مرتضیٰ بھٹّو: ذوالفقار علی بھٹّو کے ’حقیقی سیاسی جانشین‘ جو اپنی ہی بہن بےنظیر کے دورِ حکومت میں مارے گئے


ڈرامائی پیشرفت یا بدقسمتی

اور پولیس نے اپنے منصوبے کے عین مطابق پہلی گاڑی کو تو (جو کہ مرتضی بھٹّو کے زیر استعمال رہتی تھی اور مرتضی اُسی میں سفر کرتے تھے)، یہ سمجھ کر جانے دیا کہ مرتضیٰ بھٹّو تو گزر گئے اب وہ گھر کے اندر چلے جائیں گے، اور اُس گاڑی کے پیچھے آنے والی دوسری گاڑی کا راستہ روک لیا۔

اور یہ دوسری گاڑی مرتضیٰ بھٹّو کے قریبی ساتھی عاشق جتوئی کی تھی جسے عاشق جتوئی خود چلا رہے تھے۔

’اب اسے بدقسمتی کہیں یا اتفاق یا حادثہ کے مرتضیٰ بھٹّو عاشق جتوئی کی ساتھ اُن کی اسی پجیرو گاڑی میں بیٹھے تھے۔ اور اُن کی اپنی گاڑی جس میں وہ سفر نہیں کر رہے تھے آگے جا چکی تھی۔‘

’پولیس افسران تو یہی سمجھے کے مرتضی بھٹّو گزر چکے ہیں اور اب جو گاڑی روکی جا رہی ہے اُس میں موجود افراد سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ جب گاڑی رُکی، تو پولیس کو اندازہ ہوا کہ دراصل مرتضیٰ بھٹّو تو اُسی گاڑی میں ہیں مگر تب تک صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی تھی۔‘

گاڑی رکتے ہی مرتضیٰ بھٹّو نے جو ڈرائیور عاشق جتوئی کے ساتھ والی نشست یعنی پیسنجر سیٹ پر بیٹھے تھے شیشہ اُتار کر (مبیّنہ طور پر) پوچھا کہ ’کیا ہو رہا ہے یہ؟‘

پولیس افسران نے بتایا کہ ’کچھ نہیں سر، بس روٹین کی چیکنگ ہو رہی ہے، کاغذ دیکھنا ہیں۔‘

مگر اس سے پہلے کہ بات اور آگے بڑھتی، پیچھے والی گاڑی میں سوار مرتضیٰ بھٹّو کے محافظین اپنی گاڑیوں سے اتر کر سڑک پر پہنچ چکے تھے اور (مبینہ طور پر) اُن میں سے کسی نے اے ایس پی رائے طاہر کے کندھے کی جانب ہاتھ بڑھا کر انھیں مرتضیٰ بھٹّو کی گاڑی سے دور دھکیلنے یا پیچھے ہٹانے یا ہاتھا پائی کرنے کی کوشش کی۔

اتنے میں مرتضیٰ بھٹّو کے باقی سب محافظوں نے مرتضیٰ بھٹّو کی گاڑی کے گرد حفاظتی حصار بنانے یا گھیرا ڈالنے کی کوشش کی۔

اس دھینگا مشتی یا دھکّم پیل میں اے ایس پی رائے طاہر کی قمیض کندھے کے قریب سے پھٹ گئی اور صورتحال انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہو گئی۔

پھر سندھی میں دو لفظ سنائی دئیے ’کیر نہ ونجھے‘ اور اس سے پہلے کہ اے ایس پی یا مرتضیٰ بھٹّو اپنے اپنے لوگوں سے یا ایک دوسرے سے کوئی اور بات کرتے، کسی نے گولی چلا دی۔

بس پھر کیا تھا؟ پہلی گولی چلتے ہی دونوں جانب سے شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔

کراس فائر یعنی دونوں جانب سے ہونے والی فائرنگ سے بچنے کے لیے رائے طاہر اور سیّال خود کو بچانے کی کوشش میں دوسری طرف بڑھے ۔

فٹ پاتھ پر تعینات پولیس کی نفری نے اپنے افسران اور اہلکاروں اور مرتضیٰ بھٹّو کے محافظین اور گارڈز نے اپنے رہنما کو بچانے کے لیے (مبیّنہ طور پر) جو بےدریغ گولیاں چلائیں اُن میں سے کئی کا رُخ سڑک کی طرف یعنی نیچے کی جانب بھی تھا اور سڑک پر لگ کر اچھلنے والی ایک گولی ایس ایچ او حق نواز سیّال کی ایڑی میں اور ایک اور گولی ذرا فاصلے پر کھڑے اے ایس پی شاہد حیات کی ٹانگ میں لگی۔

دونوں افسران کو گولی لگتے اور زخمی ہوتے دیکھ کر پولیس اہلکار بھی پوری شدّت سے گولیاں چلانے لگے اور مرتضیٰ بھٹّو کے محافظین بھی۔

ایک افسر نے جو کئی برس تک اس معاملے سے جڑے رہے بتایا کہ ’اسی اثنا میں بجلی منقطع ہو گئی اور سڑک پر اندھیرا چھا گیا۔‘

پہلی گولی کس نے چلائی؟

یہی وہ سب سے اہم سوال ہے جس گرد بعد کے تمام الزامات، قصّے اور سازشی نظریات 24 سال سے گھوم رہے ہیں۔ لیکن شعیب سڈل نے واقعے کی تفصیل کچھ یوں بتائی۔

’جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں اس وقت معمول کے مطابق واک کر کے واپس آیا تھا اور وزیر داخلہ کو رپورٹ بھیجنے کے لیے ایس ایس پی واجد درّانی سے بات کر رہا تھا کہ پہلی گولی چلنے کی آواز آئی۔‘

’میں چونکہ فون پر ہی تھا تو میں گولی کی آواز سنتے ہی ایس ایس پی سے پوچھا واجد یہ کیا ہو رہا ہے اُس نے کہا کہ سر آواز تو میں نے بھی سُنی ہے میں چیک کر کے بتاتا ہوں،‘ ڈی آئی جی شعیب سڈل نے ایس ایس پی درّانی کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر سڈل کے مطابق ’جیسے ہی فون بند ہوا کوئی تیس سیکنڈ یا اُس سے بھی کم وقت میں شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔‘

ڈاکٹر سڈل نے بتایا کہ ’اسی اثنا میں آپریٹر نے بتایا کہ صحافی مظہر عباس بات کرنا چاہتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ اس وقت جیو نیوز سے وابستہ مظہر عباس اُس وقت ڈان گروپ کے انگریزی روزنامہ ’اسٹار‘ کے رپورٹر تھے۔

شعیب سڈل نے بتایا کہ ’مظہر عباس نے پوچھا کہ کیا آپ کے گھر پر حملہ ہوا ہے؟ اطلاع ملی ہے کہ ڈی آئی جی کے گھر کے عین باہر فائرنگ ہو رہی ہے۔‘

اردو اخبار روزنامہ ’جسارت‘ کے کرائم رپورٹر اے ایچ خانزادہ نے بتایا کہ ’یہ اُن دنوں کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں تھی۔ کراچی آپریشن میں قریباً ہر رینک کے افسران پر حملے معمول کی بات تھے۔ ہمیں بھی پہلے اطلاع یہی ملی تھی کہ ڈی آئی جی کراچی کے گھر پر فائرنگ ہو رہی ہے۔

شعیب سڈل نے کہا کہ ’میں نے فون پر مظہر عباس سے کہا کہ گولی تو چلی ہے مگر معلوم نہیں کیا ہو رہا ہے۔‘

’مگر مظہر عباس کا فون بند کیا ہی تھا کہ پھر اتنی شدید فائرنگ ہوئی کہ گولیاں میرے گھر کی دیوار تک بھی آ کر لگیں۔ پھر میرا سکیورٹی کا افسر تھا انسپکٹر، وہ باہر گیٹ تک گیا مگر آ کر اُس نے بھی کہا کہ سر فائرنگ کے بارے میں پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کیا ہوا ہے۔‘

شعیب سڈل بتاتے ہیں کہ ’جب میری دوبارہ واجد درّانی سے بات ہوئی تو میں پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو مجھے بتایا گیا کہ یہ واقعہ ہوا ہے میں نے پوچھا کہ کیا مرتضیٰ بھٹّو تھے وہاں یا گھر میں جا چکے تھے تو ایس ایس پی نے مجھے بتایا کہ وہ شاید گھر کے اندر چلے گئے تھے۔ میں نے کہا کہ شاید نہیں، دیکھ کر مجھے بتاؤ اصل بات۔۔۔‘

اسی شدید فائرنگ کی کہانی سناتے ہوئے متعدد پولیس افسران نے بتایا کہ جب دو سینئیر پولیس افسران کو گولیاں لگ گئیں اور دونوں جانب سے فائرنگ کا سلسلہ بند ہو گیا تو بکھر جانے والی پولیس فورس پھر سے جمع ہو کر اندھیری سڑک پر رُکی ہوئی گاڑیوں کے قریب پہنچی اور تب یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ میر مرتضیٰ بھٹّو کے پانچ ساتھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ خود مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے کئی ساتھی شدید زخمی ہیں۔

اس کے علاوہ دو پولیس افسران (شاہد حیات اور حق نواز سیال) زخمی ہیں اور وہاں سے گزرنے والا ایک ٹیکسی ڈرائیور بھی ہلاک ہو گیا ہے۔

’رائے طاہر نے میر مرتضیٰ بھٹّو کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور زخمی مگر حیرت زدہ مرتضیٰ بھٹّو کو باہر نکالا۔‘

’کوئی اور گاڑی نہ ہونے کے سبب رائے طاہر نے مرتضیٰ بھٹّو کو ایک پولیس موبائل وین کے پچھلے حصّے میں ڈالا اور وہاں سے طبّی امداد دینے کے لیے کسی ہسپتال کی جانب روانہ ہوئے۔‘

ڈی آئی جی شعیب سڈل نے بتایا کہ صرف چند ہزار گز دور مگر سڑک کے دوسری جانب ہی ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال تھا اور پولیس افسران نے فیصلہ کیا کہ مرتضیٰ بھٹّو کو فوری طبّی امداد کے لیے وہیں لے جایا جائے۔

فائرنگ شروع ہوتے ہی علاقے میں معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے۔ بھگدڑ مچ جانے کی وجہ سے ٹریفک معطل ہو گئی، دکانیں بازار اور قریب واقع تجارتی مراکز اور ریستوران سب بند ہونا شروع ہو گئے، یہاں تک کے اندھیری سڑک پر فائرنگ کے خوف سے ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال کے دروازے تک بند کر دئیے گئے تھے۔

ایک سابق افسر نے بتایا کہ ’پولیس اور مرتضیٰ بھٹّو کے حامیوں کی یہ جھڑپ قریباً 8:30 بجے ہوئی جبکہ مرتضیٰ بھٹّو کی ہسپتال آمد کا وقت 9:20 درج کیا گیا۔‘

’میر مرتضی بھٹّو ہسپتال پہنچ کر بھی اتنے ہوش و حواس میں تھے کہ پولیس موبائل وین سے اتر کر خود اسٹریچر پر منتقل ہوئے۔‘

’اب اسے مرتضیٰ بھٹّو کی بدقسمتی، اتفاق یا حادثہ کہیے کہ ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال میں کراچی کے عام سرکاری ہسپتالوں کی طرح کوئی بہت عمدہ مخصوص شعبۂ حادثات نہیں تھا بلکہ وہاں تو کوئی ڈاکٹر گولی سے زخمی ہونے والوں کو ہینڈل کرنے کے لیے بھی نہیں تھا،‘ ایک سابق سینیر پولیس افسر نے کہا۔

یہاں وہ دوسرا سوال اٹھا جس نے آئندہ کئی برس تک بلکہ آج تک تمام صحافیوں، تجزیہ نگاروں، پولیس افسران اور تفتیشی حکام کو الجھائے رکھا اور سازشی نظریات کو تقویت پہنچائی: کہ جب ہسپتال قابل انحصار نہیں تھا تو شدید زخمی مرتضی بھٹّو کو وہاں کیوں لے جایا گیا؟ کسی بہتر طبّی مرکز میں بہتر ابتدائی امداد پہنچانے کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟

جواب میں آئندہ کئی برس تک ایس ایس پی واجد درّانی، سابق ایس پی کلفٹن شکیب قریشی اور دیگر پولیس افسران نے وہی کہا جو اس بار پوچھے جانے پر ڈاکٹر شعیب سڈل نے بھی دہرایا۔

’اگر جے پی ایم سی (جناح ہسپتال) یا سول ہسپتال لے کر جاتے اور کئی گولیوں سے زخمی مرتضیٰ بھٹّو راستے میں دم توڑ جاتے تو پھر کہا جاتا کہ جب ’مڈ ایسٹ‘ چند ہزار گز کے فاصلے پر تھا تو وہاں کیوں نہیں لے گئے، پھر کہا جاتا کہ پولیس نے طبّی امداد پہنچانے میں جان بوجھ کر تاخیر کر کے انھیں مار دیا۔‘

ڈاکٹر سڈل نے وضاحت کی کہ ’ہسپتال ایمرجنسی اور وہ بھی ایسی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کتنا تیار تھا یا نہیں، یہ مرتضیٰ بھٹّو کو ہسپتال لے جانے والے یا ہدایات دینے والے پولیس افسران کو کیسے معلوم ہوسکتا تھا؟ اسی لیے بس پہلا طبّی مرکز سمجھ کر انھیں وہاں لے جایا گیا۔‘

پولیس افسران، صحافیوں اور حکام کے مطابق زندہ مگر شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچنے پر مرتضیٰ بھٹّو کو فوری طور پر ہسپتال کے (برائے نام) ہنگامی حالت کے شعبے میں منتقل تو کر دیا گیا مگر وہاں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے یا ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ تھا نہ قابل و باصلاحیت ڈاکٹرز موجود تھے۔

صحافی اے ایچ خانزادہ نے بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ تب تک (اُس وقت کے) کراچی کے جنوبی ضلعے کے ڈپٹی کمشنر عارف الہٰی اور دیگر حکام بھی وہاں پہنچ چکے تھے اور شدید گھبراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں دیگر ہسپتالوں سے ڈاکٹرز کو وہاں بلوائے جانے کی کوششیں جاری تھیں۔‘

حکام، ڈاکٹرز، صحافیوں اور طبّی عملے کے مطابق مرتضیٰ بھٹّو چار گولیوں سے زخمی ہوئے تھے مگر ان میں تین زخم ہرگز مہلک نہیں تھے۔

شعیب سڈل نے بھی کہا کہ ’مرتضی بھٹّو کو جو چار گولیاں لگی تھیں اُن میں سے تین ایسی مہلک ہرگز نہیں تھیں کہ اُن زخموں سے اُن کی موت واقع ہو جاتی۔ ایک گولی کنپٹی کے قریب ماتھے کی ہڈّی کو (ابرو کے پاس) چھوتی ہوئی نکل گئی، دوسری گولی سینے پر رگڑتی ہوئی گئی تیسری گولی بائیں کہنی کے پاس سوفٹ ٹشو میں لگی جبکہ مہلک وہ زخم ثابت ہوا جو گلے کے قریب گولی لگنے سے ہوا اور اُس نے جگیولر وین یعنی شہہ رگ کو نقصان پہنچایا تھا۔‘

ایک متموّل علاقے میں عام بیماریوں کے علاج کے لیے قائم ہسپتال میں جب مرتضیٰ بھٹّو جیسی اہم شخصیت کو طبّی امداد کے لیے لایا گیا تو وہاں ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جو عملہ طبّی امداد کے لیے موجود تھا اُس کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

میر مرتضیٰ کی زندگی بچانے کے لیے وہاں موجود عملے اور ڈاکٹرز نے سر توڑ کوشش کی اور جلد ہی سینیئر ڈاکٹرز بھی ہسپتال پہنچ گئے تاکہ ان کوششوں میں ہاتھ بٹا سکیں۔

شعیب سڈل کہتے ہیں کہ’گلے کے زخم سے خون بہتا رہا۔ اگر ہسپتال میں کوئی اس زخم کو ٹانکے لگاتا یا کلامپ کر دیتا تو خون رُک جاتا اور وہ محفوظ رہتے۔‘

کراچی ساؤتھ پولیس کے ایک سابق افسر نے کہا کہ اس کے بجائے ’تولیے رکھ کر خون روکنے کی کوشش کی گئی حالانکہ اچھا خاصا ہسپتال تھا، میرے تو بچے اسی ہسپتال میں پیدا ہوئے ہیں۔‘

اس کہانی کی تیاری میں مدد کرنے والوں کی اکثریت متفق نظر آئی کہ اگر گلے میں لگنے والی گولی سے بہہ کر حلق میں گرتا ہوا خون رُک جاتا یعنی جگیلر وین (شہ رگ) کے زخم کو بند کر کے خون بہنے سے روک لیا جاتا تو شاید مرتضیٰ بھٹّو کو بچایا جاسکتا تھا۔

قریباً ایک گھنٹے کی تاخیر سے مرتضی بھٹّو کے اہل خانہ، اہلیہ غنویٰ بھٹّو، صاحبزادی فاطمہ بھٹّو اور صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹّو (جونئیر) بھی مڈ ایسٹ ہسپتال پہنچ گئے۔

انھیں لانے والے شخص نے تب تک ہسپتال میں بڑی تعداد میں جمع ہو جانے والے صحافیوں کو اپنا نام واحد بخش بتایا اور کہا کہ وہ مرتضیٰ بھٹّو کا ڈرائیور ہے جو گھر پر تھا اور گھر کے بالکل ہی باہر فائرنگ کے بعد اندر موجود افراد میں بھی سراسیمگی دوڑ گئی اور مرتضیٰ بھٹّو کے اہل خانہ اور ملازمین نے باہر نکل کر دیکھنے کی کوشش کی مگر باہر موجود پولیس کی نفری نے انھیں روک دیا۔
مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو اور اہلیہ غنویٰ بھٹوGetty Images

;ہسپتال میں اہل خانہ کی آمد کے بھی ڈیڑھ گھنٹے بعد تک بھی مرتضیٰ بھٹّو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ ہسپتال میں بستر پر بیٹھے ہوئے بھی اُن کی ایک تصویر بہت دن تک اخباروں کی زینت بنتی رہی۔

میر مرتضیٰ بھٹّو شدت تکلیف سے بہت دیر تک کراہتے اور شدید دشواری کے باوجود سانس لینے کی جدوجہد کرتے رہے۔

ہسپتال لائے جانے کے قریباً ڈھائی گھنٹے کے بعد بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے میر مرتضیٰ بھٹّو کا دم اکھڑنے لگا اور کوئی 11:30 کے لگ بھگ پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ مشہور و مقبول سمجھے جانے والے بھٹّو خاندان کے اس نامور سپوت نے زندگی کی آخری سانس لینے کی کوشش کے دوران دم توڑ دیا۔

ہلاکت کی تصدیق ہوتے ہی ہسپتال میں کہرام مچ گیا۔ مرتضیٰ بھٹّو کے خاندان، چاہنے والوں اور کارکنوں کے ساتھیوں کے بین سے در و دیوار لرز رہے تھے۔

اب این اے 248 کیماڑی سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کا دعویٰ ہے کہ وہ بھی اُس وقت کلفٹن ہی میں واقع پیپلز پارٹی کے صدر دفتر بلاول ہاؤس پر موجود تھے جب انھوں نے اُس فائرنگ کی آواز سُنی مگر کسی کو پتہ نہیں چل سکا کہ کیا ہوا ہے۔

فائرنگ کی آواز سن کر قادر پٹیل بھی دیگر افراد کی طرح موقع پر پہنچے اور پھر ہسپتال پہنچ کر انھیں بھی پتہ چلا کہ میر مرتضیٰ بھٹّو زخمی ہیں۔

مرتضی بھٹّو کے دم توڑ دینے کے قریباً ایک گھنٹے کے بعد اس وقت کی وزیر اعظم اور اُن کی بہن بے نظیر بھٹّو بھی ہسپتال پہنچیں۔

صحافی خانزادہ نے دعویٰ کیا کہ ’گاڑی سے اتریں تو وزیر اعظم کے صرف ایک پیر میں چپّل تھی۔ اور دوسرے میں نہیں تھی، وہ بھی بے نظیر بھٹّو جیسی وزیر اعظم۔۔۔‘

عبدالقادر پٹیل نے کہا ’وہ چپّل کے بغیر جس طرح ہسپتال میں دوڑتی اور چیختی ہوئی گئی تھیں، اور جو ایک بہن کا اپنے بھائی کی لاش پر جو بین ہوتا ہے ماتم ہوتا ہے وہ میں نے سب دیکھا ہے۔‘

’بے نظیر بھٹّو بڑے سے بڑے جبر کا مسکرا کر مقابلہ کرتی تھیں مگر جو میں اُس دن دیکھا وہ واقعی عام بہن دکھائی دیں جو بھائی پر گرم آنچ بھی برداشت نہیں کر پاتی جو ہر گھر میں ہوتی اور اگر وہ بہن، اپنے بھائی کی لاش دیکھے تو کیا حال ہوتا ہے اُس دن میں نے وہ بے نظیر بھٹّو دیکھیں۔‘

ادھر موقع پر اُس کے بعد کیا ہوا یہ بتایا ایڈیشنل ایس ایچ او کلفٹن خرم وارث نے جو وہاں پہنچنے والے پہلے تفتیشی افسر تھے۔

’جب میں موقع پر پہنچا تو زخمی مرتضیٰ بھٹّو کو ہسپتال منتقل کیا جا چکا تھا۔ ’سین پر مجھے سیّال (ایس ایچ او کلفٹن) زخمی نظر آیا، میں نے اُسے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی تو حق نواز سیّال نے کہا کہ مجھے پرائیویٹ ہسپتال (لیاقت نیشنل) لے جاؤ۔

’زخمی اے ایس پی شاہد حیات کو بھی پرائیویٹ ہسپتال (آغا خان) پہنچا دیا گیا ہے۔‘

استغاثہ، عدالتی ریکارڈ اور اخبارات کے مطابق اس واقعے میں مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھ کل نو افراد ہلاک ہوئے جن میں میر مرتضیٰ بھٹّو، اُن کے ساتھی عاشق جتوئی، عبدالستار راجپر، رحمٰن بروہی، یار محمد بلوچ، سجاد حیدر، وجاہت جوکھیو، کوثر زیدی اور وہاں سے اُس وقت گزرنے والا ایک ٹیکسی ڈرائیور شامل ہیں۔

جبکہ مرتضیٰ بھٹّو کے چار ساتھی ڈاکٹر مظہر میمن، اصغر علی، محمد ایاز اور محمد اسماعیل جبکہ دو پولیس افسر حق نواز سیّال اور شاہد حیات زخمیوں میں شامل ہیں۔

واقعے کے بعد پولیس نے ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال کی مدعیّت میں سرکار کی جانب سے ایف آئی آر 386/96 درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
غنویٰ بھٹوGetty Images

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp