خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات یا انسانیت کا سفر معکوس


میں یہاں برطانیہ میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزار چکی ہوں مگر اتنا عرصہ یہاں گزارنے کے باوجود ہمارا دل آج بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے، پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی خبر آ جائے تو دل خوش ہوجاتا ہے۔ بری خبر پر دل اداس۔ قومی نغمے سن کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں تو جنگی نغموں پر جوش۔ ہر وقت پاکستان کی بھلائی اور خوشحالی کے لئے دعاگو رہتے ہیں۔ برطانوی معاشرے کی جہاں اپنی خوبیاں اور خامیاں وہاں سب سے بڑی خوبی ہر سطح پر انصاف کا ہونا ہے اور یہ ہی وہ خوبی ہے جس سے معاشرے اور ملک ترقی کرتے ہیں اور یہ ہی اسلام کا اصول ہے۔ قول امام علی ہے

”کفر کے ساتھ حکومت کی جا سکتی ہے ظلم کے ساتھ نہیں“

یہ ہی وجہ تھی جب عمران خان نے انصاف کا نعرہ لگا کر اپنی تحریک کا اغاز کیا تو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگوں کو اندھیرے میں امید کی کرن نظرآئی کہ شاید ملک کے حالات بہتر ہوجائیں اور یہ اپنی دھرتی سے محبت ہی تھی جو میں ں برطانیہ سے پاکستان صرف عمران خان کو ووٹ ڈالنے گئی۔

گو کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا ہر شعبے میں ترقی معکوس کا سفر جاری ہے مگر چند دہائیوں میں ریپ اور زیادتی کے کیسز میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت کے معاملے میں اس سفر کی رفتار تو اور بھی تیز ہے۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو رجسٹرڈ ہیں نہ جانے کتنے کیسز ہیں جن کا علم ہی نہیں ہوتا۔ کبھی کوئی محلہ دار، کبھی کوئی اجنبی، کبھی کوئی رشتہ دار، کبھی کوئی وڈیرا اور اور کبھی تو باپ اوربھائی۔ یہ لکھتے ہوئے تو قلم بھی کانپ رہا ہے کہ جس رشتہ کواسلام محافظ بناتا ہے وہ ہی لٹیرے بن جاتے ہیں، یہ درندگی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟

عورت تو عورت ہونے کا خراج ہمیشہ سے دیتی آئی ہے۔ چاہے وہ قیام پاکستان کا موقع ہو جہاں پاکستان بننے کا بدلہ بھی عورتوں سے لیا گیا، نجانے کتنی عورتوں نے عزتیں گنوائیں اور کتنی عورتوں نے نے کنوؤں میں چھلانگ لگا کر جانیں گنوائیں یا اس پاک سرزمین میں کسی گاؤں میں کوئی نزاعی مسئلہ ہو جہاں بھائی کی غلطی کی ازالے کے طور پر بہن کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔

بڑھتے ہوئے زیادتی کے کیسز میں کوئی انصاف نہیں ملتا ہاں اگر خوش قسمتی سے میڈیا کی نظر کسی ایک واقعہ پر پڑجاتی ہے تو پھر ساری حکومت حرکت میں آجاتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے دور حکومت میں زینب کیس میں دیکھا۔ قصور میں تواتر سے بچیاں زیادتی کے بعد قتل ہو رہی تھیں اور لوگ رپورٹ بھی کر رہے تھے مگر سارے کیسز قانون نافذ کرنے والوں کی ازلی بے حسی کی نذ ر ہو جاتے تھے۔ پھر خوش قسمتی سے میڈیا کی نظر زینب کیس پر پڑ گئی پھر سب نے دیکھا کہ ساری حکومتی مشینری حرکت میں آ گئی اور دو ہفتے کے اندر اس کے قاتل کو پکڑ لیا اور شہباز شریف نے زینب کے غمزدہ باپ کو اپنے بغل میں بٹھا کر جو پریس کانفرنس کی اور جس طرح مسکراتے ہوئے مبارکبادیں سمیٹیں، اس سے ہی اس حساس معاملے پر ان کی بے حسی کا اندازہ ہوگیا تھا کہ مقصدکریڈٹ لینے کے سوا کچھ نہ تھا۔

اس بارے میں نہ مستقبل کی کوئی ٹھوس حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور نہ ہی مروجہ قوانین پر عمل درآمد کے لئے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے کہ کہ آئندہ اس کو کیسے روکا جائے بس بات وہیں پر ختم۔

ویسے تو زیادتی کے سارے کیسز ہی اندوہناک اور دلخراش ہوتے ہیں مگر جب میڈیا کسی کیس کو اٹھاتا ہے اور صبح شام ہر پہلو سے ٹی وی پر اس کیس کا جائزہ لیا جاتا ہے تو تب ہماری حکومت کو اورقوم کو احساس ہوتا ہے کہ اس حوا کی بیٹی پر کتنا ظلم ہوگیا۔

موٹروے کے حالیہ واقعہ نے ہماری روح تک کو زخمی کر دیا۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد سی سی پی او عمر شیخ نے نہایت غیر ذمہ دارانہ اور احساس سے عاری بیان دیا جسے صحافتی حلقوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ حکومتی ارکان جس طرح ان کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے، اسد عمر جیسے معقول رکن اسمبلی نے جس طرح عمر شیخ کے بیان کی تاویل بیان کی وہ دراصل ہمارے معاشرے کی اس مکروہ مردانہ ذہنیت کی ہی عکاسی کرتا ہے جس کے مطابق عورت انسانیت سے محروم صرف اور صرف مرد کی ملکیت ایک شے ہے۔ سوائے شیریں مزاری صاحبہ کے کسی نے بھی کھلے اور واضح الفاظ میں عمر شیخ کے بیان کی مذمت نہ کی، غالباً عورت ہونے کا دردتھا۔

عمر شیخ کا پرانا ریکارڈ جو مبینہ طور پر کافی خراب تھا جب میڈیا پر آیا تو حکومت پربہت دباؤ تھا کہ سی سی پی او کو برطرف کیا جائے مگر وزیر اعظم صاحب اڑے رہے اور ان کو نہ نکالا کیونکہ وہ انوکھے لاڈلے (عثمان بزدار) کے لاڈلے جو ٹھہرے۔ بحیثیت پی ٹی آئی کی ایک حمایتی میرا عمران خان سے ایک سوال ہے جب آپ نے ماہر معاشیات میاں عاطف کی تقرری کی تھی تو ساری نام نہاد مذہبی جماعتیں اس کے خلاف اکٹھی ہوگئی تھیں اور آپ نے خاموشی سے اس کا نام واپس لے لیا تھاجب کہ وہ اپنے میدان کا ایک نیک نام ماہرتھا، اس کا کوئی کریمنل ریکارڈبھی نہ تھا۔ کب تک آپ لوگ ان نام نہاد مذہبی جماعتوں اور نام نہاد مولویوں کے ہاتھوں یر غمال بنے رہیں گے؟

اورکہاں ہیں وہ ساری نام نہاد مذہبی جماعتیں کہ جن کی کسی توہین مذہب کے جھوٹے الزام پر بھی ایسی غیرت جاگتی ہے کہ وہ زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں، لیکن زیادتی اور ریپ کے واقعات کے موقعوں پر ان کی غیرت دینی کہاں سوجاتی ہے، کیا وہ عورت کسی کی ماں بہن یا بیٹی نہیں ہوتی، کیا وہ اللہ کی بارگاہ میں کسی دوسرے بندے سے کم تر حیثیت رکھتی ہے؟ وہ ایسے موقعوں پر کہاں پردہ پوش ہو جاتے ہیں، کہاں چلے جاتے ہیں ان کے ملین مارچ، کیوں وہ بنت حوا کے خلاف زیادتیوں پر احتجاج نہیں کرتے؟

کیوں کسی بھی نام نہاد مولانا کے دہن مبارک سے مذمتی الفاظ نہیں نکلتے؟ کیوں وہ ملزم کی گرفتاری اور اسے جلد سے جلد سزاکے لئے اسی جذبۂ دینی کا مظاہرہ نہیں کرتے جیسا وہ دوسرے معاملات میں کرتے ہیں۔ ان سب کی زبانیں کیوں ایسے وقت گنگ ہوجاتی ہیں؟ کیوں ایسے شخص کوفوری سنگسارکرنے کے حق میں ریلیاں نہیں نکالی جاتیں۔ اور جب ایسے ہی مکروہ جرائم کے مرتکب ان کے ہی وہ دستار بند بھائی ہوتے ہیں جو دینی تعلیم کے لئے آنے والے معصوم بچوں اور بچیوں کو مساجد اور مدرسوں میں اپنی حیوانی خواہشات کا نشانہ بناتے ہیں تو مساجد کا تقدس پامال ہونے پر ان کی دینی حمیت کیوں کافور ہوجاتی ہے؟

کیا اسلام کے یہ سارے نام نہاد ٹھیکیدار صرف اپنے مطلب کے مذہب کی ہی پیروی کرتے ہیں؟ وہ کیوں نہیں تقریریں کرتے کہ قرآن مردوں کو نظریں نیچے رکھنے کا بھی حکم دیتا ہے کیا کبھی کس نام نہاد مولوی نے مردوں کے درمیان بیٹھ کر یہ تقریر کی کہ زیادتی تو بہت دور کی بات اگر آپ نے کسی عورت کو ہاتھ بھی لگایا تو اس کا کتنا عذاب ہوگا۔ عورتوں کی عزت کرنا ان پر کتنا لازم ہے ہے؟ مردوں کو اس قبیح فعل کے عذاب سے کیوں نہیں ڈرایا جاتا۔ یہ قبییح فعل سرانجام دینے والے کسی اور سیارے کی مخلوق تو نہیں ہوتے آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے مرد ہوتے ہیں، اسی زمین پر بستے ہیں۔ انسان تو دور کی بات، ہم تو وحشی درندے بنتے جا رہے ہیں ابھی تو ہم نے انسان بننے کا سفر شروع بھی نہیں کیا۔ ہم تو انسان ہی نہیں مسلمان کیا خاک ہوں گے ۔

جہاں حکومتوں کا کام اس سلسلے میں جلد انصاف کو یقینی بنانا ہے وہاں معاشرے پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ مسندوں اور منبروں پر بیٹھنے والے علماءکی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی عبایا اور مرد کی داڑھی اور ٹخنے سے اوپر والی شلوارکے اسلام سے باہر نکلیں اور مردوں کو بتائیں کہ عورت کوئی شے نہیں ہے کہ استعمال کیا اور پھینک دیا۔ وہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے اس کی عزت کرنا کتنا ثواب اور بے عزتی گناہ عظیم ہے لوگ ان کی کی باتوں کو سنتے ہیں اور یہ ذہن سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اگر کرناچاہیں تو۔ اور یہ کہ ہمارے یہاں اچھے گھرانوں میں بھی ماں بہن بیٹی اور گھر آئی عورت کی عزت تو سکھائی جاتی ہے مگر سڑک پر چلنے والی عورت کی نہیں۔

اگر آج ہم اس سفر کو شروع کریں تو بھی مہذب قوم بننے کے لئے کئی نسلیں درکارہونگی۔ تہذیب یافتہ قوم بننے کا سفرصدیوں پر محیط ہوتا ہے بدقسمتی سے ہم نے تو ابھی یہ سفر شروع ہی نہیں کیا۔

آج اس دلخراش واقعہ کو تقریباً دو ہفتے ہوگئے ہیں مرکزی ملزم ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں آیا ور ہر جگہ سے چھلاوے کی طرح فرار ہوجاتا ہے اس کے قتل، ڈکیتی اور زیادتی کے کئی کریمنل ریکارڈ ہیں وہ کوئی با اثر شخص بھی نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے وہ کون سی شخصیات ہیں جو ہر دفعہ اس کو بچا لیتی تھیں؟ ان لوگوں کا اگر پتا چل گیا تو اس کا پتا خود بخود چل جائے گا۔

عمران خان صاحب آپ کی تجویز بہت اچھی ہے کسٹریشن یا نامرد بنا دیا جائے مگر کیا محض قانون بنانا یا بل پاس کرنا اس مسئلے کا حل ہے؟ بل تو زینب الرٹ بھی پاس ہوگیا مگر کیا ہوا زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہوا یا کمی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ انصاف سب کے لئے اور فوری ہو۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ اتنا آسان کام نہیں، آپ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ ہم کسی یو ٹوپیا میں نہیں رہتے۔ مگر خدارا کچھ تو انصاف کے شعبے میں کام ہوتا ہوا نظر آئے۔ اگلے اس واقعہ کا انتظار نہ کیا جائے جس پر میڈیا کی نظر پڑے۔ ورنہ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جس انصاف کا نعرہ لگا کر آپ بر سر اقتدار آئے ہیں خدا را اس پر حقیقی معنوں میں کچھ کام کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).