مرتضیٰ بھٹّو: ذوالفقار علی بھٹّو کے ’حقیقی سیاسی جانشین‘ جو اپنی ہی بہن بےنظیر کے دورِ حکومت میں مارے گئے


20 ستمبر 1996 کو کیا ہوا؟

اسی کشیدہ صورتحال میں جمعہ 20 ستمبر کا وہ دن آ گیا جب مرتضیٰ بھٹّو کو جلسے کے لیے سُرجانی ٹاؤن جانا تھا۔

اُس روز دو فیصلے ہوئے۔ ایک پولیس نے کیا اور ایک مرتضی بھٹّو نے۔
مرتضیٰ بھٹوBBC

;مرتضی بھٹّو کا فیصلہ تھا کہ وہ جلسے سے قبل پریس کانفرنس کریں گے اور پولیس نے فیصلہ کیا کہ جب مرتضی بھٹّو اور اُن کے ساتھی گھر سے نکلیں گے تو انھیں روک کر اُن کے ساتھیوں کے اسلحے کے لائسنس کی پڑتال کی جائے گی۔ ضروری ہوا تو قانون کو مطلوب افراد کو حراست میں لے لیا جائے گا۔

ایس ایس پی ساؤتھ واجد درّانی اُس وقت کراچی کے جنوبی ضلعے میں پولیس کے سربراہ تھے۔ ڈی آئی جی شعیب سڈل اور ایس ایس پی واجد درّانی کے تعلقات معمول پر نہیں تھے۔ شعیب سڈل کئی مواقعوں پر مجھ سے رسمی اور غیر رسمی اور ریکارڈڈ گفتگو میں بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ جبکہ کم از کم ایک بار ایس ایس پی واجد درّانی بھی یہ تسلیم کر چکے ہیں۔

جلسے میں جانے کے لیے مرتضیٰ بھٹّو 70 کلفٹن سے نکلے تو پولیس کی نفری 70 کلفٹن کے سامنے شاہراہ ایران پر پہلے سے موجود تھی جو دو تلوار والے چوراہے سے ساحل ِسمندر کی جانب جا رہی ہے جہاں اب تجارتی مرکز پارک ٹاورز کی عمارت ہے۔

اس ٹیم میں (اس وقت کے) ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیّال، اے ایس پی شاہد حیات اور اے ایس پی رائے محمد طاہر شامل تھے۔

پولیس نے مرتضیٰ بھٹّو کے قافلے کا راستہ روکنا چاہا مگر مرتضی بھٹّو کے قافلے میں شامل کوئی بھی گاڑی رکے بغیر چلتی ہی چلی گئی اور پولیس کی کوشش ناکام ہو گئی کہ مرتضیٰ بھٹّو یا اُن کی ساتھیوں کے اسلحہ لائسنس کی پڑتال کر لی جائے۔

کراچی پولیس کے اس وقت کے ایک ایسے افسر نے جو بعد میں آئی جی بھی بنے بتایا کہ ’ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال تھے تو بڑی بڑی مونچھوں والے تھانیدار مگر تصادم، جھڑپ اور محاذ آرائی سے گریز کرتے تھے اور گریز ہی کرتے رہنے کے قائل بھی تھے۔‘

شعیب سڈل، جن کی سرکاری رہائشگاہ ’ڈی آئی جی ہاؤس‘ سڑک کی عین دوسری جانب یعنی 70 کلفٹن کے بالکل سامنے واقع تھی، نے کہا کہ ’مجھے تو اس ’ایکٹیوٹی‘ کا پتہ ہی نہیں تھا۔ میں تو اپنے کولیگ ڈی آئی جی غلام محمد ملکانی کے ساتھ واک کر کے واپس آیا تو سب کچھ معمول کے مطابق لگا۔‘

’کراچی آپریشن کی وجہ سے موبائل فون بند تھے۔ گھر میں آیا تو سٹاف نے بتایا کہ جنرل بابر (بےنظیر بھٹّو حکومت کے وزیر داخلہ نصیر اللّہ بابر) کی کال آئی تھی۔ جنرل بابر نے کراچی کے دھماکوں پر قومی اسمبلی کے لیے تفصیلات طلب کیں۔ چونکہ دونوں دھماکے ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ہوئے تھے تو جنرل بابر کو تفصیلات بھیجنے کے لیے میں نے آپریٹر سے کہا کہ ایس ایس پی ساؤتھ واجد درّانی کو فون پر لو۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’درّانی سے بات ہوئی تو میں نے دھماکوں کے بارے میں بات کر کے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ ہیں کہاں؟ اس نے کہا کہ سر آپ کے قریب ہی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کتنا قریب؟ تو اُس نے بتایا کہ ٹریفک پولیس چوکی پر جو ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہے۔‘

’میں نے کہا اتنے قریب ہو تو اندر آ جاتے تو اس پر درّانی نے بتایا کہ سر آپ کو بتا نہیں سکے پانچ بجے مرتضی بھٹّو کا قافلہ روکنے کی کوشش کی گئی مگر وہ رکے نہیں تھے۔ تو ابھی میں خود آیا ہوں۔ اب وہ جلسہ ختم کر کے سُرجانی سے واپس آئیں گے۔ میں انھیں جانتا بھی ہوں تو میں اس صورتحال کو سنبھال لوں گا۔‘

شعیب سڈل نے کہا کہ واجد درّانی نے انھیں بتایا کہ اب منصوبہ یہ ہے کہ جب مرتضیٰ بھٹّو کا قافلہ واپس آئے گا تو پولیس اُن کی گاڑی کو تو اندر (گھر میں) جانے دے گی مگر پیچھے والی گاڑیوں کو روک لیا جائے گا تاکہ اسلحہ کے لائسنس کی پڑتال کی جا سکے۔

شعیب سڈل نے بتایا ’تو میں نے کہا واجد یہ اس طرح سے نہیں ہو گا۔ مگر اس نے کہا کہ سر میں اسی لیے خود آیا ہوں کہ وہ مجھے جانتے ہیں اور میں ہینڈل کر لوں گا۔‘

ادھر مرتضیٰ بھٹّو سُرجانی ٹاؤن جانے سے قبل پریس کانفرنس کرنے پہنچے اور انھوں نے واضح طور پر کہا ’یہ پولیس آفیسر تو اس قابل نہیں کہ مملکت کی وردی پہنیں۔ یہ مجرم ہیں، انھوں نے کراچی میں نسل کُشی کی ہے، لاتعداد لوگوں کو ماورائے عدالت مار ڈالا ہے، اپنے دفاتر میں رہنے کا ان کا وقت اب ختم ہو رہا ہے، اب ان کا جیل جانے کا وقت آنے والا ہے میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ آؤ اور مجھے گرفتار کرو، اگر وہ اس کے بعد کے نتائج بھگت سکتے ہیں، سیاسی نتائج۔۔۔‘

مرتضیٰ بھٹّو سُرجانی ٹاؤن گئے اور وہاں بھی خطاب میں کہا کہ ’آپ کا اتنی بڑی تعداد میں آنا علی سنارا کے حق میں ریفرنڈم ہے یہ وہ پیپلز پارٹی ہے جس نے بانی قائد کے قاتلوں کو ساتھ بٹھا لیا ہے اگر تمہارا خیال ہے کہ علی سنارا جیسے بہادر کارکنوں کو گرفتار کر کے ڈرا سکو گے تو یہ تمہاری غلطی ہے۔‘

’تین دن سے تم (پولیس افسران) کہہ رہے ہو مرتضیٰ بھٹّو کو گرفتار کر لو گے۔‘

مرتضیٰ بھٹّو نے ڈی آئی جی شعیب سڈل، ایس ایس پی واجد درّانی اور ایس ایس پی رمضان چنّہ کا نام لے کر کہا کہ ’یہ سیاستدان بنے ہوئے ہیں۔ یہ اخباروں میں (سیاستدانوں کی طرح) بیان دے رہے ہیں کہ ہم مرتضی بھٹّو کو گرفتار کر لیں گے۔‘

’گھر کے ارد گرد موبائل لگائی ہے۔ جو لوگ موت سے نہیں ڈرتے تم انھیں جیلوں سے ڈراتے ہو۔ میں کھڑا ہوں آؤ گرفتار کرو۔ یہ میرا آئینی حق ہے، سیاسی فرض ہے کہ اگر میرا کوئی کارکن گرفتار ہو جائے تو میں اس کے پیچھے جاؤں۔ آئین میں ہے کہ ایم این اے، ایم پی اے عوامی شکایت پر جا سکتے ہیں تھانوں میں۔ ہم سیاسی طور پر مقابلہ کریں گے۔‘

مرتضیٰ بھٹّو نے کہا کہ ’اگر علی سنارا کو کچھ ہوا تو ۔۔۔ اگر اس کا خون کیا تو یاد رکھو عوام اس کا فیصلہ کرے گی۔۔۔‘

مرتضی بھٹّو سُرجانی ٹاؤن کا یہ جلسہ ختم کر کے گھر جانے کے لیے رات قریباً ساڑھے آٹھ بجے کلفٹن کی شاہراہ ایران نامی اُسی سڑک پر پہنچے جہاں ایک جانب جانے والا راستہ اُن کے گھر کی سمت جاتا ہے۔

اُسی سڑک پر پولیس اُن کی آمد کی منتظر تھی۔

تھانہ کلفٹن کے ایڈیشنل ایس ایچ او خرم وارث پولیس کے وہ پہلے تفتیشی افسر تھے جو اُس جھڑپ کے بعد موقع پر پہنچے تھے۔

خرم وارث کا کہنا ہے کہ ’تھانے سے پولیس اسی منصوبے کے تحت گئی تھی کہ قافلے کو روک کر ان کے اسلحے کے لائسنس چیک کرنے تھے۔ پولیس کی تو تعداد بھی اتنی نہیں تھی کہ کسی تصادم کا خدشہ ہوتا۔‘

خرم وارث نے بھی وہی بات کی جو ایک انتہائی سینئر افسر کر چکے تھے، یعنی یہ کہ ایس ایچ او سیال تصادم کے قائل نہیں تھے۔

’سیال میرا ایس ایچ او رہا ہے اور ہم نے ساتھ بڑا کام کیا ہے، یقین کیجئے سیال تو گیلی زمین پر پیر رکھنے جیسا رسک نہیں لیتا تھا۔‘

بعد کی تفصیلات بتاتے ہوئے کئی پولیس افسران نے گفتگو کے کئی ادوار میں بتایا کہ جب مرتضیٰ بھٹّو کو واپس آتے وقت روکنے پر اتفاق ہوا تو ایس ایس پی واجد درّانی نے ٹریفک چوکی میں بیٹھ کر آپریشن کی کمانڈ کا فیصلہ کیا۔

جب جونئیر آفیسرز نے اُن سے عملے کی کمی کی بات کی تو ایس ایس واجد درّانی نے اپنے سکیورٹی کے اہلکار بھی مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کا راستہ روکنے والی پولیس ٹیم کے ساتھ کر دئیے جن کی تعداد آٹھ کے لگ بھگ تھی۔

اب نقشہ یہ تھا کہ واجد درّانی ٹریفک چوکی پر تھے اور وائرلیس سیٹ پر ٹیم کو احکامات دے رہے تھے بلکہ سُرجانی ٹاؤن سے مرتضیٰ بھٹّو گھر واپسی کی بھی پل پل نگرانی کر رہے تھے۔

اے ایس پی شاہد حیات (جو اُس وقت وردی میں نہیں تھے)، اے ایس پی رائے طاہر اور ایس ایچ او حق نواز سیّال شاہراہ ایران پر فٹ پاتھ پر تعینات پولیس کی نفری کے ساتھ مرتضیٰ بھٹّو کی آمد کے منتظر تھے۔

اور اس خدشے کے پیش نظر کے مرتضیٰ بھٹّو کا قافلہ 70 کلفٹن جانے کے لیے دوسرا راستہ یعنی شاہراہ ایران کا پارک ٹاورز والا سرا استعمال کریں تو بھی پولیس اُن کے ساتھیوں کی گاڑی روک سکے، ایس ایچ او نیپیئر تھانہ آغا جمیل اور ایس ایچ او گارڈن شبیر قائم خانی شاہراہ قائدین کے دوسرے سرے پر اپنے اہلکاروں کے ہمراہ موجود تھے۔

راستہ روکنے والی پولیس ٹیم جہاں کھڑی تھی اُس کی ایک طرف گلی میں داخل ہوتے ہی مرتضیٰ بھٹّو کا گھر 70 کلفٹن تھا جبکہ دوسری جانب خود ڈی آئی جی کراچی شعیب سڈل کی سرکاری رہائشگاہ تھی۔

کم از کم چار گاڑیوں پر مشتمل مرتضیٰ بھٹّو کے قافلے نے روایتی راستہ یعنی دو تلوار والا راستہ ہی اختیار کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp