مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ پھر سے مد مقابل، آگے کیا ہو گا؟


پاکستان میں حالیہ چند روز سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اہم قومی اور سیاسی معاملات، تجزیہ کاروں کے مطابق، خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے سخت موقف نے جہاں ملکی سیاست میں بڑی ہلچل پیدا کی وہاں سیاست دانوں اور فوجی قیادت کی خفیہ ملاقاتوں کے انکشاف کے بعد ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی گرفتاری اور مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف نیب کی تحقیقات کے بعد اپوزیشن حکومت مخالف تحریک چلانے کی حکمت عملی مرتب کر رہی ہے۔

لیکن موجودہ صورت حال میں مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات نواز شریف کی تقریر کے بعد مزید خراب ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اے پی سی اور نواز شریف کی تقریر کو ہی شہباز شریف کی گرفتاری کی وجہ قرار دے رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) آخر چاہتی کیا ہے اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی کیا پالیسی ہے اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے ملک کے نامور صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے ان کی رائے لی۔

مسلم لیگ (ن) کیا چاہتی ہے؟

سینئر صحافی، مصنف اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز چاہتی ہیں کہ ان کے اور ان کے والد کے خلاف قائم مقدمات ختم ہوں۔ مریم نواز اور نواز شریف کا تو بیانیہ ہی یہی ہے کہ ان کی حکومت کو غلط طریقے سے ختم کیا گیا ہے۔

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر بادل نخواستہ اس حکومت کو تسلیم تو کر لیا ہے۔ لیکن انہیں اسٹیبلشمنٹ سے گلہ ہے کہ اس حکومت کو دھاندلی کے ذریعے زبردستی مسلط کیا گیا۔ لہذٰا نواز شریف نے اپنی تقریر میں حکومت کی بجائے اسے لانے والوں کے خلاف جد و جہد کے عزم کا اظہار کیا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کی رائے میں مسلم لیگ (ن) اور مریم نواز یہ چاہتی ہیں کہ ان کو ریلیف مل جائے اور انہیں کھل کر سیاست کرنے کا موقع دیا جائے۔

مجیب الرحمن شامی کے بقول مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ نئے منصفانہ الیکشن ہوں اور عوام کو اپنی مرضی سے حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ملے اور کوئی ادارہ اس عمل میں مداخلت نہ کرے۔

مریم نواز شریف (فائل فوٹو)

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کی رائے میں مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے ان کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات بن رہے ہیں۔

سلیم بخاری کے بقول نواز شریف خود تو لندن میں ہیں اور پاکستان میں پارٹی کی لیڈرشپ یعنی شہباز شریف بھی گرفتار ہو چکے ہیں جس کے بعد مریم نواز کو ہی فیصلے کرنے ہیں۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مریم نواز کو اپنی جماعت کو لے کر آگے چلنا ہے۔ شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ تو اسلام آباد میں ہیں دوسرا یہ کہ وہ اس طرح سے پارٹی کی لیڈر شپ کے رول میں کبھی بھی نہیں رہے۔

اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا مستقبل کیا ہو گا؟

احتجاجی تحریک کے مستقبل کے سوال پر سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان کی دونوں بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا ماضی کافی تلخ رہا ہے۔

ان کے بقول دونوں جماعتیں ملکی سیاست میں اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ لہذٰا لوگوں کے ذہنوں میں ابہام موجود ہے کہ یہ ایک ساتھ نجانے کہاں تک چلتے ہیں۔

سلیم بخاری کے بقول اصل دھچکہ مسلم لیگ (ن) کو لگا ہے۔ پارٹی ایک طرح سے زخمی ہے۔ لہذٰا سب کی نظریں اب مریم نواز پر ہیں کہ وہ کس طرح پارٹی کو لے کر چلتی ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کی رائے میں مریم نواز اپنی ذات کے لیے تو کچھ نہیں چاہتیں۔ انہوں نے شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد جو باتیں کی تھیں وہ ان کا، ان کے ساتھ بیٹھے لوگوں کا اور نواز شریف کا بیانیہ ہے۔

ان کے بقول پہلے مسلم لیگ (ن) کچھ محتاط تھی، لیکن اب انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، اس لیے پارٹی پالیسی میں جارحانہ پن نظر آ رہا ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ جب کیسز بنائے جائیں، الزامات لگائے جائیں، ساتھ میں یہ بھی کہا جائے کہ ایف اے ٹی ایف میں ووٹ دو، سارے کام کرتے جائیں، پھر گلگت بلتستان سے متعلق مشاورت کی جائے۔ بات کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ یہ سب آف دی ریکارڈ ہے۔ لیکن شیخ رشید کے ذریعے سارے معاملات میڈیا پر آ جائیں تو پھر ردعمل تو آئے گا۔

لیکن حامد میر کے بقول مریم نواز نے ابھی کوئی ریڈ لائن عبور نہیں کی۔

’نواز شریف کو مریم سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا ہو گا‘

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کے ہاں تسلسل کا مسئلہ رہا ہے، وہ وقفہ لیتی ہیں۔ وہ وہی کرتی ہیں جس کی ہدایت ان کے والد دیتے ہیں۔

ان کے بقول نواز شریف بھی مریم نواز کو فری ہینڈ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ نواز شریف نے شہباز شریف کو اپنا نائب مقرر کیا تھا، لیکن اب نواز شریف کو بہرحال مریم نواز کو فری ہینڈ دینے سے متعلق کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔

مجیب الرحمن شامی کی رائے میں سیاست میدان جنگ کی طرح نہیں ہوتی، نہ آپ نے کوئی فیصلہ کن معرکہ لڑنا ہوتا ہے۔ اس میں تو کئی نشیب و فراز آتے ہیں۔ کبھی آپ کو خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے اور کبھی بولنا پڑتا ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ مریم نواز کے مزاج میں تلخی نواز شریف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے ہے۔ ان کے بقول 1999 میں ان کی دو تہائی اکثریت والی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ انہیں جیل میں بند کیا گیا، پھر وہ جلا وطن ہوئے۔

ان کے بقول جب نواز شریف کو تیسری مرتبہ اقتدار ملا تو انہیں تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔ لہذا نواز شریف ایک طرح سے بند گلی میں ہیں اور ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ مریم نواز نے سب کچھ اپنے سامنے ہوتے دیکھا ہے، لہذٰا نواز شریف کے ساتھ ایسا کرنے والوں کے خلاف ان کے لہجے میں تلخی ایک فطری عمل ہے۔

مجیب الرحمن شامی کے مطابق مریم نواز کے لیے صورت حال تکلیف دہ ہے، لیکن سیاست میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مریم نواز جیل بھی جا چکی ہیں اور ان پر مقدمات بھی قائم ہیں۔ لیکن انہیں چاہیے کہ وہ آئندہ انتخابات کو ذہن میں رکھ کر اپنی حکمت عملی مرتب کریں تاکہ وہ مسلم لیگ (ن) کو لیڈ کر سکیں۔

’شہباز شریف بیانیہ ختم ہو گیا‘

حامد میر سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کی لمبی خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف متحرک تھے۔ دو بیانیے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ایک شہباز شریف کا بیانیہ تھا اور ایک نواز شریف کا بیانیہ تھا۔ شہباز شریف کوئی راستہ نکالتے تھے، کوئی بات چیت شروع کرتے تھے اور جماعت کے اندر بھی کافی لوگ ان کے ساتھ تھے۔

حامد میر کے بقول اب شہباز شریف کا بیانیہ ختم ہو گیا ہے اور گرفتاری سے پہلے بھی انہیں خود بھی یہ احساس ہو گیا تھا کہ ان کی مفاہمت کی جو پالیسی تھی، اسے ان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔ اسی بیانیے کی وجہ سے مریم خاموش تھیں اور نواز شریف بھی خاموش ہوئے تھے۔ اب چوں کہ وہ بیانیہ ختم ہو گیا ہے، لہذٰا اب نواز شریف کا بیانیہ ہی چلے گا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ مریم نواز کافی عرصے سے جارحانہ سیاست کی خواہاں تھیں۔ لیکن انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ لیکن اب جو حالات ہیں، اس سے لگتا ہے کہ مریم نواز کھل کر مزاحمتی سیاست کریں گی۔ کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہی وہ راستہ ہے جس سے وہ بڑی لیڈر کے طور پر ابھر سکتی ہیں۔

ان کے بقول دنیا میں بہت سے ایسے لیڈر ہیں جو رکن اسمبلی بننے یا وزیر اعظم بننے کے لیے مزاحمت کرتے ہیں۔ لہذٰا مریم نواز بھی الیکشن کی سیاست کے بجائے مزاحمتی سیاست کریں گی۔

حکومت کیا سوچ رہی ہے؟

سہیل وڑائچ کے بقول حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اپوزیشن والے سب چور اور ڈاکو ہیں اور ان سب کا ٹھکانہ جیل ہونا چاہیے اور وہ اسی ایجنڈے پر گامزن رہے گی۔

ان کے بقول حکومت کے پاس معمولی اکثریت ہے اور وہ بھی اتحادیوں کو ساتھ ملا کر، لہذٰا وہ یہ بیانیہ برقرار رکھیں گے کہ اپوزیشن والے چور اور اداروں کے خلاف ہیں، لہذٰا انہیں جیل میں ہونا چاہیے۔

مجیب الرحمان شامی کے بقول حکومت کو خود نہیں معلوم کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ حکومت کے لیے تو یہ ایک موقع تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بنا کر رکھتے، ان کے ساتھ بات چیت کرتے اور مل کر عوام کے مسائل حل کرتے، لیکن انہوں نے اپوزیشن کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائی۔

مجیب الرحمن شامی کے بقول پاکستان کی تاریخ میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اتنی دوری کبھی بھی نہیں رہی جو ہمیں اب نظر آ رہی ہے۔

سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ عمران خان دو چیزیں چاہتے ہیں، ایک تو یہ کہ ان کی حکمرانی قائم رہے۔ ان کی جماعت اقتدار میں رہے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کا وجود بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جس کا وہ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں کہ جیلیں بھر دوں گا۔ میں ان کو چھوڑوں گا نہیں، کوئی این آر او نہیں دوں گا۔

مجیب الرحمن شامی کے بقول عمران خان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس ملک میں این آر او دینے یا نہ دینے کا فیصلہ انہوں نے نہیں کرنا۔ یہ فیصلہ بہرحال ملکی اسٹیبلشمنٹ ہی کرتی ہے۔ جہاں تک اقتدار کے قائم رہنے کی بات ہے تو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایک دفعہ پارلیمان میں اپنی کرسی پر مکے مار کر کہا تھا کہ یہ کرسی بہت مضبوط ہے، لیکن اس کے چند روز بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔

حامد میر کے بقول عمران خان کی یہ خواہش ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور فوج کے درمیان تلخی مزید بڑھے۔ لیکن انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا بظاہر انہیں تو فائدہ ہو گا، لیکن پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

حامد میر کے بقول اپوزیشن جماعتیں بھی پاکستان کی ہیں اور فوج بھی پاکستان کی ہے، لہذٰا پاکستان کے اداروں کے مابین تصادم کا نقصان بھی پاکستان کو ہی ہو گا۔

اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے؟

سہیل وڑائچ کے بقول اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ریاست چلے اور بھارت، امریکہ اور افغانستان سے متعلق ریاست کی جو پالیسی ہے اس کے مطابق آگے بڑھا جائے۔

ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ داخلی سطح پر بھی پاکستان میں عدم استحکام نہ ہو، چاہے وہ سیاسی معاملات ہوں یا دفاع کا معاملہ ہو۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات اس وقت بہت بہتر ہیں۔ لیکن حزب اختلاف سمجھتی ہے کہ ملک کو معاشی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔ عوام بھی پریشان ہیں، لہذٰا اس حکومت کی حمایت کر کے اسٹیبلشمنٹ بھی ان مسائل کی ذمہ دار ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق ”اسٹیبلشمنٹ بظاہر تو یہی چاہتی ہے کہ ملک میں امن امان رہے اور معاملات آگے بڑھتے رہیں، پاکستان کی معیشت بہتر ہو جائے اور سرحدوں پر امن رہے۔ افغانستان کا مسئلہ حل ہو جائے، دنیا کشمیر کے مسئلے کی طرف توجہ دے۔“

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس وقت سارے انڈے عمران خان کی ٹوکری میں رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کے ساتھ کسی ڈیل کے موڈ میں نہیں ہے۔ لیکن عمران خان حکومت کی کارکردگی کے باعث انہیں تشویش تو ضرور ہے، لیکن فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ کسی متبادل کے بارے میں نہیں سوچ رہی۔ ”

سلیم بخاری کے بقول اسٹیبلشمنٹ بھی ایک حد تک ہی دباؤ برداشت کر سکتی ہے۔ ایوب خان کی حکومت ہو یا پرویز مشرف، ان پر جب دباؤ پڑا تو انہیں گھر جانا پڑا۔ لہذٰا اپوزیشن جماعتیں اگر سنجیدگی سے تحریک چلائیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

حامد میر کی رائے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آج بھی وہی چاہتی ہے جو اسٹیبلشمنٹ پرویز مشرف کے دور میں چاہتی تھی، پرویز مشرف کے دور میں اسٹیبلشمنٹ وہی چاہتی تھی جو جنرل ضیاءالحق کے دور میں چاہتی تھی۔

ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ کا تو ہمیشہ سے یہی بیانیہ رہا ہے کہ یہ جو سیاسی جماعتیں ہیں ان کو کچھ پتا نہیں ہے۔ یہ نا اہل اور کرپٹ لوگ ہیں۔

حامد میر کے بقول اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کی غلطیوں سے ہی فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ سیاست دان اپنے مفادات اور اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بنتے رہے ہیں۔ نواز شریف جو یوسف رضا گیلانی کی مثالیں دیتے ہیں، وہ خود یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت گئے۔

کیا مسلم لیگ (ن) میں پھوٹ پڑ سکتی ہے؟

حالیہ چند روز سے حکومتی وزرا نواز لیگ میں پھوٹ کے دعوے کر رہے ہیں۔ خاص طور پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا یہ اصرار ہے کہ دسمبر تک ش لیگ وجود میں آ جائے گی، یعنی شہباز شریف الگ جماعت بنا لیں گے۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اس ساری صورت حال کے باوجود دو بیانیے موجود ہیں۔ ایک اقتدار کا حامی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کا حامی ہے، جب کہ دوسرا مزاحمتی سیاست چاہتا ہے۔

ان کے بقول نواز شریف بھی دونوں بیانیوں کے حامی ہیں، یعنی ’گڈ کاپ‘ اور ’بیڈ کاپ‘ پالیسی۔

تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ن اور ش کی باتیں شیخ رشید کر رہے ہیں۔ ان کے بقول مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کی خواہش بہت پرانی ہے۔ مشرف دور میں بھی یہ کوشش ہوئی۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ شریف خاندان میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے، لیکن وہ ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کھل کر سامنے نہیں آ سکتے۔ شہباز شریف بہرحال اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دوبارہ جیل میں ہیں۔

(ن) لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا انجام کیا ہو گا؟

سہیل وڑائچ کے خیال میں (ن) لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی زیادہ لمبی نہیں چل سکتی، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ساری لڑائی صوبہ پنجاب کے اندر کی ہے۔

ان کے بقول فوجی قیادت کا تعلق پنجاب سے ہے، وزیر اعظم عمران خان بھی پنجاب سے ہیں، جب کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اسی صوبے سے ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ پنجاب میں اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑی ہے۔ ورنہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے والے ذوالفقار علی بھٹو سمیت دیگر قائدین کا تعلق دوسرے صوبوں سے رہا ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول وہ نہیں سمجھتے کہ ان عوامل کی وجہ سے یہ لڑائی زیادہ عرصہ چلے گی۔ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا اور درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔

مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی بھی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے، وہ بھی وزیراعظم تھے، پھر ان کو وزارت عظمٰی چھوڑنا پڑی اور اسی طرح راجہ پرویز اشرف بھی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے، وہ بھی ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں۔

مجیب الرحمن شامی کے بقول چوں کہ مسلم لیگ (ن) ایک بہت بڑی پارٹی ہے اور پنجاب میں ان کی جڑیں مضبوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے متعلق پالیسی پر بعض پارٹی اراکین نے تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔

ان کے بقول فریقین کو ملک کے معروضی حالات اور حقیقتوں کا ادارک کرتے ہوئے اپنی پالسی بنانی چاہیے۔ بلاشبہ مسلم لیگ (ن) ایک بڑی پارٹی ہے، اسے ملکی سیاست سے ہٹانا نا ممکن ہے، جب کہ اسٹیبلشمنٹ کے ملکی سیاست میں کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہذٰا ملکی مفاد میں درمیانی راستہ اختیار کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ ابھی تک تو دونوں طرف سے ہوائی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس میں بیچ بچاؤ کی کوشش کرنی چاہیے۔ حامد میر نے کہا کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ ایک بہادر سیاست دان بنیں اور اپنی لڑائی اپوزیشن کے ساتھ خود لڑیں۔

ان کے بقول بدقسمتی سے عمران خان اپنی لڑائی خود نہیں لڑ رہے بلکہ انہوں نے ایک ادارے کو آگے کر دیا ہے۔ اس کا نقصان صرف عمران خان کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کو بھی ہو گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa