جاپانی عورت اور پیار کی تلاش


سب سے پہلے تو اپنے اس پرانے دوست کا ایک فرضی نام رکھ لیتے ہیں۔ جواد گھانچی۔ گھر والے دوست سبھی اسے جاجو پکارتے تھے۔ سو بہتر ہے آپ بھی اسی نام کو یاد رکھیں۔ نوے کی دہائی میں لپک جھپک میں جاپان جا پہنچا تھا۔ یہاں لیاری کی ایک پانچ منزلہ بلڈنگ کے دو فلور والے گھر میں دس بھائی اور کئی سو بھابھیاں رہتے تھے۔ ماں زبردست عورت تھی مگر اس کے باوجود ان گھروں میں ہر وقت تکا فضیحتی مچی رہتی تھی۔ جاجو نے مرچنٹ نیوی کے جہاز پر ملازمت پکڑی۔ تیسرے پھیرے میں جاپان کی کوبے پورٹ سے غائب ہوگیا۔ ایمی۔ کو (جاپانی زبان میں طفل دلربا) سے اس کی ملاقات دوسرے پھیرے میں ہوئی تھی۔ وعدہ صرف اتنا تھا کہ مڑ کر آئے تو میں تمہاری جنم جنم کی داسی۔ دونوں نے وعدہ نبھایا اور ایمی جاجو کی بیوی بن گئی۔

جاجو میں ہر کسی کے دل میں گھر کرنے والی تین اور عورتوں کو رجھانے والی پانچ خوبیاں تھیں۔ وہ خوش مزاج، بلا کا معاملہ فہم اور ہمدرد انسان ہے۔ ان مشترکہ خوبیوں سے سوا، وہ دو اوصاف جن سے ایک عام عورت کا سیاچن گلیشئر جیسا دل بھی دسمبر ہی میں پگھل کر بہہ نکلے اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ کہ وہ دیکھنے میں بہت من بھائونا تھا۔ ایک تندرست سکس پیک والے بدن کے باوجود یہ کشش بہت مردانہ اور چھا جانے والی نہ تھی۔ اسے دیکھ کر عورتوں میں یکایک ممتا جاگ اٹھتی تھی۔ بچوں جیسا، بہتvulnerable ، مدافعت اور مسخر ہونے کو بے تاب۔ ہر چند کہ وہ پکا پکا الفا میل بھی تھا۔ بالکل ویسا ہی جیسا علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ٹل نہ سکتے تھے میداں میں گر اڑ جاتے تھے۔

اس کی مردانگی استراحت کا بھید بھائو جاننا ہو تو پاکستان کی افواہ فیکٹری میں گردش کرتی ایک خبر کا سوچیں، جس میں قندیل میں روشن مفتی صاحب سے لمحات رفاقت میں پاکستان کی مشہور ترین مشہور سیدہ ٹک ٹاکن شیرنی کے پائوں بھی میدان سے اکھڑ گئے تھے۔

پانچواں وصف جاجو کی خوش گفتاری تھی۔ ہم نے جنرل نالج کے لیے جب جاجو سے پوچھا کہ “اس نے ایمی کو دونوں طرف سے معمولی انگلش کے باوجود کیسے پٹایا تھا؟ ” یہ سن کر جواب میں اس نے ایک رکیک حملہ یہ کیا کہ” ہماری انگلش تو اس سے بہت اچھی ہے نا۔ چلو ہم کوئی ایتھوپیا یا گھانا کی ہی لڑکی پھانس کر دکھائیں”۔ اللہ کا شکر ہے ہمارا مقامی سطح پر بغیر انگریزی کا جال بچھائے کام چل  گیا۔ عدیس ابابا اور عکرہ کے چکر نہیں لگانے پڑے۔

جاجو پرانا دوست ہے۔ درمیاں میں ہماری ناراضگی ہو گئی تھی۔ ایمی نے اسے اور ہم نے خود کو سمجھایا کہ چالیس سال پرانا دشمن نہیں ملتا تو دوست کہاں ملے گا۔ سو بہتر ہے گلے لگ جائیں۔

پاکستان جب بھی آتا ہے تو ایمی ساتھ ہوتی ہے۔ اب یہ جوڑا امریکہ چلا آیا ہے۔ اس مکالمے کا کچھ حصہ یہاں ان دنوں یہاں ہمارے قیام کا ہے۔ دونوں کا جاپان سے مچھلی کی امپورٹ کا کام ہے۔

پہلے دورے پر جاجو کی بڑی بھابھی مہ جبین گھانچی سے ایمی نے پوچھا کہ پاکستانی “مائیں اپنے سپوتوں کو کون سی معجون سوغات شباب گھٹکا کر دودھ پلاتی ہیں کہ ناہنجار مردوئے مینو میں تینوں ٹائم سیکس مانگتے ہیں؟”۔ بھابھی جو خود بھی اس طرح کے جنسی مظالم کا شکار تھی، کہنے لگی۔ ” پاکستانی ماں کی کوئی دعا لگے نہ لگے اللہ میاں ان کی باپ بننے کی دعا کبھی رد نہیں کرتا”۔ بھابھی مہ جبین نے پوچھا ادھر ٹوکیو، اوساکا کے مرد کیا کرتے ہیں؟

ایمی مہ جبین کو بتانے لگی کہ” ہمارے مرد بہت ٹھنڈے ہیں۔ ایک تو دس بجے سے پہلے رات کو گھر نہیں آتے۔ ویک اینڈ کو اپنے کارپوریٹ مہربانوں کے ساتھ تجارت براستہ تفریح کے فروغ کو نکل پڑتے ہیں۔ ہمارے مرد بہت شرمیلے بھی ہوتے ہیں۔ جاجو جاپان میں وہ واحد مرد ہے جو پبلک مقامات پر میرا ہاتھ بھی پکڑتا ہے اور ایک اآدھ چمی بھی ٹکا دیتا ہے۔ یہ جاپانی مردوں کا وصف حمیدہ نہیں۔ اس شادی میں بچہ ہو جائے تو ہم سوتی بھی علیحدہ ہیں۔ میں اسی لیے بچہ پیدا نہیں کرتی۔ اکیلا کون سوئے۔ جاجو کی صبح تک اگر دونوں ٹانگیں میری گردن پیٹ یا کولہے پر نہ ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس کو مجھ سے پیار نہیں یوں میری زندگی میں ایک رات کم مان لو۔ تم پاکستانی ہو۔ تم جاجو کی بھابھی اور عزیز ہو، تو یہ بات کرتی ہوں ورنہ ایسی باتیں تو ہم عورتیں بھی جاپان میں آپس میں نہیں کرتیں۔

 ہمیں شروع سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ ہمیں رشتہ ازدواج میں ایک دوسرے کو accommodate کرنا ہے۔ تصادم، بحث اور Face-Off  سے ہر قیمت پر گریز کرنا ہے”۔ آپ ہمارے ان جوڑوں کو دیکھو گے جن کی شادی کو اب بیس تیس سال کا عرصہ ہونے کو ہے تو یہ بات سمجھ آئے گی۔ ان جوڑوں نے بہت جلدی ایک ایسا روز مرہ کا معمول بنا لیا تھا جس میں دونوں کے لئے ایک دوسرے کے مقابل آن کر تصادم سے بچنا فطرت ثانیہ بن گیا تھا۔

مہ جبین نے پوچھا کہ” ایسی شادی کا کیا فائدہ۔ جس میں دسمبر کے مہنیے کے آتے آتے پلنگ کی چولیں ڈھیلی نہ پڑجائیں؟”۔ وہ کہنے لگی کہ ہمارے چالیس فیصد مرد باقاعدہ قسم کے کنوارے ہوتے ہیں۔ ” شادی ہمارے ہاں ایک بہت گہرا اور مضبوط بندھن ہے۔ خالی تن سے تن کا ملن نہیں”۔ بھابھی مہ جبین نے جب پوچھا کہ” میاں بیوی کی سیکس تو حلال ہے اور اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ “یہ سن کر وجود الہی سے منکر ایمی کہنے لگی ہم وجود کے تو قائل ہیں مگر اصرار وجود کو نہیں مانتے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس دولت تو ہو مگر دکھاوا گھٹیا مانا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قدیم لمحے سے رواں وقت کا رشتہ گہرا ہے۔ یہ سب ثقافت اور مزاج کا بہت پیچیدہ گہرا ایک موڈ ہوتا ہے۔ اسے ہم جاپانی میں” فیونکی” کہتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی تہ در تہ کیفیت ہے اس لے اس کا ادراک ایک غیر زبان اور ماحول میں بہت مشکل ہے۔ عوامی مقامات کی ایک تقدیس اور اہتمام تکلف ہوتا ہے۔ چوما چاٹی اور دھینگا مستی سے “فیونکی” متاثر ہوتی ہے۔

ہماری بیگم سے کراچی یونیورسٹی کی کچھی کمیونٹی کی مہ جبین، جس نے اردو اورانگریزی دونوں میں ایم اے کیا ہے، گلہ کیا کہ ایمی سالی سے بات کرو تو دس میں ایک جواب دیتی ہے اور پھر جانے کدھر کی بات بیچ میں ڈال کے انسان کے دماغ کی فیونکی شارٹ سرکٹ کر دیتی ہے۔

یہاں امریکہ میں ہم نے جواد سے پوچھا کہ ایمی کی اس بات کا کیا مطلب تھا؟۔ کہنے لگا” ان کےہاں شادی بہت پریکٹکل اور زندگی کا لازمی جز ہے۔ محبت وغیرہ جیسے فضول الفاظ اور جذبات شادی سے پرے رکھتے ہیں۔ سن پچاس میں تو طلاق کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ سیاحت اور بیرونی تعلیم کے چکر میں باہر کے اثرات غالب ہوئے تو ہر تیسری شادی طلاق پر ختم ہونے لگی تھی اب یہ ریٹ یوں گر گیا ہے کہ جاپانی شادیاں کم کر رہے ہیں۔

جاپانی عام حالات میں بھی ایک دوسرے کی بہت عزت اور احترام کرتے ہیں مگر شادی تو اس کا انت ہے۔ اس ادارے میں پتہ چلتا ہے کہ جاپانی سماج کتنا مہذب رکھ رکھائو والا، پر تکلف اور لیے دیے رہنے والا معاشرہ ہے۔ ان میں خود داری ، انا اور قومی وقار بھی بہت ہے۔ مختلف لیول کی شناخت اور اس سے تعلق کا تفاخر بھی بہت ہے۔ بڑے سے بڑے سانحے اور حادثے میں ہر جاپانی کو اس بات کا شعور اور لحاظ رہتا ہے کہ اس کی معاشرتی ذمہ داری کیا ہے۔ سوسائٹی اس سے کس بات کی توقع رکھتی ہے۔

ہم نے جاجو سے پوچھ لیا کہ ڈاک کے پتے کے علاوہ بھی وہاں شادی میں کوئی بات مشترک ہوتی ہے۔ وہ بتانے لگا کہ اس ازدواجی بے لطفی کی وجہ سے جاپان میں شادیاں کم ہو رہی ہیں۔ بچے بھی بہت کم پیدا ہورہے ہیں۔ اس وقت جاپان میں ایک قومی بحران ہے۔ مرد دیر سے شادی کر رہے ہیں اور بچہ پیدا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ سرکار نے سہولتوں کا ایک انبار لگا دیا ہے مگر مجال ہے کہ کسی کی طبیعت ادھر آتی ہو۔ ہزار افراد پر بمشکل سات بچوں کی اوسط بن رہی ہے۔ ہماری 14 سال سے کم عمر کی آبادی کل آبادی کا تیرہ فیصد کے قریب ہے۔ ہم نے جب اسے بتایا کہ جس زمانے میں ہم اعداد و شمار کے دھتی تھے۔ پاکستان میں ایک گھنٹے میں چھ سو بچے پیدا ہوتے تھے۔ اسے اگر سہولیات کا بنیادی یونٹ مان لیں تو ہر ایک گھنٹے بعد پاکستان کو ایک اسکول ،ایک چھوٹا ہسپتال اور سو گھر درکار ہیں۔ پانی خوارک دیگر انفرسڑکچر اس سے سوا۔

جاجو کہنے لگا اس وقت جاپان میں معاشرے کا ایک بڑا طبقہ مانو ایک تہائی ایسا ہے جو”super-aging گروپ “ہے۔ اب بات یوں بن رہی ہے کہ تیرہ فیصد چودہ سال سے کم عمر کے بچے اور تینتیس فیصد بوڑھے ان چھیالیس فیصد کا خرچہ سرکار پر آن پڑا ہے۔ جاپانی باہر سے تارکین وطن کو بلا کر اپنی مملکت اور ثقافت کے مخصوص مزاج کو برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی طرح برباد نہیں کرنا چاہتے۔ یہاں اب لیبر فورس کا فقدان ہو چلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آٹومیشن اور روبوٹس پر کام جاپان میں ہوتا ہے۔ ان کی سرکار نے اس کا ایک ماسٹر پلان Society 0.5 تاکہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت کو فیونکی اور ثقافتی ماحول کو سہارا ملے۔

ہمارے سوال کے جواب میں ایمی کہنے لگی “روبوٹس کا ایک مسئلہ ہے۔ وہ سیدھے سادھے میکنکل کام تو سرانجام دے سکتے ہیں مگر جہاں فیصلہ یا بدلتی ہوئی صورتحال میں تخمینے لگا کر میکنکل پروسس کو سرانجام دینا ہو وہاں روبوٹس ناکام ہیں۔ روبوٹس گو کار انڈسٹری میں تو سن ستر سے موجود ہیں مگر ایک اعلی خدمات کو سر انجام دینے والا روبوٹ اسی لیول کے انسان سے بہت مہنگا پڑتا ہے۔

باتیں بہت ہیں۔ موقع ملا تو جاجو اور ایمی سے گفتگو کے کچھ اور نکات قلمبند کریں گے۔ ویسے اگر آپ کا دل و دماغ اب بھی جاپانی مرد عورت کے تعلقات میں الجھا ہے تو دنیا کی مشہور اینکر سی این این کی کرسٹینا امان پور نے محبت اور سیکس نام کی ایک کمال سیریز سی این این کے لیے ملکوں ملکوں گھوم کر بنائی ہے وہ ضرور دیکھئیے گا۔ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے کہ دنیا میں مرد و زن کے آپس کے تعلقات میں کیا کیا نئی زمینیں نکالی گئی ہیں۔ فہرست میں پاکستان کا نام نہ پا کر آپ یقیناً دل مسوس کر رہ جائیں گے کیوں کہ فیصل آباد، گھوٹکی، صوابی اور چمن میں بھی ایسی بہت سی خواتین ہیں جنہیں مدتوں سے مرد کا سچا پیار نہیں ملا۔ اللہ ان کی مشکلات آسان کرے اور پاکستان مردوں کو دستیاب خواتین سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے۔ آمین

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 98 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan