انگارہ آنکھیں سلگتے ہونٹ اور معصوم لڑکی


یہ شادی تو میرے گھر والوں کی مرضی کی شادی تھی۔ میری بیوی جاہل اور گنوار ہے۔ اسے کچھ پتا نہیں ہے کہ شوہر کیا ہوتا ہے۔ اس کی خوشی کیا ہوتی ہے۔ میں تو اس کے ساتھ صرف زندگی گزار رہا ہوں۔ وقت بتا رہا ہوں۔ محبت نہیں کر سکا ہوں۔ وہ محبت کے قابل نہیں ہے۔ محبت تو میں نے تم سے کی ہے، صرف تم سے۔ تم نے بھی مجھے چاہا، میرا خیال کیا ہے اور یہ وہ جذبہ ہے جسے لیے میں ادھر سے ادھر گھوم رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے جیب سے میرے دیے ہوئے کف لنک کا ڈبہ نکالا تھا۔

یہ تمہارا تحفہ ہے جو میں نے اپنی جان سے لگا کر رکھا ہے۔ تم اگر نہیں ملو گی نہ ملو مگر اسے میں ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا اور اس کے ساتھ تم ہو گی۔ میرے پاس، میرے ساتھ ساتھ، ہر وقت ہر لمحہ۔ میری بیوی میرا نصیب ہے میں چاہتا تم کو ہوں۔ میرا مقدر کچھ اور تھا مگر میری منزل تم ہو، یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کے کونوں سے آنسو رس رہے تھے۔ میری نظروں کے سامنے وہ تمام چھوٹے چھوٹے تحفے آ گئے، کف لنک، ٹائی کلپ، پارکر قلم، رومال اور نہ جانے کیا کیا، کس چاؤ سے میں نے خریدے تھے اور دانش کی دی ہوئی چیزیں تحائف ایک عورت کے لیے تھے کسی بھی عورت کے لیے میرے لیے یا اس کی بیوی کے لیے۔ میں نے محبت کی تھی، اس نے دھوکا دیا تھا۔ میں نے اعتماد کیا تھا اس نے جھوٹ بولا تھا۔ میں نے پیار کیا تھا اس نے چکر چلایا تھا۔ میں اس کی صورت، شخصیت، انداز پر مر مٹی تھی۔ میں نے کیا سوچا تھا یہ کیا ہو گیا۔

میرے آنسو نکل گئے تھے۔ ”مگر دانش، میں تم سے الگ نہیں ہونا چاہتی ہوں۔ تم کو مجھے پہلے بتا دینا چاہیے تھا۔“ میں نے روتے ہوئے کہا تھا۔

”پھر تم مجھے چھوڑ دیتیں۔ کبھی نہیں ملتیں، پھر میں کیا کرتا؟ میں تو ایک آسرے کے ساتھ تمہارے پاس آتا رہا تھا۔ امید تھی کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔“ اس نے تقریباً روتے ہوئے کہا تھا۔

مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ دانش! تم شادی شدہ ہو، تمہارے بچے ہیں۔ میں نے پوچھا تھا۔ اس نے ٹشو پیپر سے میرے آنسو پوچھے تھے۔ میری بانہوں کو آہستہ سے پکڑا تھا۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ ”تبسم مرد تو دو شادیاں کر سکتے ہیں ناں۔ قانون، مذہب، شریعت تو اجازت دیتا ہے اس بات کی۔ بولو! مجھ سے شادی کرو گی؟ ابھی، اسی وقت، فوراً میں تمہیں پہلی بیوی بنا کر رکھوں گا کیوں کہ تم صرف بیوی نہیں ہو گی محبوبہ بھی ہو گی جس سے پیار کیا جاتا ہے اور سلمیٰ صرف بیوی ہو گی۔ دوسری بیوی جس سے قسمت اور خاندان نے میری شادی کر دی تھی۔ میں نے تمہارے لیے مکان بھی لے لیا ہے۔ ہم دونوں کا مکان جہاں ہم دونوں رہیں گے۔ اپنی خوشی سے اور اپنی مرضی سے۔“

مجھے اس کی آنکھوں میں پیار ابلتا ہوا نظر آیا، مجھے لگا تھا جیسے وہ سب کچھ سچ بول رہا ہے۔ میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکی۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ ”مجھے گھر چھوڑ دو۔“

محبت بھی کیا عجب چیز ہوتی ہے، جب سے دنیا بنی ہے جب سے انسان بنے ہیں اور جب سے انسان نے انسان کو چاہا ہے، یہ جذبہ موجود ہے۔ اربوں، کھربوں سال سے انسان کو اندھا کر دینے والا یہ جذبہ نہ جانے کیا کچھ کرا دیتا ہے۔ مجھے ابھی بھی دانش اچھا لگا تھا۔ وقت کا ستایا ہوا جسے کوئی اچھی عورت نہیں ملی تھی۔ اسے کسی اچھی عورت کی ضرورت تھی جو اس کی دوست ہو، اس کو سمجھے، جو اس کی شریک ہو، جس کے کاندھوں پر سر رکھ کر وہ رو سکے، اس کی سن سکے اپنی کہہ سکے۔ میں نے سوچا تھا کہ زمانے نے بڑا ظلم کیا ہے اس کے ساتھ۔

شادی شدہ آدمی کے ساتھ شادی، میری امی نے مکمل طور پر اپنی نارضامندی کا اظہار کیا تھا۔ انہیں یقین تک نہیں آیا تھا کہ دانش ایسا کر سکتا ہے۔ مگر میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں دانش سے ہی شادی کروں گی۔ میں نے اسے فون نہیں کیا تھا۔ مگر اس دن وہ خود ہی کلینک میں مجھے لینے آ گیا تھا۔ گاڑی میں مجھے ناظم آباد میں میرے گھر سے بھی آگے لے کر آ گیا تھا اور ایک مین روڈ پر واقع مکان کے آگے گاڑی روک دی تھی۔

”یہ مکان تمہارے لیے لیا ہے میں نے۔ فی الحال کرائے کا ہے اور بعد میں ہم اسے خرید لیں گے۔“ مگر یہ تو دو منزلہ ہے دانش۔ ”میں نے کہا تھا۔

”ہاں اتر کر دیکھو۔“ اس نے اترتے ہوئے کہا تھا۔ ”اوپر ہم دونوں رہیں گے اور نیچے تمہارا کلینک ہو گا اور میٹرنٹی ہوم۔ آج کل میٹرنٹی ہوم میں خوب آمدنی ہوتی ہے۔“

مکان اچھا تھا۔ علاقہ بھی اچھا تھا، میں سوچ رہی تھی اور پریشان ہو رہی تھی۔ ایک ایسے آدمی کے ساتھ جسے میں نے ٹوٹ کر چاہا تھا، جو شادی شدہ تھا اور تین بچوں کا باپ۔ کیسے ہو گا، یہ سب کچھ کیسے ہو گا؟

دانش نے مجھے گھر چھوڑ دیا۔ میری ماں نے مجھے سمجھایا تھا کہ شادی شدہ آدمی سے شادی کی بے وقوفی نہ کروں۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں حاملہ تھی اور دانش تھا جو شادی شدہ تھا اور مجھے حد سے زیادہ پیارا بھی تھا۔ اس نے مکان بھی لیا تھا جہاں ہم دونوں کو رہنا تھا اور میٹرنٹی ہوم چلانا تھا۔

دوسرے دن میں کلینک نہیں گئی۔ فون کر دیا تھا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ میں بہناز کے گھر چلی گئی تھی۔ وہی میری دوست تھی جس پر مجھے اعتبار تھا۔ مجھے غصہ بھی تھا اور ساتھ میں مگر اعتماد بھی تھا۔

ساری باتیں سن کر وہ بہت ناراض ہوئی تھی۔ ”تبسم تیرا دماغ خراب ہے۔ وہ جھوٹا ہے جھوٹا۔ اس نے تجھے پھنسایا ہے اور اب راستے بند کر دیے ہیں۔ تیرے پاس اپنی عزت بچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ تو اس سے شادی کرے اور شادی کے بعد تجھے اس مکان میں میٹرنٹی ہوم چلانا ہو گا۔ روپے کمانے ہوں گے اس مکار کے لیے، کرائے کے لیے، تیرے شوہر کے لیے اور یہی تیری زندگی ہو گی۔ تیرے اسلام میں مردوں کی چار شادی ہو گی مگر تیرے اسلام میں بغیر شادی کے بچہ تو نہیں ہے ناں۔

کدھر چلا گیا تھا دانش کا اسلام؟ تجھے جب اس گھر میں لے گیا تھا، جہاں وہ سب کچھ کر بیٹھا تھا۔ وہ دھوکا دے رہا ہے تجھے۔ دیکھ میرا کچھ بھی نہیں ہے مگر تو میری دوست ہے۔ مت کر تو شادی اس سے۔ منع کر دے اور نہ مل اس کو۔ بھرا ہوا ہے کراچی ایسے لوگوں سے۔ اس نے کالج کی کئی لڑکیوں کے نام گنوا دیے تھے جو زندگی عذاب میں گزار رہی ہیں۔ جن کی شادیاں ایسے لوگوں سے ہو گئی ہیں جنہوں نے انہیں روپے بنانے کی مشین بنا دیا ہے۔ وہی محبت کا جھانسا، پھر ماں باپ کی مرضی کے خلاف شادی اور پھر دن رات کا کام۔ میں بیٹھی رہی، روتی رہی، سوچتی رہی، فیصلے کی طاقت سے محروم۔

پھر بہناز نے مجھ سے دانش کے گھر کا نمبر لیا اور میرے سامنے ہی فون کیا تھا۔ دوسری جانب سے کسی بوڑھی خاتون نے فون اٹھایا تھا جو دانش کی ماں تھی۔ بہناز نے پوچھا کہ دانش کی بیوی کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ تو اسکول میں پڑھاتی ہے اور کام پر گئی ہوئی ہے۔ باتوں باتوں میں بہناز نے ان سے یہ بھی پتا کر لیا کہ دانش نے یہ شادی بھی اپنی مرضی سے کی تھی اور اس کی ماں گھر میں رہتی ہے۔

بہناز نے کہا تھا کتنے جھوٹوں کا مقابلہ کرو گی تبسم۔ میرے لیے مشکل فیصلہ مشکل ہی رہا تھا مگر میں نے فیصلہ کر لیا تھا۔

بارہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔ بہناز مجھے لے گئی جہاں خاموشی سے میرا حمل ضائع کیا گیا تھا۔ کوکھ کا یہ درد گزرے ہوئے تمام درد سے شدید تھا۔ جس کے بعد بہت دنوں تک میں غموں کا بوجھ لیے نڈھال گھومتی رہی تھی۔ بے کس، بے بس، پریشان اور اب تمام زندگی کوکھ کا یہ قرض جو میں کبھی بھی نہیں چکا سکوں گی۔

دانش کو میں نے کہہ دیا تھا مجھ سے کبھی بھی ملنے کی کوشش نہ کرے۔ میرا اعتبار مردوں سے اٹھ گیا ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اور خاص طور پر ان مردوں سے جن کی انگارہ آنکھیں ہوتی ہیں اور سلگتے ہوئے ہونٹ۔ اس نفرت کے باوجود وہ مجھے یاد آ جاتا ہے اور اب بھی راتوں میں تکیے پر سر رکھ کر میں بے اختیار بے وجہ بے قرار ہو کر روتی رہتی ہوں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4