بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی فلمی گیت نگار قتیلؔ شفائی



ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پر، رات بھاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا! آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

اورنگ زیب خان المعروف قتیلؔ شفائی ہری پور سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ جب پیدا ہوئے تو اس وقت وہاں علم و ادب کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ علم و ادب کے ایسے بنجر علاقے میں شاعری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں! ان کی شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول کے زمانے سے شروع ہو چکا تھا۔ ابتدائی اساتذہ میں حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری تھے جن کی نسبت سے انہوں نے اپنے تخلص قتیل ؔ کے ساتھ شفائی کا اضافہ کر لیا۔ قتیلؔ شفائی کے لئے یہ قابل فخر بات ہے کہ 1939 میں محض 20 سال کی عمر میں انہوں نے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒؔ کی برسی کے موقع پر اپنے شہر میں مشاعرہ کروایا۔ ہری پور میں یہ کسی بھی قسم کا پہلا مشاعرہ تھا۔

قتیلؔ صاحب کے والد کاروبار کرتے تھے۔ کم عمری میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے باعث انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑی اور اپناکاروبار شروع کیا جو چل نہ سکا پھر بہتر روزگار کے لئے راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ یہاں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں 60 روپے ماہوار پر ملازمت ملی۔ 1946 کا سال کیا آیا کہ ان کی قسمت کا ستارہ چمکنا شروع ہوا۔ انہیں لاہور کے ماہنامہ ’ادب لطیف‘ میں معاون ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔ ان کی اولین غزل، ہفت روزہ ’اسٹار‘ لاہور سے شائع ہوئی جس کے مدیر قمرؔ جلال آبادی تھے۔

پاکستان فلمی صنعت اور قتیلؔ شفائی کی فلمی گیت نگاری کا آغاز ایک ساتھ ہوا جب انہوں نے ہماری پہلی فلم کے گیت لکھے اس وقت وہ 28 برس کے تھے۔ حضرت تنویر ؔ نقوی کا نام تو پہلے ہی مستند تھا اب قتیلؔ شفائی بھی معتبر ہو گئے۔ 1947 میں لاہور کے ایک فلمساز ’دیوان سرداری لال‘ نے انہیں اپنی آئندہ آنے والی فلم ”تیری یا د“ کے گیت لکھنے کی پیشکش کی تھی۔ یوں زینہ بہ زینہ ترقی کرتے کرتے وہ پاک و ہند کے چوٹی کے فلمی گیت نگار ہو گئے۔

ایک وقت تھا کہ ا دب کے پروردہ، فلمی گیت نگاروں کو ادب میں کوئی مقام دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ پھر قتیلؔ شفائی اور ان کے چند ہم عصر شعراء نے ثابت کیا کہ فلمی گیت بھی شاعری کا ایک اہم حصہ ہیں۔ گو کہ قتیل ؔ شفائی کونمایاں کرنے میں ان کے فلمی گیتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن ان کا یہ اصرار رہا کہ ادب ہی ان کا میدان ہے اور فلمی گیت نگاری تو محض روزگار کا ذریعہ ہے۔ وہ فلموں میں معیاری شاعر ی کو متعارف کروانے کے لئے فلمی گیت نگاری مشن سمجھ کر کرتے تھے۔ وہ جب فلموں میں آئے تو اس وقت وہ صاحب دیوان تھے۔

قتیل ؔ شفائی کی تصنیفات:

ان کی اب تک 20 تصانیف شائع ہو چکی ہیں : ’ہریالی‘ ، ’گجر‘ ، ’جلترنگ‘ ، ’روزن‘ ، ’جھو مر‘ ، ’مطربہ‘ ، ’چھتنار‘ ، ’گفتگو‘ ، ’پیراہن‘ ، ’آموختہ‘ ، ’ابابیل‘ ، ’برگد‘ ، ۔ ’گھنگھرو‘ ، ’سمندر میں سیڑھی‘ ، ’پھوار‘ ، ’صنم‘ ، ’پرچم‘ ، ’انتخاب‘ ( منتخب مجموعہ) اور ’گھنگرو ٹوٹ گئے‘ ( آپ بیتی) ۔

ان کا فن و ہنر بین الاقوامی ہے اور ان کے کلام کے ہندی، گجراتی، چینی اور روسی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ قتیل ؔشفائی اردو میں حفیظ ؔجالندھری کو گیت نگاری کا بانی اور حضرت تنویر ؔنقوی کو فلمی گیتوں کا بانی گردانتے ہیں۔ تنویر ؔنقوی اور ساحرؔ لدھیانوی وہ شاعر ہیں جنہوں نے فلمی گیت نگاروں کو ابتدا ادبی شاعر تسلیم کروایا جس پر قتیلؔ شفائی نے مہر ثبت کر دی۔ ان سب نے فلموں میں گیت نگاری کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی وقت د یا ورنہ مجروح ؔسلطانپوری، شکیلؔ بدایونی وغیرہ جب فلم میں گئے تو اس کے بعد انہوں نے ادب کی طرف توجہ نہیں دی۔

قتیلؔ شفائی اپنے گیتوں میں عام بول چال کی آسان اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں۔ جیسے وہ عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کر رہے ہوں۔ میرے خیال میں ان کے گیتوں کو مقبول بنانے میں اور باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ گیتوں کے ساتھ ساتھ قتیل ؔنے فلموں میں معیاری لیکن سادا اور آسان غزلیں بھی لکھیں جن سے فلمی غزل کو چار چاند لگ گئے اور فلمی غزل کا معیار بڑھ گیا۔ یہ فلم بینوں اور ریڈیو پر فرمائشی گیت سننے والوں نے بے حدپسند کیں۔ آج بھی ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں پر شعر وشاعری والے پروگراموں میں ان کے لکھے نئے اور پرانے فلمی گیت نشر ہوتے رہتے ہیں۔ میرے مطابق جو کام حضرت تنویر ؔ نقوی اور ساحر ؔ لدھیانوی نے شروع کیا اس کا منطقی انجام قتیلؔ شفائی نے کیا۔

قتیلؔ شفائی کو ملنے والے ایوارڈ :

1994 میں قتیلؔ شفائی کو حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ان کو آدم جی ادبی انعام،

’ امیر خسرو ایوارڈ‘ ( بھارت سے ) اور نقوش ایوارڈ ملے۔ قتیل ؔ شفائی کو بہترین گیت نگار کے 4 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے :

پہلا: فلم ”انارکلی“ ( 1958 ) ، دوسر ا فلم ”نائلہ“ ( 1965 ) ، تیسرا فلم ”آ گ ’‘ ( 1979 ) اور چوتھا فلم“ سر کٹا انسان ”( 1994 ) ۔ ان کو طویل عرصہ فلمی صنعت میں خدمات انجام دینے پر“ نگار میلی نیم ایوارڈ ”برائے 1999 بھی دیا گیا۔

ان کے اعزاز۔ :

پاکستان، اردو زبان اور قتیل ؔ شفائی کے لئے یہ ایک اعزاز ہے کہ بھارت کی ’مگہد یونیورسٹی‘ کے ایک پروفیسر نے ”قتیلؔ اور ان کے ادبی کارنامے“ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی جب کہ صوبہ مہاراشٹر میں ان کی 2 نظمیں نصاب میں شامل ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہاولپور یونیورسٹی کی 2 طالبات نے ایم اے کے لئے ان پر مقالہ تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر اشفاق احمد آشفتہ، مشہور شاعر، محقق اور افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے ”قتیل ؔشفائی فن و شخصیت“ کے موضوع پر مقالہ لکھا اور اس پر انہیں 19 اکتوبر 2016 کو ہزار ہ یونیورسٹی کے شعبہ ا ردو نے ڈاکٹریٹ کی سند دی۔

قتیلؔ شفائی کا فلمی سفر:

” تیری یاد“ ( 1948 ) جو قتیلؔ شفائی کی پہلی فلم ہے وہ لاہور میں 1948 کو عید الفطر کے موقع پر میکلوڈ پر واقع ’ پربھات‘ سنیما میں ریلیز ہوئی۔ بعد میں اس سنیما کانام ’صنوبر‘ اور پھر ’ایمپائر‘ ہو گیا۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ  کراچی میں یہ 1949 کو یہاں کے ’ایمپائر‘ سنیما میں پیش ہوئی۔ اس سنیما کا نام بھی بعد میں ’قسمت‘ ہو گیا۔ اس فلم کے دو مشترکہ فلمساز دیوان سرداری لال اور ڈی پی سنگھ تھے۔ جبکہ ہدایتکار داؤد چاند اور کہانی نگار خادم محی الدین تھے۔ موسیقار عنایت علی ناتھ تھے جو اس فلم کی ہیروئن آشا پوسلے ( اصل نام صابرہ بیگم) ، سائڈ ہیروئن رانی کرن اور گلوکارہ کوثر پروین کے والد تھے۔ آشا پوسلے بھی گلوکاری کرتی رہی ہیں۔ اس فلم کے گیت کہیں دستیاب نہیں۔ شایدیہ فلم کے علاوہ کبھی کسی نے سنے بھی نہ ہوں کیوں کہ ان کے گراموفون ریکارڈ ہی نہیں بنے تھے۔ مشہور محقق جناب عقیل عباس جعفری کی ذاتی محنت سے مذکورہ فلم کا کتابچہ دریافت ہو ا جس سے اس فلم پر کچھ معلومات ملتی ہیں۔ فلم ”تیری یاد“ میں قتیلؔ شفائی کے یہ دو گیت تھے : ’دکھ کی ماری، برسوں اپنے بھاگ کو روئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز آشا پوسلے اور ’محبت کا مارا چلا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز علی بخش ظہور۔ مشترکہ ہدایتکار مرتضے ٰ جیلانی اور انور کمال پاشا کی سپر ہٹ فلم ”دو آنسو“ ( 1950 ) کی سلور جوبلی کروانے میں اس کی موسیقی اور گیتوں کا بھی ہاتھ تھا۔ موسیقار مبارک علی خان تھے۔ اس فلم میں منور سلطانہ کی آواز میں قتیلؔ شفائی کا لکھا ہو ا یہ گیت: ’ معلوم نہیں کب ہو میرے غم کا سویرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ مقبول ہوا۔ اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ انور کمال پاشا کے والد، حکیم احمد شجاع کے مشہور ناول ’باپ کا گناہ‘ پر بنائی گئی۔ اس سے پہلے 1945 میں بھی اسی ناول پر فلم ”بھائی جان“ بن چکی تھی۔ اور بعد میں بھی اسی کہانی پر 1969 میں کراچی اور لاہور میں گولڈن جوبلی کرنے والی پنجابی فلم ”دلاں دے سودے“ اور 1970 میں پلاٹینم جوبلی اردو فلم ”انجمن“ بنائی گئیں۔

1950 میں ہی سلور جوبلی فلم ”امانت“ پیش ہوئی۔ اس کی دو خاص باتیں ہیں : پہلی یہ کہ اداکار درپن (اصل نام سید عشرت عباس ) کی یہ پہلی فلم ہے۔ دوسری یہ کہ اس فلم میں اداکارعلاؤ الدین نے بھی گلو کاری کی۔ جیسے : ’سن لے صداہماری، ہم پریم کے بھکاری آئے تیری گلی میں‘ آوازیں سلمیٰ بیگم اور علاؤ الدین، گیت قتیلؔ شفائی اور موسیقی نذیر جعفری، ’دم مست قلندر بول کہ دنیا چار دنوں کا میلہ ہے‘ گیت نگار قتیلؔ، آوازیں علاؤ الدین، عطا محمد قوال، نذیر جعفری اور ہم نوا۔

1953 میں پیش ہو نے والی شاہ نور کریسنٹ فلمز کی ”گلنار“ گو کہ باکس آفس پرزیادہ کامیاب نہ رہی لیکن کئی باتوں کی وجہ سے ملکی تاریخ میں ممتاز ہے۔ پہلی یہ کہ اس کے ہدایتکار سید امتیاز علی تاج تھے اور کہانی بھی انہی کی تھی۔ دوسری یہ کہ بر صغیر پاک و ہند کے نامور موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی یہ آخری فلم ہے کیوں کہ اس کی ریلیز کے تیسرے ہی دن ماسٹر صاحب دار فانی سے کوچ کر گئے۔ تیسری یہ کہ ا س فلم کے مکالمے شوکت تھانوی نے لکھے اور خود اداکاری بھی کی۔

چوتھی یہ کہ موسیقار خلیل احمد نے نورجہاں کے ساتھ گلوکار کی حیثیت سے ایک دوگانا ریکارڈ کروایا۔ اس وقت تک وہ فلمی موسیقار نہیں ہوئے تھے۔ پانچویں یہ کہ فلم میں ملکۂ موسیقی روشن آراء بیگم کا بھی آئٹم تھا۔ چھٹی یہ کہ ماسٹر غلام حیدر کی معاونت رحمن ورما ( اصل نام عبد الرحمن ) نے کی۔ غیر منقسم ہندوستان میں یہ موسیقار جوڑی ’ورما جی شرما جی‘ کے ’ورما‘ تھے۔ جبکہ ’شرما جی‘ محمد ظہور خیام ہاشمی تھے۔ ورما جی قیام پاکستان کے بعد لاہور آ گئے جبکہ شرما جی بمبئی میں ہی رہ گئے جو بعد میں موسیقار خیام کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ دونوں حضرات پاکستانی فلمی موسیقی کے جگت باوا، مشہور زمانہ بابا جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ فلم ”گلنار“ میں قتیلؔ شفائی کے گیت امرہیں : ’بچپن کی یادگارو میں تم کو ڈھونڈتی ہوں، تم بھی مجھے پکارو‘ آواز نورجہاں، ’لو چل دیے وہ ہم کو تسلی دیے بغیر، اک چاند چھپ گیا ہے اجالا کیے بغیر‘ آواز نورجہاں، ’لے پیار بھرا نذرانہ میرے پیارے بلم۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آوازیں خلیل احمد اور نورجہاں۔

فلم ”آغوش“ ( 1953 ) کی کہانی سعادت حسن منٹو نے لکھی اور مکالمے احمد ندیم قاسمی کے تھے۔ موسیقار ماسٹر عنایت حسین۔ قتیلؔ شفائی نے ایک گیت تخلیق کر کے فلم کے نام کو زندہ و جاوید بنا دیا۔ یہ دوگانا منور سلطانہ اور فضل حسین کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا :

محبت مسکرائی، جھوم اٹھی ہر شے جوانی میں
کسی کا نام شامل ہو گیا میری کہانی میں

گیت کا جادو کیا ہے اور وہ کیسے چڑھتا ہے؟ آپ بھی اس کو سن کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ گیت انٹر نیٹ پر دیکھا / سنا جا سکتا ہے۔

قتیلؔ شفائی کے کئی ایک تذکرہ نگاروں کے مطابق کمال پکچرز کی ”قاتل“ وہ فلم ہے جس نے قتیلؔ شفائی کو قتیلؔ شفائی بنایا۔ میری رائے میں یہ کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں۔ مشہور تو وہ پہلے بھی تھے لیکن اس فلم کے گیتوں نے قتیل ؔکا نام بین الاقوامی کر دیا۔ ”قاتل“ 1955 میں ریلیز ہوئی اور جلد ہی پاکستان سے نکل کر بھارت میں بھی دھومیں مچا دیں۔ فلم کے مکالمہ نگار اور ہدایتکار انور کمال پاشا تھے۔ کہانی ان کے والد حکیم احمد شجاع نے لکھی۔

فلمساز آغا جی اے گل تھے۔ موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی۔ عکاس رشید لودھی تھے جو خود نامور کیمرہ مینوں کی معاونت کر چکے تھے۔ اس فلم میں ان کے معاون اسلم ڈار اور نسیم حسن تھے۔ یہ وہی اسلم ڈار ہیں جنہوں نے آگے چل کر بحیثیت فلمساز و ہدایتکار گولڈن جوبلی ”بشیرا“ ( 1972 ) اور پلاٹینم جوبلی ”دل لگی“ ( 1974 ) جیسی کامیاب فلمیں بنائیں۔ ”بشییرا“ وہ فلم ہے جس نے سلطان راہی کو سلطان راہی بنایا۔ مجھے علی سفیان آفاقی ؔصاحب نے بتایا کہ سلطان راہی نہایت ہی اعلی ظرف انسان تھے ساری زندگی ہدایت کار اسلم ڈار کا یہ احسان نہیں بھولے۔ بات قتیلؔ اور ”قاتل“ کی ہو رہی ہے۔ اس فلم کا ایک گیت ان دونوں کو آسمان شہرت پر لے گیا۔ اس شہرت میں ماسٹر عنایت حسین کا برابر کا حصہ ہے :

الفت کی نئی منزل کو چلا تو باہیں ڈال کے بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ یہ گیت بطور خاص لکھا ہی اقبال بانو کے لئے گیا تھا۔ مجھے علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے خود بتایا کہ قتیلؔ کسی زبردست فلمی سیچو ایشن پر ’تو لاکھ چلی رے گوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ کی ٹکر کا گیت اقبال بانو ہی کے لئے لکھنا چاہتے تھے جس کی دھن بھی ماسٹر عنایت حسین کی ہی ہو۔ سال بعد جب ”قاتل“ کے گیت لکھنے کا وقت آیا تو یہ آرزو پوری ہو گئی۔ اب اس گیت میں ایسا کیا ہے کہ سننے والا بے خود ہو جاتا ہے؟ یہ جادو ماسٹر صاحب کی طرز کا ہے۔ ”ماسٹر صاحب نے کمال کی دھن بنائی۔ یہ ’کڈارے‘ کی بندش سے نکلی ہے۔ چونکہ یہ فلمی کمپوزیشن ہے لہٰذا بولوں کی مناسبت سے مکسنگ بھی کی گئی جو سننے میں بہت بھلی لگتی ہے ”۔ یہ الفاظ موسیقار، ارینجر اور گلوکار زیڈ ایچ فہیم کے ہیں۔ آپ بھی دیکھئے کہ ماسٹر عنایت حسین نے اپنی طرز کے بنیادی سروں میں ا قبال بانو کی آواز کو کس عمدگی سے استعمال کرایا کہ شعروں کی کیفیت بتدریج واضح ہونے لگتی ہے۔ سننے والے کے دل و دماغ پر وہی اثر ہوتا ہے جو گیت نگار اور موسیقار نے اس کی تخلیق کے وقت محسوس کیا۔ فلم“ قا تل ’‘ نے 1955 میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ واضح ہو کہ اقبال بانو کی پاکستانی فلمی صنعت میں دھماکہ خیز آمد سلور جوبلی فلم ”گمنام“ ( 1954 ) میں سیف الدین سیف ؔکے لکھے ہوئے اس گیت سے ہوئی تھی:

تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے

جس کے موسیقار بھی ماسٹر عنایت حسین تھے۔ اس کی طرز کے بارے میں معروف موسیقار زیڈ ایچ فہیم کہتے ہیں : ”بادی ا لنظر میں اس گیت میں راگ ’دیس‘ کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ یہ ’شدھ ملہار کامود‘ میں کمپوز کیا گیا۔ چونکہ فلمی گانا ہے اس لئے استھائی کہیں سے انترا کہیں سے لیا گیا ہے“ ۔ میں خود بھی اب تک اس کمپوزیشن پر راگ دیس ہی کا گمان کرتا رہا تھا۔

بہرحال قتیلؔ شفائی کا یہ تجربہ کامیاب رہا اور اقبال بانو کا یہ گیت بھی پہلے والے گیت کی مانند بے حد پسند کیا گیا۔ ”قاتل“ کا ایک اور گیت بھی خاص و عام میں مقبول ہوا:

اؤ مینا
نہ جانے کیا ہو گیا
کہاں دل کھو گیا
اسے گلوکارہ کوثر پروین کے لئے قتیلؔ شفائی نے لکھا۔

سال 1955 قتیل ؔشفائی کے لئے خوش بخت ثابت ہوا۔ اسی سال عید الفطر پر سپر ہٹ فلم ”نوکر“ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اس کے ہدایتکار سید عطا اللہ شاہ ہاشمی اور کرشن کمار تھے۔ فلمساز اور کہانی نگار سید عطا اللہ شاہ ہاشمی خود تھے۔ گیت نگار قتیلؔ شفائی اور موسیقار باباجی اے چشتی۔ بابا جی کے معاون تصدق حسین تھے جو آگے چل کر خود ایک نامور موسیقار ثابت ہو ئے۔ ان کی پہلی ہی فلم ”چھوٹی بیگم“ ( 1956 ) نے گولڈن جوبلی کی۔ یوں انہوں نے اپنے استاد کا نام روشن کیا۔ فلم ”نوکر“ میں قتیلؔ شفائی نے ایک لوری لکھی:

راج دلارے
توہے دل میں بساؤں
توہے گیت سناؤں
اؤ میری انکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاؤں
راج دلارے

مذکورہ لوری نے گلوکارہ کوثر پروین کو آسمان شہرت پر پہنچا دیا۔ یہ بابا چشتی، قتیلؔ شفائی اور کوثر پروین کی مشترکہ کامیاب کاوش ہے۔ یقیناً اس میں بہترین ساؤنڈ ریکارڈ سٹ اور میوزشنوں کا پسینہ بھی شامل ہے۔ مذکورہ لوری کے بولوں سے پہلے بابا جی نے بانسری پر راگ پہاڑی سے جو ایک خوابیدہ اور پاکیزہ ماحول بنایا ہے، ہم جب بھی سنیں، وہ ہمیں ایک اور ہی کائنات میں لے جاتا ہے۔ جیسے ہم اپنی ماں کی گود میں ہوں۔ قتیلؔ شفائی کے الفاظ کے چناؤ دیکھئے پھر ان پر بابا جی نے کوثر پروین سے کیا دل سوز ادا ئگی کروائی کہ جس کا جادو آج تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پاک و ہند میں اس سے پہلے بھی فلمی لوریاں بنیں اور آئندہ بھی بنیں گی مگر جو کام ”نوکر“ کی لوری نے کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واہ واہ! خاکسار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ یہ لوری، لوریوں میں اپنی مثال آپ ہے۔

سپر ہٹ فلم ”انتظار“ 1956 میں عید الفطر پر نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ خواجہ خورشید انور قیام پاکستان سے قبل بمبئی کی فلمی دنیا میں بہ حیثیت موسیقار اپنا نام کر چکے تھے۔ پاکستان میں البتہ یہ ان کی پہلی فلم ہے۔ موسیقی کے ساتھ اس فلم کی کہانی بھی ان ہی کی تھی۔ اس کے مشترکہ فلمساز سلطان جیلانی اور خود خواجہ صاحب تھے۔ ہدایات مسعود پرویز نے دیں۔ گیت نگار قتیلؔ شفائی جب کہ مکالمے سید امتیاز علی تاج کے تھے۔ اس فلم کے گیت پاک و ہند میں یکساں مقبول ہوئے۔

جیسے : ’آ گئے بلم پردیسی سجن پردیسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز نورجہاں، ’چاند ہنسے، دنیا بسے روئے میرا پیار، درد بھرے دل کے میرے ٹوٹ گئے تار‘ آواز نورجہاں، ’چھن چھن ناچوں گی گن گن گاؤں گی، سیاں مورے آئیں گے ان کو رجھاؤں گی‘ ، ’آ بھی جا آ بھی جا دیکھ آ کر ذرا مجھ پہ گزری ہے کیا تیرے پیار میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ اس کے علاوہ بھی اس فلم کے کئی گیت قبول عام ہوئے۔

پاکستان کی فلمی تاریخ میں فلم ”عشق لیلیٰ“ ( 1957 ) کا ایک انفرادی مقام ہے۔ فلم کے ہدایتکار منشی دل اور فلمساز ایور ریڈی پکچرز کے جگدیش چند آنند المعروف جے سی سی آنند تھے۔ تمام گیت قتیل ؔ شفائی نے لکھے۔ فلم کے 15 گیتوں کے گراموفون ریکارڈ بنے، مارکیٹ میں آئے اور ریڈیو پاکستان سے بارہا سنوائے گئے۔ اس کے علاوہ گلوکار عنایت حسین بھٹی (م) کی آواز میں ایک ٹائٹل سانگ ( قصہ لیلیٰ مجنوں ) اور 3 عدد آئٹم، قطعات اور شعر کی صورت میں فلم میں شامل ہیں۔

یوں گلوکار عنایت حسین بھٹی ( م ) کے اس فلم میں کل 9 گیت ہو گئے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مذکورہ فلم بھٹی صاحب کے فلمی گلوکاری کے سفر کی سب سے ممتاز فلم ہے۔ انہوں نے نے بھی اپنا حق احسن طریقے سے انجام دیا۔ موسیقار صفدر حسین نے بھی گیتوں کو ایسا سجایا کہ سب ہی ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہوئے۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی فلم کے تمام گیت، وہ بھی اتنے سارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عوام نے پسند کیے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اسی موضوع پر ا یور نیو پکچرز کی ”لیلیٰ مجنوں“ بھی فلم ”عشق لیلیٰ“ کے ساتھ ساتھ جمعہ 12 اپریل 1957 کو لاہور اور کراچی میں ریلیز ہو ئی۔

”لیلیٰ مجنوں“ کے فلمساز و ہدایتکار انور کمال پاشا تھے۔ گیت نگاروں میں حضرت تنویرؔ نقوی، طفیل ؔہوشیارپوری اور حکیم احمد شجاع تھے۔ موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی۔ دلچسپ بات یہ کہ ان فلموں کے موسیقاروں میں ماموں بھانجے کا رشتہ تھا۔ موسیقار رشید عطرے صفدر حسین کے حقیقی ماموں اور موسیقی میں ان کے استاد بھی تھے۔ لیکن اتفاق دیکھئے کہ بھانجے کی فلم کے تمام ہی گیت ہٹ ہوئے اور ماموں جان کا ایک بھی گیت وہ مقام نہ پا سکا۔

فلم ”عشق لیلیٰ“ کے کچھ گیتوں کا ذکر: ’پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ، سکون مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ‘ آواز اقبال بانو، ’جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے، محبت کا جنازہ جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز عنایت حسین بھٹی، ’نکل کر تیری محفل سے یہ دیوانے کدھر جائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، آواز عنایت حسین بھٹی،‘ اداس ہے دل نظر پریشاں قرار بن کر چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ، ہمارے اجڑے ہوئے چمن میں بہار بن کر چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ ’آواز سلیم رضا،‘ اک ہلکی ہلکی آہٹ ہے اک ہلکا ہلکا سایہ ہے، یہ کون خیالوں میں مجھ کو دیوانہ بنانے آیا ہے ’، آواز اقبال بانو،‘ چاند تکے چھپ چھپ کے اونچی کھجور سے، ملنے کو آئی تھی میں تو حضور سے ’آوازیں

زبیدہ خانم اور سلیم رضا، ’لیلیٰ لیلیٰ لیلیٰ، اختر خوباں لیلیٰ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز زبیدہ خانم۔ اس فلم نے کراچی میں سلور جوبلی کی۔ یہاں مرکزی سنیما ’ریگل‘ تھا۔

1958 کی عید الفطر پر فلم ”زہر عشق“ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ فلمساز سلطان جیلانی اور خواجہ خورشید انورتھے۔ ہدایات مسعود پرویز کی اور کہانی اور موسیقی خود خواجہ صاحب کی تھی۔ مکالمے سید امتیاز علی تاج کے اور تمام گیت قتیلؔ شفائی نے لکھے۔ یہ فلم کامیاب تو نہ ہو سکی لیکن اس کا ایک گیت امر ہو گیا: ’موہے پیا ملن کو جانے دے بیرنیا، موہے پیا ملن کو جانے دے‘ ، آواز ناہید نیازی۔ خواجہ صاحب کی طرزیں عام طور پر خاصی مختلف ہوتی تھیں۔

پھر قتیلؔ شفائی کا یہ گیت تو خاص طور پر سحر زد ہ سا لگتا ہے۔ اسی گیت کے بارے میں کراچی کے موسیقار، ارینجر اور گلوکار زیڈ ایچ فہیم، جنہوں نے خواجہ خورشید انور کو کام کرتے خود دیکھا وہ کہتے ہیں : ”خواجہ صاحب زیادہ تر خاموش رہا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ میری موسیقی چار سال کے بعد سمجھ میں آ تی ہے۔ مثلاً مسعود پرویز صاحب کی فلم زہر عشق میں ناہید نیازی کی آواز میں قتیل شفائی کے لکھے گیت موہے پیا ملن کو جانے دے بیرنیا․․․․․․ اپنے وقت کی ایک عجیب کمپوزیشن تھی جو آج 62 سال بعد بھی وہی حیران کن تاثر رکھتی ہے“ ۔

سلور جوبلی فلم ”ناگن“ ( 1959 ) میں قتیلؔ شفائی کے دو گیتوں نے چار دانگ عالم میں بڑا نام پیدا کیا: ’امبوا کی ڈاریوں پہ جھولنا جھلا جا، اب کے ساون تو سجن گھر آ جا‘ ، آواز اقبال بانو، ’سیاں جی کو ڈھونڈنے چلی، پھروں میں گلی گلی جوگن بن کے‘ ، آواز ناہید نیازی۔ اس فلم کے ہدایتکار خلیل قیصر، فلمساز وزیر علی اور موسیقار صفدر حسین تھے۔

ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی فلم زیادہ نہ چل سکی لیکن اس کا ایک گیت اتنا مشہور ہوا کہ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی وہ ترو تازہ ہے جب کہ فلم کا اصل پرنٹ یا نیگیٹیو نہ جانے موجود بھی ہو گا یا نہیں لیکن اس کا گیت زندہ ہے۔ ایسی ہی ایک فلم ”وطن“ ( 1960 ) ہے۔ اس میں ناہید نیازی کے لئے قتیلؔ شفائی کے گیت کی طرز ماسٹر عنایت حسین نے بنائی : ’سونے کی لونگ میں پہن کر چلی تیری گلی او پیا تیری گلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘

فلمساز سمیع دہلوی اور ہدایتکارمحمد شفیع ڈار المعروف ایم ایس ڈار ( نامور کیمرہ مین اور ہدایتکار اسلم ڈار کے والد ) کی سلور جوبلی فلم ”سلطنت“ ( 1960 ) میں قتیلؔ شفائی کا ملی نغمہ ’قدم بڑھاؤ ساتھیو قدم بڑھاؤ ساتھیو قدم بڑھاؤ‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے موسیقار بابا چشتی تھے۔ آوازیں عنایت حسین بھٹی، آئرین پروین اور ساتھیوں کی۔

ہدایتکارانور کمال پاشا اور فلمساز آغا جی اے گل کی سلور جوبلی فلم ”محبوب“ ( 1962 ) میں قتیلؔ شفائی کے دو گیت عوامی فرمائش پر ریڈیو پاکستان سے بہت نشر ہوئے : ’نگاہیں ملا کر بدل جانے والے، مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز نورجہاں، ’سپنوں میں اڑی اڑی جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز مالا۔ ان کے موسیقا رشید عطرے تھے۔

فلمساز الیاس کاشمیری اور ہدایات کار شریف نیر کی سلور جوبلی فلم ”عشق پر زور نہیں“ ( 1963 ) میں قتیلؔ شفائی کا جوگیانہ گیت ’دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے، بڑی مہنگی پڑے گی یہ جدائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘ اپنی مثال آپ ہے۔ آوازیں مالا اور سائیں اختر حسین کی۔ اس کو امر بنانے کا سہرا موسیقار ماسٹر عنایت حسین کو جاتا ہے۔

ہدایات کار نجم نقوی، فلمساز آغا جی اے گل، موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور گیت نگار قتیلؔ شفائی کی سلور جوبلی فلم ”اک تیرا سہارا“ ( 1963 ) کے گیت تب بھی مقبول ترین تھے اور اب بھی ہیں : ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں، جس نے بھلا دیا تجھے اس کا ہے انتظار کیوں‘ ، الگ الگ سلیم رضا اور نسیم بیگم نے گایا، ’بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ سلیم رضا اور نسیم بیگم کا دوگانا، ’گھنگھور گھٹا لہرائی ہے پھر یاد کسی کی آئی ہے، میرا ساتھی میرے پاس نہیں میرے نیناں روئیں چھم چھم چھم‘ آواز نسیم بیگم۔

گولڈن جوبلی فلم ”فرنگی“ ( 1964 ) میں قتیلؔ شفائی کے گیت آج بھی سدا بہار ہیں : ’آ بھی جا دلدارا آ بھی جا دلدارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز نسیم بیگم، ’بن کے میرا پروانہ آئے گا اکبر خانا ں کہہ دوں گی دلبر جاناں پخیرراغلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ اس کے فلمساز و ہدایتکار خلیل قیصر اور موسیقا ر ر شید عطرے تھے۔

ہدایات شریف نیراور فلمسازآغا جی اے گل کی گولڈن جوبلی فلم ”نائلہ“ ( 1965 ) کا ذکر پاکستان کی فلمی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جا ئے گا۔ اس فلم نے جہاں جہاں اردو گیت و غزل سنے جاتے تھے وہاں وہاں قتیلؔ شفائی کا نام پہنچادیا۔ مذکورہ فلم کا صرف ایک گیت: ’دور ویرانے میں ایک شمع ہے روشن کب سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ حمایتؔ علی شاعر ( م ) نے لکھا۔ باقی تمام گیت قتیلؔ شفائی کے تھے اور موسیقی ماسٹر عنایت حسین کی۔

فلم کو گولڈن جوبلی پر لے جانے میں موسیقی اور اس کے گیت برابر اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسی۔ : ’غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، ’اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی، جا اور محبت کر پگلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ۔ اس گیت میں کتنی سادا بات کہی گئی کہ ’دیکھا اس کام کا نتیجہ؟ ہم نہ کہتے تھے کہ ایسا نہیں کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، پھر ماسٹر صاحب کی التجایہ، ا ور بولوں کی مناسبت سے سادا دھن جو دل میں جا اترے۔ کیا کمال کے لوگ تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایور نیو پکچرز کے فلمساز نجم نقوی، موسیقار رشید عطرے اور گیت نگار قتیلؔ شفائی کی سلور جوبلی فلم ”پائل کی جھنکار“ ( 1966 ) کے گیت یادگار ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب یہ ریڈیو پاکستان اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں سے نہ نشر ہوں۔ ’حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں، ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‘ ، آواز سلیم رضا، ’میرے دل کے تار بجیں بار بار ہوا تجھ سے پیار آ جا، رہوں بیقرار کر وں انتظار گئے نین ہار آ جا‘ یہ الگ الگ دو طرح سے ریکاڑد ہوا۔ ایک مہدی حسن کی آواز میں اور دوسرا مہدی حسن اور نسیم بیگم کا دوگانا۔

گولڈن جوبلی فلم ”دل میرا دھڑکن تیری“ ( 1968 ) میں قتیلؔ شفائی کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی تھی: ’ترک الفت کا صلہ پا بھی لیا ہے میں نے، اب تو آ جا کہ تجھے یاد کیا ہے میں نے‘ ، آواز مہدی حسن، ’جھوم اے دل وہ تیرا جان بہار آئے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز مسعود رانا، ’کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا، رکھ دیا قدموں میں دل نذرانہ، قبول کر لو‘ ایک احمد رشدی کی آواز میں اور دوسرا احمد رشدی اور مالا کا دوگانا، ’تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز مالا۔ فلم کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین، ہدایات ایم اے رشید اور فلمساز میاں غلام مرتضے ٰ تھے۔

1969 میں بننے والی سلور جوبلی فلم ”ناز“ میں نثار بزمی صاحب کی موسیقی اور مالا کی آواز میں قتیلؔ شفائی کا یہ معرکۃالآراء گیت ’مجھے آئی نہ جگ سے لاج، میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے‘ نے مقبولیت کے سب ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ ایسا مقبول ہوا کہ بھارتی گلوکار پنکھج اداس نے بھی ریکارڈ کرایا او ر اسے جگجیت سنگھ بھی نجی محفلوں میں سناتے رہے ہیں۔ بعض نامو ر قوال آج بھی اکثر اس گیت کا مکھڑا، رنگ میں سناتے ہیں۔

آفاقی فلمز کی ”سزا“ ( 1969 ) کے فلمساز اور کہانی نگار علی سفیان آفاقیؔ، ہدایات کار ہمایوں مرزا اور موسیقار ناشاد تھے۔ اس فلم کے دو گیت آج بھی تر و تازہ ہیں : ’جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ، ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ‘ ، آواز مہدی حسن، ’تو نے بار بار بار کیا مجھے بیقرار، جا رے سانورے پیا تیرا دیکھ لیا پیار‘ ، آواز مالا۔

1970 میں قتیلؔ شفائی نے اپنی مادری زبان ’ہندکو‘ میں فلمساز کی حیثیت سے فلم ”قصہ خوانی“ شروع کی۔ اس کی عکس بندی بھی ہوئی۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا یہ منصوبہ سست رفتار سے آگے بڑھا۔ یوں ایک دہائی کے بعد 1980 میں کہیں جا کر یہ فلم نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنی آپ بیتی، ’گھنگھرو ٹوٹ گئے‘ دوسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 159 سے 162 پر کیا ہے۔

ہدایتکار ایس ٹی زیدی اور فلمسازآغا جی اے گل کی سلور جوبلی فلم ”سلام محبت“ ( 1971 ) کے دو موسیقار تھے، خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے۔ اس فلم میں قتیلؔ شفائی کا ایک گیت بے حد مقبول ہوا: ’کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنا، بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے‘ ، آواز مہدی حسن۔

سلور جوبلی فلم ”زندگی اک سفر ہے“ ( 1972 ) کے ہدا یت کار ایس ایم یوسف اور فلمساز لطیف بٹ تھے۔ اے حمید کی طرز پر قتیلؔ شفائی کا یہ گیت آج بھی وہی تاثیر رکھتا ہے جو اس وقت رکھتا تھا: ’ہر آدمی الگ سہی مگر امنگ ایک ہے، جدا جدا ہیں صورتیں لہو کا رنگ ایک ہے‘ ، آواز مہدی حسن۔

قتیلؔ شفائی مشاعروں میں شرکت کرنے اکثر بھارت جاتے تھے۔ وہاں مشاعرہ سننے والے بھارتی فلمسازوں نے انہیں اپنی فلموں میں خصوصی طور پر گیت لکھنے کے لئے دعوت دی۔ قتیلؔ شفائی نے انہیں کئی گیت لکھ کر دیے جیسے : 1993 کی فلم ’‘ پھر تیری کہانی یاد آئی ”میں انور سردار ملک المعروف انو ملک کی موسیقی میں الکا یاگنک کی آواز میں ان کا یہ گیت: ’شاعرانہ سی ہے زندگی کی فضا، آپ بھی زندگی کا مزا لیجیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، 1993 میں بننے والی فلم“ وقت ہمارا ہے ”میں ندیم شیرون کی موسیقی، الکا اور محمد عزیز کی آوازوں میں : ’میں نے پی یا تو نے پی، ارے بات ایک ہوئی۔

۔ ۔ ۔ ۔‘ ، 1993 کی فلم“ سر ”میں انو ملک کی موسیقی میں کمار سانو اور کویتا کرشنا مورتی کی آوازوں میں : ’آج ہم نے دل کا قصہ تمام کر دیا، خود بھی پاگل ہو گئے تم کو بھی پاگل کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ اور 1994 میں بننے والی فلم“ ناراض ”میں کمار سانو کی آواز میں انو ملک کی موسیقی میں یہ گیت: ’سنبھالا ہے میں نے بہت اپنے دل کو، زباں پر تیرا پھر بھی نام آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ وغیرہ۔

انہوں نے اپنی عمر کے آخری دور میں بمبئی کے کئی سفر کیے اور فلم ”سر“ ، ”دیوانہ تیرے نام کا“ ، ’‘ بڑے دل والا ”اور“ پھر تیری کہانی یاد آئی ”کے علاوہ کئی اوربھارتی فلموں کے گیت بھی لکھے۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے تقریباً 201 پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لئے ڈھائی ہزار گیت لکھے۔ ان میں 7 عدد پنجابی فلموں کے 21 گیت بھی شامل ہیں۔

ان کے انتقال کے بعدبلدیہ لاہور اور اہل محلہ نے ان کے گھر جانے والی سڑک کا نا م ’قتیلؔ شفائی اسٹریٹ‘ رکھ دیا۔ اسی طرح ہری پور میں جہاں یہ رہا کرتے تھے اس جگہ کا نام ’محلہ قتیلؔ شفائی‘ رکھا گیا ہے۔

قتیلؔ شفائی کے کلام کے چند نمونے :
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پر، ر ات بھاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا! آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
اعزاز پانے والے ذرا یہ بھی سوچتے
دستار کے عوض کہیں سر تو نہیں گئے
تم آ سکو تو شب کو بڑھا دوں کچھ ا ور بھی
اپنے کہے میں صبح کا تارہ ہے ان دنوں

بر صغیر کے عظیم فلمی گیت نگار اور شاعر 2001 میں جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے دوست اظہر جاوید نے ان کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قتیلؔ شفائی کی زندگی کا کھنکتا چھنکتا گھنگھرو بالآخر موت نے توڑ دیا۔ اور انہوں نے قتیلؔ شفائی کی آپ بیتی کا نام بھی یہی رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھنگھرو ٹوٹ گئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments