عسکری صاحب کے بارے میں چند باتیں


ایک صاحب نے لکھا ہے کہ عسکری صاحب مستند نمائندوں کی بات کرتے ہیں لیکن اسلام میں دین کا علم حاصل کرنا، قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا ہر آدمی کا حق ہے، بلکہ دنیا و آخرت میں فلاح کے لیے ایک حد تک فرض ہے۔ جہاں تک تفسیر و تعبیر کا تعلق ہے اس کا حقدار ہر وہ شخص ہو سکتا ہے جو اس کی استعداد بہم پہنچا لے۔ اب اگر یہ اصول صحیح ہے تو ہر شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام و قرآن سے جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہی حق ہے اور اس کے علاوہ میں کسی کو سند نہیں مانتا۔

لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ مذہب کی تفہیم ایک انفرادی اور موضوعی چیز بن کے رہ جائے گی اور اس کا کوئی معروضی معیار باقی نہیں رہے گا۔ اگر تفسیر و تعبیر کے لیے صرف استعداد کافی ہو گی اور روایت سلف کا لحاظ نہیں رکھا جائے گاتو تفسیر بالرائے کا دروازہ کھل جائے گا اور جس کے جو منہ میں آئے گا، کہنے لگے گا جیسا کہ ہم سر سید سے غلام احمد پرویز تک دیکھ رہے ہیں۔ ان صاحب نے انفرادی حق کا جو اصول بیان کیا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پروٹسٹنٹ دینیات کا بنیادی اصول ہے اور ساری گمراہیوں کی جڑ ہے۔ یہ صاحب صرف اس لیے اس عقیدے کی ترویج کر رہے ہیں کہ خود غیر مقلد ہیں اور اسی لیے جمہور کی متفقہ رائے سے گمراہ ہیں۔

عسکری صاحب کا زبانی روایت کا اصول لوگوں کو اتنا ناگوار گزرا کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اس اصول کو تسلیم نہ کرنے سے مختلف مذاہب میں کتنے بڑے فتنے پیدا ہو چکے ہیں جو ان مذاہب کی جڑ ہی اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب لکھتے ہیں کہ جہاں تک موجودہ تورات کی تحریری اور زبانی روایت کا تعلق ہے وہ دونوں منقطع ہیں اور کسی روایت کی سند حضرت موسیٰؑ تک نہیں پہنچتی۔ اب سوال یہ ہے کہ جب تحریری اور زبانی دونوں روایت منقطع ہیں تو پھر دین کی بنیاد کس چیز پر قائم ہے۔

حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں یہی اصول کیا رنگ دکھاتا ہے وہ ان الفاظ میں دیکھیے۔ عیسائیت کا دار و مدار اناجیل اربعہ اور رسولوں کے خطوط و اعمال پر ہے۔ ان چاروں انجیلوں کے مصنف نہ توحضرت عیسیٰؑ کے حواریوں میں سے ہیں اور نہ واقعات کے عینی شاہد۔ ان انجیلوں کا زمانۂ تصنیف حضرت عیسیٰؑ کے بعد ستر سے ایک سو چالیس کا ہے۔ گویا اگر تحریری ثبوت کو واحد ثبوت مان لیا جائے تو دین عیسائیت کل ایک سرے سے غائب ہو گیا ہے۔

یہ صاحب زرتشتی مذہب کے بارے میں لکھتے ہیں وہ اوستا کو اپنی مقدس کتاب قرار دیتے ہیں جبکہ محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ ایک جعلی کتاب ہے۔ اور اس کا زرتشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ تحریری ثبوت کو واحد ثبوت قرار دینے سے تمام مذاہب نہ صرف اپنی جگہ سے کھسک جاتے ہیں بلکہ ان کی بنیاد ہی ایک سرے سے منہدم ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں نے تحریری اصول کو تحقیقی اصول قرار دیا ان کا مقصد ہی اس طرح تمام مذاہب کو مشتبہ کرکے پیش کرنا تھا۔

ایک جگہ عسکری صاحب نے لکھا ہے کہ مستند شارحین کے اصول کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے لوگ امام کے قول کو نہیں مانتے اور قرآن کی سند مانگتے ہیں۔ ہمارے بعض تجدید (تجدد) پسند ذہنوں کو اس سے بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔ انہوں نے کہا لیجیے اب عسکری صاحب قرآن سے سند مانگنے کو بھی گمراہی قرار دینے لگے۔ حالانکہ عسکری صاحب کا منشاء جو کچھ تھا اس کو آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ شراب قطعاً حرام ہے۔

اور اس کا جزو قلیل بھی اور جزو کثیر بھی۔ اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے یعنی امام نے یہی بیان کیا ہے۔ لیکن سند مانگنے والے پوچھتے ہیں کہ قرآن سے ثابت کرو کہ شراب کو کہاں حرام کیا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن میں شراب کے لیے حرام کا لفظ نہیں آیا۔ اس لیے عسکری صاحب کا منشاء یہ تھا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے تو پانچ نمازیں بھی ثابت نہیں ہیں۔ جن لوگوں کی ایسے مسائل پر نظر ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن سے سند حاصل کرنے کا فتنہ عہد جدید میں کیا معنی رکھتا ہے اور کس طرح دین اسلام میں بدترین تحریفات کرنے والوں نے اس اصول کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے۔

عسکری صاحب کے تصور روایت کے بارے میں ایک صاحب نے جو کسی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ایک انتہائی بنیادی، اہم بلکہ اہم ترین سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکری صاحب کے تصور روایت میں ایک ایسی الجھن ہے جس کی وجہ سے بعض ایسے لوگ بھی ان کی بات کو ماننے میں تامل کرتے ہیں جو ان کی ذہانت، علمیت اور دینداری کے قائل ہیں اور ان کے خیالات سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں۔ وہ الجھن کیا ہے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے صاحب موصوف نے خط میں مجھے لکھا ہے کہ عسکری صاحب کے جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ تمام سچے مذاہب توحید پر مبنی ہیں اور ان کا منبع اور سرچشمہ ایک ہے۔

اس سے کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خالق کائنات ہی سارے سچے مذاہب کا خالق ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اسلام کے سوا اور تمام مذاہب اور ان کی شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ وہ ایک زمانے میں حق پر تھے۔ لیکن اس کے بعد ان میں خرابیاں پیدا ہوئیں، کتابوں میں تحریف ہوئی اور عقائد بگڑ گئے۔ یہاں تک کہ توحید بھی باقی نہ رہی اورخدا نے یکے بعد دیگرے متعدد مذہب بھیجنے کے بعد بالآخر ایک کامل اکمل دین کو نازل کیا جو خدا کا آخری دین ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔ اور اب اس دین کے سوا اور کوئی دین خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں۔

صاحب موصوف کا کہنا ہے کہ اس عقیدے کے ساتھ مسلمان جب عسکری کو ہندی، چینی اور مسیحی روایتوں کی بات کرتے دیکھتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عسکری اور رینے گینوں ان سب روایتوں کے برحق ہونے کے قائل ہیں تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح عسکری صاحب مسلمانوں کے بنیادی عقیدے سے ہٹ نہیں جاتے اور تمام کی تمام روایتوں اور مذاہب کو سچا مان لیتے ہیں۔ یہی وہ شبہ ہے جس کا اظہار لوگ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ عسکری وحدت ادیان کے قائل تھے اور اسلام کی مخصوص و منفرد حیثیت کے قائل نہیں تھے۔ صاحب موصوف نے پوچھا ہے کہ اس ضمن میں میری رائے کیا ہے؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8