کیا ہم اپنے بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں؟


میری ایک کینیڈین مریضہ جینیفر جب پچھلے ہفتے مجھ سے ملنے آئیں تو وہ بہت اداس تھیں۔ کہنے لگیں میری دس سالہ بیٹی کیرن مجھ سے دس دن سے ناراض ہے۔ میں نے جینیفر سے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں کہ کیرن کہتی ہے کہ آپ ساری عمر مجھ سے جھوٹ بولتی رہی ہیں۔ آپ جب ہر سال مجھے کرسمس کے موقع پر تحفے دیتی تھیں تو کہتی تھیں کہ وہ تحفے میرے لیے سانتا کلاز لے کر آیا ہے۔ اب مجھے پتہ چل گیا ہے کہ سانتا کلاز ایک بہت بڑا جھوٹ ہے، بہت بڑا ڈرامہ ہے، بہت بڑا فراڈ ہے۔ اب میں سوچتی ہوں کہ اگر آپ نے میرے ساتھ سانتا کلاز کے بارے میں جھوٹ بولا ہے تو نجانے اور کتنی باتوں میں جھوٹ بولا ہوگا۔

میں نے جینیفر سے پوچھا کہ وہ اس مسئلے کو کیسے حل کریں گی تو وہ کہنے لگیں کہ کیرن کے والد ڈیوڈ نے مشورہ دیا ہے کہ ہم دونوں ماں باپ کیرن سے معافی مانگیں اور اسے سمجھائیں کہ سب کرسچن ماں باپ بچوں کو خوش کرنے کے سانتا کلاز کا ڈرامہ کرتے ہیں اور اسے یہ بھی بتائیں کہ سانتا کلاز در حقیقت محبت پیار اور سخاوت کا استعارہ ہے۔

میں ایسے کرسچن ماں باپ سے بھی مل چکا ہوں جنہوں نے اپنے نوجوان بچوں کو بتایا کہ خدا کوئی لمبی سفید داڑھی والا بابا نہیں ہے جو ساتویں آسمان پر براجمان ہے بلکہ وہ بھی سانتا کلاز کی طرح محبت پیار اور سخاوت کا استعارہ ہے اسی لیے وہ اپنے بچوں کے لیے ماں کی طرح مہربان ہوتا ہے۔

جب بچے جوان ہو جاتے ہیں تو وہ گھر میں اپنے والدین کو ہی نہیں سکول میں اپنے اساتذہ کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔

کیرن کی کہانی سنکر مجھے جوناتھن کی کہانی یاد آ گئی۔ وہ جب دسویں جماعت کا طالب علم تھا تو اس نے اپنے سکول میں عیسائیت کی کلاس لی جسے ایک پادری پڑھاتا تھا۔ جب پادری نے اپنی کلاس میں سب بچوں کو عیسیٰ کے احترام میں کھڑا ہونے کو کہا تو جوناتھن بیٹھا رہا۔ اس نے استاد کو بتایا کہ اس نے عیسائیت کی کلاس مذہبی حوالے سے نہیں تاریخ کے حوالے سے لی ہے وہ عیسیٰ کو ایک مذہبی اور سیاسی رہنما سمجھتا ہے کوئی پیغمبر یا خدا کا بیٹا نہیں سمجھتا۔

وہ استاد جوناتھن سے اتنا ناراض ہوا کہ اسے بے ادب اور گستاخ قرار دے کر کلاس سے نکال دیا۔ جوناتھن نے جب اپنے روشن خیال والدین کو یہ کہانی سنائی تو انہوں نے میڈیا سے رجوع کیا۔ میڈیا نے جب یہ کہانی کینیڈا کے نیشنل ٹی وی پر دکھائی تو اس سکول کے پرنسپل نے جوناتھن اور اس کے والدین سے معافی مانگی اور اس بات کا اقرار کیا کہ یہ جوناتھن کا انسانی حق ہے کہ وہ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانے یا ایک مذہبی اور سیاسی رہنما۔

جب میرے مذہبی دوست میری رائے پوچھتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ نوجوانی میں جب میں نے مختلف مذاہب کی آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا تو مجھے علامہ محمد اقبال کی کتاب
RECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHT IN ISLAM
کے چھ لیکچر پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ علامہ اقبال سے میں نے یہ سیکھا کہ آسمانی صحیفوں کو پڑھنے کے دو طریقے ہیں۔

پہلے طریقے میں ان صحیفوں کے لغوی معنی لیے جاتے ہیں۔ لغوی معنوں میں آدم اور حوا دو انسان بن جاتے ہیں جنہیں شجر ممنوعہ سے کچھ کھانے کی پاداش میں جنت سے دیس نکالا دے کر زمین پر بھیجا گیا تھا۔ اسی طرح جنت دوزخ دو جگہیں بن جاتی ہے۔

دوسرے طریقے میں ان صحیفوں کے استعاراتی معنی لیے جاتے ہیں۔ اقبال نے فرمایا
HELL AND HEAVEN ARE STATES NOT PLACES

جنت اور دوزخ جگہوں کا نہیں کیفیتوں کا نام ہے۔ اقبال نے یہ بھی فرمایا کہ آدم اور حوا کی کہانی دو انسانوں کی نہیں ہر مرد اور عورت کی استعاراتی کہانی ہے۔

بعض انسان دوست فلاسفروں کا خیال ہے کہ ہر آسمانی مذہب کے پیروکاروں میں بہت سی مذہبی جنگیں اس لیے ہوتی آئی ہیں کہ بعض مذہب کے بنیاد پرست پیروکار صحیفوں کو لغوی معنی پہناتے ہیں اور بعض لبرل پیروکار استعاراتی معنی۔

ماہرین لسانیات کا ایک گروہ جو
HERMANEUTICS
کے فلسفے پر عمل کرتا ہے یہ کہتا ہے کہ کسی بھی تحریر چاہے وہ شاعری ہو یا نثر، آسمانی صحیفہ ہو یا زمینی کتاب۔ ۔ ۔ اس کا اپنا کوئی مستقل اور مقرر معنی نہیں ہوتا۔ ہر انسان، ہر فرقہ، ہر قوم اور ہر عہد اس تحریر کو اپنی سمجھ بوجھ اور علم کے مطابق معنی پہناتا ہے۔ اس لیے ہر تحریر کے اتنے ہی معنی ہوتے ہیں جتنے انسان۔

جہاں تک گھروں اور اسکولوں میں عقائد اور مذہبی تعلیم کی روایت کا تعلق ہے اس کے بارے میں انسانی حقوق کے ماہرین کہتے ہیں کہ آج سے پچاس برس بعد بچوں کو کسی عقیدے پر اندھا ایمان لانے کی کوشش کرنا ان کے انسانی حقوق کے خلاف سمجھا جائے گا۔ اس دور میں سب بچوں کو انسان دوستی کی اخلاقیات سکھائی جائے گی اور انہیں انسانی تاریخ کی کلاس میں سب آسمانی مذاہب پڑھائے جائیں گے اور انہیں موقع دیا جائے گا کہ وہ جوان ہو کر فیصلہ کریں کہ انہیں مذہب کو ماننا بھی ہے یا نہیں اور اگر ماننا ہے تو کس مذہب کو۔ اس طرح وہ موروثی مذہب پر عمل کرنے کی بجائے زندگی کے کسی مذہب یا فلسفے پر سوچ سمجھ کر اور غور و خوض کرنے کے بعد اپنائیں گے۔ اس طرح وہ اپنی نظریاتی زندگی کی ایک عاقل و بالغ انسان ہونے کے ناتے پوری ذمہ داری لیں گے۔
یہ وہ مقام ہوگا جب ماں باپ اور اساتذہ کو اپنے بچوں سے کسی روایتی جھوٹ کے بولنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail