ملک میں کیا جنسی ہراسانی کے واقعات کم ہوں گے۔


پھر ایک اور بنت حوا زیادتی کا شکار ہو گئی۔ موٹر وے پر مشکل میں پھنسی ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وحشیانہ اقدام سے متاثرہ خاتون اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ گئی ہے، وہ اور اس کے بچے کتنے بڑے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے۔ انصاف ملنا تو دور کی بات ہے ان کے اور ان کے خاندان کی ہنستی بستی زندگی پتہ نہیں کب نارمل ہو گی بھی کہ نہیں۔

ہماری یاداشت بہت ہی کمزور ہے۔ جب بھی کوئی ایسا واقع ظہور پذیر ہوتا ہے تو پرنٹ۔ سوشل اور ٹی وی میڈیہ ہر جگہ پر ایک دم شور مچ جاتا ہے۔ چند دن سب اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔ اخباروں میں کالم چھپتے ہیں، ٹی وی پر مذاکرے ہوتے ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ لیکن اس واقعے پر کوئی ٹھوس اقدام نہ تو حکومت اٹھاتی ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ۔ قانون بنانے والے ہمارے معزز ممبران اسمبلی تو پانچ سال تک یا گلیوں، نالیوں اور ٹرانسفارمروں کی سیاست میں الجھے رہتے ہیں یا پھر اپنی جماعت کے سربراہوں کی خدمت اوران کی مدح سرائی میں مصروف رہتے ہیں۔ قانون سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے۔

دوسری طرف یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہماری اخلاقی قدریں اس وقت انتہائی زوال کا شکار ہیں۔ ہمارا معاشرہ تنزلی کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم عزت، رواداری اور ادب وآداب کو چھوڑ کر صرف دولت شہرت اور اقتدار کے پجاری بنتے جا رہے ہیں۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے ہم کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔

پچھلے چند سالوں سے عورتوں کی بے حرمتی۔ معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے کتنے ہی واقعات ہوئے ہیں، بلکہ دن بدن ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان گزرے سالوں میں ان جرائم کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا ہے۔ اگر کوئی بنا بھی ہے تو اس میں بہت سے زیادہ جھول ہیں۔ ہماری عدالتوں میں جنسی زیادتی کا شکار خواتین اور بچوں کو فوری انصاف تو کیا ملے گا الٹا وہ پولیس اور عدالتوں کے رویوں سے دلبرداشتہ ہو کر چپ ہو جاتی ہیں۔

ان میں سے کچھ تو پاگل ہو جاتی ہیں یا پھر وہ موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔ ان کا سارا خاندان نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے واقعات میں سب سے برا رویہ ہماری پولیس کاہوتا ہے۔ پولیس کی تفتیش کا طریقہ کارانتہائی بے ہودہ اور پرانا ہے۔ وہ جنسی ہراسانی اور زیادتی کے کیسوں میں ظلم کے شکار افراد خاص کر خواتین کو اور زیادہ ہراساں کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ہاں انصاف کا عمل اتنا لمبا اور پیچیدہ ہے۔ اور ایسے واقعات میں انصاف ملنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ لوگ تھک ہار کر چپ ہو جاتے ہیں اور اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ چند سالوں سے میڈیہ کے شور مچانے پر کچھ شنوائی ہونا شروع ہوئی لیکن اس میں ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی گنجائش موچود ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ہم اپنے بچوں کی کیسی تربیت کر رہے ہیں کیونکہ زیادتی کرنے والے بھی اسی معاشرے کے فرد ہیں۔ ان کی بھی اپنی بڑی، چھوٹی بہنیں ہوتی ہیں اور معصوم بھائی ان کے گھروں میں بھی ہوتے ہیں۔ کیا دوسروں کے ساتھ زیادتی کرتے وقت وہ ان کو نظر نہیں آتے۔ ہمارے ٹی وی کے مختلف چینلز پر پچھلے کچھ سالوں سے عورتوں پر تشدد عام دکھایا جا رہا ہے اس کے معاشرے پرکیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے، کیاکسی کو کوئی اندازہ ہے۔

ڈراموں میں چالیس چالیس قسطوں تک برائی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ آخری قسط میں دکھائی گئی اچھائی اور عبرت کسی کو نظر ہی نہیں آتی۔ کسی زمانے میں ہمارے ٹی وی ڈرامے کتنے سبق آموز ہوتے تھے لیکن اب ان میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں کسی نے کبھی نہیں سوچا۔ سعودی عرب میں چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر ہے اور اس پر عمل درامد بھی کرایا جاتا ہے اس لئے وہاں چوری چکاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کریں اور اس سے ملنے والی سزاؤں پر بروقت اور بلا تخصیص عمل درامد کو یقینی بنائیں۔ اگر ایسے واقعات پر جلد کارروائی کر کے مجرموں کو سخت سزائیں نے دی گئیں تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور خدشہ ہے کہ پھر لوگ اپنے مجرموں کو خود سزا دینے لگیں گے۔ جرم کی جب سزا ملنے لگے تو لوگ جرم کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

اس پر مجھے آج سے چند سال پہلے بینک کی ٹریننگ کے دوران ایک کرنل صاحب کا سنایا ہوا ایسا ہی ایک واقعہ یاد آ گیا۔ انہی کی زبانی سنئے۔ 1979 ء میں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران گوجرانوالہ میں ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔ ایک دن میں چھٹی کر کے اپنے آفس سے نکل رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت میری گاڑی کے سامنے آ گئی اور رو رو کر کچھ بولنے لگ گئی۔ گیٹ والے اسے گھسیٹ کر لے جانے لگے۔ تو میں نے گاڑی سے اتر کر انھیں منع کیا اور خود دفتر میں واپس آکر اپنے پی اے کو بلایا اور اس عورت کو دفتر میں لانے کو کہا۔ وہ اس عورت کو لے کر دفترآیا تو وہ بوڑھی خاتون فوراً میرے پاؤں میں آ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اسے اٹھا کر کرسی پر بٹھایا۔ غریبی اور زمانے کی سختی جھیلنے کی جھلک اس کے چہرے پر صاف دکھائی رہی تھی۔ میں نے اس سے کام پوچھا تو وہ رونے لگی۔ میرے دلاسا دینے اور مدد کرنے کی یقین دہانی کرانے پر اس نے بتایا کہ بیوہ ہے اور کینٹ کے قریبی گاؤں میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی ہے۔ کرسچن ہے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک ہی بیٹی ہے جو کہ مقامی ہسپتال میں نرس ہے۔

چار ما ہ پہلے ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کی بیٹی کو گاؤں کے چوہدری کے بیٹے نے اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ اٹھا لیا اور کھیتوں میں لے جا کراس سے سب نے جنسی زیادتی کی۔ پولیس نے رشوت لے کر سب کو چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ دوبارہ اسے اٹھانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ خاتون پھررونے لگی۔ میں نے خاتون کو چپ کرایا، دلاسا دیا اور ضروری کارروائی کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ اسی وقت اپنے پی اے کو بلا کر خاتون کی طرف سے ایک درخواست لکھوائی اور اگلے دن متعلقہ تھانے دار کو بھلا بھیجا۔

اگلے دن صبح صبح ہی حواس باختہ تھانے دار حاضر ہوگیا۔ میں نے ایک کیپٹن کو کیس کی مکمل معلومات لینے کو کہا۔ پتہ چلا کہ واقعی پولیس کے پاس یہ کیس آیا تھا اور اس نے کارروائی بھی کی تھی لیکن چوہدری کو علاقہ کی بہت بڑی سیاسی شخصیت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ تھانے دار نے بھی صرف فارمیلٹی پوری کی تھی۔ اور لڑکی کی میڈیکل رپورٹ میں زیادتی ثابت نہ ہونے کی بنا پر لڑکوں کو بری کر دیا تھا۔ ہم نے متعلقہ لیڈی ڈاکٹر کو شامل تفتیش کیا تو وہ مارشل لا دفتر میں آتے ہی ڈر سے رونے لگی۔

اس نے کہاکہ لڑکی کنواری نہیں تھی اس لئے اس نے اسی سیاسی شخصیت کے دباؤ پر غلط رپورٹ دی تھی۔ حالانکہ اصل رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق ہو گئی تھی۔ تمام شواہد اکٹھے کر کے چاروں لڑکوں کو گرفتار کیا گیا اور فوجی عدالت میں ان پرمقدمہ چلایا گیا۔ بیس دن کی سماعت کے بعد جرم ثابت ہونے پر عدالت نے سب کو پچیس پچیس سال قید اور تیس تیس کوڑوں کی سزا سنائی۔ اگلے ہی جمعہ کے روز چاروں مجرموں کو کوڑوں کی سزا پرعمل درامد بھی کر دیا گیا۔ ایسے واقعات میں پولیس کی تفتیش اور عدالتوں کا کرداربہت ہی اہم ہے۔ اگر یہ دونوں صحیح ہو جایں اور مجرموں کو فوری سزا ملے اور ان سزاؤں پر فوری عمل درامد بھی ہو تو حالات سدھر سکتے ہیں۔

سینکڑوں ایسے کیس ہیں جن میں مجرم شہادتیں نہ ہونے پر بچ نکلتے ہیں۔ مجرموں کے خوف اور عدالتوں میں کیسوں کی بے جا طوالت سے بچنے کے لئے لوگ گواہی دینے سے کتراتے ہیں۔ ایسے جرائم کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات کے لئے علیحدہ سے فوری انصاف کی عدالتیں بنائی جائیں جس کی سزاؤں پر فوری عملدرامد بھی کرایا جائے۔ امریکہ۔ یورپ۔ برطانیہ اور بہت سے ایشیائی ممالک میں ایسے جرائم پر سخت سزاؤں کے قانون ہیں اس لئے وہاں ایسے جرائم بہت ہی کم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).