عسکری صاحب کے بارے میں چند باتیں


وحدت الوجود نہ عسکری کا شخصی نظریہ ہے اور نہ ان کا ایجادکردہ ہے۔ نہ کوئی ایسی نئی بات ہے جو معترضین کو آج معلوم ہوئی ہو۔ دنیائے اسلام کے اکابرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ دور کیوں جائیے ہندوستان میں دیکھئے۔ تصوف کے بہت سے سلسلے ہیں جن میں چشتی سلسلے کی اکثریت ہے۔ اس سلسلہ کے تمام لوگ وحدت الوجو دکو مانتے ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی، حاجی امداداللہ مہاجر مکی، یہ سب وحدت الوجود کو ماننے والے ہیں۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے بڑا عالم برصغیر نے اور کون سا پیدا کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ جو امام عرب و عجم کہلاتے ہیں، یہ بھی وحدت الوجود کو ماننے والے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش سے لے کر حضرت پیر مہر علی شاہ تک اکابر صوفیاء کا سلسلہ ہے جو وحدت الوجود کو مانتا ہے۔ ان سب کے آگے بیچارے عسکری کی کیا حیثیت ہے۔ معترضین اتنی بڑی اکثریت اور اتنی قابل احترام شخصیتوں کا احترام نہیں کرتے تو عسکری کو کیا بخشیں گے۔ لیکن بہر حال ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عسکری پر اعتراض عسکری کی ذات پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی اکثریت کے ایک مسلمہ عقیدے پر ہے۔

وحدت الوجود کا عقیدہ کیا ہے اور اس کی اسلامی اور قرآنی بنیاد کیا ہے تبصروں میں اس پر بحث ممکن نہیں۔ ایک ایسا عقیدہ جس کے شارحین میں مولانا روم اور مولانا جامی جیسے جید بزرگ شامل ہوں اور جن کی ایک ایک بات بڑے بڑے دفاتر پر بھی بھاری ہو۔ اسے اخباری نوعیت کے مضامین میں گھسیٹ کر لانے کی مجھ میں تو ہمت نہیں۔ یہ جرأت تو ان لوگوں کو مبارک ہو جو مولانا مودودی یا پرویز کی ایک کتاب پر بھاگتے ہیں اور علمی مباحث کرنے لگتے ہیں۔

توحید ایک انتہائی دقیق مسئلہ ہے جس پر ایمان لانے کا حکم تو عام ہے لیکن اس کی معرفت صرف خواص کو حاصل ہوتی ہے۔ توحید کو مانتے تو سب ہی ہیں لیکن توحید پر گفتگو کرنا ہر ایک کا کام نہیں۔ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کی دوچار آیات ادھر ادھر سے اٹھا لیں اور حکم لگا دیں۔ چھوٹی سے چھوٹی بات میں اتنے مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے بھول جاتے ہیں۔ جب بات کرنے والے کی ان سب مسائل پر نظر ہو تو وحدت الوجود پر بات کریں۔ مثال کے طور پر پہلے لفظ توحید ہی کو لے لیجیے۔ اس کے کیا معنی ہیں۔ لغت میں ہے کہ توحید کہتے ہیں کثیر کو واحد بنانے کو یعنی کثرت کو وحدت بنانے کو۔ یعنی لفظ توحید میں وحدت الوجود کا مفہوم چھپا ہوا ہے۔

ہم نے کہا کہ توحید ایک دقیق مسئلہ ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اس میں دو قسم کی آیات ہیں۔ ایک وہ جنہیں محکمات کہتا ہے اور دوسری کو متشابہات کہتا ہے۔ عام لوگوں کو حکم [ہے کہ] وہ متشابہات کے پیچھے نہ پڑیں۔ جس سے کچھ لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ متشابہات پر گفتگو ہی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو ان آیات کا نازل کرنا ہی نعوذ باللہ فعل عبث بن جاتا ہے۔ اس لیے صحیح مسلک یہی ہے کہ یہ آیات راسخین فی العلم کے لیے ہیں۔

اور محکمات کے مقابلے پر ان کی حیثیت ایک ایسے کلام کی ہے جس کی ابلاغی سطح عام سطح سے بہت مختلف ہو۔ خدا کی ذات و صفات کے مسائل اور ذات باری کے وجود کے، نبوت کے مباحث انہیں آیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ابلاغ کی مختلف سطحیں ملتی ہیں اور ایک ایسے کلام کے لیے جو پوری انسانیت کے لیے ہو اور رہتی دنیا تک ہر زمانے کے لیے یکساں طور پر ہدایت ہو، اس کے لیے ایسا ہونا لازمی تھا کہ وہ مختلف صلاحیتوں، استعدادوں کے لوگوں کو ان کے علم، ان کی عقل اور ان کے زمانے کے مطابق مطمئن کر سکے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ایک بدو اور عام آدمی کی سطح کی بات بھی موجود ہے اور ایک ایسی بات بھی جس لیے غزالی اور رومی کا ذہن چاہیے۔ قرآن حکیم میں توحید کے دقائق و حقائق ساری نزاکتوں کے ساتھ بیان ہو گئے ہیں اور وحدت الوجود پر گفتگو کرتے ہوئے ان سب کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

یہ درست ہے کہ وحدت الوجود کی مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسے لوگ خوب [کذا] گزرے ہیں جنہوں نے وحدت الوجود پر اعتراض کیے ہیں۔ مثلاً علامہ ابن تیمیہ ان میں سے ایک ہیں انہوں نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی تکفیر تک کی ہے۔ لیکن علامہ صاحب کا معاملہ یہ ہے تکفیر سے تو وہ بھی نہیں بچے۔ اس لیے ان کا شمار اہل ظواہر میں ہوتا ہے اور ان کے بہت سے عقائد ایسے ہیں جو سواد اعظم سے مختلف ہیں۔ تاہم علامہ کے علم و فضل میں کسی کو کلام نہیں۔ وہ بے شک علمائے اجل میں سے ہیں۔ لیکن خدا ہمیں معاف کرے وحدت الوجود کے جدید معترضین علم و فہم کے اعتراض (اعتبار) سے اس قابل بھی ہیں کہ توحید وجودی کے کسی ایک مسئلہ کو بھی سمجھ سکیں سوائے علامہ اقبال کے۔

اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مغربی فلسفے کے زیر اثر وحدت الوجود کو اسپینوزا کے پینتھی ازم کے مترادف سمجھتے تھے جو ایک سریانی تصور ہے اور چونکہ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ اسلام تنزیہی تصور پیش کرتا ہے اس لیے وہ وحدت الوجود کواسلام کے منافی سمجھتے تھے۔ تنزیہی تصور کی عدم موجودگی کی غلط فہمی کے باعث علامہ اقبال حلاج کے بھی خلاف تھے اور شیخ اکبر کے بھی۔ لیکن جب انہیں علم ہوا کہ حلاج کے یہاں تنزیہی تصور موجود ہے تو انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔

افسوس شیخ اکبر کے بارے میں ان کی غلط فہمی آخر تک دور نہ ہو سکی اور ان کے بارے میں وہ مستقل ایک انتشار ذہنی کا شکار رہے۔ بہرحال اقبال وحدت الوجود کے مخالفوں میں سب سے اہم شخصیت ہیں۔ اس کے بعد مولانا مودودی اور غلام احمد پرویز بھی قابل ذکر ہیں۔ لیکن یہ دونوں حضرات ایک ایسا ذہن رکھتے ہیں جو سیاسی سماجی مسائل کو تو سمجھتا ہے مگر مابعدالطبیعیاتی مسائل پر غور و فکر کا اہل نہیں۔ کم از کم جہاں تک ان کی تحریروں کا تعلق ہے الٰہیات کے دقیق مسائل پر ان کی تحریروں میں کوئی بحث نہیں ملتی۔

ان کے علاوہ جو حضرات ہیں ان میں سے بیشتر یا تو ان تینوں سے حضرات سے متاثر لوگ ہیں یا پھر مستشرقین کے مارے ہوئے۔ ان بیچاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وحدت الوجود ایک عالمگیر اور آفاقی تصور ہے جس کا کسی فرد سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ وہ مسلمانوں میں اسے محی الدین ابن عربی سے منسوب کرتے ہیں جو ان کے خیال میں فلاطینوس سے مستعار لیا ہے یا پھر اسے کسی ایک مذہب سے منسوب کرتے ہیں۔ جیسے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ویدانت سے آیا ہے۔ اس لیے جن لوگوں کا مبلغ علم یہ ہو کہ وہ وحدت الوجودی فکری بنیاد ہی سے ناواقف ہوں۔ ان پر گفتگو کرنا فضول ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8