کراچی آپریشن: 1990 کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے ’آپریشن بلیو فوکس‘ کی دل دہلا دینے والی داستان


ایم کیو ایم کے سیکریٹری مالیات ایس ایم طارق کی ہلاکت

نوجوان ایس ایم تابش اب اکاؤنٹنٹ ہیں لندن کے مل ہل کے علاقے میں مقیم ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کے پہلے اور واحد سیکریٹری مالیات ایس ایم طارق کے صاحبزادے ہیں۔

ایس ایم طارق عظیم احمد طارق کی کابینہ میں پارٹی کے مرکزی سیکریٹری مالیات تھے۔

ایس ایم طارق کو جمعہ 23 جون 1995 کو فیڈرل بی ایریا کے علاقے دستگیر میں ان کے گھر سے انھی کے میڈیکل سٹور جاتے وقت گاڑی پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔

ایس ایم طارق کے صاحبزادے ایس ایم تابش اب خود ایم کیو ایم کی اندرونی چپقلش ہی کو اپنے والد کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔

اپنے مقتول والد کو یاد کرتے ہوئے تابش نے بتایا کہ ان کے والد ایس ایم طارق، اپنے چیئرمین عظیم طارق کے قتل کے بعد سیاست سے کنارہ ہوئے تو یہ خاندان دستگیر 14 نمبر میں رہائش پذیر تھا۔

’اس شام لگ بھگ چار بجے فون آیا کہ کسی ضرورت مند بچے کو فوراً کسی انجیکشن کی ضرورت ہے ، میرے والد نے کہا اچھا میں خود آتا ہوں۔ وہ اپنے میڈیکل سٹور کی جانب جا ہی رہے تھے کہ گھر کی قریب ہی کسی نے گاڑی پر گولی چلائی۔‘

’گولی میرے والد کے ہاتھ پر لگی اور اس کے بعد گاڑی بے قابو ہو کر ایک گھر کی دیوار سے ٹکرا گئی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ قاتلوں نے گاڑی کے قریب پہنچ کر دروازہ کھولا، اُن کا نام پوچھا اور میرے زخمی والد نے ان سے کہا کہ میرے بچّے چھوٹے ہیں، مجھے کیوں مار رہے ہو؟ مگر دہشتگردوں نے نام سنتے ہی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔‘

تابش کہتے ہیں کہ ’کلاشنکوف رائفل کی انیس گولیاں ماری گئیں انھیں، میرے والد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ والد کے قتل کے کئی برس بعد ہمارے خاندان نے برطانیہ پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کی۔‘

’ڈونکاسٹر میں سرکار (کاؤنسل) کے دیے گئے گھر میں رہنا، بغیر کسی سہارے یا مدد کے خود ہی تعلیم حاصل کرنا، پڑھتے ہوئے ہی ریستوران اور سکیورٹی جیسی ملازمتوں سے گزرنا، بہت مشکل تھا۔ مگر کرنا پڑا۔

اپنے والد سے محروم رہتے ہوئے، قدم قدم پر ان کو یاد کرتے ہوئے، اپنے خاندان کی مدد کرنا تھی، تعلیم مکمل کرنا تھی۔ جب بھی کبھی مالی مشکلات یا مسائل درپیش آتے تھے مجھے اپنے والد بے تحاشہ یاد آتے تھے، اور کوئی بڑا تھا نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کراچی کی 30، 35 برس کی پرتشدد سیاست کے سب سے بڑے ذمہ دار خود الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ بنیادی ذمہ داری جس پر عائد کی جا سکتی ہے وہ خود ایم کیو ایم اور اس کی اندرونی چپقلش ہی ہے۔‘

اس سوال پر کہ ایم کیو ایم تو الزام عائد کرتی ہے عظیم احمد طارق یا ایس ایم طارق جیسے لوگوں کو خفیہ اداروں نے مارا، ایس ایم تابش نے کہا ’شروع میں تو ہم بھی اسی کہانی کو درست سمجھتے تھے۔ وہ تو مجھے بھی کہتے ہیں میں ایجنسیز سے مل گیا ہوں۔ میں تو یہاں رہتا ہوں، مجھے تو ایجنسیز کے لوگوں کے نام تک نہیں پتا۔

’یہ ان کا بہت پرانا الزام ہے جو بھی ان سے اختلاف کرتا ہے یہ اس پر ایسے ہی الزام عائد کر دیتے ہیں۔ میں تو خود اپنی ہی پارٹی کا شکار رہا۔‘

رینجرز

مرحوم ایس ایم طارق کے بیٹے تابش: ‘گولی میرے والد کے ہاتھ پر لگی اور اس کے بعد گاڑی بے قابو ہو کر ایک گھر کی دیوار سے ٹکرا گئی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ قاتلوں نے گاڑی کے قریب پہنچ کر دروازہ کھولا، اُن کا نام پوچھا اور میرے زخمی والد نے ان سے کہا کہ میرے بچّے چھوٹے ہیں، مجھے کیوں مار رہے ہو؟ مگر دہشتگردوں نے نام سنتے ہی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔’

اس کہانی میں تمام کرداروں کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا موقف جاننے اور شامل کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔

الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا موقف حاصل کرنے کے لیے کم از ایک ہفتے تک روزانہ پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات مصطفیٰ عزیز آبادی سے دن میں تین، تین بار رابطے کیے گئے، ان کی فرمائش پر تمام الزامات پر مبنی سوالات لکھ کر پیشگی انھیں بھجوا دیے گئے، اور کم از کم تین مرتبہ انھوں نے مؤقف دینے کا وعدہ بھی کیا مگر ہر بار موقف دینے کے لیے وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔

ایم کیو ایم لندن کے دیگر رہنماؤں سے بھی رابطے کی متعدد کوششیں قریباً نو روز تک مسلسل کی گئیں مگر سب رہنماؤں نے اس حوالے سے بات کرنے سے معذرت کر لی۔

لگاتار پانچ روز تک رابطے کی کوشش کے بعد جناب مصطفیٰ عزیز آبادی صاحب نے بالآخر فون اٹھانا بھی بند کر دیا۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ اس کراچی آپریشن نے اپنے نتائج حاصل کیے یا نہیں اور یہ متنازعہ تھا کہ نہیں، یہ فیصلہ قارئین کو کرنا ہے۔

کراچی آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا؟

مجھ سے گفتگو میں تو سوائے سابق ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل کے اس کہانی کو آپ تک پہنچانے کے لیے مدد کرنے والے تمام افراد نے اتفاق کیا کہ کراچی آپریشن وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا جس کے لیے اسے شروع کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر سڈل نے دعویٰ کیا کہ مارچ 1996 سے جون 1996 تک شہر میں قتل و غارت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

’جس شہر میں ایک مہینے میں تین تین سو لوگ قتل کر دیے جاتے تھے وہاں مکمل سکون واپس لایا گیا۔ یہی میرا ٹاسک تھا مجھے اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ قتل و غارت گری روکی جائے۔‘

مگر دیگر تمام افراد نے اتفاق کیا کہ کمزور عدالتی نظام، خامیوں سے بھرپور استغاثہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی اور سیاسی حل دیے بغیر آپریشن کو اچانک شروع کرنے اور اچانک ختم کر دیے جانے کی پالیسی کی وجہ سے آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا۔

پولیس جانتی تھی کہ آپریشن کے بعد کیا ہو گا، انھوں نے مقدمات میں استغاثہ جان بوجھ کر کمزور رکھا تاکہ بعد کے حکمرانوں کی مدد کر کے پولیس حکام عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔

اگر سیاسی حل پر بھی غور ہوتا اور آپریشن میں ریاست کی جانبداری مشکوک نہ بنائی جاتی تو شاید صورتحال بہتر ہو سکتی تھی۔

اگر آپریشن کے نتائج حاصل ہوئے تو پھر سنہ 2013 میں سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران انہی ریاستی اداروں نے خود سپریم کورٹ کو کیوں لکھ کر بتایا کہ شہر میں آج بھی اے کلاس خطرناک سمجھے جانے والے 17 اور بی کلاس خطرناک سمجھے جانے والے 75 کے قریب نو گو ایریاز ایسے ہیں جہاں آج بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار یا افسر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔

آپریشن کے 21 سال بعد یعنی 2013 تک بھی اگر کراچی میں 92 نو گو ایریاز تھے تو پھر کیا فائدہ ہوا اُس کراچی آپریشن کا؟ بتائیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp