انگارہ آنکھیں سلگتے ہونٹ اور معصوم لڑکی


پھر اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اسٹیٹ لائف انشورنس میں کام کرتا ہے اور گلشن میں رہتا ہے۔ اس وقت وہ آفس سے ہی بول رہا تھا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔ میں گھبرائی تو تھی پر خوش تھی، بے تحاشا، بے اندازہ۔ مجھے وہ اچھا لگا تھا اور اس کا ہر انداز مجھے بھا گیا تھا۔ وہ دھیرے سے چپکے سے آ کر میرے دل میں سما گیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اسے اچھی ہی لگی ہوں تبھی تو اس نے مجھے فون کیا ہے۔ یاد کر کے میرے بتائے ہوئے نمبر پر، بتائے ہوئے وقت پر۔ میں من ہی من میں مسکرا دی تھی۔ روزانہ کی بور زندگی میں یکایک بہار سی آ گئی تھی۔

ابو کے مرنے کے بعد جیسے زندگی تھم سی گئی تھی۔ امی اپنے غم سے ہی نہیں نکل پائی تھیں۔ ابو کو اس طرح سے مرنا نہیں چاہیے تھا۔ وہ روزانہ کے معمول کے مطابق گھر سے نکلے تھے اور بس اسٹاپ سے تھوڑا سا آگے اپنے آفس کی بس کا انتظار کر رہے تھے کہ نہ جانے یکایک کہاں سے تین منی بسیں آپس میں ریس لگاتے ہوئے آئی تھیں اور چوراہے کے سرخ سگنل کو توڑتے ہوئے نکلی تھیں۔ اس منی بس سے بچنے کے لیے دوسری جانب سے آنے والی منی بس مڑی تھی اور بے قابو ہو کر فٹ پاتھ سے ٹکرا کر روڈ پر الٹ گئی تھی۔

اس الٹی ہوئی منی بس سے بچنے کے لیے پیچھے آنے والی منی بس نے میرے ابو کو کچل دیا تھا۔ وہ وہیں پر ہی مر گئے تھے۔ یہ واقعہ اتنی بار ہمارے سامنے دہرایا گیا تھا کہ مجھے اب بالکل ازبر ہو گیا تھا۔ زندگی جیسے ٹھہر گئی تھی۔ میرا ہاؤس جاب ابھی ختم ہی ہوا تھا۔ حامد نوکری تلاش کر رہا تھا۔ ابو کو میری شادی کی فکر تھی۔ امی نے تقریباً سب کچھ بنایا ہوا تھا۔ اور وہ دونوں ہی کسی مناسب رشتے کے انتظار میں تھے۔

ابو کے مرنے اور سوگ کے ابتدائی دنوں کے بعد زندگی معمول پر آ تو گئی تھی مگر لوگ بدل گئے تھے یا شاید بدلے نہیں تھے، ہم لوگوں کو ایسا محسوس ہوا تھا کیوں کہ اس سے پہلے تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔ شکر ہے کہ سر چھپانے کو اپنا گھر تھا اور ابو کی بچائی ہوئی رقم اتنی تھی کہ ہمیں ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ پھر میں بھی باضابطہ ڈاکٹر بن کر برسرروزگار تھی اور حامد سعودی عرب میں اچھی خاصی رقم کما رہا تھا۔

دانش اس خلا میں تازہ ہوا کی طرح سے آیا تھا۔ دوسرے دن میں اس کے فون کا انتظار کرتی رہی تھی مگر اس کا فون نہیں آیا تھا۔ میں گھبرا گئی، پریشان ہو گئی۔ نہ جانے کیا کیا خیالات امڈ امڈ کر آئے تھے۔ گھر آ کر بھی دل نہیں لگا تھا۔ تھوڑا سا کھانا کھا کر اپن کمرے میں جا کر لیٹ گئی تھی۔ ایک رسالہ پڑھنے کی کوشش کی تو دماغ سائیں سائیں کرنے لگا تھا۔ دل اتنا بے تاب ہوا کہ سر تکیے پر رکھ کر میں بے قرار ہو کر روئی تھی۔

”کہاں ہو دانش؟ فون کیوں نہیں کیا؟ جرمانہ تو لے لیتے۔“ میرے پاس تو اس کا کوئی پتا بھی نہیں تھا۔ پھر نہ جانے کس نے کہا تھا کہ تبسم کیسی بے وقوفی ہے۔ کیوں ایک سائے کے پیچھے بھاگ رہی ہو؟ کیوں ایک خواب سے دل لگا رہی ہو؟ بینک کی شناسائی، روڈ کی ایک ملاقات اور ایک فون۔ اس طرح سے تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ زندگی ایسے تھوڑی بیتتی ہے۔ میں سوچتی رہی، روتی رہی، الجھتی رہی اور بگڑتی رہی مگر وہ انگارہ آنکھیں اور سلگتے ہوئے ہونٹ بار بار میری نظروں کے سامنے رقص کرتے رہے۔ میرے تعاقب میں لگے رہے۔

شام کو میں نے بہناز کو فون کیا، ادھر ادھر کی باتیں کر کے دل بہلانے کی کوشش کرتی رہی مگر وہ سمجھ گئی۔ فون پر ہی اس نے کہا تھا کہ تبسم تم ٹھیک نہیں ہو۔ بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے ٹال دیا تھا۔

دوسرے دن دو بجے یکایک بہناز مجھے لینے آ گئی تھی اور زبردستی مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے گئی تھی۔ وہ لوگ پارسی کالونی کے ایک بڑے سے پرانے سے گھر میں رہتے تھے۔ وہاں سے میں نے امی کو فون کیا تھا کہ مجھے دیر ہو جائے گی۔

میں بہناز سے کچھ چھپا نہیں سکی بلکہ یہ اچھا ہی ہوا تھا۔ کیوں کہ اس طرح سے دل کا بوجھ اتر گیا تھا۔ وہ ہنس دی تھی۔ ”مگر یار تبسم، یہ تو بڑی بے وقوفی کی بات ہے۔ نہ جانے کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ مجھے تو کچھ الٹا سلٹا آدمی ہی لگتا ہے۔ ایسا نائی ہوتا ہے۔ آدمی لوگوں کا بھروسا نائی کرنا چاہیے۔ پھر تم اس کو تو جانتا بھی نہیں ہے۔ کیسا بات کرتا ہے۔“

اس نے اپنے طریقے سے صاف صاف الفاظ میں کہہ دیا۔ میں سمجھی تھی مگر سمجھ کر بھی نہیں سمجھی تھی یا شاید سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔ شام کو اس کے ڈرائیور نے مجھے میرے گھر چھوڑ دیا تھا۔

اگلے دن کام ختم کر کے اور فون کا انتظار کر کے میں کلینک سے باہر نکلی تھی اور روڈ کی طرف جا رہی تھی کہ برابر میں سرمئی رنگ کی وہ کار آ کر رک گئی تھی اور اسی بھری بھری آواز میں اس نے کہا تھا ”جرمانہ دینے کو تیار ہیں ڈاکٹر صاحب؟“ میں ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔ جیسے ایک بھونچال سا آ گیا ہو۔ اس سے پہلے میں کچھ کہتی۔ اس نے دروازہ کھول کر کہا، ”آئیں بیٹھیں، آپ تو جرمانہ دیں گے نہیں۔ چلیے میں ہی آپ کو چائے پلاتا ہوں۔“

میں مزید کچھ سوچے بغیر بے ساختہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ سبزی منڈی کے سامنے حسن اسکوائر سے پہلے وہ مجھے بزی بی ریسٹورنٹ میں لے گیا تھا۔

میں بزی بی ریسٹورنٹ میں پہلے کبھی نہیں آئی تھی مگر کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والی دوست لڑکیوں نے بتایا تھا کہ وہی ایک جگہ ہے جہاں محبت کرنے والے ملتے ہیں۔ آزادی کے ساتھ اور دوسروں کی توجہ کے بغیر۔

ہم دونوں وہاں دو گھنٹے تک بیٹھے رہے تھے۔ وہ خوب باتیں کرتا تھا۔ میں مسحور اس کو دیکھتی رہی۔ وہ میرے لیے ہی بنایا گیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ اسٹیٹ لائف میں افسر ہے اور میکلوڈ روڈ پر اس کا آفس ہے۔ اس نے اپنے آفس کا نمبر بھی بتایا تھا۔ اس نے لطیفے سنائے، چٹکے بوجھے تھے، کچھ میری سنی نہیں اور نہ جانے کہاں کہاں کی، کون کون سی باتیں کرتا رہا تھا۔

اس نے ہی مجھے میرے گھر کے اسٹاپ تک چھوڑا تھا۔ مجھے دیر ہو جانے سے پریشان ہو کر امی بہناز کو فون کر چکی تھیں۔ میں نے بہانہ بنا کر امی کو مطمئن کر دیا تھا۔

تھوڑی دیر بعد بہناز کا فون آیا۔ میں نے اسے بتایا کہ دانش سے میری ملاقات ہوئی تھی اور ہم نے ساتھ ہی بزی بی میں چائے پی تھی۔ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ جوش اور جذبے کے ساتھ۔ ایک ایک بات۔ ”بہناز وہ بہت اچھا ہے اور میں بری طرح سے اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہوں۔“

بہناز نے میری حوصلہ افزائی نہیں کی تھی بلکہ مجھے ڈرایا تھا۔ مجھے بتایا تھا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہو۔ اس کے خاندان کے بارے میں، اس کے کام کے بارے میں۔ صرف گاڑی رکھنے سے انسان امیر نہیں ہو جاتا ہے۔ تبسم، ہوشیار رہنا، زمانہ بہت خراب ہے۔ میں ہنس دی تھی۔ ”زمانہ خراب ہو گا مگر دانش خراب نہیں ہو سکتا۔“

دوسرے دن پھر اس کا فون آیا تھا۔ وہی شوخ آواز، بھری بھری، پراسرار۔ ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے تھے۔ میں نے کہا تھا کہ میں اب جرمانہ دوں گی، جہاں بھی وہ کہے گا۔

ہماری اگلی طویل ملاقات پیکنگ ریسٹورنٹ میں ہوئی تھی۔ بہادر آباد کا یہ چائنیز ریسٹورنٹ اچھی جگہ ہے۔ دوپہر کے کھانے کے ساتھ ساتھ ہم لوگ دنیا جہان کی باتیں بھی کرتے رہے تھے۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کی ماں ہے، جو گھر پر رہتی ہے اور ایک بھائی ہے جو آج کل لاہور میں ہے۔ دو بہنوں کی شادی ہو چکی ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کی ماں آج کل زبردست طریقے سے اس کے لیے رشتے کی تلاش میں ہے اور جیسے ہی کوئی لڑکی ملے گی ویسے ہی اس کی شادی ہو جائے گی۔ پھر اس نے میری آنکھوں میں اپنی انگارے جیسی آنکھیں ڈال کر کہا کہ اب لڑکی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

میں وہ احساسات بیان نہیں کر سکتی ہوں، وہ جذبات سامنے نہیں لا سکتی ہوں۔ خوشی کا ایک احساس، ایک ہلکے پن کا تصور۔ ایک ایسا حسین خواب جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

اس نے میرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے دبایا تھا۔

اسی شام کو میں نے بہناز کو بتایا تھا۔ وہ خوش تو ہوئی مگر اس نے کہا کہ تبسم تم لوگوں میں ایسا تو نہیں ہوتا ہے۔ ناں۔ اس کو کہو کہ اپنی ماں کو تمہارے گھر بھیجے اور یہ ہوٹلوں کا چکر چھوڑ دو۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ یا تو اس سے اپنی کلینک میں میں ملو اور بہت ضروری ہے تو میرے گھر بلا لو۔

میں بہناز کی باتوں پر ہنسی تھی۔ پارسی لوگ تو خواہ مخواہ ہی شک کرتے ہیں۔ بہناز نے کبھی کسی کو چاہا تھوڑی تھا۔ اسے کیا پتا کہ محبت کیا ہوتی ہے، پیار کیا ہوتا ہے، کسی پر انحصار کرنا کس کو کہتے ہیں اور اعتبار کس چڑیا کا نام ہے؟ پہلی دفعہ مجھے بہناز کی باتیں بری بھی لگی تھیں۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے اس کو خواہ مخواہ کی جلن ہو رہی ہے میری خوشی پر۔ اس کے پاس تو تمام تر دولت ہونے کے باوجود ابھی تک اس کے لیے کوئی نہیں آیا تھا اور اب میری محبت پر اسے جلن ہو رہی ہے، شاید مجھے بھی ہوتی مگر میں نے سوچا کہ میں دانش سے کہوں گی کہ اپنے گھر والوں کو میرے گھر بھیجے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4