ایسٹ انڈیا کمپنی: وہ کمپنی جس نے ایک ملک پرراج کیا


سولھویں صدی کے آخری سال ہیں۔ دنیا کی ایک چوتھائی مصنوعات تیار کرتے صنعتی مرکز ہونے کے باوصف، ہند سونا اگلتا ہے۔مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر حکمران ہیں اور دنیا بھر میں امیر ترین ہیں۔ ادھر خانہ جنگی سے سنبھلتے زرعی ملک برطانیہ میں دنیا کی صرف تین فیصد مصنوعات تیار ہوتی ہیں۔ یہاں ملکہ الزبتھ اول کی حکومت ہے۔ یورپ کی بڑی طاقتیں، پرتگال اور سپین، تجارت میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔ تاجروں کے روپ میں برطانوی قزاق ان کے تجارتی جہازوں کو لوٹنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

مہم جو برطانوی تاجر رالف فچ بحر ہند، میسو پوٹیمیا، خلیج فارس اور جنوب مشرقی ایشیا میں تجارتی سفر کرتے ہوئے ہند کی خوش حالی کی خبر دے چکے ہیں۔ ان کا یہ سفر اتنا طویل ہے کہ برطانیہ واپسی سے پہلے انھیں مردہ تصور کر کے ان کی وصیت پر بھی عمل کیا جا چکا ہے۔

مشرق سے مصالحہ جات کے حصول کے لیے لیونٹ کمپنی دو ناکام کوششیں کر چکی ہے۔ فچ کی معلومات ایک اور مہم جو سرجیمز لینکاسٹر سمیت دو سو سے زائد برطانیہ کے بااثر اور تاجر پیشہ افراد کو نیا راستہ سجھاتی ہیں۔

وہ 31 دسمبر 1600 کو ملکہ سے ایک نئی کمپنی کے تحت مشرقی ایشیا میں تجارت پر اجارہ حاصل کرتے ہیں۔ نام تو اس کمپنی کے بہت ہیں مگر معروف ایسٹ انڈیا کمپنی کے طور پر ہوتی ہے۔

ابتدائی برسوں میں دیگر علاقوں میں سفر کے بعد، اگست 1608 میں کیپٹن ولیم ہاکنز نے اپنے جہاز ’ہیکٹر‘ کا لنگر ہند کی بندرگاہ سورت (موجودہ انڈین گجرات) پر ڈال کر یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کا اعلان کیا۔

بحر ہند میں برطانیہ کے تجارتی حریف ولندیزی اور پرتگیز پہلے ہی موجود تھے۔ تب کسی کو اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ اس کمپنی کو اپنے ملک سے بیس گنا بڑے، دنیا کے امیر ترین ملک اور اس کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی پر براہ راست راج کرنا ہے۔

تب تک بادشاہ اکبر کی وفات ہو چکی تھی۔ سرمائے میں اس زمانے میں صرف چین کا خاندان مِنگ ہی بادشاہ اکبر کی ہم سری کرسکتا تھا۔

منتخب اللباب، خافی خان نظام الملک، کے مطابق اکبر نے اپنے ترکہ میں پانچ ہزار ہاتھی، بارہ ہزار گھوڑے، ایک ہزار چیتے، دس کروڑ روپے، بڑی اشرفیوں میں سو سو تولہ سے پانچ سو تولہ تک کی ہزار اشرفیاں، دو سو بہتر من غیر مسکوک سونا، تین سو ستر من چاندی، ایک من جواہرات جس کی قیمت تین کروڑ روپے تھی چھوڑا تھا۔

اکبر کے بیٹے سلیم، نور الدین، جہاں گیر کے لقب سے تخت نشین ہو چکے تھے۔ حکمرانی میں اصلاحات کرتے ہوئے کان، ناک اور ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی سزائیں منسوخ، ( عوام کے لیے) شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال اور خاص خاص دنوں میں جانوروں کا ذبیحہ حکماً بند اور کئی ناجائز محصولات ہٹا چکے تھے۔

سڑکیں، کنویں اور سرائے تعمیر ہو رہے تھے۔ وراثت کے قوانین پر سختی سے عمل اور ہر شہر میں سرکاری شفا خانے میں مفت علاج کا حکم تھا۔ فریادیوں کی داد رسی کے لیے محل کی دیوار سے زنجیر عدل لٹکا رکھی تھی۔

عالمی شہرت یافتہ مؤرخ ولیم ڈیل رمپل کے مطابق جلد ہی ہاکنز کو ادراک ہو گیا کہ مغلوں کی چالیس لاکھ فوج ہوتے ہوئے ویسی جنگ و جدل کی گنجائش نہیں جیسی اس وقت یورپ میں روا تھی۔ سو یہاں ضرورت تھی اشتراک کی، مغل بادشاہ کی اجازت کی۔ہاکنز افغان معزز شخص کے روپ میں مغل دارالحکومت آگرہ ایک سال میں پہنچے۔

تجارت کے لیے جہاں گیر کی رضا حاصل کرنے میں نیم خواندہ ہاکنز ناکام رہے۔ تب رکن پارلیمان اور سفارت کار سر تھامس رو کو شاہی ایلچی کے طور پر بھیجا گیا۔ رو 1615 میں مغل دارالحکومت آگرہ پہنچے۔ بادشاہ کو شکاری کتوں اوران کی پسندیدہ شراب سمیت بیش قیمت تحائف پیش کیے۔

واسکو ڈے گاما

جہاں گیر کے لیے برطانیہ کے ساتھ تعلقات ترجیح نہیں تھے۔ رو کے مطابق جب بھی بات ہوتی، بادشاہ تجارت کی بجائے اسے گھوڑوں، فن پاروں اور شراب کی جانب لے جاتے۔ بمشکل تمام تین سال کی ترغیب کے بعد ہی رو کامیاب ٹھہرے۔

جہاں گیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت کمپنی اور برطانیہ کے تمام تاجروں کو برصغیر کی ہر بندرگاہ اورخرید و فروخت کے لیے ہر مقام استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ بدلے میں یورپی مصنوعات ہند کو دینے کا وعدہ کیا گیا مگر تب وہاں بنتا ہی کیا تھا۔ طے پایا کہ کمپنی کے جہاز محل کے لیے جو بھی نوادرات اور تحفے لائیں گے انھیں خوشی سے قبول کیا جائے گا۔

کمپنی کے تاجر مغلوں کی خوشنودی سے ہند سے سوت، نیل، پوٹاشیم نائٹریٹ اور چائے خریدتے، بیرون ممالک مہنگے داموں فروخت کرتے اور خوب منافع کماتے۔ کمپنی کی سرمایہ داری کی بنیاد مرکنٹائل سرمایہ داری پر تھی۔ کمپنی جو چیز خریدتی، معاوضہ چاندی کی صورت میں ادا کرتی جو وہ سولہ سو اکیس سے اٹھارہ سو تینتالیس تک غلاموں کو جزائر، سپین اور امریکہ میں بیچ کر حاصل کرتی رہی۔

سر ٹامس رو

سر ٹامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں

1670 میں برطانوی بادشاہ چارلس دوم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بیرون ملک جنگ کر کے نو آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ برطانوی اسلحہ سے لیس کمپنی کی فوج نے سب سے پہلے ہندوستان میں پرتگالی، ولندیزی اور فرانسیسی حریفوں سے مقابلہ کیا اوربیشتر جنگوں میں فتح یاب رہی۔ رفتہ رفتہ اس نے بنگال کے ساحلی علاقوں پر قدم جما لیے۔

مگرسترھویں صدی میں صرف ایک بار مغلوں سے نبرد آزما ہوئے۔

سنہ 1681 میں کمپنی کے ڈائریکٹر سر چائلڈ سے ان کے اہل کاروں نے شکایت کی کہ بنگال میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے بھانجے نواب شائستہ خان کے اہل کار ٹیکس اور دیگر معاملات میں انھیں تنگ کرتے ہیں۔ چائلڈ نے اپنے بادشاہ کو فوجی مدد کے خط لکھا۔ چنانچہ 1686 میں لندن سے ایک بڑا بحری بیڑا بنگال کی طرف روانہ ہوا جس میں انیس جنگی جہاز، دو سو توپیں اور چھ سو فوجی سوار تھے۔ ادھر مغل بادشاہ کی فوج بھی تیار تھی لہذا جنگ میں مغل فاتح رہے۔

سنہ 1695 میں ایک برطانوی بحری قزاق ہنری ایوری نے اورنگزیب کے خزانے کے بحری جہاز ’فتح محمد‘ اور گنج سوائی کو لوٹ لیا تھا۔ اس خزانے کی مالیت چھ سے سات لاکھ برطانوی پاونڈ تھی۔

سر ٹامس رو

سر ٹامس رو کی انتھک سفارتی جدوجہد سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سورت میں آزادانہ تجارت کا پروانہ مل گیا

تاریخ دان ولیم ڈیل رمپل کا کہنا ہے کہ برطانوی فوجیوں کو مغل فوج نے مکھیوں کی طرح مارا اور اس کے بعد کمپنی کی بنگال میں پانچ فیکٹریوں کو تہس نہس کر کے سب انگریزوں کو بنگال سے نکال باہر کیا۔

سورت کی فیکٹری بند کر دی گئی جبکہ بمبئی کو بلاک کر دیا گیا۔ کمپنی کے ملازمین کو زنجیروں سے باندھ کر شہروں میں گھمایا گیا اور ان کو چوروں اور قاتلوں کی طرح شدید ہتک کا نشانہ بنایا گیا۔ کمپنی کے پاس معافی مانگنے اور اپنی فیکٹریوں کی واپسی کے لیے بادشاہ کے دربار میں بھکاریوں کی طرح پیش ہونے کے سوا چارہ نہ رہا۔

تاج برطانیہ نے ہنری ایوری کی سرکاری سطح پر مذمت کی اور مغل بادشاہ سے معافی مانگی۔ اورنگزیب عالم گیر نے 1690 میں کمپنی کو معاف کر دیا۔

سترھویں صدی کے اواخر میں ایسٹ انڈیا کمپنی چین سے سلک اور چینی کے برتن خریدتی تھی۔ اشیا کی ادائیگی چاندی کی صورت میں کرنا پڑتی تھی کیوں کہ ان کے پاس کوئی مصنوعات ایسی نہیں تھیں جن کی چین کو ضرورت ہو۔ اس کا یہ حل نکالا گیا کہ بنگال میں پوست کی کاشت کی اور صوبے بہار میں فیکٹریاں قائم کر کے افیم تیار کرنا شروع کی اور اس افیم کو چین سمگل کرنا شروع کیا۔

اس وقت تک چین میں افیم کا بہت کم استعمال ہوتا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے چینی ایجنٹوں کے ذریعہ لوگوں میں افیم کا استعمال بڑھایا۔ افیم کی تجارت سے کمپنی نے سِلک اور چینی کے برتن بھی خریدے اور نفع بھی کمایا۔

جب چینی حکومت نے افیم کی اس تجارت کو روکنے کی کوشش کی اور جو افیم چین میں آئی تھی اسے ضائع کیا گیا تو چین اور برطانیہ کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔ جن میں چین کو شکست ہوئی اور برطانیہ نے چین کے ساتھ حقارت آمیز شرائط پر کئی معاہدے کئے۔ اس سے ضائع ہونے والی افیم کا معاوضہ وصول کیا۔

اس کی بندرگاہوں پر قبضے کئے۔ ہانگ کانگ پر برطانیہ کا قبضہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ جب چینی حکومت کی جانب سے ملکہ وکٹوریہ کو احتجاجاً ایک خط لکھا گیا کہ وہ افیم کی تجارت کو روکنے میں مدد کرے تو چینی حکومت کو اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔

سنہ 1707 میں بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد مختلف علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ کمپنی نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی افراد پر مشتمل لاکھوں کی فوج تیار کی جسے یورپ میں صنعتی انقلاب کی بدولت جنگی ٹیکنالوجی میں بھی برتری حاصل ہو گئی۔ یہ چھوٹی مگر موثر فوج مغلوں، مرہٹوں، سکھوں اور مقامی نوابوں کی پرانی ٹیکنالوجی سے مسلح بڑی فوجوں کو ایک ایک کر کے شکست دیتی گئی۔

1756 میں نواب سراج الدولہ ہند کی امیر ترین نیم خود مختار ریاست بنگال کے حکمران بن گئے۔ مغل حکومت کو پچاس فیصد آمدن اسی ریاست سے ہوتی تھی۔ بنگال ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ٹیکسٹائل اور جہاز سازی کا بہت بڑا مرکز تھا۔ علاقے کے لوگ ریشم، سوتی ملبوسات، سٹیل، پوٹاشیم نائٹیریٹ اور زرعی و صنعتی سامان برآمد کر کے خوب کماتے تھے۔

کمپنی نے کلکتہ میں اپنے قلعوں کی توسیع شروع کر دی اور اپنی سپاہ کی تعداد بھی بڑھا دی۔ نواب نے کمپنی کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے دائرہ کار میں اضافہ نہ کریں۔ حکم عدولی پر نواب نے کلکتہ پہ حملہ کر کے انگریزوں کے قلعے اپنے قبضے میں لے لیے۔ قیدی انگریزوں کو فورٹ ولیم کے تہہ خانے میں قید کر دیا گیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب کی فوج کے ایک کمان دار، میر جعفر کو جو حکمران بننے کی تمنا دل میں چھپائے ہوئے تھا، ساتھ ملا لیا۔ 23 جون 1757 کو پلاسی کے مقام پر کمپنی اور نواب کی افواج کے مابین مقابلہ ہوا۔ توپوں کی کثرت اور میر جعفر کی غداری کے باعث انگریز فتح یاب ہوئے اور میر جعفر کو تخت بنگال پر بٹھا دیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی

انگریز اب میر جعفر سے خراج وصول کرنے لگے۔ یوں ہند میں لوٹ مار کے دور کا آغاز ہو گیا۔ جب خزانہ خالی ہو گیا، تو میرجعفر نے کمپنی سے پیچھا چھڑانے کے لیے ولندیزی فوج سے مدد لی۔ سنہ 1759 اور پھر 1764 میں فتح کے بعد کمپنی نے بنگال کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ لادا، وہ بنگال کی اشیا سستے داموں خرید کر بیرون ملک مہنگے دام فروخت کرنے لگے۔

دانش ور وجاہت مسعود لکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے پہلے نصف میں برطانوی تاجر ہندوستانی باشندوں سے چاندی کے سکوں کے عوض کپاس اور چاول خریدتے تھے۔ جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے مالیہ اور محصولات کے نظام کی مدد سے تجارت پر اجارہ داری قائم کر لی۔

طریقہ کار یہ تھا کہ ہندوستانیوں سے وصول کردہ محصولات کا قریب ایک تہائی ہندوستانی مصنوعات کی خریداری پر صرف کیا جاتا تھا۔ گویا ہندوستانی محصولات کی صورت میں جو رقم ادا کرتے تھے، اسی کے ایک تہائی کے بدلے اپنی مصنوعات بیچنے پر مجبور تھے۔

कॉटन मिल

Fine Art Images/Heritage Images/Getty Images

مورخ، نقاد اور صحافی باری علیگ اپنی کتاب ’کمپنی کی حکومت‘ میں لکھتے ہیں: ’دنیا کے ہر ملک کے تاجر ہندوستان سے تجارت کرتے تھے، مہذب دنیا میں ڈھاکا اور مرشد آباد کی ململ کا استعمال عظمت اور برتری کا ثبوت تھا۔ یورپ کے ہر ملک میں‌ ان دو شہروں کی ململ اور چکن بہت زیادہ مقبول تھی۔‘

ہندوستان کی دوسری صنعتوں کی نسبت پارچہ بافی کی صنعت کو کمال حاصل تھا۔ ہندوستان سے سوتی اور اونی کپڑے، شال دو شالے، ململیں اور چھینٹیں برآمد کی جاتی تھیں۔

ریشم، کمخواب اور زربفت کے لیے احمد آباد دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اٹھارھویں صدی میں ان کپڑوں کی انگلستان میں‌ اتنی مانگ ہو گئی تھی کہ اسے بند کرنے کے لیے حکومت کو بھاری ٹیکس لگانے پڑے تھے۔

پارچہ بافی کے علاوہ لوہے کے کام میں‌ بھی ہندوستان بہت زیادہ ترقی کر چکا تھا۔ لوہے سے تیار شدہ اشیا ہندوستان سے باہر بھی بھیجی جاتی تھیں۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کے عہد میں ملتان میں‌ جہازوں کے لیے لوہے کے لنگر ڈھالے جاتے تھے۔ جہاز سازی میں‌ بنگال نے بہت ترقی کر لی تھی۔

ایک انگریز کے الفاظ ہیں‌: ’عام انگریزوں کو سمجھانا مشکل ہے کہ ہماری حکومت سے پہلے ہندوستانی زندگی کبھی پُرلطف تھی۔ کاروباری اور باہمّت لوگوں کے لیے کیسی کیسی آسانیاں‌ میسّر تھیں۔ مجھے پورا پورا یقین ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے کاروباری ہندوستانی نہایت آرام کی زندگی بسر کرتے تھے۔‘

اورنگزیب کے عہد میں سُورت اور احمد آباد سے جو مال باہر بھیجا جاتا تھا، ’اس سے تیرہ لاکھ اور ایک سو تین لاکھ روپیہ سالانہ چنگی کے ذریعے وصول ہوتا تھا۔‘

ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔ کمپنی کی فوج نے اگلے پچاس برس میں ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ ان علاقوں میں کمپنی کے باج گزار مقامی حکمران حکومت کرنے لگے۔ بظاہر اقتدار مقامی حکمرانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر ہر ریاست کی بیشتر آمدن انگریزوں کی تجوریوں میں پہنچ جاتی۔ عوام مجبور تھے۔

اگست 1765 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل بادشاہ شاہ عالم کو شکست دی۔ لارڈ کلائیو نے ان سے مشرقی صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ کی ‘دیوانی’ یعنی ٹیکس وصول کرنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے حقوق، چھبیس لاکھ روپے سالانہ کے عوض حاصل کیے۔ اس کے بعد کمپنی ہند کی مالک بن بیٹھی۔

مورخ سید حسن ریاض کے مطابق اس زمانے میں یہ بات زبان زد عام تھی: ’خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔‘

آخری عہدِ مغلیہ میں حکمران رعایا کا خون نچوڑ کر جو زر و مال جمع کرتے تھے وہ شاہی خاندان کی عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا تھا۔ مغل شہزادے جنھیں سلاطین کہا جاتا تھا ان کی کاہلی، تن آسانی، بے عملی، بزدلی اور عیاشی کے ہر طرف چرچے تھے۔

مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی تحریر آخری عہد کا مغلیہ ہندوستان میں لکھا ہے کہ ’سنہ 1848 میں رقص و سرود کی محفلوں میں داد عیش دینے والے اس قماش کے ناکارہ سلاطین کی تعداد 2104 تک جا پہنچی۔ شاہ عالم کے بیٹے اکبر بھی جنسی جنون میں اپنے باپ سے کم نہ تھے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ اٹھارہ بیویوں کے شوہر تھے۔‘

اٹھارہویں صدی میں جنوبی علاقوں میں 1769 سے 1773 تک قحط سے بہار سے لے کر بنگال تک کا علاقہ متاثر ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اس قحط سے ایک کروڑ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ گورنر جنرل وارن ہاسٹنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تہائی آبادی بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔

موسمی حالات تو رہے ایک طرف کمپنی کے بھاری ٹیکس ہی سے دیہی آبادی کنگال ہو گئی تھی۔ نوبیل انعام یافتہ معیشت دان امرتیا سین کے مطابق بنگال میں آنے والا قحط قدرت نہیں انسان کا پیدا کردہ تھا۔

تنازعات میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے فوجی مقامی حکمرانوں کو کرائے پر فراہم کرتی تھی۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے وہ جلد ہی کنگال ہو جاتے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے۔ یوں کمپنی اپنے قبضے میں اضافہ کرتی جاتی۔

کمپنی نے انسانی المیوں سے بھی فائدہ اٹھایا۔ بنگال کے قحط میں چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60 ہزار پاونڈ منافع کمایا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 مرتبہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم شیخ دین محمد اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ ’(1780 کے لگ بھگ) جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت سارے ہندو زائرین نظر آئے جو سیتا کُنڈ جا رہے تھے۔ 15 دنوں میں ہم مونگیر سے بھاگلپور پہنچ گئے۔ شہر سے باہر ہم نے کیمپ لگا لیا۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اہم تھا اور اس کی ایک فوج بھی تھی تاکہ اپنی تجارت کو تحفظ دے سکے۔ یہاں ہم چار پانچ دن ٹھہرے۔ ہمیں پتا چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیپٹن بروک جو سپاہیوں کی پانچ کمپنیوں کا سربراہ تھا وہ بھی قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھار پہاڑی قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہاڑی لوگ بھاگلپور اور راج محل کے درمیانی پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ کیپٹن بروک نے ان کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا اور انھیں عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ کچھ لوگوں کو سر عام بے تحاشا کوڑے مارے گئے، اور کچھ مردُودوں کو پھانسی پر اس طرح لٹکایا گیا کہ پہاڑوں سے واضح نظر آئے تاکہ ان کے ساتھیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے۔‘

ایسٹ انڈیا کمپنی

’یہاں سے ہم آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا کہ پہاڑیوں پر ان کی لاشیں نمایاں جگہوں پر ہر آدھے میل کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ہم سکلی گڑھی اور تلیا گڑھی سے گزر کر راج محل پہنچے جہاں ہم کچھ دن ٹھہرے۔ ہماری فوج بہت بڑی تھی مگر عقب میں تاجروں پر کچھ دوسرے پہاڑیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے محافظوں نے ان کا پیچھا کیا، کئی کو مار دیا اور تیس چالیس پہاڑی لوگوں کو پکڑ لیا۔ اگلی صبح جب شہر کے لوگ معمول کے مطابق ہاتھی گھوڑوں اور بیلوں کا چارہ لینے اور جلانے کی لکڑی خریدنے پہاڑیوں کے پاس گئے تو پہاڑیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ سات آٹھ شہری مارے گئے۔ پہاڑی اپنے ساتھ تین ہاتھی کئی اونٹ گھوڑے اور بیل بھی لے گئے۔ ہماری بندوق بردار فوجوں نے جوابی کارروائی میں بہت سے پہاڑیوں کو مار دیا جو تیرکمان اور تلواروں سے لڑ رہے تھے اور دو سو پہاڑیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان کی تلوار کا وزن 15 پاونڈ ہوتا تھا جو اب ہماری فتح کی ٹرافی بن چکی تھیں۔ کرنل گرانٹ کے حکم پر ان پہاڑیوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ کچھ کے ناک کان کاٹ دیئے گئے۔ کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد ہم نے کلکتہ کی طرف اپنا مارچ جاری رکھا۔‘

صرف میسور کے حکمران ٹیپو سلطان نے فرانس کی تکنیکی معاونت سے کمپنی کو حقیقی بڑی مزاحمت کی اور کمپنی کو دو جنگوں میں شکست بھی دی۔ مگر ہند ہی کے دیگر حکمرانوں کو ساتھ ملا کر ٹیپو سلطان پر بھی قابو پا لیا گیا۔ جب 1799 کو کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ ویلزلے کو ٹیپو کی ہلاکت کی خبر سنائی گئی تو اس نے اپنا گلاس ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا کہ آج میں ہند کی لاش پر جشن منا رہا ہوں۔

لارڈ ویلزلے ہی کے دور میں کمپنی جنگی کامیابیوں کے باجود مالی مسائل کا شکار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ان کا قرض تین کروڑ پاونڈ سے بڑھ چکا تھا۔ کمپنی کے ڈائریکٹر نے حکومت کو ویلزلے کی فضول خرچیوں پر خط لکھا اور انھیں برطانیہ واپس بلا لیا گیا۔

سنہ 1813 میں برطانوی پارلیمان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہند میں تجارت پر اجارہ داری ختم کرتے ہوئے دیگر برطانوی کمپنیوں کو بھی کاروبار کرنے اور دفاتر کھولنے کی اجازت دے دی۔

برطانیہ کے دارالعوام نے سنہ 1813 میں تھامس مونرائے، جنھیں 1820 میں مدراس کا گورنر بنایا گیا، سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر معیار کے ہوتے ہیں۔

مگر پھر برطانیہ میں بنے کپڑے کو مقبول بنانے کے لیے مقامی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو تباہ کیا گیا اور یوں برطانیہ کی برآمدات سنہ 1815 میں 25 لاکھ پاؤنڈ سے 1822 تک 48 لاکھ پاؤنڈ ہو گئیں۔

ڈھاکا جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834 میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔

کسانوں کی آمدن پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ نمک سمیت روزمرہ استعمال کی اشیا پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لُو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823 میں لکھا کہ اس طرح ہند کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زرعی ملک بنا دیا گیا ہے تا کہ انگلستان کا مال ہند میں بیچا جا سکے۔ سنہ 1833 میں برطانوی پارلیمان نے ایک قانون کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی سے حق تجارت چھین لیا اور اسے ایک گورننگ کارپوریشن میں بدل دیا۔

ولیم ڈیل رمپل اپنی کتاب ‘دی انارکی، دا ری لینٹ لس رائز آف ایسٹ انڈیا کمپنی’ میں لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کی ایک منفرد مثال ہے جس میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک نجی کمپنی نے اپنی زمینی فوج اور بحریہ کی مدد سے 20 کروڑ لوگوں پر مشتمل ایک پوری قوم کو غلام بنا دیا تھا۔

کمپنی نے سڑکیں بنائیں، پل بنائے، سرائے قائم کیے، ریل چلائی مگرناقدین کا کہنا ہے ان منصوبوں سے عوام کو تو سفری ذرائع میسر آئے لیکن اصل مقصد کاٹن، سلک، افیون، شکر اور مصالحوں کی تجارت کو فروغ دینا تھا۔

سنہ 1835 کے ایکٹ کے تحت انگریزی زبان اور ادب کے فروغ کے لیے رقوم مختص کی گئیں۔ 1857 کی جنگ آزادی (کمپنی کے مطابق بغاوت) کو کمپنی نے ہزاروں افراد کو بازاروں اور سڑکوں پر لٹکا کر اور قتل کر کے کچل دیا۔

یہ برطانوی نو آبادی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔

جنگ آزادی کے بعد اگلے برس یکم نومبر کو برطانوی ملکہ وکٹوریہ نے کمپنی کے اختیارات ختم کر کے انتظام براہ راست سنبھال لیا اور کمپنی کی فوج کو برطانوی فوج میں ضم کر کے اس کی بحریہ ختم کر دی۔

لارڈ میکالے کے مطابق کمپنی شروع دن سے تجارت کے ساتھ سیاست میں بھی ملوث رہی، تاہم کمپنی کی آخری سانسیں 1874 تک چلتی رہیں۔ اسی سال برطانوی اخبار دی ٹائمز کی دو جنوری کی اشاعت میں لکھا: اس نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایسا کام سر انجام دیا جس کی کسی اور کمپنی نے نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی ممکن ہے آنے والے برسوں میں کر سکے۔

اب ہند براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp