ترا باپ بھی دے گا آزادی


سانحہ موٹروے ہواجس کے بعد دل واقعی دکھی ہے اور اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے ’کم ہے۔ پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور پوری دنیا میں پورنو گرافی میں پاکستان جس طرح نمایاں پوزیشن میں آ رہا ہے‘ واقعی ایک غور طلب بات ہے۔ مجھے اس واقعے کے پس منظر اور اس کی جزیات پہ بات اس لیے بھی نہیں کرنی کہ اس پر بہت تفصیل سے لکھا اور دکھایا جا چکا۔ میں اس سارے واقعے کے بعد میڈیا سمیت ان تمام رویوں پر سوچتا رہا جو فنڈڈاین جی اوز ’کارپوریٹ کلچر‘ لبرل جنریشن ’ہیومن رائٹس کا جھنڈا اٹھانے والی نام نہادپاکستانی تنظیموں کی طرف سے سامنے آیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعے سے پاکستانی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا لیکن کیا اس سے قبل ایسے واقعات پیش نہیں آئے اور ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیا پوری دنیا میں ایسے واقعات نہیں ہوتے؟ کیا انڈیا سمیت کئی ممالک ریپ میں پاکستان سے بہت آگے نہیں؟ کیا کبھی ان ممالک میں ایسے نعرے بازی کی گئی جس سے ملکی شناخت کو خطرہ قرار دیا گیا ہو؟ مجھے اس وقت شدید حیرانی ہوتی ہے جب کوئی بھی منفی واقعہ پیش آتا ہے اور ہمارے ایک مخصوص لبرل طبقے کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ ریاست کے خلاف کھل کے لکھیں اور بولیں‘ یعنی آپ محض ان نعروں کو ہی دیکھ لیں جو گزشتہ چند روز سے سانحہ موٹروے کی آڑ میں لاہور ’کراچی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر لگائے گئے اور یہ نعرے لگانے والا وہی طبقہ ہے جس نے تقریباً ایک برس پہلے اپنے پر پرزے نکالے اور پاکستان میں ”میرا جسم، میری مرضی“ کے بیانیے کو فروغ دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا، اس معصوم و مظلوم طبقے کو اپنی شناخت بچانے کا ایک ہی تو موقع ہوتا ہے کہ جب بھی ملک میں کئی برا یا منفی واقعہ پیش آئے‘ اس کو بھرپور اچھالا جائے اور اس کی آڑ میں ملکی شناخت کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی جائے۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا رہا کیونکہ فنڈڈ این جی او زکا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ ملکی بیانیے کو خطرہ قرار دو اور پیسہ کھاؤ۔

لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جو نعرے لگائے گئے ذرا ایک نظر دیکھیں۔

”ترا باپ بھی دے گا آزادی ’ترا بھائی بھی دے گا آزادی‘ ترا پھوپھا بھی دے گا آزادی ’ترا چاچا بھی دے گاآزادی‘ میرا جسم میر مرضی ’میرے کپڑے میری مرضی‘ میری گاڑی میری مراضی“ ۔ سوال یہ ہے کہ سانحہ موٹروے ہوا ’اس کی آڑ میں ہمارا ”دیسی لبرل“ طبقہ یا وہ لڑکیاں جو لباس فرنگی میں ملبوس پاکستان کے تین بڑے شہروں کی سڑکوں پر بھائی اور باپ سے آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں، اگر ”خدا نخواستہ“ کل اس آزادی کے بدلے میں انہیں کسی ایسے ہی واقعے سے دوچار ہونا پڑا تو کیا اس وقت یہ آزادی کا مطالبہ کرتی خواتین اور مرد ریاست کو گالی دیں گے یا ریاستی بیانیے کو؟

کیسی عجیب صورتحال ہے کہ ایک گھناؤنا واقعہ پیش آیا لیکن حقوق نسواں کے نام پر بنائی جانے والی این جی اوز‘ سوشل تنظیموں نے پورے ملک میں اودھم مچا دیا ’ہر طرف ایک ہی بیانیہ زیر بحث لانے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ ”اس ملک میں عورت مظلوم ہے‘ اس ملک میں عورت محفوظ نہیں ’اس ملک میں عورت آزاد نہیں‘ اس ملک کے ادارے کمزور ہیں ’اس ملک کا ہر مرد، نامرد ہے (جیسے نعروں میں کہا گیا)‘ اس ملک میں حقوق نسواں کی بات کرنا گناہ ہے ’وغیرہ وغیرہ۔

میں گزشتہ کئی روز سے یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا ریاست ایسے واقعات چاہتی ہے؟ کیا اس ملک کا ہر مرد ہی بدمعاش‘ لچا اور لفنگا ہے؟ کیا اس واقعے کا سارا ملبہ ریاست اور ریاستی ادارو ں پہ تھوپا جا سکتا ہے؟ اور ایسے ہی کتنے سوالات جن کا جواب لبرل طبقے کے پاس یقیناً موجود نہیں ہوگا اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ باپ ’بھائی‘ پھوپھا ’شوہر سے آزادی مانگنے والیاں اس وقت چیختی کیوں ہے جب اس آزادی کا ثمر ملتا ہے‘ ایسی آزادی کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔

میڈیا نے جس طرح پچھلے تین روز ایک ہی بات کی کہ ”بچوں کے سامنے ماں سے زیادتی“ ، احتجاج کرنے والوں کا ایک ہی نعرہ کہ ”عورت کو آزادی دو“ ، نوجوان لڑکیوں کا ایک مطالبہ ”ہمیں اپنی مرضی کا لباس پہننے دو“ ، بندہ کہاں جائے اور کس کس بات پہ ماتم کرے۔ کیا ہمیں اتنی بھی تمیز نہیں یا ہم اخلاقی طور پر اتنے دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ ہمیں آج تک ایسے واقعات کے بعد اپنے رویے طے کرنا ہی نہیں آئے۔

یقین جانیں کوئی بھی ریاست ’کوئی بھی ریاستی ادارہ‘ کوئی بھی ریاستی بیانیہ ’کوئی بھی‘ باپ ’بھائی‘ شوہر ’چچا‘ پھوپھا اورکوئی بھی ملک ایسا نہیں چاہتا کہ اس کے ملک میں اس طرح کے واقعات پیش آئیں اور اگر کوئی چاہتا ہے تو میں اسے انسان ہی نہیں سمجھتا مگر ایسے واقعات کے بعد نکریں ’ٹی شرٹ یا بلائزر پہن کر سڑکوں پر نکل آنا ییا ”میرا جسم میری مرضٰ“ کے نعرے لگانے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ میرا نہیں خیال ممکن ہے، ہاں ایسے احتجاج اور ا ایسے بے ہودہ نعرے دشمن لابیوں اور دشمن ممالک کے بیانیوں کو ضرورفروغ دیتے ہیں۔

میرے سمیت ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ دنیا میں پاکستان ان چند ممالک میں آتا ہے جہاں عورت کی عزت اور جان و مال بہت حد تک محفوظ ہے‘ اکا دکا ذہنی مریضوں کی جانب سے ہونے والے واقعات سے ملکی شناخت پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی ریاست اور ریاستی اداروں کو گالی دی جا سکتی ہے۔ اس وقت جہاں سانحہ موٹروے یا دیگر زیادتی کے کیسز کی روک تھام کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ’وہاں ایسی این جی اوز اور ہیومن رائٹس کے نام پر بنائی جانے والی فنڈڈٖ اور مغربی تنظیموں کو بھی کنٹرول کرنا ضروری ہے کیونکہ میرا ذاتی نقطہ نظر ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے بھی اکثر اوقات ایسی ہی نام نہاد تنظیمیں اور این جی اوز ہوتی ہیں جن کا مقصد ملک میں کوئی نہ کوئی تماشا بنوانا اور ریاست کو کمزور دکھانا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).