مرتضیٰ بھٹّو: ذوالفقار علی بھٹّو کے ’حقیقی سیاسی جانشین‘ جو اپنی ہی بہن بےنظیر کے دورِ حکومت میں مارے گئے


سنسنی اور ڈرامہ

واقعے کے بعد پہلے شہر میں خوف اور افسردگی کی فضا چھا گئی اور ایک سوگ کا ماحول طاری رہا جبکہ عوامی حلقوں اور پھر اخبارات میں سازشی نظریات نے جنم لیا کسی نے کہا کہ پہلی گولی قریبی درختوں سے چلائی گئی کسی نے کہا کوئی کسی چھت پر تھا جہاں سے پہلا فائر کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

کہانی کی پراسراریت اُس وقت اور بڑھ گئی جب ایک مہم کی طرح اس واقعے کے بارے میں مختلف اخبارات کی پالیسی کے تحت سنسنی خیز خبریں اورغیر تصدیق شدہ یا قیاس آرائیوں پر مبنی مواد شائع ہونا شروع ہوا۔

ذرائع ابلاغ میں بحث شروع ہوئی کہ اے ایس ہی شاہد حیات اور ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال کو آنے والے زخم خود ساختہ ہیں اور دونوں افسران نے خود کو زخمی کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت سوچا سمجھا قتل نہیں ہے بلکہ اچانک ہو جانے والا ایک پولیس مقابلہ ہی ہے۔

اس قسم کی سنسنی خیز خبروں نے خوب تھرتھلی پیدا کی۔

حق نواز سیّال کی پراسرار ہلاکت

مگر میر مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت کی اس پراسرار کہانی میں دوسرا ڈرامائی موڑ تب آیا جب ایک ہی ہفتے کے اندر اندر ایس ایچ او حق نواز سیّال گارڈن پولیس لائنز میں واقع اپنی سرکاری رہاشگاہ میں انتہائی پر اسرار انداز و حالات میں مردہ پائے گئے۔

بستر پر لیٹے حق نواز سیّال کی کنپٹی پر ان ہی کے (سروس ویپن) پستول سے چلائی جانے والی گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔

اخبارات نے اس ہلاکت کو بھی انتہائی پر اسرار قرار دیا جبکہ پولیس اور حکام نے اسے خود کشی قرار دیا۔

اس کہانی کی تیاری میں مدد کرنے والے تمام افراد نے بھی پولیس ہی کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اسے خود کشی قرار دیا۔

سابق ڈی آئی جی شعیب سڈل نے کہا کہ مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت کے بعد پولیس اہلکار نہایت خوفزدہ اور دباؤ میں تھے۔

’اگلے ہی روز یہ سیال آیا میرے دفتر تو بالکل ہی شکل زرد تھی اُس کی۔ حالانکہ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں اُس نے مگر بہت خوفزدہ اور دباؤ میں تھا وہ۔ وہ یہی کہتا رہا کہ سر ’وہ‘ (الذوالفقار کے مبینہ ارکان) ہمیں چھوڑیں گے نہیں۔ میں انھیں جانتا ہوں۔‘

شعیب سڈل نے بتایا کہ انھوں نے سیّال سے کہا کہ ’بھئی اپنا خیال رکھو، کوئی سکیورٹی وغیرہ کا مسئلہ ہے تو بتاؤ جس پر اُس نے کہا کہ سر مسئلہ تو ہے۔ میرے کچھ بھتیجے ہیں (پولیس میں) اگر وہ کچھ دنوں کے لیے آ جائیں میری سکیورٹی کے لیے تو میری تسلّی رہے گی۔ تو میں نے اُسی وقت آرڈر کر دیا۔‘

شعیب سڈل نے کہتے ہیں کہ ’اب پولیس لائن کے اندر گھر ہے، اپنے رشتہ دار اہلکار گارڈ ڈیوٹی پر ہیں، اس دوران جھنگ سے بھی اُس کے رشتہ دار آ گئے تھے کافی تعداد میں وہ صحن کے اندر بیٹھے گپیں لگا رہے ہیں تو کون آ کے مار دے گا، میں نے خود رات کو جا کے دیکھا موقع معائنہ کیا تو اُسی وقت پتہ چل گیا تھا کہ یہ تو سیدھی سیدھی خود کشی ہے۔‘

’مگر پریس والے تو خود کشی کی کہانی نہیں ناں مانتے انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک ہی بندہ تھا جو عینی شاہد تھا انھوں نے اُس کو بھی ختم کر دیا ہے۔‘
فاروق خان لغاری اور بے نظیر بھٹوGetty Images

تین ایف آئی آر

شاید مرتضی بھٹو کیس برصغیر کی پولیسنگ کی تاریخ کا واحد کیس ہے جس میں ایک ہی مقدمے کی تین ایف آئی آرز درج کی گئیں۔

مگر بعض دیگر پولیس افسران اور حکام کہتے ہیں کہ واحد نہیں تو اُن گنے چنے مقدمات میں سے ضرور ایک ہے جس میں ایک سے زیادہ ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ ایک پولیس آفسر کا کہنا ہے کہ ’دو تو ہو بھی جاتی ہوں گی مگر تین ہونا واقعی ایک عجیب بات ہے۔‘

استغاثہ کے ریکارڈ اور حقائق کے مطابق پہلی ایف آئی آر وہ تھی جو سرکار کی مدعیّت میں ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیّال کی جانب سے درج کی گئی۔

دوسری ایف آئی آر مرتضیٰ بھٹّو کے ذاتی خدمت گار نور محمد کی جانب سے اس لیے درج کروائی گئی کہ مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کو پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر کے متن سے اتفاق نہیں تھا۔

اسی دوران میر مرتضیٰ بھٹّو کی بیوہ غنویٰ بھٹّو نے اپنے وکلا کی مدد سے عدالت سے رجوع کیا اور ماہر قانونی ماہرین پر مشتمل مشیروں کی تیار کی ہوئی ایک قانونی درخواست پر عدالت نے تیسری ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

رجوع کرنے پر ہائی کورٹ نے غنویٰ بھٹّو کی جانب سے دائر پیٹیشن پر کارروائی کرتے ہوئے تفتیش کراچی پولیس کے تمام افسران سے واپس لینے کی ہدایت جاری کیں۔

پولیس افسران پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے غنویٰ بھٹّو کے وکلاء نے تفتیش کسی ’ایماندار اور غیر جانبدار افسر‘ کو دینے کی استدعا کی تو تفتیش پہلے سندھ پولیس کے ایک افسر ایس ایس پی اے ڈی خواجہ کے حوالے کی گئی۔

اسی اثنا 5 نومبر 1996 کو بے نظیر بھٹّو کی اپنی ہی جماعت کے سابق رہنما اور اُن کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اس وقت کے صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری نے بے نظیر بھٹّو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم نامزد کردیا گیا اور بے نظیر کے ایک سیاسی حریف مگر خاندانی رشتہ دار یعنی اُن کے والد کے چچا زاد بھائی ممتاز علی بھٹّو کو سندھ کا نگران وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔

صدر لغاری کی جانب سے حکومت کی برطرفی کے حکمنامے میں الزامات عائد کئے گئے کہ بے نظیر بھٹّو کی قیادت میں قائم یہ حکومت بدعنوانی اور اقربا پروری میں ملوث تھی اور یہ کہ امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہی، قتل و غارت پر قابو نہ پاسکی، اس دور میں ماورائے عدالت قتل ہوتے رہے اور اس ضمن میں خود اُن کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹّو کے قتل کا حوالہ بھی دیا گیا۔

شعیب سڈل واجد درّانی اور میر مرتضی کی ہلاکت کے موقع پر موجود یا اس دوران تعینات رہنے والے تمام پولیس افسران بھی اپنے عہدوں سے برطرف کر دئیے گئے اور مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت کے وقت موقع یا اس معاملے میں کسی بھی طرح متعلق تمام پولیس افسران اور اہلکاروں کو اس ہلاکت کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا گیا۔

اگرچہ کہ تفتیش مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں اور خاندان کے نامزد افسر (اے ڈی خواجہ) کے سپرد تھی مگر اُن سے بھی واپس لے کر تفتیش سندھ پولیس کی کرائمز برانچ کے حوالے کر دی گئی۔
بینظیر بھٹوGetty Imagesبینظیر بھٹو اپنے بھائی مرتضی کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے

اب ممتاز بھٹّو کی نگراں صوبائی حکومت نے تفتیش کرائمز برانچ کے افسر علی گوہر مٹھانی (مٹھیاڑیں) کے حوالے کر دی۔

مگر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ ’پولیس بدنیت نہیں تھی۔ اگر ہم بدنیت ہوتے تو میں تفتیش کرائمز برانچ کے حوالے نہ کرتا، کیس فائل اُن کی مرضی کے افسر (اے ڈی خواجہ )کے سپرد نہ کرتا یا پھر تیسری ایف آئی آر کے معاملے پر ہم کورٹ چلے جاتے سال، چھ مہینے تو معاملہ لٹک ہی جاتا، یا پھر عدالت کے احکامات پر پولیس کے لاء ڈپارٹمنٹ کو بیچ میں لاتے قانونی راستہ اختیار کرتے اور تاخیر کرواتے مگر ہماری نہ نیت خراب تھی نہ ہم نے کچھ غلط کیا تھا۔‘

ایک اور افسر نے کہا کہ ’قانون کے مطابق ایک کارروائی ہو رہی تھی تھی اُس کے دوران ایک حادثہ ہو گیا، رہی ہسپتال میں کوتاہی یا غفلت کی بات تو اسے بھی بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔‘

شعیب سڈل کا کہنا ’اُس کے لیے اس وقت مرتضیٰ بھٹّو کے قافلے کو روکنے کا فیصلہ منصوبہ بندی کے لحاظ سے غلط تھا اور یہ میں نے درّانی سے پہلے کہا بھی تھا جیسے ہی میرے علم میں لایا گیا تھا۔ مگر بس ہونے والی بات تھی ہو گئی۔‘

لیکن واجد درّانی کے قریب رہنے والے افسران میں سے ایک نے کہا کہ ’شعیب سڈل کو سارا منصوبہ بتایا گیا تھا اور انھیں پتہ تھا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں اور وہ کیسے ہو گا اب وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم تھا۔‘

کمیشن کا قیام

سازشی نظریات کے اسی شور میں بالآخر اُس وقت کے ہائی کورٹ کے جج جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا گیا جس نے بھی ان سازشی نظریات سمیت ہر پہلو پر غور کیا مگر ہمیشہ یہی کہا جاتا رہا کہ کمیشن نے تمام امکانات کو رد تو ضرور کر دیا مگر یہ بھی کہا کہ اگر یہ کسی کے کہنے پر کیا گیا تو وہ ایس ایس پی یا ڈی آئی جی سے بہت اوپر کی سطح پر ہوا ہو گا۔

ایک متاثرہ افسر کہتے ہیں کہ ’مگر کمیشن اوپر کی اس سطح کے تعین میں ناکام رہا کہ آخر کتنے اوپر اور کس نے ایسا کیا یا کروایا۔‘

’نتیجہ کمیشن کا یہ نکلا کی جتنے سیاسی پہلو یا کھلاڑی تھے وہ تو سب کلئیر ہو گئے اور شاید کمیشن نے پولیس افسران کی جانب نشاندہی کی بھی تو اتنی مبہم اور اس اندازے کے ساتھ کہ پولیس افسران بھی بالآخر کسی بھی ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر اس سب سے بری تو ہو ہی جائیں گے۔‘

عدالتی تحقیقاتی کمیشن سے کوئی نتیجہ نکلا یا نہیں مگر برسوں چلتے رہنے والے عدالتی مقدمے کے اختتام پر تمام پولیس افسران و اہلکار الزامات سے بری ہوئے اور شاہد حیات اور رائے طاہر جیسے نئے افسروں کو تو لوگوں نے بعد میں خود کراچی پولیس کا سربراہ اور آیڈیشنل آئی جی پنجاب بنتے بھی دیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp