کنواری ماں، اندھا قانون اور مسیحا کا جرم


چودہ برس کا سن، پیلی پھٹک رنگت، چہرے پہ بے بسی، آنکھ میں رنج و الم، لیبر وارڈ کے ایک بستر پہ ایسی دکھتی تھی جیسے مقتل میں ننھی سی گڑیا بھولے بھٹکے آ گئی ہو۔

اس چڑیا سی بچی کے لئے یہ مقتل گاہ ہی تو تھی جہاں وہ پچھلی رات ہی چودہ برس کے سن میں ماں بنی تھی۔

ریپ اور پولیس کے متعلق بات چلی تو بھولی بسری یادوں میں سے بے اختیار وہ بچی جھانک کے ملتجی نظروں سے ہمیں دیکھنے لگی کہ اس کی کہانی کہنا بھی تو ہم پہ قرض ہے اور اس کہر زدہ معاشرے کے لئے ایک سوال بھی۔

یہ کہانی ہماری زندگی کے ان معرکوں میں سے ایک ہے جنہیں ہم اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں۔ جب ہم نے سرکاری قواعد وضوابط لپیٹ کے ایک طرف رکھتے ہوئے، اپنی نوکری کی پروا نہ کرتے ہوئے انسانیت کی خاطر اپنے دل کی آواز پہ کان دھرا۔

ان دنوں کی بات ہے جب زندگی کا سفر ابتدائی مراحل میں تھا اور زنبیل میں ابھی تجربات اور مشاہدات کا ڈھیر نہیں لگا تھا۔ آتش کی ناتجربہ کاری اور نوعمری کے باوجود یہ ضرور تھا کہ ناانصافی کے خلاف احتجاج کی چنگاری سلگتی رہتی تھی۔

ہم ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں کام کر رہے تھے۔ ویک اینڈ ڈیوٹی تھی۔ چھٹی والے دن ہسپتال میں مجموعی طور پہ اتنا عملہ موجود ہوتا ہے جو ایمرجنسی بہ احسن خوبی نبٹا سکے۔ او پی ڈی اور معمول کے آپریشن نہیں ہوتے سو پروفیسر اور دیگر سینئر ڈاکٹر بھی چھٹی پہ ہوتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو انہیں بلایا جا سکتا ہے۔

آٹھ بجے ہسپتال پہنچنے پہ پچھلے دن والی ٹیم سے چارج لیا۔ موجود مریضوں میں سب سے اہم وہ چودہ سالہ مریضہ تھی جو گزشتہ رات ایک بچے کی ماں بنی تھی، کنواری ماں!

ہمیں بتایا گیا کہ لواحقین میں ماں اور ایک بھائی ہیں جو اسے لے کر آئے تھے۔ وہ جو بھی کہانی سناتے ہیں اس کی صداقت پہ یقین ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ کتھا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو سنائی جا چکی ہے، وہ پولیس کو اطلاع دے چکے ہیں۔ چونکہ یہ حدود کا کیس ہے سو اب بچی پولیس کے حوالے ہو گی۔ اور ہمارا کام یہ ہے کہ پولیس کے آنے کے بعد متعلقہ سامان ان کے حوالے کر کے ہم میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو سب اچھا کی رپورٹ دے دیں۔

پچھلی ٹیم یہ داستان سنا کر رخصت ہوئی تو ہم نے سوچا کہ جا کر دیکھیں تو سہی ماجرا کیا ہے آخر؟

بچی تھی یا سورج مکھی کا پھول! دبلی پتلی، معصوم صورت، سوجی ہوئی غلافی آنکھیں، نوک مژگاں پہ اٹکے ہوئے آنسو اور بھیگے ہوئے زرد گال، وہ بے چارگی کی ایک تصویر تھی۔ ہمیں بے اختیار اپنی تین برس کی بیٹی یاد آ گئی جسے صبح صبح بہلا کے ماتھا چوم کے ڈیوٹی کرنے پہنچے تھے۔

بستر کے ساتھ پڑی بنچ پہ ایک ادھیڑ عمر عورت ستے چہرے کے ساتھ بیٹھی تھی، خستہ لباس زندگی کی کھٹنائیوں کی گواہی دیتا تھا۔ بے چینی، بے چارگی، عسرت، مایوسی اور بے بسی کی بنی بنائی مورت!

ہم نے مریضہ کی خیریت دریافت کی، اس نے جھکی نظروں سے سر اثبات میں ہلا دیا۔ جونہی ہم کمرے سے باہر نکلنے لگے، ضعیفہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور ملتجی لہجے میں ہم سے بات کرنے کی درخواست کی۔ ہمیں تو پہلے ہی جاننے کی کھد بد لگی تھی۔ سو انہیں لیبر روم کے ایک سنسان گوشے میں لے گئے۔

انہوں نے کہنے کے لئے سختی سے پیوست لب کھولنے کی کوشش کی اور کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہنے لگیں،

” بیٹا، معلوم نہیں تم بچوں والی ہو یا نہیں؟ لیکن خدا کے لئے میری مدد کرو”

” اماں بتائیے تو سہی، ماجرا کیا ہے؟ “

” بیٹا، میرے آٹھ بچوں میں سے یہ سب سے چھوٹی ہے، ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ ابھی پچھلے برس ہی تو اس کے ایام شروع ہوئے۔ یقین کرو بیٹا، طبعیت کی بھی سادہ ہے، کہیں آتی جاتی بھی نہیں۔ اسں لئے ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا کہ یہ ہوا کیا؟ اور جب تک پتہ چلا تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس کی جان کے لالے پڑ چکے تھے “

“آخر ہوا کیا؟ بتائیے تو؟” ہم نے کہا،

“بس بیٹا، مقدر میں یہ آزمائش لکھی تھی۔ کچھ ماہ پہلے میری بڑی بیٹی کے دیور کی شادی تھی۔ وہی اسے اصرار کر کے ساتھ لے گئی۔ وہیں کسی رات نہ جانے کس نے اس کی معصومیت کا فائدہ ایسے اٹھا لیا کہ یہ خود بھی نہیں جان سکی۔ شاید کوئی خواب آور دوا تھی جو پلائی گئی تھی۔ گھر آنے کے بعد بہت دنوں تک یہ نڈھال رہی۔ اور یہ بھی کہتی رہی کہ نہ جانے جسم پہ نشان کیوں ہیں؟ شاید کسی کیڑے نے کاٹ لیا۔ میں کچھ سمجھی ہی نہیں۔ چونکہ اس طرح کا کوئی شک و شبہ نہیں تھا سو کچھ اور جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔

کچھ مہینے بعد اس کی رنگت پیلی پڑتی گئی۔ ایام تو پہلے سے ہی بے قاعدہ تھے، پیٹ بڑھتا ہوا بھی محسوس نہیں ہوا۔ مجھے بار بار کہتی رہی کہ اماں پیٹ میں گیس بہت ہے۔ دو مہینے پہلے کی بات ہے جب بڑی بیٹی اس کی پیلی رنگت دیکھ کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ وہیں اس کے حاملہ ہونے کی خبر پتہ چلی۔

ہم پہ تو آسمان ٹوٹ پڑا، جیتے جی مر گئے ہم تو۔ کس طرح اس کے باپ کو بتاتی؟ کہاں لے کر جاتی؟ کیسے چھٹکارا پاتی اس حمل سے؟ کیا اپنے ہاتھوں مار دیتی اپنی چودہ برس کی گڑیا کو؟

کچھ سمجھ نہیں آیا بیٹا! کچھ سمجھ نہیں آیا۔ کھلے کپڑے پہنا دیے، پچھلے کمرے میں چھپا دیا لیکن پھر بھی ڈر، خوف اور غم تھا جو مجھے مارے ڈالتا تھا۔ بہت سوچ سوچ کے اپنے ایک بیٹے کو شامل راز کرنے کا سوچا۔ طارق، میرے سب بیٹوں میں سے چھوٹا اور اس بیٹی سے بڑا۔ ان دونوں میں محبت بھی بہت ہے۔ سب جان کے وہ بھونچکا رہ گیا، پھر غم اور غصے کی شدت سے رو پڑا لیکن کس کا گریبان پکڑتا؟ نقب لگانے والے کا سراغ تو کہیں تھا ہی نہیں!

ہم نے چپکے سے وقت کا انتظار کیا، جب درد زہ شروع ہوا تو طارق ہی رکشہ لے کر آیا اور ہم گھر سے یہ کہہ کے نکلے کہ اسہال کی شکایت ہے۔

لیکن بیٹا یہاں تو سب ہمیں ہی مجرم سمجھ بیٹھے، ہم ہی قسمت کے پھیر میں آئے اور اب ہم ہی تاوان بھریں گے” ۔ وہ یہ سب سناتے سناتے رو پڑیں۔

“بیٹا تم خود سوچو، میری ننھی سی بچی پولیس کے حوالے ہو گی۔ کچہری، جیل جانا ہوگا۔ کیا بنے گا اس کا؟ کیا بچے گا اس میں ؟ بیٹا خدا کے لئے ہماری مدد کرو”

ہم گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ کیا کریں؟ کیا نہ کریں؟ سرکاری نوکری اور کار سرکار کے قواعد وضوابط میں مداخلت ؟ پولیس آنے والی ہے، ہم لیبر وارڈ کے انچارج ہیں، کیا جواب دیں گے؟ اور اگر ہم مان بھی جائیں تو باقی کے عملے کا کیا؟

ضیفعہ کی بات پہ ہمیں اعتبار آ چکا تھا۔ اور فرض کر لیجیے اگر ایسا نہیں بھی ہوا، کہیں پہ کچھ غلط بیانی بھی تھی تب بھی چودہ برس کی بچی اس جرم کی سزا اکیلی کیوں بھگتے؟ وہ عمل جس میں کوئی اور بھی شریک تھا، اس کا داغ محض اس بچی کے دامن پہ کیوں؟ بچی بھی وہ جسے ابھی اپنی ذات کی خبر نہیں، زندگی کے نشیب وفراز سے پالا نہیں پڑا۔ بچپن اور نوجوانی کی سرحد پہ کھڑی کیا تھانے اور جیل میں گزارے گئے دن سہہ سکے گی؟

یہ سب سوال ہمارے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ یک لخت ہمیں نائجیریا کی امینہ لوال (2002) یاد آ گئی جسے سرکار نے بن بیاہی ماں بننے کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ مرد جو اسے حاملہ کرنے کا ذمہ دار تھا اسے DNA کروائے بغیر رہا کر دیا۔

 لیجیے جناب، فیصلہ ہو گیا… اس نظام کی ایسی کی تیسی.. ہم اس بچی کو پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔ ہم اس معصوم کی کچھ گدھ نما کے ہاتھوں تکا بوٹی ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن کیسے بچائیں؟ کیونکر کوئی راستہ نکالیں؟

“آپ کے ساتھ باہر کون ہے؟ ” ہم یک لخت کسی نتیجے پہ پہنچ گئے۔

“میرا بیٹا، طارق” وہ دلگیر لہجے میں بولیں،

“بلوائیے اسے اور اپنا سامان باندھیے”

کچھ ہی دیر میں اٹھارہ بیس کی عمر کا لڑکا اس بچی کا ہم شکل ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ خوفزدہ، ہراساں، لرزتا ہوا!

” سنو بیٹا، ایک تو وعدہ کرو کہ اس سارے قضیے میں اگر تم پکڑے جاؤ تو میرا نام کسی کے سامنے مت لینا۔ اب ایسا کرو، ایک رکشا لے آؤ اور کھڑا کرو لیبر روم کے دروازے کے سامنے۔ جب میں اشارہ کروں، اپنی بہن اور ماں کو اٹھا کر نکل لینا، پیچھے مڑ کر مت دیکھنا”

ہم نے اس لڑکے کی حیرت بھری آنکھوں میں نمی آتی دیکھی، وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن ہمارے پاس وقت کم تھا۔

ہم نے لیبر روم کی آیا کودوسرے وارڈوں میں مریض شفٹ کرنے کو کہا اور باہر چوکیدار سے کینٹین سے ناشتہ لانے کی فرمائش کی۔ اس کی آنکھوں میں ہم نے حیرت امڈتی دیکھی کہ یہ آج ڈاکٹر صاحب کو کیا ہوا؟

پھر ہوا وہی جس کا پلاٹ ہم نے ترتیب دیا تھا اور اب ہمیں اداکاری کی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا تھا۔

ہم چوکیدار کا لایا ہوا ناشتا بہت مشکل سے ٹھونس رہے تھے کہ گھر سے پیٹ پوجا کر کے نکلے تھے لیکن ایکٹ میں حقیقت کا رنگ تو بھرنا ہی تھا۔ ہم نے آیا کو ہانپتے کانپتے اپنی طرف آتے دیکھا۔

“ ڈاکٹر جی، ڈاکٹر جی… وہ لڑکی…”

“کیا ہوا ، کونسی لڑکی؟” ہم نے معصوم بن کر پوچھا،

“وہ جی چھوٹی لڑکی، جس کا بچہ پیدا ہوا تھا، وہی جی بن بیاہی.. وہ اپنے بستر پہ نہیں ہے۔ اس کی ماں بھی نہیں ہے جی، سامان بھی نہیں ہے… ہاں بچہ ادھر ہی ہے جی ” وہ بوکھلائی ہوئی بولی،

ہمارے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ دل ہی دل میں اپنے آپ کو تھپکی دیتے ہوئے اور اپنی اداکاری کو سراہتے ہوئے ہم اونچی آواز میں دھاڑے،

” کیا مطلب ہے تمہارا؟ کہاں گئی؟

کدھر تھے تم لوگ؟ کیسے غائب ہو سکتی ہے؟ اب میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ صاحب کو کیا جواب دوں گی؟ “

ہم نے ازلی بے خوفی سے کام لیتے ہوئے آیا پہ سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔

باقی عملہ بھی آن پہنچا، کسی کے پاس کچھ کہنے کو نہیں تھا۔

یہ مرحلہ تو سر ہوا اب ہمیں اگلا ایکٹ کھیلنا تھا، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور پولیس!

چہرے پہ ہوائیاں اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو فون کیا۔ بات سنتے ہی وہ ہتھے سے اکھڑ گئے،

“آپ اور آپ کا عملہ کیا کر رہے تھے، یہ تو آپ لوگوں کی نا اہلی ہے”

دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے مسمسی آواز میں ہم نے جواب دیا کہ پچھلی ٹیم سے چارج لیا جا رہا تھا، اسی وقفے میں یہ سب ہوا۔ تھوڑی دیر بڑبڑانے کے بعد انھوں نے فون کریڈل پہ دے مارا۔

ہم یہ مشکل بھی پار کر چکے تھے۔ اب باری تھی پولیس کی… تھوڑی ہی دیر میں دو بندوں کی نفری آن پہنچی۔ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ ملزمان بھاگ چکے ہیں۔

ان دونوں نے سوال جواب کا آغاز کیا

“جی بی بی ، آپ تھیں ڈیوٹی پہ”

“جی ہاں”

“تو کیسے بھاگی وہ ملزمہ؟”

“جی مجھے کیا معلوم”

“لیکن ڈیوٹی پہ تو آپ ہی تھیں نا”

“میری ڈیوٹی مریضوں کو دیکھنے کی ہے ان پہ نظر رکھنے کی نہیں”

“ذمہ داری تو آپ ہی کی تھی نا”

“کیا میں دروازے پہ بیٹھ جاتی”

“او ڈاکٹر صاحبہ، دیکھیں کسی نے تو انہیں بھگایا ہے نا”

“کیوں کیا وہ خود نہیں بھاگ سکتے”

“اتنی ہمت نہیں ہوتی ان لوگوں میں، یہ کسی اندر کے آدمی کا کام ہے”

“کیا آپ مجھ پہ الزام لگا رہے ہیں؟”

“او بی بی ، دیکھیں نا…”

“کیا دیکھوں؟ میں ڈاکٹر ہوں، اپنا کام کرنے آئی ہوں۔ یہ تحقیقات آپ کہیں اور جا کے کریں اور مجھے اس کا نشانہ نہ بنائیں”

دونوں صاحبان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نظروں ہی نظروں میں ایک دوسرے سے کہا، بندی ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے۔

مریض کے کاغذ منگوا کر لکھا گیا ایڈریس نوٹ کیا گیا اور یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ شاید انہیں دوبارہ ہمارا تحریری بیان لینے آنا پڑے۔ ہم نے کندھے اچکا کر بے نیازی کا اظہار کیا۔ یاد رہے ہمیں ابھی زندگی کے پرپیچ رستوں پہ چلنے کا تجربہ تو نہیں تھا مگر آتش نمرود میں بلا خوف و خطر کود جانے کا شوق بہت تھا۔

دو دن بعد اطلاع ملی کہ کوئی انسپکٹر صاحب آئے ہیں جو پچھلی تحقیق سے مطمئن نہیں سو کچھ مزید پوچھ گچھ کہ شاید کوئی سراغ مل جائے۔ ملزمہ تاحال گرفتار نہیں ہو سکی اس اثنا میں ہم ہسپتال میں بیسیوں لوگوں کے سوالوں کے جواب اسی اعتماد سے دے چکے تھے اور اپنے بیان پر قائم تھے۔

انسپکٹر صاحب اپنی توند، بڑی بڑی مونچھیں اور لال انگارہ آنکھوں کے ساتھ ہمارے سامنے بیٹھے تھے اور ہم سے کچھ اگلوانے کی فکر میں تھے۔

” بی بی کیا آپ کو پتہ ہے کہ وہ ایڈریس غلط تھا ” انہوں نے اپنی کرخت آواز میں کہا،

“ مجھے کیسے علم ہو سکتا ہے کہ کون اپنا ایڈریس غلط لکھوا رہا ہے؟ کیا میں مریض دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے رہائشی پتے کی بھی تفتیش بھی کیا کروں؟” ہم نے لاپروائی سے جواب دیا ۔

“بی بی، آپ کو زیادہ دھیان رکھنا چاہئے تھا وہ آپ کی ڈیوٹی کے دوران غائب ہوئی ہے”

“آپ کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے لیڈی کانسٹیبل ہونے کا کردار بھی ادا کرنا چاہیے” ہم نے لہجے میں بھرپور طنز سمویا۔

ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ ہمیں کچا چبا ڈالیں۔الغرض آدھ گھنٹہ انہوں نے ہم سے مغز ماری کی، تحریری بیان لے کے دستخط لئے اور زیر لب پڑھی لکھی خواتین کی شان میں کچھ کلمات کہتے ہوئے رخصت ہوئے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ظالم معاشرے اور تلخ زندگی نے اس بچی کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی جگہ دی یا نہیں اور وہ سر بلند کر کے زندگی گزار سکی کہ نہیں؟

لیکن ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ایک ایسے وقت میں اس کا ہاتھ تھاما جب اس کی تھپیڑے کھاتی ناؤ طوفانی منجدھار میں غرقاب ہونے کے قریب تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).