عسکری صاحب کے بارے میں چند باتیں


بہرحال وحدت الوجود کے معترضین پر تنقید کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں خود قرآنی علوم کا کوئی عالم ہوں یا توحید وجودی کے حقائق و دقائق کا دعویٰ کرتا ہوں۔ ان مسائل کے بارے میں میرا ذاتی علم صفر کے برابر ہے۔ البتہ ان کے بارے میں بزرگوں سے جو کچھ سنا ہے اس کی بنا پر ایک آدھ مثال ایسی پیش کرتا ہوں جس سے اندازہ ہو سکے کہ الٰہیاتی مباحث میں کیسے کیسے مسائل پیش ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال دیکھئے۔ قرآن حکیم میں خدا کے جو نام بتائے گئے ہیں ان میں اول، آخر، اور باطن و ظاہر بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ظاہر بھی اللہ ہے تو پھر کائنات اور اللہ میں کیا فرق ہے؟ بالفاظ دیگر اللہ اول ہے تو کس چیز کا اول ہے اور آخر ہے تو کس چیز کا۔ ظاہر ہے تو کس چیز کا ظاہر ہے۔ ان سوالات کے جواب آسان نہیں اور ان سے بے شمار مسائل نکلتے ہیں۔ اسی طرح ایک مسئلہ تکوین و تشریع کا ہے۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا فاعل حقیقی خدا ہے۔ یعنی مختلف اعمال مختلف واسطوں سے صادر ہوتے ہیں لیکن ان کی حقیقی علت ارادۂ الٰہی ہوتا ہے۔ اب اس کے معنی یہ ہوئے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے سب خدا کی مرضی اور ارادے سے ہو رہا ہے۔ اس میں کفر و ایمان اور خیر و شر کی کوئی تخصیص نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کفر و ایمان اور خیر و شر دونوں تکوینی طور پر خدا ہی کی مرضی اور ارادے کا نتیجہ ہیں تو ان اور تشریع میں اختلاف کیوں ہے اور ان کی بنا پر جزا اور سزا کا کیا جواز ہے۔

یہی سوال دوسرے لفظوں میں تقدیر کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کلام کرنے کے لیے کسی محی الدین ابن عربی، یا غزالی جیسے شخص کو ہی ہونا چاہیے۔ یہ الٰہیات کے عظیم الشان مسائل میں سے ایک ہے۔ اور وحدت الوجود کے مخالفین اس پر جس طرح گفتگو کر سکتے ہیں اس کا اندازہ تقدیر پر مولانا مودودی کے مقالے کو پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے۔

عقیدہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز محدود اور خدا لامحدود ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ لامحدود الگ ہے اور محدود الگ ہے۔ اگر یہ دونوں الگ ہوں گے تو لامحدود بھی محدود ہو جائے گا۔ کیونکہ محدود اسے اپنی حدود میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ یہ کہنا پڑے گا کہ لامحدود میں محدود شامل ہے۔ اس بات کو سیدھے لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں بتائیے وہاں خدا ہے کہ نہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ وہاں ہیں اور خدا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے وجود نے خود کو خدا کے متوازی رکھ دیا ہے اور آپ نے خدا کو اپنی حد سے باہر رکھ کر محدود کر دیا ہے اور یہ کفر ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ میں بھی موجود ہوں اور خدا بھی موجود ہے تو یہ شرک فی الوجود ہے۔ تو اب صحیح جواب کیا ہے؟ اس طرح کی ہوتی ہیں وجودی بحثیں۔ جو شخص ان مسائل پر بات کرنے کا اہل ہو وہ وحدت الوجود پر گفتگو کرے۔

وحدت الوجود کے مخالفین توحید وجودی پر جو بھی اعتراضات کرتے ہوں لیکن ان کا تصور الٰہی بھی مختلف ادوار میں اعتراضات کا ہدف بنا رہا ہے۔ اور اس کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کا تصور الٰہ ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق خدا انسان کی طرح ایک ہستی ہے جس میں اور انسان میں صرف یہ فرق ہے کہ انسان میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ خدا میں زیادہ بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہیں۔

خدا بھی انسان کی طرح خوش ہوتا ہے، غصہ کرتا ہے، انتقام لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سوالات اور زیادہ پیچیدہ ہو کر زیادہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً اس تصور کے ایک پہلو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے خدا کی نعوذ باللہ تجسیم کا تصور پیدا ہوتا ہے اور تجسیم کا عقیدہ جمہور کے نزدیک کفر ہے۔ دوسری طرف ایک دوسرے پہلو سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عقیدہ تعطیل پر لے آتا ہے اور جمہور کے نزدیک تعطیل بھی کفر ہے۔ مطلب اس بحث کا یہ ہے کہ خدا کا تصورتوحید وجودی کے مخالفین رکھتے ہیں اس میں بھی ہر طرح کے جھگڑے ہیں اور یہ سب بحثیں قرآنی آیات کی روشنی میں اٹھائی جاتی ہیں۔

عام طور پر دین کے بہی خواہ ان بحثوں میں اس لیے نہیں پڑتے کہ اسے مصلحت دین کے خلاف سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی صورت میں جب دین کا درد ناپید ہو گیا ہو اور لوگ اتنے دلیر ہو گئے ہوں کہ غزالی اور رومی تک کو بخشنے کے لیے تیار نہ ہوں اس وقت یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اس کی پوری نزاکتوں سے بیان کیا جائے۔ ہم توحید وجودی پر جب کبھی تفصیلی گفتگو کریں گے تو ان کے مخالفین کے تصور الٰہ پر بھی گفتگو کریں گے۔

ہم نے اب تک جو بحث کی ہے اس سے ہم صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ توحید کا تصور بہت نازک مباحث سے تعلق رکھتا ہے اور علمائے امت کا ایک بہت بڑا گروہ جس میں علمائی، صوفیائی، اولیاء اللہ سب شامل ہیں توحید وجودی کی حمایت کی طرف گیا ہے۔ اور اس کے بارے میں سراسر منفی رویہ رکھنا یا تو کسی ایسے آدمی کا کام ہے جس کو مسائل کی نزاکت کا علم نہ ہو اور جو اس بات سے بالکل ناواقف ہو کہ توحید وجودی کا مسلک ایک ایسے آفاقی مسلک کی حیثیت رکھتا ہے جس سے انحراف کرنے والے خطرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

یا پھر کسی ایسے آدمی کا کام ہے جو دین کے درد سے بالکل خالی ہو اور جسے اپنے زعم باطل کے آگے کسی بھی فضیلت کا احترام محسوس نہ ہوتا ہو۔ بہر حال اب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ بطور ایک آفاقی مسلک کے وحدت الوجود کی حیثیت کیا ہے اور کس طرح یہ مسلک دنیا کے تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ جو لوگ مذاہب کی تاریخ سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں دو مکاتب موجود رہے ہیں۔ ایک مکتب اہل ظواہر سے تعلق رکھتا ہے دوسرا اہل باطن سے۔

اور باطنی روایت ظاہری روایت کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ظاہری روایت عام لوگوں کے لیے ہوتی ہے اور باطنی روایت خاص لوگوں کے لیے۔ عام طور پر باطنی روایت کے لوگ اپنے اسرار و رموز کوعام لوگوں پر ظاہر نہیں کرتے اور انہیں ظاہری روایت پر ہی عمل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ لیکن خاص حلقوں میں باطنی روایت کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عموماً یہ بات بھی تاریخ مذاہب کا حصہ ہے کہ ان دونوں گروہوں میں نزاعی صورت حال بھی موجود رہتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8