جذبات میں آنے کی بجائے ہوش سے کام لیں


کراچی واقعے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے بلاول بھٹو زرداری سے فون کر کے کہا تھا کہ فوج تحقیقات کرے گی اور 10 دن میں انکوائری رپورٹ سامنے لائی جائے گی مگر جب نہیں آئی تو پی ڈی ایم نے 8 تاریخ کو مطالبہ کیا تھا کہ انکوائری رپورٹ سامنے لائی جائے جلد از جلد۔ پھر 10 تاریخ کو جب رپورٹ آئی تو جو آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کی اس کے مطابق مزار قائد پر جو کیپٹن (ر) صفدر نے ووٹ کو عزت دو اور مادر ملت زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ اس طرح مزار قائد کی بے حرمتی کی گئی تو عوامی دباؤ بڑھ رہا تھا اور پولیس سست کارروائی کر رہی تھی اور مقدمہ درج کرنے سے گریزاں تھی تو شدید ترین عوامی دباؤ پر آئی ایس آئی سیکٹر کمانڈ اور رینجرز کے اہلکاروں نے زبردستی وارنٹ گرفتاری پر دستخط لے کر کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا اور یہ ساری کارروائی اس لئے ہوئی کیونکہ اہلکار جذبات میں آ گئے تھے اور اس سے دو اداروں میں بدمزگی ہوئی اور ناگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور ان چار افسران کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے مگر نام صیغہ راز ہیں اور مزید کارروائی جی ایچ کیو میں ہوگی۔

یہ جذبات میں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری تو پوری تاریخ ہے جب جذبات میں آ کر اور جذبات کے بہنے میں ہم نے بڑا کچھ کیا ہے۔ جذبات میں آ کر 7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا نے وزیر اعظم فیروز خان کی حکومت کا تختہ الٹا اور پہلا مارشل لا لگایا اور آئین شکنی کی اور آرمی چیف ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگایا۔ پھر 27 اکتوبر 1958 کو جذبات میں آ کر ایوب خان نے اسکندر مرزا کو صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا اور جلا وطن کر دیا۔

پھر جذبات میں آ کر جنہوں نے مارشل لا کی مخالفت کی ان پر بدترین تشدد ہوا۔ کئی مار دیے گئے۔ لاہور کے شاہی قلعہ کو عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر جذبات میں آ کر حسین شہید سہروردی کو غدار کہا گیا اور انہیں بھی مجبور کیا گیا کہ آپ ملک سے باہر جائیں۔ جذبات میں آ کر 1962 میں وہ بنیادی جمہوریت اور صدارتی نظام والا آئین آمر کے دور میں نافذ ہوا۔

جذبات میں آ کر فیض احمد فیض اور مولانا مودودی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جب 1965 کے صدارتی انتخاب رکھے گئے اور جب فاطمہ جناح نے آمر کے خلاف الیکشن لڑا تو جذبات میں آ کر انہیں غیر ملکی ایجنٹ اور غدار کہا گیا۔ باچا خان کو غدار کہا گیا۔ بلوچوں کو غدار کہا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات کے رد عمل میں جذبات میں آ کر ان پر اگرتلہ سازش کیس چلایا گیا۔ پھر جب 1969 میں یحیی خان کو اقتدار ملا اور 1970 کے الیکشن کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو وزیر اعظم بننے نہیں دیا جا رہا تھا۔ کیونکہ آمر کی شرط تھی کہ دونوں پارٹیاں حکومت اس شرط پر بنائیں گی کہ نیا آئین بنا کر تمام اختیارات صدر کے پاس ہوں گے۔ پھر جذبات میں آ کر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کیا اور جو اس کا اختتام تھا۔ ہم سب جانتے ہیں۔

جذبات میں آنے کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ 1977 میں جب پی این اے نے تحریک چلائی اور بھٹو صاحب نے تقریباً پی این اے کے مطالبات مان لیے تھے کہ جنرل ضیا الحق نے جذبات میں آ کر مارشل لا لگا دیا۔ جذبات میں آ کر بھٹو صاحب کو سپریم کورٹ کے ذریعے پھانسی دے دی۔ جذبات میں آ کر بیگم نصرت بھٹو اور جیالوں پر لاٹھیاں برسائیں گئیں۔ سر پھاڑ دیے گئے۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ جیل میں جو سلوک روا رکھا گیا۔ جذبات میں آ کر بھٹو صاحب کی میت کو جانچا گیا کہ بھٹو صاحب مسلمان تھے بھی یا نہیں۔ جذبات میں آ کر افغان جہاد لڑا اور اس کا نتیجہ منشیات اور افغان پناہ گزینوں اور مذہبی فسادات کے ذریعے ادا کر ہی رہے ہیں۔ جذبات میں آ کر ایم کیو ایم بنائی گئی۔ جذبات میں آ کر آئی جے آئی بنوائی گئی۔

ایک عورت ہمیں وزیر اعظم کے طور پر قبول نہیں تھی۔ پھر پہلے اس کی حکومت کو اتنے اختیارات ہی نہیں دیے۔ دوسرا جب عدم اعتماد ناکام ہوئی تو پھر صدر غلام اسحاق خان کے ذریعے حکومت ختم۔ پھر جب 1993 میں نواز شریف نے کہا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ تو فارغ کر دیا مگر سپریم کورٹ نے بحال کر دیا مگر پھر کاکڑ فارمولہ کے تحت جانا پڑا۔ جذبات میں آ کر پھر ہم نے بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دے دیا۔ جذبات میں آ کر ایک دفعہ پھر 1996 میں اس کی حکومت ختم کروائی گئی۔

ایک دفعہ پھر میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ 1999 میں چار جرنیلوں نے جذبات میں آ کر کارگل ایڈونچر کر دیا وزیر اعظم کو بتائے بغیر اور جو پھر حشر ہوا اور پھر جب پسپائی کرنا پڑی تو ادھر وزیر اعظم کارگل کمیشن بنانا چاہ رہے تھے اور آرمی چیف کو فارغ کیا تو جذبات میں آ کر ایک دفعہ پھر پی ٹی وی اور وزیر اعظم ہاؤس کو پھلانگا گیا اور وزیر اعظم کو گرفتار کر کے اسے ہائی جیکر بنا دیا پھر باہر بھیج دیا۔

جذبات میں آ کر مسلم لیگ ق بنائی گئی۔ جذبات میں آ کر 2002 میں جمہوری نظام لایا گیا۔ جذبات میں آ کر 17 ویں ترمیم منظور ہوئی۔ پھر جذبات میں آ کر جب ایک اہل کار نے بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کا ریپ کیا ڈیرہ بگٹی میں تو بجائے اس کو سزا دینے کی اس کو بچانے کے لئے اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا۔ پھر بلوچستان میں ایک شدید بد امنی پھیلی۔ اس کے بعد جذبات میں آ کر جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ہٹایا گیا تو وہ گلے پڑ گیا۔ جذبات میں آ کر سانحہ 12 مئی ہوا۔ جذبات میں آ کر 3 نومبر 2007 کی غیر آئینی ایمرجنسی لگائی۔ جذبات میں آ کر بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ جذبات میں آ کر پھر وہ میمو گیٹ سکینڈل آ گیا اور حسین حقانی غدار قرار پایا اور پھر اس کے بعد پھر یوسف رضا گیلانی نے کہا ریاست کے اندر ایک ریاست ہے تو فارغ کروا دیا سپریم کورٹ سے۔ 2014 میں جذبات میں آ کر ہم نے دھرنا دلوایا حکومت کو ہٹانے کے لئے اور پارلیمان اور پی ٹی وی پر حملہ کروا دیا اور جنرل ظہیر الاسلام نے وزیر اعظم کو کہا استعفی دے دو ورنہ اچھا نہیں ہوگا مگر وہ پلان ناکام ہو گیا۔ 2016 میں جب کہا گیا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کی وجہ سے ہمارا کشمیر پر موقف کمزور ہو رہا ہے۔ اپنا گھر صاف کریں تو جذبات میں آ کر ڈان لیکس بنا دی اور وزیر اعظم کو بھارت کا ایجنٹ اور غدار بنوا دیا۔

جذبات میں آ کر پھر ہم نے پاناما کا کیس لگوایا۔ جے آئی ٹی بنوائی اور مشن مائنس نواز شریف میں کامیاب رہے۔ پھر جذبات میں آ کر 5.8 فیصد سے بڑھنے والی معیشت کو کہا گیا معیشت خراب ہے سیمینار کروا دیا۔ جذبات میں آ کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے نوٹیفیکیشن از ریجیکٹڈ کا ٹویٹ کر دیا تھا۔ پھر جذبات میں آ کر بلوچستان حکومت گرائی آور صادق سنجرانی کو چیئرمین لگوایا۔ پھر جذبات میں آ کر اس سے پہلے فیض آباد دھرنا کروایا اور ہزار ہزار روپے شرکا میں بانٹے گئے۔

جذبات میں آ کر کہہ دیا کہ دشمن کو ووٹ کی طاقت سے شکست دیں گے۔ جذبات میں آ کر 2018 کے الیکشن میں شدید دھاندلی کی گئی اور ہائبرڈ نظام مسلط کیا۔ جذبات میں آ کر ایک جج کو بلیک میل کر کے نواز شریف کو سزائیں دلوائیں۔ جذبات میں آ کر قاضی فائز عیسی کے پیچھے غیر آئینی ریفرینس دائر کروایا مگر وہ خارج ہوا کیونکہ فیض آباد پر فیصلہ دے دیا۔ جذبات میں آ کر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نکلوایا۔ جذبات میں آ کر دن دیہاڑے اسلام آباد سے مطیع اللہ جان کو اغوا کر لیا جاتا ہے سی سی ٹی وی فوٹیج ہی نہیں ملتی پولیس کو۔

جذبات میں آ کر ساجد گوندل کو شمالی علاقہ جات کی سیر کروا دی جاتی ہے۔ جذبات میں آ کر فیروز والا میں 500 روپے نا دینے پر ٹرالی ڈرائیور کو گولی مار دی حالانکہ وہ بچ جاتا ہے۔ جذبات میں آ کر ایف اے ٹی ایف کے بل منظور کروائے جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم بننے کے بعد جذبات میں آ کر ملاقاتوں کا احوال لیک کیے جاتے ہیں۔ جذبات میں آ کر اشتہاری سے نواز شریف کے خلاف بغاوت کا پرچہ درج کرنے کے لئے اشتہاری ملتا ہے اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کو غدار قرار دیا جاتا ہے۔ پھر کراچی میں جذبات آ جاتے ہیں۔ پھر ایاز صادق کے بیان پر جذبات میں آ کر پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ تب جذبات کیوں نہیں جاگتے جب اس ملک میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کی جاتی ہے؟ جب اس ملک میں آئین پر شب خون مارا جاتا ہے۔ وزرائے اعظم کے قاتل پکڑنے کے لئے جذبات کیوں نہیں جاگتے؟ اس ملک کے دریا بیچنے پر کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگتے؟ اس ملک میں مادر ملت کو غدار دینے کے خلاف جذبات کیوں نہیں جاگتے؟ اس ملک میں ہتھیار پھینک دینے پر کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟

ایٹمی پروگرام شروع کرنے والے اور قیدیوں کو واپس لانے والے وزیر اعظم کے خلاف بغاوت اور اس کے عدالتی قتل کے خلاف جذبات کیوں نہیں جاگے؟ سیاچین پر بھارت قابض ہو گیا۔ اس پر کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟ کارگل میں بلنڈر مارنے والوں کے خلاف کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟ امریکہ کو اڈے دینے پر جذبات کیوں نہیں جاگے؟ عافیہ صدیقی سمیت 468 پاکستانی حوالے کرنے پر جذبات کیوں نہیں جاگے؟ اکبر بگٹی، لال مسجد، سانحہ 12 مئی اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے خلاف کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟

ریمنڈ ڈیوس کو بھیجنے والوں کے خلاف کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟ ایبٹ آباد آپریشن پر کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟ 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس بند کرنے والوں کے خلاف جذبات کیوں نہیں جاگتے؟ کیوں 5 اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر پر جذبات میں آ کر حملہ نہیں کرتے؟ کلبھوشن کے لئے آرڈیننس لانے پر کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟ عاصم سلیم باجوہ کی کرپشن پر کیوں کسی کے جذبات نہیں جاگے؟ عوام کے ووٹ کی پرچی کی تذلیل جو ہوئی اس کے خلاف کسی کے جذبات کیوں نہیں جاگے؟ ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟

آخر میں ایک مشورہ ہے ان لوگوں کو جو جذبات سے کام لیتے ہیں کہ حضور جذبات میں آ کر جو کام کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ 2018 کے الیکشن سے لے کر جو کچھ ہو رہا ہے اب انگلیاں آپ پر اٹھ رہی ہیں۔ شیخ رشید کے ذریعے ملاقاتوں کا بتایا تو مولانا عبد الغفور حیدری اور حافظ حسین احمد نے بھی پھر باتیں بتائیں تو خاموشی تھی آپ کی طرف سے۔ کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے پی ڈی ایم توڑنے کی خواہش بلکہ گلے پڑ گئی۔ وہ غداری والا مقدمہ بھی گلے پڑ گیا۔

آپ کا دو دفعہ ٹی وی پر آنا، ایک محمد زبیر کی ملاقات کا راز افشا کرنا اور دوسری دفعہ ایاز صادق کے بیان پر پریس کانفرنس فواد چوہدری کی وجہ سے بیک فائر کر گئی۔ حضور اس بار آپ کو پی ڈی ایم کی باتیں سننے بھی پڑیں گی اور ماننی بھی پڑیں گی۔ مذاکرات کرنے پڑیں گے۔ آپ کو اپنے حلف کی پاسداری کرنا ہوگی اور سیاست میں مداخلت بند کرنا پڑے گی ورنہ عوام میں غصہ بڑھ رہا ہے اور وہ آپ کو جو اس ملک میں ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ یہ بہترین وقت ہے کہ آپ آئین پر عمل کریں اور اپنی حدود اور حلف کا پاس کریں۔ اگر آپ نے پھر جذبات میں آ کر کچھ کرنے کی کوشش کی تو وہ ایک بار پھر آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).