میر ظفر اللہ جمالی نے استعفیٰ کیوں دیا؟


بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی گزشتہ روز راول پنڈی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا اور وہ وینٹی لیٹر پر تھے۔ یکم جنوری 1944ء کو صوبہ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہونے والے میر ظفر اللہ خان جمالی نے ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی، بعد ازاں سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچی سن کالج لاہور اور 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

جمالی خاندان قیام پاکستان سے ہی ملکی سیاست میں سرگرم رہا ہے۔ ظفر اللہ جمالی کے تایا جعفر خان جمالی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھے۔ جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح فوجی آمر ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں تو میر ظفر اللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔ جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔

میر ظفر اللہ خان جمالی کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد جمالی (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں وفاقی وزیر رہے۔ میر عبدالرحمٰن جمالی اور میر فائق جمالی صوبائی کابینہ میں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 1988ء کے بعد سے ان کے آبائی گاؤں روجھان جمالی سے تعلق رکھنے والی تین سیاسی شخصیات بلوچستان کی وزارت علیا کے منصب پر فائز ہو چکی ہیں جن میں تاج محمد جمالی کے علاوہ میر ظفر اللہ خان جمالی کے بھتیجے جان محمد جمالی بھی شامل ہیں۔

میر ظفراللہ خان جمالی کے والد میر شاہنواز خان جمالی پرانے مسلم لیگی رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھائی تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا تھا۔ ظفراللہ کی شادی خاندان میں ہی ہوئی تھی۔ جس سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ دو بیٹے، شاہنواز اور جاوید، پاک فوج میں افسر ہیں جبکہ تیسرے، فریداللہ باپ کی طرح سیاست میں ہیں اور فروری 1997ء کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے قبیلے کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کے علاوہ صوبہ سندھ میں بھی آباد ہے۔ یوں ان کا سیاسی اور قبائلی اثر و رسوخ دو صوبوں پر محیط ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو، میر جعفر خان جمالی کو اپنا سیاسی مرشد مانا کرتے تھے۔ 7 اپریل 1967ء کو جعفر خان جمالی کی وفات کے موقع پر جب ذوالفقار علی بھٹو روجھان جمالی گئے تو میر ظفر اللہ خان جمالی کے والد شاہ نواز جمالی سے انہوں نے کہا کہ اس گھرانے سے سیاست کے لئے مجھے ایک فرد دے دیجیئے، جس کے جواب میں شاہ نواز جمالی نے ظفر اللہ جمالی کا ہاتھ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ یہی سے میر ظفر اللہ خان جمالی نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رکھا۔

دسمبر 1970ء میں ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں میر ظفر اللہ خان جمالی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلامقابلہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔ 1982ء میں وزیر مملکت برائے خوراک و زراعت بنے۔ 1985ء کے انتخابات میں نصیر آباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔

فروری 1985ء کے تیسرے عام انتخابات میں میر ظفر اللہ خان جمالی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے، تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا اور صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھی۔ 29 مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58 ( 2 ) بی کے تحت محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا تو انہیں بلوچستان کا نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

اس کے بعد نومبر 1988ء میں ہونے والے چوتھے عام انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد میر ظفر اللہ خان جمالی نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی گئی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا۔ اس کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ اکتوبر 1990ء کے پانچویں عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ اکتوبر 1993ء کے چھٹے عام انتخابات میں کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء تک وہ دوبارہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 1997ء میں سینٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔

دسمبر 2000ء میں معزول وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی سعودی عرب جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) کے جنرل سیکرٹری بنے۔ یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی۔ مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود میر ظفر اللہ خان جمالی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے۔

10 اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کی کامیابی کے بعد میر ظفر اللہ خان جمالی کو پارلیمان نے 21 نومبر 2002ء کو پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کیا۔ وزیر اعظم کا انتخاب کئی سیاسی جماعتوں ‌ کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا۔ یہ مرحلہ اس وقت روبہ عمل ہوا جب پیپلز پارٹی کا ایک ”محب الوطن“ دھڑا الگ ہو کر مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر آمادہ ہوا۔

جمالی دور میں صدر جنرل پرویز مشرف کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جاری رہنے والی رسہ کشی ایک سال کے بعد دسمبر 2003ء میں متحدہ مجلس عمل کی مدد سے 17 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ختم ہوئی۔ متحدہ مجلس عمل اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ 17 ویں ترمیم منظور کرانے کے بعد پرویز مشرف 31 ‌ دسمبر 2004ء تک وردی اتار لیں گے لیکن پرویز مشرف نے یہ وعدہ وفا نہ کیا۔

اپنی وزارت اعظمیٰ میں میر ظفر اللہ خان جمالی نے کئی وسط ایشیائی اور خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا کا بھی دورہ کیا۔ ان کا سابق امریکی صدر بش سینئر سے 90ء کی دہائی میں تعلق قائم تھا۔ پرانے تعلق کو استعمال کرتے ہوئے دورہ امریکا کے دوران انہوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے تعلق استوار کیا۔ انتہائی جرات مندی کے ساتھ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی امریکا منتقلی کے لئے کاغذات پر دستخط سے انکار کیا، جمالی اپنے دور اقتدار میں کوئی بڑا عوامی ریلیف دینے میں ناکام رہے تاہم ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ ان کے دور میں کوئی بڑا بحران نہیں رہا، متحدہ مجلس عمل سے مذاکرات کو چلائے رکھنا بھی ان کی بڑی کامیابی سمجھی گئی۔

میر ظفر اللہ خان جمالی وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے، انہوں نے دوران حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔ ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لئے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ء کو وزیر اعظم کے منصب سے مستعفی ہو گئے۔

وزیر اعظم میر جمالی اللہ خان جمالی کے استعفٰے کی وجہ واضح طور پر بیان تو نہیں کی گئی تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ سب چوہدری شجاعت حسین اور ظفر اللہ خان جمالی کے درمیان اختلافات کا نتیجہ تھا جو ان کے بعد 40 دن کے لئے ملک کے عبوری وزیر اعظم بنے۔

تجزیہ کاروں ‌ کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف نے میر ظفر اللہ خان جمالی سے وعدہ لیا تھا کہ وہ تمام ایگزیکٹو تقرریاں ان کی منظوری اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے مشاورت سے کریں گے تاکہ گڈ گورننس کا مقصد پورا ہوتا رہے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور میر ظفراللہ جمالی نے چند وفاقی سیکرٹریوں کے تبادلے اپنے طور پر کر دیے جس سے ابتداء ہی میں بد اعتمادی کی فضاء پیدا ہو گئی۔

صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے (اور تاحال آخری) وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے لئے اقتدار پہلے دن سے ہی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ‌ہوا۔ ان کی جماعت کے ارکان پارلیمان میں ‌ اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا جن پر چوہدری برادران کی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ مئی 2004ء تک جمالی اور شجاعت اختلافات شدت اختیار کر گئے اور اسمبلی ٹوٹنے اور وسط مدتی انتخابات کی باتیں ہونے لگیں۔

صدر جنرل پرویز مشرف سے انڈر سٹینڈنگ میں دوسرا فیصلہ یہ شامل تھا کہ پارٹی بالادست ہو گی یعنی وزیر اعظم اور حکومت پارٹی فیصلوں پر عمل درآمد کرے گی۔ اس اصول کا اعلان چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ ہاؤس میں ‌منعقد ہونے والے اجلاس عام میں ‌ کیا تھا۔ میر ظفراللہ جمالی نے بھی یہ اعلان کیا کہ یہ اصول کہ حکومت پارٹی کو نہیں ‌ بلکہ پارٹی حکومت کو چلائے گی، ہم نے مل بیٹھ کر طے کیا ہے اور وہ اس اصول پر کاربند رہیں گے۔ میر ظفر اللہ جمالی اپنے اس اعلان پر قائم نہ رہ سکے، اختلاف کی ایک بڑی وجہ وزیراعظم جمالی کی کابینہ میں چوہدری شجاعت کی توسیع کی خواہش پر عمل درآمد کرنے سے گریز بھی تھا۔

صدر جنرل پرویز مشرف کے وزیر اعظم جمالی سے اختلاف کا ایک اہم واقعہ اپریل 2004ء میں قومی سلامتی کونسل کے بل کی منظوری کے وقت پیش آیا۔ قومی سلامتی کونسل کی تشکیل نو کا مسودہ قانون وزیر اعظم جمالی نے کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دیا اور کابینہ میں کہا کہ ”ہم پر ذمہ داری آ گئی ہے اور ہم اسے اس طرح منظور کریں کہ پارلیمان کا وقار قائم رہے“ ۔

میر ظفر اللہ خان جمالی کی کوششوں سے قومی سلامتی کونسل کا اصلی مسودہ قانون جسے صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں نے تیار کیا تھا اس میں تبدیلی کی گئی۔ اس کے دائرہ کار میں سے جمہوریت، اچھا نظم و نسق اور بین الصوبائی امور پر مشاورت کو نکال دیا گیا اور ان کی جگہ کرائسس مینجمنٹ (ہنگامی حالات سے نپٹنے ) کے الفاظ شامل کیے گئے۔

اپریل 2004ء میں قومی سلامتی کونسل کا بل پاس ہوتے ہی مسلم لیگ (ق) کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پیٹریاٹ) کے وفاقی وزراء فیصل صالح حیات اور راؤ سکندر اقبال نے کھلے عام صدر جنرل پرویز مشرف سے کہا کہ وہ وردی نہ اتاریں اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو گا۔ بظاہر نرم مزاج جمالی اندر سے قدرے سخت سیاست دان ثابت ہوئے۔ انہوں ‌نے آخر تک صدر پرویز مشرف کی وردی کے معاملے پر حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور بطور وزیر اعظم نازک سیاسی معاملات پر اپنی آزاد رائے پر اصرار کیا۔

سرکاری پارٹی اور اس کے حلیفوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کو دیکھتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے دھمکی دی کہ وہ پورا نظام لپیٹ دیں گے ( 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس مل گیا تھا) اس پر ارکان پارلیمان خوف زدہ ہو گئے اور انہوں ‌ نے صدر کو کوئی درمیانی راہ نکالنے کے لئے کہا۔ اس دوران متحدہ مجلس عمل اور اے آر ڈی کی جانب سے میر ظفر اللہ خان جمالی کی حمایت میں بیان آنے لگے۔ یہ وہ صورت حال تھی جس نے فوجی صدر کو برہم کر دیا جس کے بعد ظفر اللہ خان جمالی پر استعفیٰ کے لئے دباؤ بڑھ گیا اور وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).