کیا سیاست دان نئے زمانے کے صوفی ہیں؟


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لاہور جلسے سے اگلے روز حزب اختلاف کے رہنماؤں کا رائے ونڈ میں اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کیا گیا۔ ان دو ہفتوں میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ میں اس پریس کانفرنس کا ایک منظر ٹھہر گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن گفتگو کر رہے تھے۔ ان کے بائیں طرف مریم نواز تھیں اور دائیں طرف بلاول بھٹو۔ راسٹرم پر سردار اختر مینگل، محمود اچکزئی، میاں افتخار حسین تھے، پرویز رشید، قمر زمان کائرہ اور احسن اقبال بھی نظر آ رہے تھے۔ ان میں کسی نے پاکستان کے لوگوں پر اپنی ماں قربان کی ہے، کسی نے اپنا باپ گنوایا ہے۔ کسی نے بھائی کی زندگی دان کی ہے، کسی نے بیٹے کی میت اٹھائی ہے۔ کسی نے زندگی کے بہترین برس قید و بند میں گزارے ہیں۔ کوئی بدترین عقوبتوں سے گزرا ہے۔ جب یہ تحریر آپ کی نظر سے گزرے گی تو بے نظیر بھٹو کی شہادت پر تیرہواں برس مکمل ہو رہا ہو گا۔ کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ…. پاکستان کی چاروں وفاقی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے ان سیاسی رہنماؤں کو دیکھتے ہوئے ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔ کیا سیاست دان نئے زمانے کے صوفی ہیں؟
اب اس سے کچھ زاویے نکلتے ہیں۔ سیاست دان کون ہوتا ہے؟ صوفی کسے کہتے ہیں؟ کوئی تین ماہ گزرے، میاں نواز شریف کی تعریف میں کچھ حروف لکھ دیے، ابھی تک بے بھاؤ کی پڑ رہی ہیں۔ مخالف تو کبھی کسی کو جانا ہی نہیں، دوست ہی فقرے بازی کی مشق فرما رہے ہیں۔ جس ملک میں شپرہ چشم آمروں کی قصیدہ خوانی فن لطیف کا درجہ پا چکی، جہاں قوم کے ساتھ بدترین دھوکہ دہی کی عذر خواہی تقریر و تحریر کی معراج سمجھی جاتی ہے، وہاں ایک سیاسی رہنما کی اچٹتی ہوئی تعریف اتنا بڑا گناہ ٹھہرے، بات تو سمجھ آتی ہے، ہم نے سیاست کی ساکھ بگاڑنے میں سات دہائیاں صرف کی ہیں، سیاست دانوں کی کردار کشی میں جیسی کچھ کوہ کنی کی، اس سے آدھی کاوش ملک کے بارے میں سنجیدہ غور و فکر اور ذمہ دار فیصلہ سازی میں کی ہوتی تو آج قوم کا وقار خاک آلود نہ ہوتا۔ دلچسپ بات یہ کہ سیاست اور سیاست دانوں کی چتھاڑ کرنے والے اسی سانس میں قائد اعظم کی مدح سرائی بھی کرتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بمبے سنٹرل کی محمڈن نشست سے سیاست کا آغاز کر کے پچاس برس اس دشت کی سیاحی کی تھی۔ انہیں جنرل اینڈریو اسکین نے علی گڑھ کے کمرہ جماعت سے چن کر سرکار انگلشیہ کی ملازمت میں نہیں لیا تھا۔ دیکھئے! زندگی کے کسی بھی شعبے کا حقیقی منصب اور افادیت اس کے بہترین نمونوں سے طے پاتے ہیں۔ صحافت میں جہاں چراغ حسن حسرت، مانک میاں اور مظہر علی خان ملیں گے، وہیں زیڈ اے سلہری اور مقبول شریف بھی نظر آئیں گے۔ سیاست میں جہاں عبدالرب نشتر اور مولوی تمیز الدین ہوں گے، وہیں صادق قریشی اور جام صادق علی کی چہرہ نمائی بھی ہو گی۔ عدالت میں صرف مولوی مشتاق حسین ہی تو نہیں ہوتے، رستم کیانی بھی ملتے ہیں۔ ہماری روایت میں بھی تو علمائے حق اور علمائے سوء کی تقسیم ملتی ہے۔ اور یہ مت بھولئے کہ کار سیاست اور اہل سیاست کی تحقیر کرنے والوں کو اپنی کاناباتی کے لئے ضرورت پڑتی ہے تو میدان سیاست کے کنکر پتھر ہی کام آتے ہیں…. جو کار سیاست میں درک رکھتے ہیں۔ وہ قوم کی قبر کھودنے میں کیونکر مدد گار ہوں گے۔
ایک طالب علمانہ گزارش ہے کہ عصر حاضر میں علم سیاسیات کے اہم مفکر پروفیسر ڈک ہارورڈ کی کتاب The Primacy of the Political ضرور دیکھ لیجئے۔ 2010 میں شائع ہونے والی یہ کتاب سیاست اور رد سیاست کے دھاروں کا عمدہ محاکمہ کرتی ہے۔ سادہ لفظوں میں سیاست ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جسے ایک شہری رضاکارانہ طور پر اٹھاتا ہے تاکہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو بہتر طور پر چلانے کا راستہ نکالا جا سکے، انسانوں کی زندگی میں آزادی، امن، انصاف اور آسودگی کی صورت حال بہتر بنائی جا سکے۔ آج کے چیلنج اور آئندہ کے امکانات میں پل باندھا جا سکے۔ ادب، سائنس اور فنون عالیہ کی طرح سیاسی کارکن کے حصے میں بھی وہی خوشی آتی ہے جو سانس کے بامعنی طور پر صرف ہونے سے ملتی ہے۔ ادیب رات کی تنہائی میں لفظوں سے سر کھپاتا ہے، استاد بندو خان سوتے میں بھی سارنگی پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ بڑے غلام علی خان کی سانس میں تان پورے کی گمک رچی تھی۔ گیلیلیو اور برونو سائنسی حقائق بیان کرنے کی لپک میں اہل اقتدار کے ہاتھوں رسوا ہوئے۔ ابھی ساری دنیا میں کورونا نے ایک آفت مچا دی۔ آپ نے دیکھا کہ سائنس دان خاموشی سے تحقیق پر جٹ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس موذی مرض کی دوا دریافت کر لی۔ سیاست زندگی کے ان تمام شعبوں کو فکر و نظر کے ایک بڑے عدسے کی مدد سے سمت دینے کا کام ہے۔
درویش تصوف کی راہ کا سالک نہیں لیکن کچھ نیک انسانوں کے بارے میں جو معلوم ہو سکا وہ یہ کہ صوفی خلق خدا سے محبت کرتے ہیں، نفرت کا کاروبار نہیں کرتے۔ اختلاف میں کشادگی اور رواداری سے کام لیتے ہیں۔ ریاضت اور مجاہدے میں نمائش نہیں کرتے۔ علم کی طلب میں انکسار اپناتے ہیں۔ قدیم روایت میں صوفی کی آنکھ زمینی معاملات سے ماورا بتائی گئی ہے۔ ہم فانی انسانوں کو دنیا سے مفر نہیں۔ ہمارے عہد کے صوفی یہی سیاسی رہنما ہیں جو آنے والی نسلوں کا مستقبل کاشت کرتے ہیں۔ ادھر بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ فرماتے ہیں کہ سیاست دانوں کی اکثریت کو دو کا پہاڑا نہیں آتا۔ واقعی دو کا پہاڑا علم کی معراج ہے اور اعجاز شاہ اس معدن بے کنار کے شناور ہیں۔ سیاست دان دو کا پہاڑا یاد کرنے کی بجائے اس فکر میں سر کھپاتا ہے کہ اس کے ملک کی توقیر اس درجہ بلند ہو کہ آسٹریلیا کی حکومت اس کے ہائی کمشنر کی تقرری مسترد نہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).