انگارہ آنکھیں سلگتے ہونٹ اور معصوم لڑکی


اس دن ہم لوگ گلشن میں عثمانیہ ریسٹورنٹ میں بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا کر چائے پی رہے تھے، میں نے اسے بھرپور نظروں سے اپنے من میں سماتے ہوئے کہا۔ ”دانش تم نے اپنی امی سے بات کی۔ اب اس طرح سے ملتے رہنے سے اچھا ہے کہ ہم لوگ شادی کر کے اکٹھے رہیں۔ اب مجھ سے اکیلا نہیں رہا جاتا۔ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ ہر وقت ہر سمے۔ تمہارا خیال کرنا چاہتی ہوں، تمہاری زندگی میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔“

وہ مسکرایا تھا، وہی قاتل مسکراہٹ جو بھرے بھرے ہونٹوں سے نکلتی تھی اور سفید سفید چمکدار دانت ایسے لگتے تھے جیسے کہیں پر بجلی گر رہی ہو۔ ایسے ہی موقعوں پر مجھے اس پر بے تحاشا پیار سا آتا تھا۔ میرا دل کرتا تھا کہ بڑھ کر اس کا منہ چوم چوم لوں۔ میں اسے مسحور دیکھ ہی رہی تھی کہ اس نے کہا۔ ”تبسم بڑا مسئلہ ہے۔ تم لوگوں کا خاندان دہلی کا ہے اور ہم لوگوں کا خاندان الٰہ آباد سے پاکستان آیا ہے۔ ہمارے خاندان میں شادی صرف برادری میں ہوتی ہے۔ میں نے اپنی امی سے بات کی تھی مگر وہ کہتی ہیں کہ جان دے دوں گی مگر تیری شادی برادری سے باہر نہیں ہونے دوں گی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کروں؟“

مجھے ایسا لگا کہ جیسے اس کی مسکراہٹ بجلی بن کر مجھ پر گری ہے۔ ایسا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے تو اپنی امی سے تمہارا ذکر بھی کیا ہے اور انہیں تھوڑا اعتراض سا تھا کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ میں ڈاکٹر ہونے کے ناتے کسی ڈاکٹر سے ہی شادی کروں مگر پھر انہوں نے کہا تھا کہ اگر تمہاری مرضی یہی ہے تو میں راضی ہوں۔ میں تو صرف تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔ لیکن اب ایک نیا مسئلہ آ کھڑا ہوا تھا۔ زندگی یکایک ایک دم سے کٹھن ہو گئی تھی۔ جیسے ڈھلان پر جاتے ہوئے یکایک کوئی چڑھائی آ گئی ہو۔

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں؟ میں نے پوچھا تھا کہ ”اب کیا ہوگا دانش؟“

وہ پھر مسکرایا تھا۔ ”میں کوشش کرتا ہوں۔“ اس نے کہا تھا۔ ”دوبارہ امی سے بات کرتا ہوں۔ راضی کرتا ہوں ان کو، ورنہ مجھ میں ہمت ہے کہ دنیا سے بغاوت کر لوں۔“ وہ زور سے ہنسا تھا۔

بہت دنوں کے بعد میں نے بہناز کو فون کیا تھا۔ اس نے ساری کہانی سنی پھر کہا تھا۔ ”نہیں تبسم یہ صحیح نہیں ہے اس کے گھر والوں کو تمہارے گھر آنا ہو گا۔ پاکستان میں اس طرح سے نہیں ہوتا ہے۔ مجھے نہ جانے کیوں شک سا ہوتا ہے اس آدمی پر۔“

میں نے بہناز سے کہا کہ دانش کو اس سے ملانے لاؤں گی۔ بہناز نے ہم دونوں کو کھانے پر بلا لیا۔ بہناز کے گھر پر ہم لوگوں نے ساتھ کھانا کھایا تھا اور خوب ساری باتیں کی تھیں۔ دانش نے کہا تھا کہ اس کی ماں نہیں مان رہی اور اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم لوگ شادی کر لیں اور کہیں اور رہیں اپنی ماں سے دور۔

بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ہوئے ہم لوگ وہاں سے اٹھ گئے۔ دانش نے ہی مجھے گھر چھوڑا تھا۔ دانش میری ماں سے مل چکا تھا اور میری ماں اس پر بلا کا اعتبار کرنے لگی تھی۔ ان کے خیال میں دانش میرے لیے بہت ہی اچھا ثابت ہوا تھا۔

دوسرے دن بہناز میرے کلینک آ کر مجھے اپنے گھر لے گئی۔ اس کا شک اور بڑھ گیا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ جس طرح سے اس نے اپنی ماں کے بارے میں بات کی تھی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایماندار آدمی نہیں ہے۔ اس نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ نہ کرنا جس میں دانش کے گھر والے شامل نہ ہوں۔

میں پریشان تھی۔ مجھے بہناز کی بات بالکل بھی اچھی نہیں لگی تھی۔ میری نظر میں دانش قربانی دے رہا تھا۔ اپنی ماں کو چھوڑ رہا تھا اور پھر میرا خیال تھا کہ ایک دفعہ شادی ہو جائے گی تو پھر سب کچھ صحیح ہو جائے گا۔

وہ رات میں نے سوچ سوچ کر اور جاگ جاگ کر گزاری تھی۔ دانش میرے ہوش و حواس پر آسیب کی طرح سے چھا گیا تھا۔ اس نے مجھے فتح کر لیا تھا اور اب میں اس کی باندی بننے کو تیار تھی۔ میں خود کوئی بدصورت لڑکی نہیں تھی۔ کالج میں اور ہاؤس جاب کے دوران بہت لوگوں نے مجھے پسند کیا تھا، چاہا تھا مگر میں نے کبھی بھی کسی میں کسی بھی قسم کی کشش محسوس نہیں کی تھی، مگر دانش نے مجھے بالکل دیوانہ بنا دیا تھا۔ میں اس کے ساتھ بہت اچھا محسوس کرتی تھی۔

وہ بڑے اچھے معیار کے کپڑے پہنتا تھا۔ صاف ستھرے استری کیے ہوئے۔ موزوں سے لے کر قمیض اور رومال تک ہر چیز میچ ہوتی تھی۔ ہر طرح سے مکمل اور اس کا خوب صورت چہرہ، اس کی خوب صورت باتیں، اس کا خوب صورت انداز اور اب اس کی قربانی، مجھے اپنی قسمت پر ناز سا محسوس ہوا۔ اس دن بھی وہ مجھے کلینک لینے آ گیا تھا۔ ہم لوگوں نے عثمانیہ میں کھانا کھایا۔ پھر وہ مجھے یونیورسٹی روڈ پر اپنے ایک دوست کے گھر چائے پلانے لے گیا تھا۔

وہاں کوئی بھی نہیں تھا، گیٹ کی چابی اس کے پاس تھی۔ اس نے خود ہی چائے بنائی تھی اور ہم لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے خوب باتیں کرتے رہے تھے۔ وقت گزرتے گزرتے حد سے گزر گیا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم دونوں وہ سب کچھ کر گزرے تھے جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس میں دانش کا قصور، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا کہ وہ مجھے ایک اکیلے گھر میں لے آیا تھا۔ کچھ قصور میرا بھی تھا۔ میں خود بھی تو اسے چاہتی تھی۔ میری سپردگی میں میری اپنی مرضی بھی شامل تھی۔

”دانش ہم دونوں کو اب شادی کرنی ہو گی۔ تم اب تاریخ بتاؤ میں حامد کو بلاتی ہوں۔ پھر تم ہمارے گھر میں ہی رہنا، کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ کچھ سوچتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا تھا۔

پھر یکایک ہی مجھے پتا چلا کہ دانش شادی شدہ ہے، اس کے تین بچے ہیں، اس کی بیوی ہے۔ میں نے اس کے آفس فون کیا تھا جہاں سے کسی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ آفس آنے کے فوراً بعد واپس گھر چلا گیا ہے کیوں کہ اس کے بچے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ مجھے یقین نہیں آیا تھا کہ میں اپنے کانوں سے کیا سن رہی ہوں۔ میں نے دوبارہ پوچھا تھا اور دوبارہ سے مجھے یہی جواب ملا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اتنا بڑا جھوٹ۔ دانش ایسا نہیں کر سکتا۔ میں سوچ سوچ کر پاگل سی ہو گئی تھی۔

اس نے آج تک مجھے گھر کا فون نمبر نہیں دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس کے گھر پر فون نہیں ہے۔ میں نے دوبارہ اس کے آفس فون کر کے اس کے گھر کا نمبر پتا کیا تھا۔ نمبر سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ میں کلینک سے بار بار فون کرتی رہی تھی اور دل ہی دل میں روتی رہی تھی۔ گھر آ کر بھی مسلسل فون کرتی رہی مگر کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ میری امی نے کئی بار مجھ سے پوچھا میں کیوں پریشان ہوں مگر میں نہیں بھی کچھ نہیں کہہ سکی تھی۔ دل میں آیا کہ بہناز سے باتیں کروں مگر ہمت نہیں ہو سکی۔

مغرب کے بعد اس کا فون لگ گیا۔ وہی بھری بھری آواز، وہ میری آواز سن کر سکتے میں آ گیا۔ میں چیخی، کیوں جھوٹ بولا تھا تم نے مجھ سے؟ وہ خاموش رہا تھا۔ جھوٹے، بدمعاش، بے غیرت انسان۔ کس جرم کی سزا دی تھی تم نے۔ میں نے تو محبت کی تھی، صرف چاہا تھا تمہیں۔ وہ کچھ نہیں بولا تھا۔ بولو بولتے کیوں نہیں ہو؟

”تمہارا غصہ ختم ہوگا تو بولوں گا۔ تم خاموش ہوگی تو کچھ کہوں گا۔“ اس نے اپنے اسی انداز میں کہا تھا۔

میں کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اس کی آواز آئی۔ ”میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا کہ مسئلہ کیا ہے۔ کل میرا انتظار کرنا۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا تھا۔

یقین و اعتبار کا جو محل آہستہ آہستہ سے میں نے بنایا تھا وہ چکنا چور ہو کر میرے سامنے بکھر گیا۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ جیسے کرچیاں میرے جسم سے لپٹ گئی ہیں۔ درد ہی درد۔ جسم سے روح تک اوپر سے اندر تک۔ زخم زخم۔ لہولہان۔

اس کے ساتھ گزرے ہوئے تمام لمحے خوف ناک پرچھائیوں کی طرح امڈ آئے تھے اور سانپ کی طرح مجھے ڈس رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ناپاک ہو گئی ہوں۔ میرے جسم کا پور پور گندگی کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ میں نہائی تھی۔ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ۔ نماز پڑھی۔ اپنے گناہ کی خدا سے معافی مانگی تھی اور دعا کی تھی کہ یا اللہ! مجھے حاملہ مت کر دینا، میں یہ بوجھ کس طرح سے لے کر گھوموں گی۔ کیسے دنیا کا سامنا کروں گی۔ امی سے کیا کہوں گی۔ بہناز کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ ساری رات جاگ کر گزاری تھی۔ روتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے۔

وہ مجھے کلینک لینے آ گیا تھا۔ سنجیدہ صورت کے ساتھ وہی چہرہ، وہی انداز۔ وہ مجھے پھر بھی اچھا ہی لگا تھا۔ میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گی۔ ڈرائیو کرتا کرتا وہ ہل پارک آ گیا تھا۔ ایک کونے میں گاڑی پارک کر کے اس نے سینڈوچ اور چائے کا آرڈر دیا۔ پھر اس نے کہا تھا، ”تبسم جس وقت میں نے تمہیں دیکھا تھا، میں تمہارا دیوانہ ہو گیا تھا۔ تمہیں پانے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ میں تم سے سچ بول ہی نہیں سکتا تھا۔ ہاں شادی شدہ ہوں، میرے بچے ہیں، میری بیوی ہے، میری ماں نہیں ہے لیکن میں خوش نہیں ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4