ایک خوف کی داستان اور آہوں بھری بازگشت


میں پاکستان کے ایک ریسرچ سنٹر میں گزشتہ کئی سالوں سے بر سر روزگار ہوں اور زندگی کی تین دہائیاں دیکھ چکا ہوں۔ کام کی مصروفیت اور پھر کچھ ذاتی سست روی کی بدولت اب تک صرف ’ہم سب‘ کو پڑھتے رہنے پر اکتفا کیا ہے۔ مگر ایک خوف مجھ میں عرصہ دراز سے سرایت کر چکا ہے جس بارے لکھنا محال ہو گیا تھا۔ اگر یہ خوف میری ذات تک محدود ہوتا تو شاید زیر لب بام ہی رہتا مگر اس کی اصل وسعت معاشرتی ہے تو بیان کرنا سماجی اصلاح کا حصہ سمجھتا ہوں۔

تمہید باندھ کر سیدھا مدعا بیان کرنے سے پہلے اس خوف کی اساس اور نقطہ آغاز بارے کچھ سطریں قلم کرنا ضروری ہے۔ میں نے بچپن میں ماں کو سرکاری ملازمت کرتے دیکھا۔ ہمیں صبح سویرے تیار کروا کر گھر سے وہ ’مرد مومن‘ میلوں دور اندرون شہر کے ایک گمنام سرکاری سکول میں دوپہر کی شفٹ میں ڈیوٹی سر انجام دیتیں اور واپسی پر ہمارے خالی شکموں کو سیر کرنے سے لے کر رات ہمارے سونے تک گھر داری کرتیں۔ میری بہنیں اسی وقت لڑکپن سے جوانی کی دہلیز پار کر رہی تھیں اور میں بطور بیٹا اور بھائی اس ارتقا کو دیکھ رہا تھا۔ ہم نہایت متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن رہن سہن میں ادب و آداب اور علم دوستی شامل تھی۔

کبھی جب ماں باپ کی لڑائی ہوتی تو ہمیشہ ماں کو قصور وار اور بے بس دیکھتا۔ ابا جان کے طاقتور ہاتھوں پر بھی زور نہ چلتا۔ پھر اپنی بہنوں کے تعلیمی سفر کی مشکلات اور شادی بیاہ و سسرال کے مسائل دیکھ کر دل افسردہ رہنے لگا۔ اپنی جوانی جب لہو گرمانے لگی تو باہر کی عورت کے ساتھ دل لگی کرنے لگا۔ مگر چند رفاقتوں کے بعد ایک بات مجھے اندر سے جھنجھوڑنے لگی تھی کہ اب تک عورت کا ہر روپ مجھے شفیق، ہمراز، ہم قدم اور محبت افروز ملا۔

میں نے ہر روپ میں اسے قربانیوں کا پیکر جانا اور اسے فقط مرد کی حفاظت اور توجہ کا ہی طالب پایا۔ اس سوچ نے آہستہ آہستہ مجھے اس معاشرے میں عورت کی سماجی حیثیت اور اس پر ہونے والے ظلم و ستم کو محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔ بہت ڈھونڈنے پر بھی مجھے برائے نام ’بدنام زمانہ‘ عورتیں بھی اپنے اطراف کے ’اچھے مردوں‘ سے بری محسوس نہیں ہوئیں۔ مجھے یوں لگا جیسے بدکردار عورت بھی کسی مرد کی خواہش کی بھینٹ چڑھ کر ہی اس مقام تک پہنچی ہے۔

یوں بدکردار مردوں سے نفرت نہ ہونے کے باعث میری ان عورتوں سے بھی نفرت ختم ہونے لگی۔ میری اپنی بہنوں کو کھڑکی تک میں کھڑا نہ رکھنے کا پابند بنا دیا گیا۔ مجھے ہر راہ چلنے والی عورت عجیب لگنے لگی جیسے اسے گھر کا آرام راس نہیں آیا۔ یہ تمام سوچ کے پیمانے معاشرتی اعتبار سے جائز قرار پائے۔ بچپن میں رات کو اندھیرے میں چلتی ایک لڑکی کو راستے میں اپنے جسم کے اعضا ایک موٹر سائیکل سوار کے ہاتھوں پائمال ہوتے دیکھا تو سی سی پی او لاہور والی سوچ ہی نمودار ہوئی۔

پھر قدرت نے ایک دن آشکار کیا کہ وہ لڑکی کہیں نرس تھی اور عموماً رات کی ڈیوٹی سے واپس لیٹ پہنچتی۔ اس کے گھر میں بوڑھے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا واحد سہارا تھی۔ لیکن عجیب عورت تھی، اپنی عزت اپنے باپ کی مفلسی اور ماں کی دواؤں کے پیچھے قربان کر بیٹھی تھی۔ اور اسی تاریک راستے سے ملحق پارک میں ہر رات ہم عورتوں کے جسم بارے تفصیلی تبصرے بلا خوف و خطر کرتے تھے۔ کاش اس نرس کو ایسا خاوند ملا ہو جو اس کو شہزادی سے بھی خوب اچھا ٹریٹمنٹ دے لیکن افسوس۔

وہ ہے ہی کیا غریب ماں باپ کی نادار بیٹی جو طلاق کے خوف سے اپنی ذات کے لئے کھلی فضا میں زور سے سانس لینا بھی نازیبا حرکت سمجھتی ہو گی۔ آپ فرض کریں کے ابھی وہ نرس غیر شادی شدہ ہے اور آپ اس کو کسی اچھے کولیگ سے قریب ہوتا دیکھ رہے ہیں اس غرض سے کہ زندگی کا بقیہ سفر شاید اس کے ساتھ خوشگوار گزرے اور عہد گزشتہ کی تلخیاں اسے خیر باد کہہ دیں۔ وہ روزانہ چند روپے بچا کر جو لپ اسٹک خریدی تھی اسے اپنے کولیگ کے لئے لگاتی ہے اور پھر بھی اس سے اظہار محبت نہیں کرتی کیونکہ یہ اقدام بہر حال اس کی تربیت کے منافی ہے۔

وہ کولیگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اس سے وعدہ وفا کرتا ہے، اس کے ساتھ چند لمحے تفریح کرتا ہے۔ اس تفریح کے دوران وہ اسے اپنی ذات کی الجھنیں اور اپنے مسائل بتانا چاہ رہی ہوتی ہے لیکن اس کا کولیگ اپنے درد کا درماں کسی اور انداز میں کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ایک دن اسے کھری کھری سناتا ہے کے تمہارا ’کریکٹر ٹھیک نہیں‘ اور وہ بقول پروین شاکر اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ آتی ہے۔ اب یہ فرض کریں کہ شادی اس کی کسی عمر رسیدہ آدمی سے ہو جاتی ہے اور اس پر اپنی شریک حیات کا پرانا معاشقہ کھل جاتا ہے تو وہ کیا اقدام کرے گا۔

یا تو وہ پل بھر میں طلاق یافتہ ہو جائے گی یا اس غلطی کی پاداش میں تاحیات مزید حیوانی سلوک کی حقدار ٹھہرے گی۔ کاش ہم ایسے مرد ہوتے کے ہم عورت کو ایک مضبوط سہارا دے سکتے، اس کے خوابوں کو چکنا چور ہونے سے بچا لیتے، اس کے ٹیڑھے دانت کی وجہ سے اس کا رشتہ نا ٹھکراتے، اسے ماں کے روپ میں محبت کا مجسمہ دیکھ کر خدا کا شکر بجا لاتے۔ لیکن افسوس! ہم نے عورت کے خواب دیکھنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ مجھے خوف ہے کہ تیزاب سے متاثرہ عورتوں کی، زنجیروں میں جکڑی گئی عورتوں کی، ریپ سے متاثرہ عورتوں کی آہیں ہمارے اطراف بازگشت کرتی ہیں۔ مجھے تو اب عورتوں کی سسکیاں سنائی دینے لگی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم باز نہ آئے تو خدا کا عذاب ہمیں تہس نہس کر دے گا۔

عزیز قارئین، اس معاشرے میں اب صرف ایک چیز ہی اچھی بچی ہے اور وہ ہماری باوفا عورتیں ہیں جن کی صدیوں سے بے حرمتی اور ناقدری کر کے ہم عنقریب اس نعمت سے محروم نہ ہو جائیں۔ لہذا میری تمام ہم عصر مردوں سے اپیل ہے کہ آئیے آج سے عزم کرتے ہیں کہ ہم نے انفرادی طور پر عورت کو عزت اور تحفظ دینا ہے اور اس سے معافی مانگنی ہے ان آہوں، سسکیوں اور کمیوں کی جو ہماری بے جا حاکمیت کا نتیجہ ہیں۔ آئیے اب عورت کہ ساتھ جاگ کر جینا سیکھیں ورنہ وہ بازگشت ہمیں پاگل کر دے گی اور ہم مغربی مرد کی طرح وفا اور پر سکون گھر ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔

نوٹ : اس بات میں چنداں شبہ نہیں کہ عصر حاضر میں عورتوں کی بھی ایک خاص کلاس مختلف سماجی علتوں کا شکار ہے جو معاشرے میں رو پذیر ہونے والے برے واقعات میں شریک ہے لیکن سماجی برائیوں کے حجم کے اعتبار سے ابھی بھی اس تعداد کو نہایت ہی معمولی سمجھتا ہوں۔ علاوہ ازیں اس تحریر سے یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ تمام مرد برے ہیں بلکہ اس بات کا ادراک قارئین کو کروانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے اچھے سماجی مستقبل کے لئے پرانی بوسیدہ اور برے رویے ترک کرنا پڑیں گے اور سیکسسٹ کلچر کے فروغ کو بھی روکنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).