یہ مقام ہے بابا عشق کا، یہاں ننگے پاؤں چلا کرو


ڈاکٹر یسین عاطرؔ نے روشنیوں کے شہر کراچی سے ایم بی بی ایس کیا۔ اللہ پاک نے رزق امریکہ سے نصیب میں لکھا تھا۔ امریکہ میں ڈاکٹر صاحب انسانیت کے ایک معروف مسیحا کی حیثیت سے جلد ہی پہچانے جانے لگے۔ میں اس بات پر پورا ایمان رکھتی ہوں کہ سائنس کے لوگ بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ میں نے بہت سے ایسے اہل دانش لوگ دیکھے ہیں جو اپنے سائنسی میدان اور شعری پنڈال، ہر دو میدانوں میں یکساں مقبول ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عاطر کا شمار بھی ان معدودے چند میں سے ہے جو اپنی پہلی تخلیق کے بعد ہی شعری دنیا میں چھا گئے ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر ان کے بائیس تئیس ملین فالوورز دیکھ کر حیران ہوں کہ اتنا مقبول آدمی۔ اور عاجزی ایسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی کہ بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال سنا رہی ہوں۔ ان کی پہلی کتاب کی پہلی تقریب پزیرائی لاہور پرل کانٹی نینٹل میں تھی۔ میں ایک غیر جانبدار لکھاری کے طور پر ان کو واچ کر رہی تھی۔ اس سے قبل میرا ان سے کوئی تعارف بھی نہ تھا۔ اس تقریب میں جتنے ادیب موجود تھے اس سے تقریباً دو گنا ان کے خاندان کے لوگ تھے۔ وہ ہر کسی کے پاس جاتے، جھک کے ملتے اور فرداً فرداً ان کا شکریہ ادا کرتے تقریب کے آخر میں بھی یہی منظر دیکھنے کو ملا پھر بڑی محبت سے ہر کسی کو کتاب نذر کرتے اور باقاعدہ اپنے سائن سے (جو ایک ادبی اخلاقیات کے زمرے میں آتی ہے ) اقربا اور ادیبوں کو پیش کرتے رہے۔ خیر یہ سب تو برسبیل تزکرہ تھا۔

یہ بات سچ ہے کہ خیال کبھی پرانا نہیں ہوتا، ہو بھی کیسے۔ کیا کبھی انسان پرانا ہوا ہے؟ آدم سے لے کر آج تک ایک ہی فطرت۔ لہذا اگر انسان پرانا نہیں تو اس کی نسبت سے خیال بھی قدیم نہیں ہو سکتا ہاں البتہ باقی لوگوں سے الگ انفرادیت کے حامل لوگوں کا اسلوب مختلف ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹریسین عاطرؔ کی اسی خوبی نے ان کو شعری میدان میں لا کھڑا کیا ہے کہ ان کی ڈکشن منفرد ہے۔ انہوں نے کلاسیک خیال کو اپنے انداز سے برت کے معانی کا لبادہ عطا کیا ہے۔ آج کل تونئے لکھنے والوں نے لا یعنیت کی جگالی کو نئے اسلوب کی شاعری سمجھ لیا ہے مگر ڈاکٹر یسین عاطرؔ نے اس رنگ کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ ڈاکٹر صاحب کا شعری ظاہر باطن بھی ان کی شخصیت کا عکاس ہے۔ انہوں نے اپنے شعری سفر میں اپنے تیقن کا سہارا لیا اور اپنے مجموعے ”عشق وسیلہ“ کے لیے کسی سینئر استاد کی بیساکھی کا سہارا نہیں لیابلکہ اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر نوید یوسف سے اس کتاب کی ترتیب لگوائی اور اسی سے نظر ثانی کروائی۔ اس کتاب کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کی ایک دعا شامل ہے :

مرے خدا، مرے لہجے میں عاجزی کر دے

مجھے تو عبد بنا اور متقی کر دے

ترے سوا نہ پکاروں کسی وسیلے کو

تو اس قدر مرے ایماں میں پختگی کر دے

مرا وجود تو تاریکیوں کا خوگر ہے

دیا جلا جو مرے دل میں روشنی کر دے

ملے جو شخص اسے نیک مشورہ دے دوں

بخیل ہوں میں بہت تو مجھے سخی کر دے

وہ پاک حرف عطا کر مری سماعت کو

جو گردوپیش کے اس شور میں کمی کر دے

کبھی تو بھیج مری سمت ابرِ تر ایسا

جو اک چٹان سی مٹی میں بھی نمی کر دے

کر اپنے رحم سے محدود میری دانائی

اور اپنے ذکر میں مصروف زندگی کر دے

اس خوبصورت نظم میں دعا کے سارے شیڈ موجود ہیں۔ اس میں ہر وہ التجا موجود ہے جو کوئی عاجز، بے بس، بے کس، عبد، خلق یا غلام اپنے آقا و مالک سے با آسانی کر سکتا ہے۔ عشق کو اپنا دین ایمان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ عشق کے ایک تھپیڑے نے میرے اندر ایسی ہلچل مچائی کہ وہاں ایک مستقل کیفیت سے مثبت پن جاگاجس نے میری رگوں کو تیرگی کی کائی سے بچایا۔ یہ عشق ہی ہے جس نے ان کے غموں کو مات دی جس کے نتیجے میں شعری سوتے پھوٹتے چلے گئے۔ اپنے اس شعری تجربے نے ڈاکٹر یسین عاطرؔکے فکر اور وجدان کو ایسی تراوت عطا کی کہ ڈاکٹر صاحب کی محبت اور احساس کے جادونے ان کے خیال، فکر اور وجدان کو احساسِ محبت کے سحر میں مقید رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج جس مقام پر کھڑے ہیں، وہ ان تمام شعر باز شعرا سے الگ نظر آتے ہیں جو وقتی شعری شبدہ بازی سے جل کر بجھ جاتے ہیں۔

” عشق وسیلہ“ میں کل ( 97 ) غزلیں، تئیس فردیات اور گیارہ قطعات ہیں۔ اس کتاب میں کوئی نظم شامل نہیں ہے۔ ان کو نظم کا کوئی دعویٰ بھی نہیں وہ خود بھی کہتے ہیں کہ میں غزل کا شاعر ہوں۔ یہ بیانیہ پڑھنے والے پر ڈاکٹر یسین عاطرؔ کی سادگی اور سچائی کی گرہیں وا کرتا چلا جاتا ہے اور دوسرا یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب انتہائی روانی اور سلاست سے کلام کرتے چلے جاتے ہیں انہیں رک رک کر ایک ایک مصرعے کے لیے ہلکان نہیں ہونا پڑتا جس طرح ہمارے بہت سینئر شاعر بھی اس مشکل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور بڑے فخر اور رعونت سے بتاتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے ایک ایک شعر کے پیچھے کتنا سفر کیا۔ یہ خداداد صلاحیت کسی کسی کو ودیعت ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شعری و فکری ہما، ڈاکٹر یسین عاطرؔ کے سر پر محو عنایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنی سورج صفت محبت کے حلقوم سے لفظوں کو روشناس کراتے ہیں تو الفاظ کاسارا کھردرا پن ان مول ہلکی ہلکی شیریں کسک میں در آتا ہے۔ اس طرح جتنا لطف شعر تخلیق کرنے میں آتا ہے اتنا ہی قاری کو پڑھت میں مزہ دیتا ہے۔

عام طور پر شاعر کی غزل میں ایک دو لافانی اشعار ہو جائیں تو غزل کی قیمت پوری ہو جاتی ہے اس میں بھلے باقی کے اشعار بھرتی کے ہوں، اور ایسا ہوتا بھی ہے آپ آج کے بہت سینئر شاعر کا دیوان بھی اٹھا کر دیکھ لیں وہاں بھی آپ کو کہیں نہ کہیں یہ عیب نظر آ جائے گا۔ میرا نظریہ ہے کہ آپ بھرتی کے اشعار لکھنے کی بجائے اتنے اشعار لکھیں جو آپ کا مدعا بیان کرنے میں معاون ہوں ورنہ اگر غزل پوری ہونے میں کوئی اٹکل ہو تو آپ اپنے اچھے اشعار کو فردیات یا قطعات میں شامل کر سکتے ہیں اس سے اچھے اشعار کی قدر وقیمت بھی بحال رہے گی اور آپ پھسپھسی غزل کہنے سے بھی بچ جائیں گے۔ ڈاکٹر یسین عاطرؔ نے اپنی غزلوں کو اپنے دل اور احساس کے قریں رکھا ہے جہاں بات مکمل کر چکتے ہیں وہاں ہاتھ روک لیتے ہیں یہی ان کا اختصاص ہے کہ وہ ان کہی کے عذاب سے بھی بچ جاتے ہیں اورغزل کا رنگ جمال بھی پامال نہیں ہونے دیتے۔

ڈاکٹر یسین عاطرؔ نے محبت کے جس جس رنگ کو محسوس کیا ہے اس کو لفظوں کی مالا میں پرو دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بغیر کسی جھجک کے اس احساس کو اظہار کی آکاس بیل میں ڈھالا ہے اور نئے لکھنے والوں کو راستہ دکھایا ہے کہ ایک انسان ایک ہی وقت میں محبت کے سارے رشتوں کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے۔ اس کی جھلک ان کی کتاب ”عشق وسیلہ“ کے انتساب سے شروع ہوتی ہے جہاں وہ اپنے قابل قدر والدین، اپنی رفیقہ حیات اور اپنی صاحبزادیوں کے ممنون ہیں کہ ان کے اس جہان کے سفر کو زندگی بنانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ یہ اعتراف جہاں ان کا ادبی قد کاٹھ بڑھاتا ہے وہاں ان کی شخصی وضع داری کے لیے بھی باعث برکت ثابت ہوتا ہے۔

ڈاکٹریسین کوئی جز وقتی اور حادثاتی شاعر نہیں بلکہ وہ کل وقتی اورجمالیاتی شاعر ہیں۔ اپنے اس تخلیقی جوہر سے انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی میں بھی بہت نام کمایا تھا۔ خاص کر ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں میڈیکل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا شغل پورا کرتے۔ اپنے زمانہ طالبعلمی کے کیرئیر میں اردو ادب کی محفلیں ان کی موجودگی میں کشت زعفران رہتیں۔ اسی دوران انہوں نے بہت سے شعری مقابلہ ہائے جات اور بیت بازی کی مسابقت میں نام کمایا۔ اگر وہ کراچی میں ہی رہ جاتے تو آج وہ فاطمہ حسن، جاوید صبا اور صابر ظفر کے ساتھ چل رہے ہوتے۔ ڈاکٹریاسین عاطرؔ، سول ہسپتال کراچی میں جب روزگار کی جنگ جاری نہ رکھ سکے تو امریکہ چلے آئے قدرت کو یہی منظور تھا۔ جہد مسلس کو وہ عبادت سمجھتے رہے۔ پڑھائی، شاعری اور نوکری کو ہم رقاب کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں مگر اس سب کے باوجود ارض پاک کی زنجیر پاؤں سے باندھ رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں :

وقت گر پاؤں کے نیچے سے زمیں کھینچ بھی لے

دیس کی خاک سے رشتہ تو نہیں ٹوٹے گا

جس میں بستے ہیں ترے چاہنے والے عاطرؔ

تیری پرواز سے وہ شہر نہیں چھوٹے گا

اپنی زمین سے جڑت کی ایک اور خوبصورت مثال دیکھیے :

دل اب بھی مرا کوچہء دل بر میں پڑا ہے

تم لوگ مری نقل مکانی پہ نہ جانا

ان کی کامیابیوں کی روشنی اور سعی ناتمام کبھی تمام نہیں ہوتی۔ وہ اپنی خانگی، سماجی اور پروفیشنل لائف، سب میں کامیاب ہیں۔ اس وقت ایک جانب تو وہ فزیشن میڈیسن کے سینئر استاد اور ریسرچر کے طور پر مانے جانے جاتے ہیں تو دوسری طرف وہ کیلیفورنیا یونی ورسٹی میں کلینیکل میڈیسن کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ بندہ خاکی کو جس بیماری سے بہت زیادہ سابقہ پڑتا ہے وہ معدہ آنت کی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ریسرچ کے میدان میں اگر دیکھا جائے تو صرف امریکہ ہی کیا پوری دنیا میں ڈاکٹر یسین عاطرؔ کے نام کے ڈنکے بجتے ہیں۔ یوں ڈاکٹر یاسین عاطرؔ ذہنی بالیدگی کے ساتھ ساتھ معدہ و آنت کی بالیدگی کا بھی باعث بنتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments