا‘ لے جائی گئی اور اس میں موجود تمام ایسے مسافروں کو قتل کر دیا گیا جو اردو بولنے والے نہیں تھے۔‘

’مگر دوسری جانب فاروق دادا جیسے لوگوں کی انتہائی مشکوک اور متنازع پولیس مقابلے میں ہلاکت جیسے واقعات نے تو الٹا اثر کیا اور ایم کیو ایم تو مظلوم نظر آئی اور ہمدردی سمیٹتی رہی۔‘

ایم کیو ایم سے منسلک اور کئی جرائم میں پولیس کو مطلوب فاروق پٹنی (جو فاروق دادا کے نام سے مشہور تھے) ایک متنازع پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے تھے۔

افضل ندیم ڈوگر نے بتایا کہ ’جس ایس ایس پی راؤ انوار پر چار سو سے زیادہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزامات آپ آج سنتے ہیں، وہ اس وقت ایس ایچ او تھے اور یہ مقابلہ انھوں نے کیا تھا۔‘

ایف آئی آر میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ فاروق دادا نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ایک شیراڈ گاڑی میں ایئر پورٹ کے قریب پولیس پر حملہ کیا اور جوابی کارروائی میں وہ مارے گئے اور ان ملزمان سے 11 یا 12 کلاشنکوف، پانچ ہزار گولیاں، دستی بم اور گولہ بارود بھی برآمد ہوئے۔

افضل ڈوگر کے مطابق ’یہ دعویٰ ہی انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ مٹسوبشی شیراڈ جیسی چھوٹی سی گاڑی میں یا تو پانچ افراد سما سکتے ہیں یا پھر اتنا سارا اسلحہ و گولہ بارود۔ اگر یہ سب کچھ ایک شیراڈ گاڑی میں ٹھونس بھی دیا جائے تو پھر گاڑی میں بیٹھے افراد مقابلہ ہرگز نہیں کر سکتے۔‘

’آپ پوچھیں گے کہ دراصل پھر ہوا کیا تھا؟ تو ہوا یہ تھا کہ پولیس کو اطلاع ملی کی فاروق دادا گارڈن کے علاقے میں واقع اپنے فلیٹ پر موجود ہیں۔ پولیس نے چھاپہ مارا مگر وہاں نہ فاروق دادا ملے نہ ہی کوئی اسلحہ وغیرہ۔ جب پولیس ناکام واپس جا رہی تھی تو کسی علاقے والے نے یہ انکشاف کیا کہ دراصل اوپر نیچے واقع دو فلیٹ اندر سے آپس میں ملے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ فاروق اپنے فلیٹ سے منسلک اوپر والے فلیٹ میں ہوں۔ دوبارہ چھاپے میں پولیس نے فاروق دادا کو گرفتار کیا اور ساتھ لے گئی۔‘

راؤ انوار

’ایم کیو ایم سے منسلک اور کئی جرائم میں پولیس کو مطلوب فاروق پٹنی (فاروق دادا) اس متنازع پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے جو بطور ایس ایچ او راؤ انوار نے کیا‘

’کئی دن بعد ہمیں اطلاع ملی کہ فاروق دادا نے ایئر پورٹ کے قریب ساتھیوں کے ہمراہ پولیس پر حملہ کیا اور جوابی حملے میں ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے۔‘

مگر آپریشن کی نگرانی کرنے والے کراچی پولیس کے سابق سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل کہتے ہیں کہ ’فاروق دادا کیس میرے دور کا پہلا واقعہ تھا اور میں اس وقت نیو یارک میں تھا جب مجھے اس کی اطلاع فون پر دی گئی تو اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کروائی گئی تھیں۔‘

’پولیس مقابلے اور جلاؤ گھیراؤ جن کی اطلاع پہلے مل جاتی‘

افضل ڈوگر بتاتے ہیں کہ ’میں ان دنوں عوام (جنگ گروپ کا شام کا اخبار جو سنسنی خیز صحافت کے لیے مشہور رہا) کا کرائم رپورٹر تھا۔ اب دوسری طرف کا احوال بھی سن لیں۔‘

’اکثر کسی سیاسی عہدیدار یا سیکٹر انچارج وغیرہ کا فون آتا تھا کہ کیا اخبار چھپنے چلا گیا؟ اگر نہیں تو کسی کو شہر کے فلاں علاقے کی طرف بھیج دیں۔ ہم سمجھ جاتے تھے کہ اب کچھ بڑا ہونے والا ہے یعنی جلاؤ گھیراؤ وغیرہ۔‘

’ہم فوٹو گرافرز یا رپورٹرز یا عملے کے ارکان کو اُدھر بھیج دیتے تھے اور کچھ دیر بعد اطلاع آتی تھی کہ وہاں کسی ماورائے عدالت ہلاکت یا متنازع سمجھے جانے والے پولیس مقابلے کے خلاف احتجاج کے دوران فائرنگ ہو رہی ہے، گاڑیاں جلائی جا رہی ہیں، بازار بند کروائے جا رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جلاؤ گھیراؤ میں اگر گاڑی مکمل طور پر جل چکی ہو تو شعلے بجھ جاتے ہیں اور تصویر دیکھنے سے واقعہ زیادہ سنسنی خیز یا اصلی نہیں لگتا تھا۔ مگر جلتی ہوئی گاڑی سے اٹھتے ہوئے شعلوں کی تصویر سے واقعہ تازہ، اصلی اور زیادہ سنسنی خیز لگتا تھا، اسی لیے اخباروں کے صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹس کو گاڑی جلائے جانے سے پہلے بلا لیا جاتا۔‘

’سنسنی خیز تصویروں سے واقعہ تازہ اور درست خبر لگتی تھی اور سیاسی عہدیدار کی ’کارکردگی‘ رپورٹ ہو جاتی تھی۔‘

افضل ندیم ڈوگر نے بتایا کہ ’منظم دہشت گردی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘

’ایک روز پولیس نے اطلاع دی کہ نارتھ کراچی کے فلاں سکول کے قریب ابھی ابھی پولیس مقابلہ شروع ہو گیا ہے کسی کو بھیجیں۔ میں نے اپنے ایڈیٹر کو بتایا کہ اخبار کو اشاعت کے لیے پریس بھیجنے سے روکیں کسی ’بڑے پولیس مقابلے‘ کی ابتدائی اطلاع آئی ہے۔‘

’ایڈیٹر نے پوچھا کس علاقے میں؟ میں نے بتایا کہ نارتھ کراچی کے اس فلاں سکول کی عمارت کے قریب۔ تو ایڈیٹر نے کہا ایک منٹ رکو میرے رشتہ دار اسی علاقے میں اُسی اسکول کے بالکل سامنے رہتے ہیں۔‘

’انھوں نے خبر کی تصدیق کی غرض سے اپنے رشتہ داروں کے گھر فون کیا تو پتا چلا کہ وہاں تو مکمل سکون ہے کسی پولیس مقابلے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آ رہے۔ ایڈیٹر نے مجھے ڈانٹا کہ کوئی جھوٹی اطلاع دے کر اخبار کی اشاعت میں دیر کروا رہا ہے، کچھ نہیں ہے میں کاپی (اخبار چھپنے) بھیج رہا ہوں۔‘

’کچھ دیر بعد کاپی پریس جانے ہی والی تھی کہ ایڈیٹر کے رشتہ داروں کے گھر سے فون آیا کہ اب کچھ پولیس کی گاڑیوں کے سائرن اور فائرنگ کی آوازیں باہر سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ یعنی وہ مقابلہ جس کی اطلاع پولیس نے ہمیں کافی دیر پہلے دی تھی وہ اس وقت یعنی کافی دیر بعد شروع ہوا۔‘

’یعنی پولیس نے پہلے سے طے کر لیا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد سکول کے قریب پولیس مقابلہ ہو جائے گا۔ پریس یعنی میڈیا کو بتانے کی جلد بازی میں کسی سے ٹائمنگ کی غلطی ہو گئی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ایک روز نادرن بائی پاس کے قریب پولیس چوکی پر تعینات تین پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے اُنھیں قتل کر دیا گیا، اگر یہی خبر اخبارات میں چھپتی تو پولیس کے لیے شرمندگی کی وجہ بنتی، خوف بھی پھیلتا اور مورال بھی ڈاؤن ہوتا۔

کراچی آپریشن

‘اکثر کسی سیاسی عہدیدار یا سیکٹر انچارج وغیرہ کا فون آتا تھا کہ کیا اخبار چھپنے چلا گیا؟ اگر نہیں تو کسی کو شہر کے فلاں علاقے کی طرف بھیج دیں۔ ہم سمجھ جاتے تھے کہ اب کچھ بڑا ہونے والا ہے یعنی جلاؤ گھیراؤ وغیرہ۔’

’تو شرمندگی سے بچنے کے لیے پولیس نے رپورٹرز کو اطلاع بھجوائی کہ مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ جب ہم موقع پر پہنچے تو ہم سے بہت پہلے وہاں پہنچ جانے والے اہل علاقہ نے بتایا کہ وہ بھی فائرنگ کی آواز سن کر آئے تو پتا چلا کہ تین پولیس اہلکار دہشتگردوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔‘

’پولیس کارروائی یا عدالت کی سماعت کا حصہ بننے سے بچنے کے لیے اہل علاقہ پولیس کے آنے سے پہلے ہی وہاں سے چلے گئے۔ جب دوبارہ فائرنگ کی آوازیں آئیں اور اہل علاقہ دوبارہ وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ چار دہشتگرد بھی مارے گئے۔‘

افضل ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ ’علاقے والوں نے بعد میں ہم رپورٹرز کو بتایا کہ دوبارہ فائرنگ تب ہوئی تھی جب پولیس نے حوالات میں پہلے سے زیر حراست افراد کو نکالا اور وہاں لے جا کر گولی مار دی اور صحافیوں کے سامنے پولیس نے دعویٰ کر دیا کہ یہ وہ حملہ آور ہیں جنھوں نے چوکی پر حملہ کیا اور مقابلے میں مارے گئے مگر مرتے مرتے انھوں نے تین پولیس اہلکار ہلاک کر دیے۔‘

دوسری جانب شعیب سڈل کہتے ہیں کہ ’قطعاً نہیں۔ میں نے واضح طور بتا دیا تھا کہ ماورائے عدالت قتل نہیں ہوں گے ۔۔ نہیں کا مطلب نہیں۔‘

’بے گناہوں‘ کی رہائی کے عوض وصول کی جانے والی قیمت

لیکن پولیس ہی کے ایک اور افسر نے جو اب پاکستان میں مقیم نہیں ہیں ایک اور کہانی سنائی۔

افضل ندیم ڈوگر جیسے صحافیوں کے دعوؤں کی تصدیق کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب ایف آئی ٹی کے چھاپوں میں پوری پوری آبادی کے نوجوانوں کو گرفتار کر کے انھی کی قمیضوں سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر حوالات میں بند کر دیا جاتا تھا تو چند ہی گھنٹوں میں پتا چل جاتا کہ زیر حراست افراد میں سے کتنے جرائم میں ملوث ہیں اور کتنے بے گناہ۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پھر بھاؤ تاؤ ہوتا تھا۔ بے گناہوں کی رہائی کے عوض ان کے اہلخانہ سے قیمت وصول کی جاتی تھی، کبھی پیسے کی صورت میں اور کبھی اور انداز میں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ’اور انداز‘ سے آپ کی مراد کیا ہے تو جھجھکتے ہوئے بڑی مشکل سے انھوں نے ’اعتراف‘ کیا ‘جو اہلخانہ اپنے جوان بچوں کو چھڑوانے کے لیے تھانے آتے تھے ان میں نوجوان خواتین بھی ہوتی تھیں۔‘

’کبھی چھاپوں کے دوران بھی ان خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے پولیس اہلکاروں کا سامنا ہو جاتا تھا تو بات بہت غلط طرف چلی جاتی تھی۔‘

سابق پولیس افسر نے شرمندگی سے بھرپور لہجے میں کہا ’پھر کیا قیمت لی جا سکتی ہو گی جعفر بھائی، یہ آپ بھی سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ میں شاید اس سے زیادہ تو نہ بتا پاؤں گا اور نہ آپ شائع کر سکیں گے۔‘

ایم کیو ایم

سابق پولیس افسر نے انکشاف کیا کہ ‘کبھی چھاپوں کے دوران بھی ان خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے پولیس اہلکاروں کا سامنا ہو جاتا تھا تو بات بہت غلط طرف چلی جاتی تھی۔’

’پولیس افسران کے لیے کمائی کا ذریعہ‘

پولیس افسر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’بعض اوقات بے گناہ سیاسی کارکنان کو جو محض اپنی جماعت کے لیے پوسٹر لگایا کرتے تھے یا چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث بھی رہے ہوں گے یعنی ہڑتال میں دکانیں یا بازار بند کروائے ہوں یا ٹریفک معطل کروا دیا ہو، انھیں باقاعدہ دہشتگرد گردان کر پیسے کے لیے قتل کیا جاتا تھا۔‘

’ایسے لوگوں کو پہلے گرفتار کر کے خفیہ یا نجی حراستی مراکز میں رکھا جاتا اور پھر شہر میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کا ذمہ دار انھیں قرار دے کر ایف آئی آر میں مفرور ظاہر کیا جاتا تھا۔‘

کئی کئی وارداتوں پر ایف آئی آر ان ’مفروروں‘ کے نام کٹ جانے کی صورت میں وہ نامی گرامی ’مطلوب دہشتگرد‘ بنا دیے جاتے تھے۔

’پھر حکومت اور عدالتی حکام کی جانب سے ان ایف آئی آرز کی بنیاد پر یہ افراد اشتہاری ملزم قرار دیے جاتے تھے اور ان کے سروں کی قیمت مقرر ہو جاتی تھی۔ پھر ان افراد کو ماورائے عدالت ایسے ہی مشکوک مقابلوں میں محض اس لیے مار دیا جاتا تھا کہ سر کی قیمت ان افسران کو مل جاتی تھی جو ایف آئی آر میں اس مقابلے میں شریک دکھائے جاتے تھے۔‘

’یوں کمائی کا ایک راستہ بن گئے تھے یہ مقابلے، ابھی آپ نے حال ہی میں دیکھا ناں کہ لیاری گینگ وار ڈان عزیر بلوچ کے سر کی قیمت مقرر ہونے اور معاف کرنے کی خبریں آ رہی ہیں؟‘

پولیس افسر نے اپنے دعوے کا ثبوت کچھ ایسے پیش کیا ’تو عزیر بلوچ نے بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے سر کی قیمت معاف کروائی تھی تاکہ اس کی لالچ میں کوئی پولیس یا سرکاری افسر اسے بھی قتل ہی نہ کروا دے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں ایسی زیادتی کا حصہ نہیں بن سکتا تھا اسی لیے وہ سب چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔‘

مگر ایسا ہرگز نہیں تھا کہ زیادتی صرف پولیس کی طرف اور صرف سیاسی کارکنان کے خلاف ہوتی رہی۔

سندھ پولیس کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں سنہ 1991 سے سنہ 2014 تک دو ہزار سے زائد اہلکار و افسران کو گھات لگا کر، ہدف بنا کر یا فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک کیا گیا، ان میں سے 451 کے قریب افسران و اہلکار صرف کراچی آپریشن کی نذر ہوئے۔

کراچی آپریشن

ایس ایچ او نیو کراچی بہادر علی کو تین دیگر پولیس اہلکاروں سمیت 28 جون 1994 کو نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں ان کے گھر کے قریب ہی گھات لگا کر قتل کر دیا گیا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp