ناصر کاظمی کا انتخاب انیسؔ: ایک تعارف


(1)

ایک دن پاپا نے کہا کہ میر انیسؔ کے کچھ شعر پڑھ کے توایسا لگتا ہے جیسے امام حسین ؑ نے اسے خواب میں آ کے لکھوائے ہوں۔ اس وقت انہوں نے جو شعر سنائے وہ بہت عرصہ مجھے یاد رہے۔ کاش میں انہیں نوٹ کر لیتا۔ پاپا انیسؔ کے ایک مرثیے کا مصرع، اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے، اور ایک سلام کا یہ شعراکثر پڑھا کرتے تھے:

در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے

سر جہاں رکھتے ہیں سب ہم واں قدم رکھتے نہیں

 ایک اور موقع پر انہوں نے پوچھا: ’’یونانی المیے اور کربلا کے المیے میں بنیادی فرق کیا ہے؟‘‘ جب میں کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکا تو انہوں نے کہا کہ یونانی المیے کا ہیرو اپنی تقدیر کے خلاف لڑتا ہے لیکن اسے بدل نہیں سکتا جبکہ کربلا کا ہیروخود اپنی تقدیر کا انتخاب کرتا ہے۔ قدیم یونانی فلسفے کے مطابق جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے اور کتاب تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ میرا امتحان لینے کی غرض سے ایک دن پاپا نے یہ مصرع پڑھا: اکلیل سر عرش معظم ہے محمدؐ، اور اکلیل کے معنی پوچھے جو مجھے معلوم نہیں تھے۔

انتقال (2 مارچ 197 سے تین ہفتے قبل لاہور ٹی وی کے لیے انتظار حسین کو انٹرویو دیتے ہوئے پاپا نے کہا کہ ’’طبیعت موزوں تھی، گھر کا ماحول بھی شعر وشاعری کا تھا۔ گھر میں ہمارے میر انیسؔ پڑھا جاتا تھا۔ نانا میرے موسیقی کا شوق رکھتے تھے۔ ۔ ۔ بچپن میں ہم نے شیخ سعدی پڑھا، فردوسی پڑھا۔ ۔ ۔ قرآن حکیم۔ پورا لحن جو تھا وہ شعر کی طرف تھا۔ ‘‘ یہ انٹر ویو ہمیں ایک سپول (spool) کی شکل میں مہیا کیا گیا اور اسے ہم جب موقع ملتا سنتے۔ پھراسے کاغذ پہ اتارا اور شائع بھی کرایا۔

انتظار حسین اور ناصر کاظمی کی ایک گفتگو ’نیا اسم‘ کے عنوان سے ’نیا دور‘ ( شمارہ 7-8 ) میں شائع ہوئی۔ ایک جگہ ناصر کہتے ہیں: ’’فن کی ایک صنف دوسری اصناف سے بے تعلق نہیں رہ سکتی۔ میں نے تصویریں دیکھنے سے پہلے How to look at a picture? کے قسم کے نسخے نہیں پڑھے۔ تصویریں دیکھنا مجھے انیسؔ نے سکھایا۔ ع نکلے خیمے سے جو لے کر علی اصغرؑ کو حسین ؑ۔ مرثیہ شروع ہوتے ہی سننے والا کربلا کے میدان میں پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘ کچھ دیر پہلے انتظار حسین نے کہا تھا: ’’انیسؔ کے یہاں امام حسین ؑکی پیاس امام حسین ؑ ہی کی پیاس ہے یا اپنے بنجر اور بے آب دور کا بھی اسم ہے؟ انیسؔ اور غالبؔ دونوں صحرائے کربلا میں کھڑے تھے مگر ان کے سینے کے اندر بہتی ہوئی نہر فرات خشک نہیں ہوئی تھی۔ ‘‘

 ’ماہ نو‘ کراچی ( مارچ 1955ئ) میں شائع ہوئی انتظار اور ناصر کی ایک اور گفتگو، ’افسانہ نگار کی تلاش‘ میں، ادب میں پرندوں پہ بات کرتے ہوئے انتظار نے کہا: ’’ویسے دبیرؔ کا بھی ایک مصرع سن لو، ع کبوتر غرق خوں دیوار صغرا پر جو آ بیٹھا۔ ہے تو یہ عمر بھر کی بات لیکن کبوتر کا کربلا سے مدینے تک کا طویل سفراور اس سفر کے پس منظر میں جو المیہ موجود ہے اس کی پوری داستان اس لمحے میں سما جاتی ہے۔ ۔ ۔ ایسے افسانے انیسؔ کے یہاں جا بجا ملتے ہیں۔ اس کے سلام کا ایک شعر ہے: محرم کا جو دیکھا چاند روئی فاطمہ صغرا / پکاری ان دنوں لوگو مرے بابا وطن میں تھے۔ یہاں بھی ایک لمحے ہی کو گرفت میں لایا گیا ہے لیکن یہ ایک لمحہ کتنی کہانیاں سنا رہا ہے۔ ۔ ۔ اس فقرے (دوسرے مصرعے) کے ساتھ کون کون سی تصویریں ابھرتی ہیں۔ مدینے کی گزری ہوئی رونق، ایک بھرے گھر کی چہل پہل، مدینے کی اور جان مدینہ کے گھر کی موجودہ ویرانی۔ ایک پورے گھرانے کا سفر غربت اور اس سفر سے وابستہ بربادی کی داستان۔ ۔ ۔ ایک اور شعر آتا ہے: لگایا حرملہ نے تیر جب اصغر کی گردن پر / بہت روئے جو تیر انداز کامل اپنے فن کے تھے۔ ۔ ۔ ہنر مندوں کا پورا طبقہ حرملہ کے کمال فن پر بیک وقت داد بھی دیتا ہے اور فریاد بھی کرتا ہے۔ ‘‘ ناصر کہتے ہیں: ’’اور انیسؔ کا وہ مصرع، آ کر گرے جزیروں میں جنگل کے جانور۔ موسم، فضا، زمین، پرندے، ان کی براقی، ان کی گھبراہٹ، فضا میں ان کی اڑان سے بنتی ہوئی قوسیں، سب کچھ ایک مصرع میں پیش کیا گیا ہے۔ تو یوں آیا کرتے ہیں ادب میں پرندے۔ ‘‘

مذکورہ بالا پس منظرکے پیش نظر مجھے یہ دیکھ کے بہت حیرت ہوئی کہ ’سویرا‘ (17-18 ) میں شیخ صلاح الدین، انتظار حسین، حنیف رامے اور ناصر کے مابین شائع ہوئی بات چیت، ’خوشبو کی ہجرت‘ میں، جس کے تعارف میں شیخ صاحب نے لکھا کہ یہ ’’اردو اور اردو کے عظیم شاعروں پر مکالمہ‘‘ تھا، انیسؔ کا نام تک نہیں لیا گیا اور تمام گفتگو میرؔ، نظیرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے حوالے سے ہوئی (یہ تینوں مکالمے اور مذکورہ انٹرویو ناصر کی نثر کی کتاب، ’خشک چشمے کے کنارے‘ میں شامل ہیں)۔ شیخ صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ناصر اور انتظار انیسؔ کا ذکر کر سکتے تھے، انہیں کسی نے روکا تو نہیں تھا۔ میں لاجواب تو ہو گیا لیکن میری تسلی نہیں ہوئی۔ ایک خیال یہ آیاکہ چونکہ یہ مکالمہ شائع ہونا تھا لہذا ناصر اور انتظار نے سوچا ہو گا کہ اگرا نہوں نے انیسؔ کا ذکر کرنے میں ابتدا کی تو شاید یہ سمجھا جائے کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ ان کا تعلق شیعہ گھرانوں سے ہے اور شیخ صاحب اور رامے صاحب یہ سوچتے رہے کہ ناصر اور انتظار انیسؔ کے کلام سے زیادہ آگاہ ہیں لہذا اس پہ بات کا آغاز وہ کریں۔ لیکن اس خیال سے بھی میرا اطمینان نہیں ہوا۔ پتا نہیں کیوں یہ معاملہ میرے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ پاپا کا انیسؔ پہ کوئی مضمون یا ڈائری کا کوئی ورق تو کیا، کوئی ریڈیو فیچر بھی نہیں ملا، جیسے دیگر متعدد کلاسیکی شاعروں پر ملے۔ البتہ ان کی ایک الماری میں نول کشور پریس کی چھپی ہوئی، بڑے سائز کی، ’مراثی میر انیس‘ کی پہلی چار جلدیں موجود تھیں۔ ان میں پاپا نے مختلف مرثیوں کے تقریباً پانچ سو بندوں، سلام کے متعدد اشعار اور چند رباعیوںپر پسندیدگی کے نشان لگا رکھے تھے۔

مجھے یہ تو یقین تھا کہ پاپا کے خیال میں انیسؔ ایک بڑا شاعر تھا لیکن، جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسے کتنا بڑا اور کیسا شاعر سمجھتے تھے۔ مذکورہ چار جلدوں میں ان کے لگائے ہوئے نشانات نے میری جستجو کے لیے ایک دروازہ کھول دیا۔ ظاہر ہے کہ اب مجھے کلام انیس کا، اور جو کچھ اکابرین نے اس کے بارے میں کہہ رکھا تھا، اس کا باقاعدہ مطالعہ کرنا تھا۔ اس پروجیکٹ کے لیے ایک عمر درکار تھی، سو مجھے جب جب موقع ملتا مطالعہ کرتا۔ زمانہ طالب علمی میں انیسؔ و دبیرؔ سے میری شناسائی ان کے چند مراثی اور مولانا محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ میں ان کے تذکرے تک محدود تھی۔ مولانا شبلی نعمانی کی ’موازنہ انیس و دبیر ‘ کا ذکر سننے میں آتا اور اس کے کچھ اقتباس ادھر ادھر نظر سے گزرتے رہے۔ اب جو میں نے متعلقہ مواد حاصل کرنا شروع کیا تو شیخ صلاح الدین سے سید مسعود حسن رضوی ادیب کا کیا ہوا انیسؔ کا انتخاب ’روح انیس‘ (طبع دوم، کتاب نگر، لکھنئو، 1956) حاصل کیا اور عبد العزیز خالد صاحب نے مراثی انیسؔ کی جلد ششم (بک لینڈ کراچی، 1961ء) عنایت کی۔

(2)

ڈاکٹر احراز نقوی نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’انیس، ؔ ایک مطالعہ‘ (1988ء ) میں میر انیسؔ پر ان کی وفات کے بعد ایک سوسال کے دوران میںکیے جانے والے کام کا جائزہ لیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’انیس کا یہ المیہ ہے کہ اس پر تنقیدی اور تحقیقی نوعیت کا کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا‘‘ اور ان سے ’’اہل قلم نے بری طرح بے اعتنائی برتی۔ ۔ ۔ اور اسی طرح مرثیے کی صنف سے بھی بڑی بے رحمانہ بے توجہی برتی گئی۔ ‘‘ نقوی صاحب نے انیسؔ پر کیے گئے کام کو چار شعبوں میں تقسیم کیا ہے: تذکرے، تاریخیں، عقیدت مندوں کی کتابیں اور معاندانہ تحریریں۔ وہ سات تذکروں، آٹھ تاریخوں اور پانچ تحقیقی کتابوں پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تذکرے انیسؔ کی زندگی، غزلیہ اور رثائی شاعری پر بڑی تشنہ معلومات فراہم کرتے ہیںجن سے کوئی بہت اضافہ ہمارے علم میں نہیں ہوتا۔ تاریخوں میں ’آب حیات‘ ایک ایسی تاریخ ہے جس میں انیسؔ کی زندگی کے تفصیلی حالات کسی حد تک مل جاتے ہیں لیکن حالات کے تسلسل میں قدم قدم پر خلا، تشنگی اور الجھن کا سامنا ہونا ہے اور بعض جگہوں پر معیار اعتبار بھی مشکوک ہوتا ہے۔ ’آب حیات‘ ہی کے جمع کردہ مواد کا تصرف بعد کی تمام تاریخوں میں ملتا ہے؛ کوئی اضافہ پھر کسی اور تاریخ میں نظر نہیں آتا۔ ‘‘ محققین سے بھی نقوی صاحب مطمئن نہیں۔ کوئی شبلی کے’ موازنہ انیس و دبیر‘ اور حالی کے مقدمے سے آگے نہیں بڑھا، کسی کے پاس تحقیق و تنقید کا شعور نہیں تھا اور کسی نے بخل سے کام لیا۔ انیسؔ پر ان کے عقیدت مندوں کی تین سوانحی کتابوں کے بارے میں نقوی صاحب کا کہنا ہے کہ مواد کے اعتبار سے یہ نامکمل ہیں۔ یہاں تقریظ اور تحسین کے انداز کو سبک اور حقیر بنا دیا گیاہے۔ تنقیدی شعور کے انحراف سے معیار کو صدمہ پہنچا ہے۔ انیسؔ جن نئے موضوعات اور گوشوں کا مطالبہ کرتا تھا اس سے بھی یہ تینوں حضرات دور رہے۔

 نقوی صاحب کے مطابق مولانا شبلی نعمانی نے فارسی عربی ادبیات کے علاوہ مذہبی علوم اور مناظرے سے اصول تنقید کے پیمانے وضع کیے تھے اور جہاں تک مقتدرت ہوئی مغرب کے کچھ مبادیات کو بھی رہنما بنایا مگر زیادہ تر ان کا تنقیدی نصاب ذوق اور وجدان سے تعلق رکھتا ہے۔ ادب شناسی کے لیے فقط شے لطیف اور مذاق سلیم کے وہ داعی ہیں۔ اس معیار سے پر خلوص استواری کے ساتھ ایک عالم اور مناظرے باز مولوی کی طرح انیسؔ پر کتاب مکمل کی ہے۔ مولانا حالی اپنے نصاب تنقید میں شبلی سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ انیسؔ پر ایک عرصے تک جو کچھ لکھا گیا اس میں ان دونوںبزرگوں کے خیالات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

نقوی صاحب کے خیال میں معاندانہ تنقید میں ڈاکٹر احسن فاروقی کا نام سرخیلوں میں ہے۔ انہوں نے جدید علم اور مغربی اصولی تنقید کے سیاق و سباق میں مرثیے کو سمجھنے اور سمجھانے کے اصول وضع کیے مگر علمی خلوص اور ضبط و تحمل سے کام نہیں لیا۔ اپنے موقف کو شفقت اور ہمدردی سے پیش کرنے کی بجائے قارئین میں انگیخت اور اشتعالک پیدا کرنا شروع کر دی۔ ان کا طریق کار بڑا متشددانہ، جانب دارانہ تھا۔ بے شک بعض نکتے خاصے چونکا دینے والے تھے مگر انہیں بڑے لعن طعن کے انداز میں پیش کیا گیا۔ چنانچہ، خود فاروقی صاحب کے بقول، ہر شیعہ گھر میں ان پر تبرّا ہونے لگا۔ انہیں قاتل انیسؔ کا خطاب دیا گیا، گالیوں کے خطوط لکھے گئے اور ہر قسم کی ردیں لکھی گئیں۔ اثر لکھنوی نے انیسؔ کی حمایت میں مغربی اورمشرقی تنقیدکے اصولوں کو بھی مد نظر رکھا اور ایک خاص طبقے کے عقائد کی وکالت بھی کی۔ بہت سے مقامات پر وہ حق بجانب معلوم ہوتے ہیں مگر بعض جگہوں پر بے جا ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا اور متعصبانہ روئیے کے تحت فاروقی صاحب کے اٹھائے گئے بعض نئے سوالات کی، جن سے انیسؔ کے فن کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی، بڑی جانب داری سے مٹی پلید کی۔ نقوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ آخر کار ڈاکٹر احسن فاروقی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے دیانت داری سے اس کتاب کو اپنے تخلیقی سرمائے سے مسترد کر دیا اور کفارے کے طور پر انیسؔ کے فکروفن پر بڑے معرکے کے سنجیدہ اور جامع مضامین لکھے جن سے انیسؔ پر تنقید کے نئے در وا ہوتے ہیں۔

 یونیورسٹیوں میں جو تحقیقی سطح پر کام ہوا وہ نقوی صاحب کی دانست میں معیار کے اعتبار سے ناقابل ذکر ہے، البتہ ڈاکٹر شارب ردولوی کا مقالہ ’مراثی انیسؔ میں ڈرامائی عنصر‘ موضوع کا حق ادا نہ کر نے کے باوجود بعض نئے پہلوئوں کو سامنے لاتا ہے۔ انیسؔ پرمضامین کا سرمایہ بھی بہت کم ہے۔ انیسؔ کی صد سالہ برسی کے موقع پر چار پانچ بڑے جامع اور پرمغز مضامین لکھے گئے لیکن بیشتر ناقدین نے اپنی روایتی خاموشی کا مظاہرہ کیا۔

 یہ مقدمہ ڈاکٹر احراز نقوی نے اکتوبر 1974ء میں تحریر کیا جبکہ کتاب 1988ء میں شائع ہوئی۔ کلام انیسؔ اور مرثیے کی صنف پر اس کتاب میں معتبر لکھنے والوں کے چوبیس سیر حاصل مضامین ہیں۔ آغاز میں بشیر احمد چوہدری کے شذرہء ناشر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب نے مضامین لکھنے کے لیے اہل قلم کا انتخاب کرنے کے بعد ان سے لکھنے کی فرمائش کی لیکن جب مضامین موصول ہوئے تو زندگی نے انہیں ان کا مطالعہ کرنے کی مہلت نہ دی۔ اگر وہ ایسا کر پاتے تو شاید یہ نہ کہتے کہ اہل قلم نے انیسؔ کے ساتھ بری طرح بے اعتنائی برتی یا اپنی روایتی خاموشی کا مظاہرہ کیا۔

(3)

میر انیس کی وفات کے سو برس بعد، شمس الرحمان فاروقی کہتے ہیں کہ ’’ موازنے (شبلی کے موازنہ انیسؔ و دبیرؔ) کے بعد، جسے لکھے ہوئے آج کوئی ستر برس ہو رہے ہیں، میر انیسؔ پر ایک بھی قابل ذکر کتاب نہ لکھی گئی۔ ‘‘ انیسؔ کے دو سو سالہ یوم ولادت کی ایک تقریب کے لیے لکھی گئی تحریر، ’ انیسؔ . . . . . اپنے نقاد کے انتظار میں‘، میں انتظار حسین نے کہا کہ ’’میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کو نقادوں کی جتنی توجہ میسر آئی انیسؔ کو کیوں نہ آسکی حالانکہ بھلے نقادوں نے یہ تو مانا ہے کہ اپنی صنف میں اس شاعر کا بھی کم و بیش اتنا ہی قد ہے جتنامیرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کا ہے۔ اگر کسی کو یہ ماننے میں تامل ہے تو چلیے اس کے قد کو تھوڑا کم تصور کر لیجئے۔ ۔ ۔ تحقیقی اعتبار سے تو شاید انیس پر اچھی خاصی توجہ صرف کی گئی ہے۔ ۔ ۔ زیادہ تر مضامین ہی لکھے گئے ہیں، ان مرثیوں کے سارے پہلوئوں کو احاطہ کر کے ایک مفصل تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہو ایسا کام کم ہوا ہے۔ ‘‘ انتظار حسین کے خیال میں ’’انیسؔ کو محض اردو شاعری کی روایت کی حدود میں رہ کر سمجھا نہیں جا سکتا۔ یہ شاعر اپنی زبان کی شعری روایت کی حدود توڑ کر تھوڑا آگے نکل گیا ہے۔ اس کے ہاں دو ایسی اصناف گلے ملتی نظر آتی ہیں جن سے اردو شاعری اس سے پہلے آشنا نہیں تھی، یعنی رزمیہ اور ڈرامہ۔ ۔ ۔ یہاں تواردو کی شعری روایت سے آگے نکل کر قدیم ہند کی رزمیائوں، یونان کی رزمیائوں، و نیز یونانی المیہ ڈراموں سے رجوع کرنا ہو گا۔ اس وسیع تناظر میں رکھ کر ہی انیس کے مرثیے کی صحیح جانچ پرکھ ہو سکتی ہے اور یہ کام نئی تنقیدی بصیرت ہی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انیس کو اپنی صحیح تفہیم کے لیے ایک نیا نقاد درکار ہے۔ ‘‘ انتظار کی اس تحریر کے بارہ برس بعد ڈاکٹر انیس اشفاق نے لکھا: ’’شبلی کے قائم کیے ہوئے تنقیحات اور ان کی وضاحتیں ہمارے لیے پوری طرح قابل قبول نہیں ہیں کہ بیانیے کی نئی تعبیرات نے انیس کے ہمہ سمت شعری بیانیے میں نئے جہات و جوانب پیدا کر دیے ہیں۔ اس لیے انیس کو مکرر سمجھنے کے لیے ہمیں ایک نئی اور شبلی سے کہیں بہتر شعریات کی ضرورت ہے۔‘‘

یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ انتظار حسین کے مطلوبہ نقاد کی آمد کا کب اور کتنا امکان ہے ان اسباب پر غور کرنا مفید ہو گا جو نقادوں کی اب تک انیسؔ سے بے توجہگی کا باعث بنتے رہے۔ دو اسباب کی طرف تو انتظار حسین کی اسی تحریر میں اشارہ موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’انیس کی صورت ایک ڈرامہ نگار پیدا ہوا تھا جو تہذیبی مجبوریوں کی وجہ سے مرثیہ نگار بن گیا۔ اس کے پاس جو موضوع تھا اسے ڈرامے کی صورت پیش کرنے کی گنجائش ایران کی محرم کی روایت میں ہو تو ہو، بر صغیر کی محرمی روایت اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انیسؔ کے لیے ڈرامے کو ذریعہء اظہار بنانا ممکن بھی ہوتا اور وہ اس میں کسب کمال کرتے تو اس صورت میں بھی وہ نقادوں کی توجہ سے محروم رہتے کیونکہ انتظار حسین ہی کے بقول، ’’اردو نقادوں کے سارے تنقیدی شغف کو غزل چاٹ گئی، باقی دوسری اصناف منہ دیکھتی رہ گئیں۔ ‘‘ کچھ اور اصحاب کی دانست میں انیسؔ کا فطری میلان غزل کی طرف تھا۔ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز عمدہ غزلیں کہنے سے کیا لیکن ان کے والد نے انہیں مرثیہ گوئی کی طرف راغب کیا، اور بقول عاصی رامپوری، ’’زیادہ تر ثواب کی خاطراور پھر ذریعہ ء معاش بنانے کے لیے (5)۔ ‘‘ انتظار حسین نقادوں کے انیس کی طرف سے بے اعتنائی برتنے کی دوسری وجہ ان کی عمومی سہل پسندی قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’مرثیے کے سلسلے میں تو جیسے نقادوں نے طے کر لیا ہے کہ ہمیں مولانا شبلی کے کہے پر اعتبار ہے۔ پھر مرثیے کے دفتروں میں سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

میرے خیال میں شبلی کے ’موازنے‘ نے نقادوں کا کام آسان کرنے سے زیادہ مرثیے اور انیسؔ کی تفہیم و تنقید کو یہ نقصان پہنچایا ہے کہ اس کے بعد اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کی بیشتر توانائیاں دبیرؔ کے دفاع میںاور انیسؔ پر تنقید پر صرف ہونے لگیں۔ اس ’معرکے‘ میں جانے کتنے باصلاحیت نقاد ہوں گے جو بن کھلے کمہلا گئے۔ ’موازنے‘ سے اردو تنقید میں ہدف تنقید پر طنز اور اس کی تضحیک کرنے کے رحجان کو بھی فروغ ملا۔ بہت سی تنقیدی تحریروں میں مناظرے کے مناظر نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ نقاد کا بنیادی مقصدکسی کو نیچا دکھانا اور خود کو برتر ثابت کرنا ہے۔ بے شک تنقید تو نقاد کا کام ہے لیکن اس کا لب و لہجہ اور الفاظ کا استعمال ایسا ہونا چاہیے کہ توجہ لکھنے والے کی دلیل پر جائے اور وہ جانبدار یا متعصب نہ لگے۔ شبلی کے انداز تحریر کی اس خصوصیت کے بارے میں ڈاکٹر انیس اشفاق نے حسین رضوی کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے :

’’شبلی نے دبیر سوزی کے اس عمل میں جابجا توہین آمیز اور اشتعال انگیز لہجہ اختیار کیا جس نے دبیر پرستوں کی آزردگی کو طیش میں بدل دیا۔ ایسے جملوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے شبلی نہیں بلکہ الف یا جیم بول رہے ہیں (میں نے یہاں ان نقادوں کے نام نہیں دیے تاکہ توجہ موضوع سے ہٹ نہ جائے۔ ب س ک )۔ یہ فقرے ملاحظہ ہوں: (1) کس قدر بھدے الفاظ اور بھدی ترکیبیں ہیں۔ ( ہاتھ میں پہننے کی انگوٹھی پر سورج کا نگینہ جڑنا کس قدر لغو بات ہے۔ (3) اظہار کے لیے مرزا صاحب نے جو طریقہ استعمال کیا ہے وہ کس قدر سفیہانہ اور عامیانہ ہے۔ ۔ ۔ نہایت پست اور مبتذل خیال ہے۔ (4) کس قدر بیہودہ تشبیہہ ہے۔ ‘‘

شبلی کا دبیر کے ساتھ سلوک ایک طرف، انہوں نے انیسؔ کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا۔ کہیں تو ان کے کلام کی اتنی تعریف کی کہ بعض اوقات مبالغہ محسوس ہوتا ہے اور کہیں ایسی شدید تنقید کہ اس پر تنقیص کا گمان ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نیر مسعود لکھتے ہیں: ’’موازنے کی جوابی کتابوں میں کہیں کہیں اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ شبلی کو انیس و دبیر دونوں سے عناد ہے، اسی لیے انہوں نے انیس کی آڑ لے کر دبیر کی بد گوئی کی، پھر انیس پر اعتراضات کر کے ان کو بھی دبیر کی صف میں لے آئے۔ کہیں یہ الزام لگایا گیا کہ وہ دونوں استادوں کے کلام کی خامیاں گنوا کر خود اپنی لیاقت کی نمائش کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

اردو مرثیے کا تجزیہ کرنے والے کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ نقادوں کے اس صنف پہ قلم اٹھانے میں تامل کا ایک سبب اس کا ایک فرقے سے خصوصی تعلق ہے۔ پروفیسر سید احتشام حسین لکھتے ہیں کہ ’’نقادوں نے مراثی کو شیعہ حکومتوں کی سرپرستی یا شیعی خدمت سے منسوب کرکے اس کی ادبی حیثیت کو نظر انداز رکھا۔ ‘‘ کچھ نقادوں نے ان مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں انیسؔ کے عقائد نے ان کے کلام کی اثرپذیری کو محدود کیا۔ مراثی انیسؔکے ایک مرتب، مولانا علی حیدر نظم طباطبائی لکھتے ہیں: ’’چند مرثیے ایسے ایسے واقعات کے نکل آئے جن کا ذکر حضرات اہل سنت و لجماعت کی مجلسوں میںنہیں چاہیے، مثلا، حضرت رسالت و سیّدہ کے حالات وفات و واقعہء شہادت امیرالمومنین و امام حسینؑ کے علاوہ بھی بعض مرثیوں کے رجز میں اس قسم کے مضامین دیکھ کر میں نے چوتھی جلد میں یہ سب مرثیے رکھ دیے ۔ ‘‘

ڈاکٹر محمد عقیل کہتے ہیں: ’’انیس کے سامعین شیعہ، سنی، ہندو اور مسلمان سب تھے۔ مگر وہ بعض موقعوں پر اپنا مخاطب صرف شیعوں تک رکھتے تھے۔ ایسے لوگ جو انیس کو سننے کم آتے تھے، مصائب امام پر رونے زیادہ، جو کردار کے غازی کی زندگی سے سبق نہیں لینے آتے تھے بلکہ ’’من بکا ء علی الحسین‘‘ کے خیال سے جنت حاصل کرنے آتے۔ بیچارے انیس خود بھی اس عقیدے کے ماننے والے تھے۔ جہاں وہ اپنے ’’بین‘‘ میں شیعوں کو رونے کی ترغیب دیتے ہیں وہاں وہ ایک باکمال رزمیہ نگار کی کرسی سے نیچے اتر کر صرف مجلس کے ایک ماتمی ہو جاتے ہیں اور ان کی آواز لکھنئو، نواح لکھنئو اور اکثر صرف امام باڑوں کے اندر گونج کے رہ جاتی ہے۔ ‘‘

یہاں مجھے یہ کہنے کی بھی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ انتظار حسین نے انیس کے نقاد کے لیے جو بے تحاشہ ہوم ورک تجویز کیا ہے اگر کوئی نقاد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اس پر عمر صرف کرنے کا خواشمند بھی ہو تو اسے یہ خدشہ ضرور لاحق ہو گا کہ اس کے عمر بھر کے کام کو ایک فرقے کے عقائد کی پروموشن یا اسے گھٹانے کی کوشش پر محمول کر کے نہ لپیٹ دیا جائے۔ اس کے علاوہ انیسؔو دبیرؔ کے نقادوں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ مرثیوں میں اتنی جلیل القدر ہستیوں کی زندگی اور سیرت کا احوال بیان ہوا ہے کہ ان پر بات کرنا تو کجا، ان پر کی گئی کسی بات پر بات کرنا بھی انتہائی نازک معاملہ ہے۔ ہر قدم پر یہ احتمال رہتا ہے کہ بے ادبی نہ ہو جائے یا سمجھی نہ جائے۔ پھر ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ کسی ڈرامہ نگار، مثلا شیکسپئر کا کوئی کردار کچھ کہے تو کہا جاتا ہے کہ شیکسپئر نے یہ کہا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی مصنف مذہب سے متعلق کسی جلیل القدر شخصیت سے کچھ کہلوائے تو سننے پڑھنے والے اسے اس شخصیت کا قول ماننے لگتے ہیں اور اپنی گفتگو میں حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی روایات کو نظم کرنا، اور بالخصوص جب انہیں عبادت گاہ کے منبر پر بھی پڑھا جانا ہو، بہت احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے، اور مرثیہ نگاراس احتیاط کے دامن کو ہمہ وقت نہیں تھام سکے۔

(4)

انتظار حسین کے اس بیان پر کہ انیسؔ کی صحیح تفہیم کے لیے قدیم ہند اور یونان کی رزمیائوں، و نیز یونانی المیہ ڈراموں سے رجوع کرنا ہو گا، مجھے خیال آ رہا ہے کہ ا س ضمن میں انیسؔپر کچھ کام ہو بھی چکا ہے، لیکن یا تو وہ انتظار صاحب کی نظر سے نہیں گزرا تھا یا وہ اس سے مطمئن نہ تھے۔ گزشتہ صدی میں تیس کی دہائی میں نواب امداد امام عصر نے تلسی داس، ہومر، ڈانٹے اور شیکسپئر سے موازنہ کرتے ہوئے انیسؔکو اردو کا پہلا ڈرامائی شاعر قرار دیا تھا۔ اس دعوے سے اختلاف کرتے ہوئے محمد احسن فاروقی نے چھ مضامین لکھے جو 1938میں ’نگار‘ میں شائع ہوئے۔

سید مسعود حسن رضوی نے کہا کہ’’ انیس کا مرثیہ حقیقت میں ایک خاص طرح کی رزمیہ نظم ہے، جس کی ترکیب میں مرثیت کا عنصر لازمی طور پر موجود ہوتا ہے۔‘‘ خواجہ الطاف حسین حالی کے اس اعتراض پرکہ ’’، مرثیے میں رزم و بزم اور فخر وخود ستائی اور سراپا وغیرہ کو داخل کرنا، لمبی لمبی تمہیدیں اور توطیے باندھنے، گھوڑے اور تلوار وغیرہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں کرنی اور شاعرانہ ہنر دکھانے مرثیے کے موضوع کے بالکل خلاف ہیں‘‘، رضوی صاحب کہتے ہیں کہ ’’بے شک مرثیے میں ان چیزوں کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن رزمیہ نظم میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیئے۔‘‘ رضوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’خواجہ حالی بھی اس حقیقت سے بے خبر نہ تھے۔ شہدائے کربلا کے مرثیوں کی تدریجی ترقی اور اس کے اسباب کا ذکر کرنے کے بعد خود تحریر فرماتے ہیں: یہ ترقی براہ راست مرثیے کی ترقی نہ تھی بلکہ اردو شاعری میں ایک قسم کا ایجاد تھا۔ ‘‘ ڈاکٹر محمد عقیل (1988) نے مراثی انیسؔ کا رامائن، ہومر، ملٹن اور فردوسی سے موازنہ کرتے ہوئے انہیں ایک رزمیہ کے طور پہ دیکھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن نتیجہ یہ نکالا کہ’’افسوس کہ مجلس کے محدود وقت اور اس میں مراثی کی بھی تمام خصوصیات سے عہدہ برآ ہونے کے خیال نے مرثیوں کو ایک طویل بیانیہ نہ ہونے دیا۔ ‘‘ ڈاکٹر سید صفدر حسین (1988) ایپک کی تفصیلی تعریف بیان کرنے اور رامائن، ہومر، ملٹن اور فردوسی کا ذکر کرنے کے بعد تقریباً یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

’’مرثیہ نگار اپنے ماحول کے محدود مطالبات سے مجبور تھے کہ وہ زیادہ وسیع پیمانے پر اپنی نظم کو تشکیل نہ کریں۔ مجلس عزا میں تنگی وقت کا احساس ان کی طول کلامی کے دلوںکو روکنے کے لیے کافی تھا۔ انیس و دبیر دونوں میں طویل ایپک لکھنے کی پوری صلاحیت موجود تھی لیکن چونکہ وہ مجلس عزا کی تنگی وقت سے مجبور تھے، اس لیے امام حسین ؑکے عظیم کارنامے پر کوئی عظیم ایپک تخلیق نہ ہو سکی۔ البتہ بعض طویل مرثیوں نے اس کمی کو کسی حد تک پورا ضرور کیا ہے۔ اس طرح کے جن مرثیوں میں امام حسین ؑکی زندگی کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے ان کی شہادت تک کے بعض اہم واقعات بیان کیے گئے ہیںانہیں ہم ایپک سے زیادہ قریب پاتے ہیں۔ ‘‘

مرثیے میں رزمیہ، حزنیہ، مثنوی اور ڈرامے کے متعدد اوصاف ملتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ ان سب سے مختلف ایک الگ صنف سخن ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہ طے ہو بھی جائے کہ مراثی انیسؔ ایک رزمیہ ہیں، ایک حزنیہ ہیں یا ڈرامائی نظموں پہ مشتمل ایک طویل ڈرامائی نظم ہیںتو اس سے انیسؔ کے شاعرانہ مرتبے کے تعین میں کیا فرق پڑے گا؟ مرثیے کی یہ ہیئت تو متعدد شعرا کے ہاں ملتی ہے۔

(5)

 ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں میں اس طرح مقابلہ نہیں کرایا جاسکتا جیسے کھیلوں میں ہوتا ہے۔ کسی نے ٹرافی جیت لی، کسی نے دوسرا، تیسرا انعام پایا؛ کوئی سب کو ہرا کے چیمپئن بن گیا تو کوئی رنراپ رہا۔ احمد مشتاق صاحب نے ایک بار ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران کہا کہ شاعروں کے قدو قامت کا اندازہ اس طرح نہیںلگانا چاہیئے جیسے پہاڑوں کی بلندی ناپی جاتی ہے کہ ایک بار جانچ لی تو ہمیشہ کے لیے طے ہوگیا کہ کونسا کتنا اونچا ہے۔ شاعروں کا قد بڑھتا گھٹتا رہتا ہے۔ کتنا درست کہا مشتاق صاحب نے۔ وقت کے ساتھ شاعروں کی relevance اور گویا قدر و منزلت بڑھتی گھٹتی رہتی ہے۔ گزشتہ صدی میں تیس اور چالیس کی دہائیوں میں نظم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور غزل کے تنزل کے باعث میر کی اہمیت کم ہو گئی تھی لیکن تقسیم ہند کے وقت اس کی relevance ایک دم بڑھ گئی اور پھر بڑھتی چلی گئی۔ کئی شعرا کا ان کی زندگی میں چار دانگ ڈنکا بجتا رہا لیکن وفات کے بعد وہ بتدریج فراموش کر دیے گئے، یا ان کا ذکر کم ہوتا گیا، جبکہ کچھ شعرا جنہیںان کی زندگی میں بالعموم نظر انداز کیا جاتا رہا، دنیا سے جانے کے بعد زیادہ سراہے گئے۔

شمس الرحمن فاروقی کی نظر میں اردو کے چار عظیم ترین شعرا میرؔ، غالبؔ، انیسؔ اور اقبالؔ ہیں۔ انتظار حسین کہا کرتے تھے کہ اردو شاعری کی روایت میں لفظ ’عظیم‘ صرف تین شاعروں، میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ معروف صحافی محمودالحسن کا کہنا ہے کہ انتظار صاحب نے اپنی بات میں یہ اضافہ بھی کر لیا تھا کہ عظمت کے اس دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں نظیرؔ اور انیسؔ کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے۔ محمود کے بیان کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ ’سویرا‘ میں شائع ہونے والے مکالمے میں (جس کا میں نے آغاز میں ذکر کیا تھا) شیخ صلاح الدین نے نظیرؔ اکبرآبادی کو ’’میرؔ کے بعد، اس سے الگ، دوسرا بڑا شاعر‘‘ قرار دیا تھا۔ انتظار حسین نے بھی نظیرؔ کو بڑا شاعر کہا اور اس کے متعلق ’’اردو کے ثقہ نقادوں کی روش‘‘ سے وہی شکایت کی جو بعد میں انہیں انیسؔ کے نقادوں سے ہوئی۔

 ہم جانتے ہیں کسی شاعر کا تجزیہ کرنے کے ضمن میں دو باتیں سب سے اہم اور بنیادی نوعیت کی حامل ہیں؛ ایک ہیئت اور دوسرے نفس مضمون۔ میں نے ناصرؔ کے منظوم ڈرامے، سر کی چھایا، کے تعارف میں لکھا تھا کہ غالبؔ کا وہ شعر، جس میں اس نے ظرف تنگنائے غزل کے بقدر شوق نہ ہونے کا شکوہ کیا اور اپنے بیان کے لیے کچھ ا ور وسعت چاہی، غزل پر نظم کی برتری ثابت کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ شعر میں خیال اور ہیئت کے ناگزیر رشتے کی بات کی گئی ہے۔ ہر سچے فنکار کے ہاں خیال اپنی ہیئت کا تعین خود کرتا ہے۔ جو بات نظم میں کہی جا سکتی ہے وہ نظم ہی میں کہی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی موضوع کے لیے ناول درکار ہے توکوئی بھی اور صنف اس کے اظہار سے قاصر ہو گی۔ ’کچھ اور چاہیئے وسعت‘ سے غزل کی نفی مقصود نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ شوق کا جو حصہ بیان ہونے سے رہ گیا ہے وہ غزل میں نہیں سمویا جا سکتا؛ اس کے لیے کوئی اور ظرف چاہیئے۔ اصناف سخن وہ ظروف ہیں جن کے ذریعے خیالات اظہار پاتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ اصناف عام زندگی میں استعمال ہونے والے ظروف کی طرح نہیں ہوتیں جن میں کوئی چیز باہر سے انڈھیل دی جاتی ہے۔ خیال اور ہیت چشم زدن میں اس طرح یک جان ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں ایک دوسرے سے الگ دیکھا اور سمجھا نہیں جا سکتا۔ البتہ یہ احساس ضرور رہتا ہے کہ یہ دو چیزیں تھیں جنہوں نے مل کر ایک تیسری خود مختار اکائی کی شکل اختیار کی۔

والد کی ترغیب، حصول ثواب، معاشی ضرورت اور تہذیبی مجبوریاں بھی اہم عوامل رہے ہوں گے لیکن میری دانست میں میر انیسؔ عمدہ غزلیں کہتے کہتے مرثیے کی طرف، جو مسدس کی صورت میں لکھا جاتا تھا، راغب ہوئے تو اس کا بڑا سبب ان کا فطری میلان تھا۔ کسی کے کہنے پر یا کسی مصلحت، مجبوری کے تحت، آپ کوئی راستہ اختیار تو کر سکتے ہیں، اس پر زیادہ دیر چل نہیں سکتے اور اگر میلان طبع کے خلاف اس پر مستقل گامزن رہتے ہیں تو کوئی کمال نہیں کر سکتے۔ اور مرثیے کی صنف سے وابسطہ رہتے ہوئے انیسؔ نے جو کمالات دکھائے ہیں اس کا اعتراف ان کے معترضین نے بھی کیا ہے۔

میر و غالب کی غزل ہو، نظیر و اقبال کی نظمیں ہوں، میر حسن اور دیا شنکر نسیم کی مثنویاں ہوں یا انیس و دبیر کے مرثیے، سب میں بنیادی اکائی مصرع ہے۔ خالد احمد کہا کرتے تھے کہ شعر وہ کہہ سکتا ہے جو مصرع کہہ سکتا ہے۔ محبوب خزاں کہتے تھے کہ وہ ایک مصرعے پر کسی کو شاعر تسلیم کر سکتے تھے اور ساقی فاروقی جیسے کٹڑ قاری اور نقاد کا کہنا تھا کہ مصرع کہناانیسؔ سے سیکھنا چاہیئے۔ ناقدین فن اس بات پر متفق ہیں کہ مصرع کہنے کے معاملے میں انیسؔ کسی سے کم نہیں، زیادہ ہوں تو ہوں۔ بے ساختگی، سلاست، روانی، زبان پر قدرت، فصاحت، الفاظ کا پورا صرف ہونا، حروف کے دبنے اور تنافر سے گریز، یہ سب یکجادیکھنا ہو تو کلام انیس انتہائی اعلی نمونہ پیش کرتا ہے۔ انیسؔ کا کلام کولرج (Coleridge) کی اس تعریف پر کہ ’’شاعری بہترین (موزوں ترین) الفاظ کی بہترین ترتیب (Best words in best order) ہے ‘‘پورا اترتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی رقمطراز ہیں:

’’یہ انیسؔ کا عام انداز ہے۔ وہ لفظ کے ہر ممکن امکان کو گرفت میں لاتے ہیں۔ بند کے تمام مصرعوں میں داخلی ربط کا پورا اہتمام اور ان کے معانی میں ارتقا کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ مناسبت لفظی و معنوی میں غالبؔ اور (اپنے بہترین لمحوں میں) اقبالؔ کے علاوہ ان کا کوئی ہم سر نہیں۔ وہ محض فہرست کی خاطر الفاظ نہیں جمع کر دیتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس فہرست سے جو مکمل فہرست بنتی ہے اس میں پیچیدگی اور تکمیلیت کتنی ہے۔ ‘‘ ایک اور جگہ فاروقی صاحب لکھتے ہیں: ’’ میر انیس کے فخریہ اور رجزیہ بند اگرچہ مبالغے اور لفظی دھوم دھام سے بھرے ہوئے ہیں لیکن ان کے یہاں حسن تعلیل، رعایت لفظی یا کوئی معنوی پہلو یا کم سے کم حرکی پیکر مبالغے میں اس قدر سموئے ہوئے ہیں کہ بہترین شاعری کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘

غزل کا شعر اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہوتا ہے۔ عمدہ شعر کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے دونوں مصرعے اپنی اپنی جگہ مکمل ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ الگ الگ بھی یاد رہ سکتے ہیں اور استعمال بھی کیے جاتے ہیں۔ اچھا شاعر دو مصرعوں کو ملا کے اس طرح شعر بناتاہے کہ ان میں جوڑ لگا ہوا محسوس نہ ہو؛ جیسے دن رات میں ضم ہوجائے اور رات دن میں۔ غزل کے شاعر کی مشکل یہ ہے کہ اسے پوری بات دو مصرعوں میں کہنی ہوتی ہے۔ مسدس لکھنے والے کو بظاہر یہ سہولت حاصل ہے کہ اسے بیان کے لیے زیادہ وسعت میسر ہوتی ہے لیکن یہی سہولت اس کی مشکل بن جاتی ہے کہ اسے بات چھ مصرعوں میں ایسے کہنی ہوتی ہے کہ کوئی لفظ زائد نہ ہو اور ہر مصرع اپنی جگہ قائم ہو۔ پھر اسے ایک بند میں دو زمینوں کو برتنا ہوتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ مضمون کا تسلسل متاثر نہ ہو۔ مرزا غالبؔ سے کسی نے مسدس لکھنے کی فرمائش کی تو انہوں نے چار پانچ بند لکھنے کے بعد یہ کہہ کے معذرت کر لی کہ یہ ان کا میدان نہیں۔

مسدس انیسؔ (اور دبیرؔ) کا میدان ہے۔ دو سو بند کہنے کے بعد بھی ان کا سانس نہیں پھولتا۔ میرؔ کا یہ شعر ان پہ زیادہ صادق آتا ہے:

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

مسدس کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ ہر بند کے پہلے چار مصرعے کسی نظم کے بند (stanza) کے طور پر اور آخری دو مصرعے غزل کے مطلع کی طرح ایک الگ بیت کی صورت ہوتے ہیں۔ مراثی انیسؔ میں سینکڑوں ایسے ابیات بھی مل جائیں گے جن سے غزل کے شائیقین عمدہ مطلعوں کے طور پر بھی لطف اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے چند ابیات ملاحظہ ہوں:

عالم ہے مکدر کوئی دل صاف نہیں ہے

اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے

 اک فرد پرانی نہیں دفتر میں ہمارے

 بھرتی ہے نئی فوج کی لشکر میں ہمارے

کس باغ پہ آسیب خزاں آ نہیں جاتا

گل کون سا کھلتا ہے جو مرجھا نہیں جاتا

جہاں تک مضامین کا تعلق ہے وہ انیسؔ کو سانحہء کربلا سے ملتے ہیں۔ شیکسپئر نے اپنے بیشتر ڈراموں کے لیے پلاٹ پہلے سے موجود ڈراموں یا تاریخ سے لیے لیکن اس نے ان میں بہت سی ترامیم اور اضافے کیے؛ نئے کردار متعارف کرائے۔ انیسؔ کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ ان کے مرثیے ایسی جلیل القدر ہستیوں کی زندگی اور سیرت سے متعلق ہیں جن کے بارے میں جو کچھ تاریخ میں محفوظ ہے اورامت کے عقائد میں شامل ہو چکا ہے اس میں ردوبدل کرنا بے ادبی پر محمول کیا جاتا۔ چنانچہ واقعہء کربلا سے متعلق انیسؔ نے جو کچھ سنا اور پڑھا اسے بہت بہتر اور دلکش انداز میں بیان کر دیا۔ انہیں پڑھتے ہوئے اکثر الیگزینڈر پوپ (Alexander Pope) کی یہ لائن یاد آتی ہے :

What oft was thought, but ne’er so well express’d

روایات کا معاملہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ان میں اضافے اور تبدیلیاں ہوجاتی ہیں۔ بقول سید مسعود حسن رضوی، ’’تاریخی تفصیلات کے علاوہ اس واقعے کے ساتھ تخیلی تفصیلات کا بھی ایک بڑا ذخیرہ شامل ہو گیا جو مرثیہ گو شعرا کی قوت اختراع کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ نئی روایات بھی جنم لیتی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں احراز نقوی کا یہ بیان قابل غور ہے:

’’اب رہا روایات کا گڑھنا تو یہ میلان بھی دکنی مرثیوں میں عام طور پر ملتا ہے، دہلی کے مرثیہ گو بھی اس سے غافل نہیں رہتے۔ انیسؔ سے پہلے لکھنئو کے ابتدائی دور کے شاعر اس میں کلیاں پھندنے لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حضرت قاسم کا جناب کبری سے عقد اور تقریب سے متعلق لکھنئو اور دلی کی مروجہ رسموں کا ذکر، حضرت علی اکبر کا امام عالی مقام سے رضا حاصل کرنا، حسینؑ کا تنہا چھوٹنا اور شہر بانو کا خفا ہونا، بادشاہ حلب کی دختر سے علی اکبر کی نسبت ٹھہرانا اور شہزادی حلب کا علی اکبر کی شہادت پر بین کرنا، عون و محمد کا علم پر ضد و تکرار کرنا اور اس نہج کی بے شمار روایتیں انیسؔ سے پہلے راہ پا کر اعتقاد اور مرثیے کی شعری روایتوں کا حصہ بن چکی تھیں۔۔۔ لکھنئو سے پہلے شعراء رنگ آمیزی اور تخیل آرائی کے ہفت خواں طے کر چکے تھے۔ ۔ ۔ بعض ناقدوں نے عون و محمد کے اس واقعے کو انیسؔ کے ذہن کا اختراع بتایا ہے اور اس خیال آرائی میں شبلی بھی پیش پیش ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ ان غلط سلط روایتوں کے بانی مبانی میاں دلگیر ہیں۔‘‘

 روایات میں ترمیم کرنا تو انیسؔ کے لیے مشکل تھا لیکن مرثیے کہتے وقت وہ روایات کا انتخاب کر سکتے تھے جو انہوں نے نہیں کیا۔ جو روایت ملی اسے مرثیے میں ڈھال دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ انیسؔ تاریخ نہیں لکھ رہے تھے اور نہ ہی واقعات کو درست کرنا ان کا کام تھا اور کسی روایت کے مصدقہ یا ضعیف ہونے کی تصدیق کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے مضمرات پہ غور کرکے بھی کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہے۔ مثلاً، ایک مرثیے، ’’عرش خدا مقام جناب امیر ہے‘‘، میںحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ بند 58 تا 61 میں آپ ؑکی سخاوت سے متعلق ایک روایت بیان کی گئی ہے۔ آپ سفر میں تھے کہ ایک سائل نے روٹی کا تقاضاکیا۔ آپ ؑ نے اپنے ملازم قنبر سے کہا کہ وہ سائل کی حاجت پوری کرے۔ قنبر نے کہا کہ روٹیاں اونٹ پر ہیں اور اونٹ قطار میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اونٹ مع طعام دے دو۔ قنبر نے کہا کہ وہ اونٹ مقدم ہے، وہ چلتا ہے تو دیگر اونٹ اس کے پیچھے چلتے ہیں۔ آپ ؑ نے سب قطار حاجت مندکو دینے کی ہدایت کی۔ قنبر نے جلد تعمیل کی اور خود اونٹوں سے دور جا کھڑا ہوا اور استفسار کیے جانے پہ کہا کہ چونکہ حضرت کا بحر جود و سخاوت بے کنار ہے لہذا خوف ہے کہ کہیں وہ اس قطار کے ساتھ اسے بھی نہ بخش دیں۔

ان بندوں سے پہلے چھ بندوں (52 تا57) میں بتایا گیا ہے کہ شیر خداؑ صوم وصلواۃ کے پابند تھے، لذت کے کھانے انہیں نہیں بھاتے تھے اوروہ نمک سے نان جویں کھاتے تھے۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے اور اپنی دن بھر کی مزد بیوائوں، اندھوں اور غریبوں پر خرچ کر دیتے تھے۔ اپنا گھر نہیں تھا، صرف ایک پرانی پوشاک رکھتے تھے، کبھی قاقم و سنجاب سے بدن نہیں ڈھانپا۔ اس خوف سے آپؑ کا دل بیتاب ہوتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کھائیں اور مدینے میں کوئی بھوکا ہو۔ آپؑ کا یہ معمول قرآنی فلاحی ریاست میں لوگوں، بالخصوص اصحاب اختیار، کے طرز عمل کی نمائندگی کرتا ہے۔ قرآن میں حکم ہے کہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد جو کچھ بچ جائے وہ اوروں کے لیے کھلا رکھو۔ چنانچہ مذکورہ بالا روایت میں بیان کردہ اونٹوں کی قطاراور سازوسامان جناب علیؑ کی ملکیت نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اگر یہ سرکاری املاک تھی تو آپؑ اس میں سے کسی حاجت مند کو اتنا نہیں دے سکتے تھے کہ اس کے پاس دولت کا ارتکاز ہو جاتا اور دیگر حاجت مندوں کی حق تلفی ہوتی۔ میر انیسؔ نے ایک اور مرثیے (جب نوجواں پسر شہ دیں سے جدا ہوا) میں بھی اس روایت کا حوالہ دیا ہے (ع سائل کو جس نے روٹی کے اونٹوں کی دی قطار، بند 154)۔

روایت کے مصدقہ یا غیر مصدقہ ہونے سے قطع نظر، اہم بات یہ بھی ہے کہ اسے مرثیے میں جس جگہ درج کیا گیا ہے اس سے خود تردیدی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے اندراج کے بغیر جناب علیؑ کے وصف سخاوت کابیان مکمل تھا، چنانچہ زیادہ موثر ہوتا۔ میں نے اس روایت کا حوالہ اس لیے بھی دیا ہے کہ ناصر نے اس سے پہلے کے چھ بندوں (52 تا57) پر پسندیدگی کے نشان، یعنی ٹک، لگائے ہیں جبکہ ان بندوں (58 تا61) کے حواشی میں صرف نقطے (ڈاٹ)۔ اور ان کے فوری بعد کے پانچ بندوں (62 تا 66) پر، جن میں بتایا گیا ہے کہ ماہ رمضان میں مسلسل تین روز، وقت افطار، سائل کے آنے پر اہل بیت نے اپنا کھانا اسے دے دیا، پھر ٹک لگائے ہیں۔

 روایت یا قصہ منظوم کرتے ہوئے اچھے بھلے شاعربھی بہت سے مقامات پہ محض قافیہ پیما (versifier) بن جاتے ہیں۔ انیسؔ جیسا شاعر بھی اس مسئلے سے مستثنیٰ نہیں۔ لیکن مذکورہ تحفظات کے باوجود انیسؔ کی واقعہ نگاری کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کے ہاں قافیے اس خوبصورتی اور بے ساختگی سے آتے ہیں اور دیگر شعری محاسن اتنی بہتات سے پائے جاتے ہیں کہ ان کا بیشتر کلام قافیہ پیمائی کی سطح سے بلند اور شاعری کے مرتبے پر فائز رہتا ہے۔ ان کے ابتدائی مرثیوں کے بارے میں بھی علی حیدر نظم طباطبائی کہتے ہیں کہ ’’اے مومنو کہہ کر اکثر شروع کرتے ہیں اور کسی روایت کو نظم کر کے ختم کر دیتے ہیں مگر میر صاحب کی زبان و طرز بیان کی شان ان میں بھی موجود ہے۔ ‘‘

 بیانیہ (narrative) شاعری میں داستان، قصہ یا کہانی اور ان میں موجود کردار شاعر پر بہت سی پابندیاں عائد کر دیتے ہیںلیکن شاعر واقعے کی رو (thread) سے بلند ہو کرانہی تفصیلات پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے ہوئے نئی اور اچھوتی باتیں کرنے کے مواقع تلاش اور تخلیق کرتا ہے۔ انیسؔ بھی ایسا کرتے ہیں اور کمال کرتے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد انیسؔ اور دبیرؔ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’انہوں نے ایجاد مضمون کے دریا بہا دیے۔ ایک مقررہ مضمون کو سینکڑوں نہیں، ہزاروں رنگ سے ادا کیا ہے۔ ہر مرثیے کا چہرہ نیا، آمد نئی، رزم جدا، بزم جدا اور ہر میدان میں مضمون اچھوتا، تلوار نئی، نیزہ نیا، گھوڑا نیا، انداز نیا، مقالہ نیا اور اس پر کیا منحصر ہے، صبح کا عالم دیکھو تو سبحان اللہ! رات کی رخصت، سیاہی کا پھٹنا، نور کا ظہور، آفتاب کا طلوع، مرغزار کی بہار، شام ہے تو شام غریباں کی اداسی، کبھی رات کا سناٹا، کبھی تاروں کی چھائوں کو چاندنی اور اندھیرے کے ساتھ رنگ رنگ سے دکھایا ہے۔ غرض جس حالت کو لیا ہے، اس کا سماں باندھ دیا ہے۔ آمد مضامین کی بھی انتہا نہ رہی۔ جن مرثیوں کے بند چالیس پچاس سے زیادہ نہ ہوتے تھے وہ پچاس سے گزر کر دو سو سے بھی نکل گئے۔ ‘‘

(6)

تمام ساتھیوں اور عزیزوں کی شہادت کے بعد امام حسین ؑکی جنگ اور شہادت کا احوال، جو مختلف روایات پر مبنی ہے، میر انیسؔ کے کئی مرثیوں کا موضوع ہے۔ امام کا بھرپور داد شجاعت دینا، ان گنت اعدا کو تہ تیغ کرنا اور آخر میں زخموں سے چور ہو کر داعی اجل کو لبیک کہنا توسب مرثیوں میں تقریباً ایک ہی طرح بیان کیا گیا ہے لیکن قتال سے ان کے ہاتھ روک لینے کی ایک سے زیادہ وجوہات بتائی گئی ہیں۔

 مرثیے، یارب چمن نظم کو گلزار ارم کر، میں بیان کیا گیا ہے کہ امام لڑتے تھے، مگر غیظ سے رحمت زیادہ تھی، نانا کی طرح خاطر امت زیادہ تھی، تلوار نہ ماری جسے منہ موڑتے دیکھا اور آنسو نکل آئے جسے دم توڑتے دیکھا۔ لڑتے لڑتے، دشمنوں کو پیچھے ہٹاتے، ایک مقام پر امام اپنے بیٹے علی اکبرؑ کو یاد کرتے ہیں، پھر بھائی عباسؑ سے مخاطب ہونے کے بعد آبدیدہ ہو جاتے ہیں؛ ستم ایجاد تلوار سے مہلت پاتے ہیں اور جس فوج نے رن چھوڑ دیا تھا وہ پلٹ آتی ہے اور حسین ؑ ؑ پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ مرثیہ، مومنو خانہء زہراؑپہ تباہی ہے آج، کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب امام کا کوئی غم خوار، ہمدرد، یاور، بیٹا، بھتیجا، بھائی نہیں رہا۔ آپ ؑ کے قتل کی تدبیریں ہیں۔ کوئی جسم پر تیغ لگاتا ہے کوئی تیر؛ آپ ؑ سر تا بہ قدم خون میں تر ہیں؛ اعدا سے رو کر فرماتے ہیں کہ میرا کیا گناہ ہے، مجھے بے تقصیر کیوں قتل کرتے ہو؟ لیکن کوئی یہ فریاد نہیں سنتا۔ برچھیاں چلتی ہیں؛ امام ؑ زخم کھاتے ہیں؛ نانا، بابااور اماں کو یاد کرتے ہیں، غش طاری ہوتا ہے، گھوڑے سے گر پڑتے ہیں اور سجدے میں جاتے ہیں۔ شمر آپ ؑ کے حلق پر خنجر چلاتا رہا اور آپ ؑ امت کی بخشش کی دعا کرتے رہے۔

سانحہ ء کربلا کا اس طرح کا انجام تو تاریخ میں بھی ملتاہے لیکن ایسے مرثیے زیادہ تعداد میںہیں جن کے اختتام میں کچھ جزئیات روایتوں سے بھی لی گئی ہیں۔ ایک مرثیے، جب دشت مصیبت میں علی ؑ کا پسر آیا، میں امام کی یلغار سے گھبرا کے، بالآخر، اغیار نے انہیں شیر خدا کے خون کا واسطہ اور علی اکبر کی جوانی کی قسم دے کر امان مانگی۔ آپ ؑ نے یہ کہتے ہوئے کہ تم نے یہ کس کا نام لے لیا، تیغ کو روک لیا۔ پھر فرزند کے لاشے کو پکارتے ہوئے کہا کہ یہ دشمن دیں تمہارے صدقے میں بچ گئے۔ فوج عدو پھر قتل کے میدان میں آئی، تیروں کی بوچھاڑ ہوئی اور تیغوں کی یلغار، حسین ؑ گھوڑے سے گرے اور شمر نے آپ ؑ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ مرثیہ، رطب اللساں ہوں مدح شہ خاص و عام میں، میں فوج شام مصطفی ؐ کی قسم دیتی ہے تو امام تلوار روک لیتے ہیں؛ ذوالفقار سے کہتے ہیں کہ خدا کو صبر پسند ہے؛ ذولجناح کو تھم جانے کا کہتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں کہ رب قدیر سے خون میں بھرنے کا وعدہ ہے، اب شمر میرے سینے پر سوار ہو گا۔ مرثیہ، جب نوجواں پسر شہ دیں سے جدا ہوا: غل تھا کہ رسول پاک کی امت تباہ ہوتی ہے، خطابخشنا کار ثواب ہے، محمد ؐ عربی کے صدقے میں بخش دیں۔ امام ؑ نے درود پڑھ کر حسام روک لی، بھاگے ہوئے روسیاہ پلٹے اور آپ ؑ پر ٹوٹ پڑے۔

مرثیہ، یارب کسی کا باغ تمنا خزاں نہ ہو: امام اغیار سے فخریہ فرماتے ہیںکہ تم نے رسولؐ حق کے نواسے کی کارزار دیکھ لی، مجھے حق نے سب طرح کا اختیار دیا ہے لیکن میں فتح کا طالب نہیں، مجھے امت کی مغفرت سے مطلب ہے۔ اسی دم محبوب ؐ ذوالجلال کی صدا آتی ہے کہ ہاں اب تو وقت عصر بھی ہے۔ امام تلوار روک لیتے ہیں، شکست اٹھائی ہوئی سپاہ پلٹ آتی ہے اور آپ ؑ کو گھیر لیتی ہے۔ اسی طرح مرثیہ، جس دم یزید شام میں مسند نشیں ہوا، میں اعدا بتول ؑ کا صدقہ دے کرامام سے رحم کی التجا کرتے ہیں۔ امام یہ کہہ کر کہ کیاتم نے میرے بیٹے پہ رحم کیا تھا، دوبارہ حملہ آور ہونا چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے گھوڑے کی باگ پر نبی ؐ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ حسین، بس امت پہ رحم کر، تیرا پسر میرے پاس ہے؛ جب تک کہ سر کٹاکے نہ جنت میں آئو گے، عباس سے ملو گے نہ اکبر کو پائو گے۔ یہ سنتے ہی حسین ؑ نے ذولفقار نیام میں رکھ لی اور رو کر کہا کہ آپ کی امت کے میں نثار۔ اس کے بعد کی تفصیل مذکورہ بالا مرثیے کے مماثل ہے۔ مرثیہ، ہفتم کو ہوا بند جو پانی شہ دیں پر، میںاغیار امام ؑ کو پیمبرؐ، حیدر ؑ صفدر، شبر ؑ، علی اکبرؑ اور علی اصغرؑ کی دہائی دیتے ہیں اور علی ؑ کے سر مجروح اور فاطمہؑ کی روح کے صدقے میں رحم کی التجا کرتے ہیں۔ ناگاہ نبیؐ کی صدا آتی ہے کہ امت پر رحم کرو تو مجھ پر احسان ہے۔ خالق سے دم راز ونیاز آیا، سجدے کو جھکو وقت نماز آیا۔ یہ سنتے ہی حضرت نے سب اسلحہ اتارا، قاتلوں کو پکارا اور کہا کہ اب ہمارا ہاتھ کسی پر نہیں اٹھے گا، سر دینے کو موجود ہوں، شمر کہاں ہے؟ اسے بھیجو۔ پھر ملعونوں نے امام کو حلقے میں لے لیا۔

 مرثیہ، نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری، میں امام کے حملے کے بعد فوج اغیار نے دہائی دی؛ اعتراف کیا کہ انہوں نے جنگ کی خوب سزا پائی؛ کہا کہ مولا، آپ بروں سے بھی بھلائی کرتے ہیں، ہم شمشیروں کو پھینک کے ہاتھ باندھتے ہیں، امت نااہل کی تقصیروں کو بخش دیجیے۔ اسی دم ہاتف کی آواز آتی ہے کہ اب لعینوں سے وغا کرنے کا حکم نہیں۔ امامؑ یہ سن کر تیغ روک لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا سر حاضر ہے۔ اس کے بعد کی تفصیل مذکورہ بالا مرثیے کے مماثل ہے۔ مرثیہ، جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے، میںدوران قتال ندائے غیب شبیر ؑ کو جوہر شمشیر دکھانے کی داد دینے کے بعدمزیدوغا کرنے سے روکتی ہے، یاد دلاتی ہے کہ وقت نماز عصر ہے اور امت کا کام کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ امام ؑ لبیک کہہ کر تیغ رکھ دیتے ہیں۔ سپاہ دشمناں پلٹ آتی ہے اور انہیں شہید کر دیتی ہے۔ مرثیہ، جب منزل مقصد پہ امام زمن آئے، میں جب امام کی تلوار نے دشمن کی فوج کو ٹالا تو امام ؑ گھوڑے کی عناں روک کے ٹہر گئے۔ ۔ ۔ آپ کے کان میں نداا ٓئی کہ اے خدا کے بندہء مقبول، تجھ پہ رحمت ہو، قدسی تری صبر و رضا کے ثنا خواں ہیں؛مری سرکار میں آ کے تاج شفاعت لے۔ جب ہاتف نے یہ مژدہء جان فزا سنایا تو سخی نے خوش ہو کے سر تسلیم جھکایا۔ پھر اک نو رکو سینکڑوں ناری گھیر لیتے ہیں۔

سید مظفر برنی رقمطراز ہیں:’’ سب سے زیادہ نازک مرحلہ امام حسین ؑ کی شہادت کا ہے۔ یہاں عقیدہ واقعہ نگاری سے دست و گریبان ہوتا ہے۔ میر صاحب حضرت امام حسین ؑ کو مبارزت کی پیچیدہ راہوں سے منزل شہادت تک لاتے ہیںاور تب کہیں ’’ہاتف غیبی کی ندا‘‘، ’’پردہء گردوں سے صدا‘‘، حضرت محمد صلعم یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی صدا آنے کے بعد حضرت امام حسین ؑ جنگ سے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور شمر لعین کو سر اڑانے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ طریقہ بہت ہی غیر فطری ہے(26)۔ ‘‘

میں اس معاملے کو قدرے مختلف انداز سے دیکھتا ہوں۔ تاریخ میں ایسی متعدد شخصیات کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے دشمنوں سے اچھا سلوک کیا، انہیں معاف کیا یا رحم کھا کے انہیں بچ نکلنے کا موقع دیا۔ اپنے عزیزوں کا واسطہ دیے جانے پر بہتوں کا دل پسیج جاتا ہے اور وہ معمول سے ہٹ کر طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے بزرگ دنیا سے جا کر بھی ہم میں رہتے ہیں۔ ہمارا ان سے مکالمہ جاری رہتا ہے۔ ان کی آوازیں ہمیں آتی ہیں، بالخصوص اہم مواقع پر، اور یہ ہمارے اندر ہی سے اٹھتی ہیں۔ یہ ہماری رہنمائی بھی کرتی ہیں اور ہمارے فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ مذکورہ مرثیوں میں بیان کردہ امام حسین ؑ کا طرز عمل مشکل سے قائل کرتا ہے لیکن تاریخ میں ایسی مثالیںملتی ہیں جب کچھ کرنے کا اختیار رکھتے ہوئے بھی عدم مدافعت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ہمیں انیسؔ کے dilemma پر بھی غور کرنا چاہیے۔ یہ کوئی عام جنگ نہیں تھی۔ امام وقت باطل کی قوت سے نبرد آزما تھے۔ بے شک تین دن کے بھوکے پیاسے، عزیزوں کی شہادت کے صدمے سے نڈھال، تن تنہا برسر پیکار تھے، لیکن اگر ’فطری‘ طور پر لڑتے ہوئے داعی اجل ہوتے تو ایک طرح سے باطل کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتے۔ اور اگر داد شجاعت دیتے رہتے تو اعدا کا سارا لشکر تہ تیغ ہو جاتا۔ ایسی صورت حال میں انہیں کوئی غیبی ندا یا دل سے اٹھنے والی آوازہی دشمنوں پر رحم کھا کے قتال سے روک سکتی تھی۔

میں نے یہاں شہادت حسین ؑ سے متعلق مرثیوں کا قدرے تفصیل سے اس لیے بھی ذکر کیا ہے کہ ناصر نے دونوں طرح کے اختتامیوں سے بند منتخب کیے ہیں، ایک اس مرثیے سے جس میں امام کی جنگ کا خاتمہ قارئین کو فطری لگے گا (یارب چمن نظم کو گلزار ارم کر) اور دوایسے مرثیوں سے (ہفتم کو ہوا بند جو پانی شہ دیں پر، اور، رطب اللساں ہوں مدح شہ خاص و عام میں) جن میں امام کا دوران وغا تلوار روک لینا غیر فطری محسوس ہو گا۔

(7)

واقعہ نگاری کے ساتھ انیسؔ کی مکالمہ نگاری اور انسانی فطرت سے ان کی آگاہی کو بھی بہت سراہا جاتا ہے۔ بے شک ان کے ہاں جا بجا بہت خوبصورت مکالمے ملتے ہیں اور ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے ان گفتگوئوں کے وقت وہ خود وہاں موجود تھے۔ لیکن کچھ اصحاب، مثلاً سید مظفر برنی، نے ایسے متعدد مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں مکالمے غیر فطری اور مصنوعی لگتے ہیں(27)۔ ڈاکٹر احراز نقوی کی بھی یہ رائے ہے کہ ’’اکثر اوقات انیس اپنی تہذیبی نمائش میں تاریخی منطق اور نفسیات کا بری طرح سے گلا گھونٹ دیتے ہیں اور موقع محل کی نزاکت کو بھی آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں۔ ایسی ایسی بے شمار مثالیں بلا تکلف پیش کی جا سکتی ہیں۔‘‘

 راقم الحروف کو بھی کئی جگہ ایسا محسوس ہوا۔ صرف ایک مثال دینا چاہوں گا۔ مرثیہ، جب کربلا میں داخلہ شاہ دیں ہوا، اختتام کے قریب ہے۔ حضرت عباسؑ، تین دن کے بھوکے پیاسے، زخموں سے چور، دونوں ہاتھ کٹ جانے کے بعد گھوڑے کی زین سے زمین پہ آ رہے اور بے ہوش ہو گئے۔ اعدا کی جانب سے فتح کے باجے سن کر امام حسینؑ دوڑ کر جناب عباس ؑ کے پاس پہنچے۔ یہاں بھائیوں کے مابین ہونے والا مکالمہ سات بندوں پر مشتمل ہے۔ پانچواں بند یہ ہے:

منھ رکھ کے منھ پہ کہنے لگے شاہ خوش خصال

کیوں چپ ہوئے کچھ اور کہو اپنے دل کا حال

ان سوکھے سوکھے ہونٹوں پہ صدقے علی ؑ کا لال

بھیا! مدد کو آئے ہیںاب شیر ذولجلال

 رخ کیوں ہے زرد کون سی ایذا گزرتی ہے

 کیوں دم بہ دم کراہتے ہو کیا گزرتی ہے

بیت قابل غور ہے۔ کیا اس صورت حال میں یہ پوچھنے کی ضرورت ہو سکتی ہے کہ چہرہ زرد کیوں ہے؟ کس تکلیف سے گزر رہے ہو اور دم بہ دم کراہتے کیوں ہو؟

(8)

کردار نگاری انیسؔ کے یہاں سیرت نگاری بن جاتی ہے۔ یہ فریضہ وہ بالعموم خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں، لیکن شعری وفور کہیں کہیں ان سے ایسی بات کہلوا جاتا ہے جو ان کے کرداروں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مراثی انیسؔ میں شمر ظلم و ستم اور بدی کی علامت ہے۔ اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حضرت عباسؑ نہر سے پانی لے کر اپنے خیموںتک نہ پہنچ پائیں۔ وہ امام حسین ؑ کا سر مبارک قلم کرتا ہے۔ یہاں انیسؔ اسے’’ شمر بد گہر‘‘ کہتے ہیں (مرثیہ: رطب اللساں ہوں مدح شہ خاص و عام میں)۔ ایک مرثیے، جبکہ خاموش ہوئی شمع امامت رن میں، میں شہادت حسینؑ کے بعد شمر اپنے لشکر کو ’’غارت خیمہ کا‘‘ حکم دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’جس کے جو ہاتھ لگے لوٹ لے اسباب امام۔ ‘‘ اس بند کا ایک بیت ہے:

پاس ناموس نبیؐ کے زر و زیور نہ رہے

ہاں سر زینب و کلثوم پہ چادر نہ رہے

 ایسے شخص کا حضرت عباسؑ کو ’’حضرت عباسؑ حق شناس‘‘ کہنا بعید از قیاس ہے :

کہتا تھا شمر آ کے ہر اک کے پرے کے پاس

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بڑھنے نہ پائے حضرت عباسؑ حق شناس

(مرثیہ: آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی)

(9)

تخلیقی تحریک کا منبع (source) کوئی ذاتی غم، محرومی، ناکامی، کامیابی، عشق، محبت، نفرت، دوستی، دشمنی، حادثہ، بیماری، رشک، حسد، دوسروں کی تکلیف، اصلاح احوال کا جذبہ، غرض کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی جذبہ جب اتنا شدید ہو جائے کہ دل و دماغ پہ چھا جائے تو وہ ایک الائو کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس سے وقتاً فوقتاً چنگاریاں اٹھتی رہتی ہیں۔ ایک فنکار ان چنگاریوں کو فن پاروں میں ڈھالتا ہے:

میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

   (میر)

 میر انیسؔ کی شاعری کا بنیادی محرک تھا شہدائے کربلا اور ان کے ورثاء سے گہری وابستگی جو انہیں اپنے گھر کے ماحول سے ملی۔ شاعر کا کسی نظریے، آدرش یا عقیدے سے کمٹمنٹ رکھنا سوچ کو محدود بھی کر سکتا ہے اور اس میں وسعت بھی پیدا کر سکتا ہے۔ انیسؔ کی اپنے عقائد سے پرجوش وابستگی نے انہیں بہت فائدہ پہنچایا، سماجی اورمعاشی طور پر بھی اور بحیثیت شاعر بھی۔ سید مسعود حسن رضوی ادیب کے بقول، ’’ان کے مرثیوں میںجو زور، شان، اخلاقی بلندی، ، شیفتگی، تقدس اور اثر ہے وہ انہیں عقائد کی بدولت ہے۔ کوئی دوسرا شاعر جو اس طرح کے عقیدے نہ رکھتا ہووہ شاعری کے انتہائی کمال کے باوجود ایسے مرثیے لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتا (29)۔ ‘‘ رئیس امروہوی کہتے ہیں کہ ’’یہ عقیدہ ہی ہے جو شاعر کی تخلیقی قوتوں کو جگاتا اور لاشعور کے جذباتی طوفان کو ایسی انقلابی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتاہے کہ سب مبہوت اور متحیر رہ جاتے ہیں۔ ۔ ۔ میر انیسؔ پوری بنی نوع انسانی کے شاعر ہیں لیکن وہ اس منزل تک کربلائی قتل گاہ سے پہنچے ہیں (30 )۔ ‘‘

(10)

زیر نظر مطالعے کایہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مراثی انیسؔ، تمام تر مماثلتوں کے باوجود، بحیثیت صنف سخن رزمیہ، حزنیہ یا ڈرامائی نظموں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مذکورہ اصناف میں تین عناصر بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں: پلاٹ، کردار اور مکالمہ۔ مرثیوں کے پلاٹ تاریخ اور روایات نے متعین کر دیے تھے، کردار یہاں شخصیات ہیں، چنانچہ انیسؔ کے پاس تخلیقی ترمیم و تخفیف کی بہت کم گنجائش تھی۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں کے پلاٹوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ڈھیلے ڈھالے تھیلے ہیں جن میں مختلف النوع اشیا انڈیل دی گئی ہیں۔ یہ بات مراثی انیسؔ کے پلاٹوںپر بھی صادق آتی ہے۔ چونکہ ڈکنز کے ناول اشاعت سے پہلے اقساط کی صورت میں اخبار میں شائع ہوتے تھے لہذا ہر قسط کو کسی حد تک اپنی جگہ بھی مکمل اور قابل تشفی رکھنا پڑتا تھا۔ چنانچہ جب یہی اقساط ایک ناول کی شکل میںاکٹھی شائع ہوتیں تو اس میں بہت کچھ دہرایا گیا ہوتا۔ اسی طرح ہر مرثیہ ایک مجلس میں پڑھے سنے جانے کے لیے ہوتا تھا۔ انیسؔ کے مکالمے کہیں بہت بے ساختہ اورمبنی بر حقیقت ہیں اور کہیں مصنوعی اور غیر فطری۔ بلند مرتبت شخصیات کے مکالمے، بلند آہنگ رکھنے کی کوشش کی جائے یا روزمرہ زندگی کے قریب لانے کی، تصنع کا شکار ہونے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔ لہذا نیسؔ کے مرثیوں کورزمیہ، حزنیہ یا ڈرامائی نظموں کے طور پر دیکھنے کی کاوش ان کے شعری مرتبے کا اندازہ لگانے کے لیے زیادہ مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔ مرثیہ اپنی جگہ ایک مختلف اور خود مختار صنف سخن ہے جو انیسؔ سے پہلے بھی کامیابی سے برتی گئی اور ان کے اپنے زمانے میں بھی۔ تو انیسؔ کا امتیاز اور اختصاص کیا ہے؟ بیسیوں شاعروں نے عمدہ غزلیں کہی ہیں۔ صرف میرؔ و غالبؔ ہی کوعظیم کیوں کہا جاتا ہے؟ دراصل عظیم شاعری صنف سے بے نیاز اور بلند ہوتی ہے۔ انیسؔ کا شعری مرتبہ جاننے کے لیے ان کے کلام کے انہی محاسن پر توجہ دینی ہو گی جو ہم میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ (جن کے یہاں غزل اور نظم کا امتیاز ختم ہو گیا تھا) کے کلام میں دیکھتے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ اکثر ذاکر حسینؑ سمجھ کر ان (انیسؔ) کا ادب کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ انہیںصرف مرثیہ گویوں میں سب سے فائق سمجھتے ہیں لیکن ایسے بہت کم ہیں جو مطلق شاعری میں ان کو بے مثل سمجھتے ہوں۔

 آج سے تقریباً نوے برس قبل کیے گئے انیسؔ کے پہلے قابل ذکر انتخاب کے مرتب مسعود حسن رضوی، دوسرے ایڈیشن (1956) کے مقدمے میں لکھتے ہیں:’’ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی خلقت کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ وہ کربلا کے شہیدوں کی صف ماتم بچھائیں اور اس غم کو قیامت تک قائم رکھیں۔ مرثیوں کی تصنیف کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ انھیں مقدس مجالس عزا میں پڑھے جائیں(31)۔ ‘‘ اس کے ساٹھ سال بعد بھی مرثیے کا تصور یہی تھا۔ مجلس ترقی ادب، لاہور کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ’منتخب مراثی دبیرؔ‘ کے مقدمے میں کتاب کے مرتب ڈاکٹر ظہیر فتحپوری ر قم طراز ہیں: ’’مرثیہ نگار کا آدرش گریہ و بکا کے ذریعے ایک مقدس سوگوار ماحول کی تشکیل ہے جس کا نقطہء عروج مرثیے کا آخری حصہ ’’بین‘‘ ہے۔ بین کی حیثیت ایک دریا کی طرح ہے اور مرثیے کے تمام جزو چھوٹی چھوٹی ندیوں کی طرح ہیں جن کی اپنی الگ حیثیت نہیں ہے بلکہ جو اس دریاکی معاون ہیں۔ ۔ ۔ مدح اور سیرت نگاری کا مقصود ایک ہے؛ یعنی بین کے لیے مناسب فضا کی تخلیق۔ ‘‘

مراثی انیسؔ مرثیے کے عام تصور سے ماورا ہیں۔ انیس ؔکے مرثیے مجالس عزا کے تقاضے بھی بطور احسن پورے کرتے ہیں لیکن قارئین کے شعری ذوق کی بھرپور تسکین کا باعث بھی بنتے ہیں۔ بے شک ان کے پس منظر میں شیعہ عقائد کارفرما ہیں لیکن دیگر مسالک سے وابستہ قارئین مذہبی اختلاف کے باوجود ان میں لطف سخن بھی پاتے ہیں اور ان سے سیکھتے بھی ہیں۔ اور بہت سے اہل تشیع بھی انیسؔ کے تمام خیالات سے اتفاق نہیں کرتے۔ مرثیہ اور لطف سخن؟ جی ہاں، انیسؔ خود کہتے ہیں:

بس اے انیسؔ ختم کلام اب ضرور ہے

لطف سخن اٹھاتا ہے جو ذی شعور ہے

دعوی کلام کا نہ بیاں کا غرور ہے

حاسد جلیں تو اس میں مرا کیا قصور ہے

(مرثیہ:جس دم یزید شام میں مسند نشیں ہوا)

جہاں تک کلام انیسؔ پر حد سے زیادہ مبالغہ آرائی کا عتراض ہے، ذی شعور قاری اسے اسی طرح دیکھتا ہے جیسے دیگرشعرا، بالخصوص رزمیہ نگاروں، کے یہاں دیکھتاہے۔ اور جہاں بات ناقابل قبول حد تک ناقابل یقین ہو، وہ کولرج کے بیان کردہ فارمولے، ’بے یقینی کی برضا معطلی‘ (willing suspension of disbelief) پر عمل کرتا ہے۔

(11)

جیسا کہ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا، پاپاکی ایک الماری سے مجھے نول کشور پریس کی چھپی ہوئی، بڑے سائز کی، ’مراثی میر انیسؔ‘ کی پہلی چار جلدیں ملی تھیں۔ میں نے ان کا باقاعدہ معائنہ اور مطالعہ شروع کیا۔ ایسا نہیں لگتا تھاکہ انہوں نے ان کے حرف حرف کو، اول تا آخر دیکھا ہو۔ بس کبھی کوئی مرثیہ دیکھاکبھی کوئی؛ کبھی کہیں سے کبھی کہیں سے۔ ان جلدوں میں ایک سو پانچ مرثیے، اکتالیس سلام اور بیسیوں رباعیاں تھیں۔ پاپا نے مختلف مرثیوں کے تقریباً پانچ سو بندوں، سلام کے پچاس اشعار اور پندرہ رباعیوں پر پسندیدگی کے نشان لگا رکھے تھے۔ گیارہ مرثیوں کے بند اتنی تعداد میں تھے کہ لگتا تھا کہ یہ مرثیے اول تا آخر پڑھے گئے تھے، اکیس مرثیوں کے ایک تا دس بند نشان زد کیے گئے تھے جبکہ تہتر مرثیوں کے کسی بند پر کوئی نشان یا حواشی نہیں تھے۔ یہ نشانات اشاعت کی غرض سے کیے جا نے والے انتخاب کے لیے نہیں تھے جیسا کہ انہوں نے ’کلیات ولیؔ‘ اور ’مہتاب داغؔ‘ میں لگائے تھے۔ میرؔ اور نظیرؔ کے کلیات کا انتخاب تو انہوں نے ڈائریوں میں خوشخط نقل کیا ہو ا تھا۔ غالباً مراثی انیسؔ کی یہ جلدیں پاپا نے وفات سے کچھ عرصہ قبل حاصل کی تھیں۔ یہ کلیات میرؔکے اس نسخے سے مختلف تھیں جو تمام عمر ان کے زیر مطالعہ رہا۔

انیسؔ کی طرح ناصربھی ایک شیعہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن تبرے کی بابت ان کا رویہ انیسؔ سے مختلف تھا۔ ان کے کاغذات سے ملنے والی ایک تحریرمیں، جواب ان کی ڈائری میں شامل ہے، یہ سطور بھی تھیں:’ ’دین میرا اسلام ہے اور کتاب قرآن پاک جو میرے جد امجد شافع محشر، سرکار رسالت ختمی مرتبت نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ ۔ ۔ علی ؑکا شیعہ ضرور ہوں مگر میرے عقیدے میںنہ تبرے کوکوئی دخل ہے نہ تقیے کو۔ ۔ ۔ بعض شیعہ رسوم میں شرکت اس لیے کرتا ہوں کہ ان سے آل نبیؐ اور اولاد علی ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے۔ مجلس عزا امام مظلوم اور شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ شبیہہ ذولجناح، علم اور تازیئے شہدائے کر بلا کی یادگاریں ہیں، اس لیے ان کا احترام بھی مجھ پر اور میری اولاد پر واجب ہے۔ اگر بعض واعظین اور عزادار کوئی نامناسب یا غلط حقائق بیان کرتے ہوں تو میں اور میری اولاد اس سے بری الذمہ ہے۔ ‘‘ چنانچہ کلام انیسؔ کے اس طرح کے حصوں میں جن کی علی حیدر طباطبائی نے نشاندہی کی ہے، ناصر نے کوئی بند نشان زد نہیں کیا (مثلاً، مرثیہ، فخر ملک و اشرف آدم ہے محمدؐ، کے آخری چھ بند)۔

 اردو شاعری کی روایت میں انیسؔ کا مرتبہ جاننے کے لیے کلام انیسؔ کے بہترین حصے کو دیکھنا ہو گا۔ پروفیسر احتشام حسین کہتے ہیںکہ ’’میر انیسؔ کو غلطیوں اور خامیوں سے پاک سمجھنا درست نہیں ہو گا۔ ان کے یہاں زبان و بیان کی خامیاں بھی ہیں اور واقعات کے رشتوں اور مناسبتوں کو نظرانداز کر جانے کی کوتاہیاں بھی، لیکن خوبیاںان کی پردہ پوش بن جاتی ہیں۔ ‘‘ چنانچہ جس طرح میرؔ کا انتخاب کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی اسی طرح انیسؔ کا بھی انتخاب کرنا ہو گا۔ اور ہر قاری کا انتخاب اس کے ذوق اور اس کی زندگی کی نوعیت پہ منحصر ہو گا۔ یہاں جو پانچ سو کے قریب بند، چند رباعیاں اور سلام کے اشعار پیش کیے جا رہے ہیں، ان میںانیسؔ کی شاعری کے انتہائی عمدہ نمونے تو ملیں گے ہی، ناصر کے فن اور ہنر کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ انیسؔ کو پڑھیے اور اپنا انتخاب کیجئے۔ مجھے امید ہے کہ پہلی جلد کے پہلے مرثیے کے پہلے پانچ بندہی یہ باور کرا نے کے لیے کافی ہوں گے کہ یہ ایک بڑے شاعر کا کلام ہے۔

یارب چمن نظم کو گلزار ارم کر

اے ابر کرم خشک زراعت پہ کرم کر

تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دم کر

گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر

                جب تک یہ چمک مہر کے پرتو سے نہ جائے

                اقلیم سخن میرے قلمرو سے نہ جائے

اس باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری

بلبل کی زباں پر ہے تری شکر گزاری

ہر نخل برومند ہے یا حضرت باری

پھل ہم کو بھی مل جائے ریاضت کا ہماری

 وہ گل ہوں عنایت چمن طبع نکو کو

                بلبل نے بھی سونگھا نہ ہو جن پھولوں کی بو کو

غواص محبت کو عطا کر وہ لآلی

ہو جن کی جگہ تاج سر عرش پہ خالی

اک ایک لڑی نظم ثریا سے ہو عالی

عالم کی نگاہوں سے گرے قطب شمالی

                سب ہوں در یکتا نہ علاقہ ہو کسی سے

                نذر ان کی یہ ہوں گے جنہیںرشتہ ہے نبیؐ سے

بھر دے در مقصود سے اس درج دہاں کو

دریائے معانی سے بڑھا طبع رواں کو

آگاہ کر انداز تکلم سے زباں کو

عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حسن بیاں کو

                تحسیں کا سماوات سے غل تا بہ سمک ہو

                ہر گوش بنے کان ملاحت وہ نمک ہو

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں

قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں

ذرّے کی چمک مہر منور سے ملا دوں

خاروں کو نزاکت میںگل ترسے ملا دوں

                گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

                اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).