سونو پنجابن: دلی کی بدنام زمانہ سیکس ریکیٹ کی سرغنہ جس نے جسم فروشی کو ’عوامی خدمت‘ قرار دیا


گیتا مگّو سے سونو پنجابن تک کا سفر

سونو پنجاب سنہ 1981 میں دہلی کی گیتا کالونی میں پیدا ہوئيں۔ ان کا نام گیتا مگّو تھا۔ ان کے دادا بطور پناہ گزین پاکستان سے آئے تھے اور روہتک میں آباد ہوئے تھے۔ ان کے والد اوم پرکاش دہلی آئے تھے اور آٹو رکشہ چلاتے تھے۔

اس کا کنبہ مشرقی دہلی میں گیتا کالونی میں رہتا تھا۔ سونو کے تین بہن بھائی تھے۔ ایک بڑی بہن اور دو بھائی۔ سونو کی بڑی بہن بالا کی شادی ستیش عرف بوبی سے ہوئی تھی۔ ستیش اور اس کے چھوٹے بھائی وجئے نے اس شخص کو مار ڈالا تھا جس سے ان کی بہن نشا کا افیئر تھا۔ اس معاملے میں دونوں جیل گئے۔ پرول پر رہا ہونے کے بعد گیتا نے سنہ 1996 میں وجئے سے شادی کر لی تھی۔

جب میں سنہ 2011 میں پہلی بار ان کے گھر گئی تو پہاڑوں کے سامنے کھڑے وجے کی تصویر دیکھی۔ گیتا نے وجئے سے عشق میں گرفتار ہو کر شادی کی۔ اس وقت اس کی عمر صرف 15 سال تھی۔ اس کے بعد ان کا ایک بیٹا ہوا۔ جب میں ان کے گھر گئی تو اس کا بیٹا نو سال کا تھا۔

اس وقت وہ اپنی ماں کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ کھلونا کار لانے والی تھی۔ اس کی والدہ نے بتایا کہ وہ کبھی کبھی جیل سے فون کرتی ہیں۔ بچے کی عمر اب 17 سال ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ماں کے بارے میں جانتا ہے۔

سونو کے اہل خانہ نے ایک بیٹی کو بھی گود لیا تھا۔ لیکن وجئے کی موت کے بعد گود دینے والے اسے لے گئے۔ شادی کے سات سال بعد وجئے کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت وہ پرول پر باہر تھا۔

سونو پنجابن کے والد 2003 میں انتقال کر گئے۔ اس کے بعد اس نے پریت وہار میں بیوٹیشن کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ وہاں رہتے ہوئے اس کی اپنی ایک ساتھی کارکن نیتو سے ملاقات ہوئی جس نے اسے جسم فروشی کے کاروبار سے متعارف کرایا۔

اس کے بعد وہ روہینی میں رہنے والی خاتون کرن کے لیے جنسی کارکن کے طور پر کام کرنے لگيں۔

کاروبار

ابتدائی طور پر اس کاروبار کے لیے انھوں نے پریاورن کمپلیکس کے بی بلاک میں ایک کمرہ لیا۔ اس کے بعد فریڈم فائٹر کالونی، مالویہ نگر اور شوالک میں اپارٹمنٹ کرایہ پر لیا۔ انھوں نے دہلی کے سیدالعجائب میں انوپم انکلیو میں ایک اپارٹمنٹ خریدا۔ یہ فلیٹ سنجے مکھیجا کے نام پر خریدا گیا تھا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق سنجے مکھیجا سونو پنجابن کا پرانا ساتھی ہے۔ سونو پنجابن کے پورے کیریئر کے دوران راجو شرما عرف اجے ان کا ساتھی تھا، یعنی پہلے جنسی کارکن کے طور پر اور پھر ایک اعلی طبقے کے دلال کی حیثیت سے۔

راجو پہلے سونو کا باورچی تھا اور پھر بعد میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ وہ دلالی کا کام بھی کرتا تھا اور دو بار سونو پنجابن کے ساتھ گرفتار ہوا تھا۔

سونو کے مطابق یہ ایک بہت ہی اچھا کاروبار تھا۔ سونو نے اپنے مؤکلوں کے لیے باورچی اور کلینر بھی رکھے تھے۔

جیسے جیسے یہ کاروبار بڑھا اس کا ساتھی راجو آؤٹ اسٹیشن گاہکوں کا کام دیکھنے لگا۔ ان دونوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ مختلف شہروں میں اپنا کام پھیلادیا۔

پولیس سے گفتگو کے دوران سونو پنجابن نے ان دلالوں کا نام دیا تھا جو مختلف علاقوں کے انچارج تھے۔ اگرچہ ان کا آپس میں مقابلہ تھا لیکن وہ مل کر کام کرتے۔ مثال کے طور پر اگر سونو پنجابن کا کسی علاقے میں مؤکل ہے اور وہ وہاں اس کے لیے کسی لڑکی کا بندوبست نہیں کر سکتی تو وہ دوسروں سے اس کا بندوبست کرنے کے لیے کہے گی۔ ضرورت کے وقت دوسرے دلال بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تاہم ان کے مابین زبردست مقابلہ تھا۔

نیگی کے مطابق جب سونو پنجابن نے یہ کاروبار سنبھالا تو اس نے اپنے نیٹ ورک کے لیے سیکیورٹی کے لیے آمدنی کا 60 فیصد کمیشن لینا شروع کیا۔

ان کی کار رات میں شہر میں 500 کلو میٹر دوڑتی تھی۔ یہ گاڑی لڑکیوں کو ان کے مقام سے لیتے اور گاہکوں تک چھوڑتی۔

سونو ان لڑکیوں سے سب سے زیادہ سے منافع کماتی جسے وہ اپنی قید میں رکھتی تھی۔ وہ ان لڑکیوں کو خریدتی تھی۔ ایسی ہی ایک نابالغ لڑکی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔

دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک اور ہائی پروفائل دلال ایچھادھاری بابا اس وقت تہاڑ جیل میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سونو نے پولیس کو سراغ دے کر تیز طرار ہودہ خودساختہ بابا ایچھادھاری کو پکڑوایا تھا۔

بھیشم سنگھ کہتے ہیں: ‘اس قسم کے جرم میں جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی اسے پُر کر دیتا تھا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ایچھادھاری بابا کی گرفتاری کے بعد سونو نے اپنا کاروبار بڑھایا۔’

سونو پنجابن کی گرفتاری کی خبریں سرخیاں بن گئیں۔ ان کی تصاویر میں گلابی کارڈیگن اور نیلی جینز میں ان کی تصاویر میڈیا میں چھا گئيں۔ اپنے دوسرے انٹرویو میں وہ چمڑے کی جیکٹ پیلے رنگ کے جمپر اور شال میں نظر آئیں۔

ان کا چہرہ ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا تھا۔ ان کے جرم کو بیان کیا جارہا تھا اور انھیں منظم جنسی ریکیٹ کی ‘ملکہ’ بتایا جارہا تھا۔

سونو پنجابن کی گرفتاری دوسروں کو اس طرح کے جرائم سے روکنے کے لیے کام کر سکتی ہے۔ لیکن پولیس کا ماننا ہے کہ ایسے جنسی کاروبار چلانے والوں کو عدالت میں لانا مشکل کام ہے۔

بھیشم سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر وہ نابالغ لڑکی آگے نہ جاتی اور اس کے خلاف شکایت درج نہ کراتی تو سونو پنجابن کو پکڑنا مشکل ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp