تھیٹر، اسٹیج، ریڈیو اور فلم کے اداکار مسعود اختر


اتنے میں باوردی پولیس کے سپاہی آئے اور مجھے اور مجھے اٹھا لانے والوں کو جیپ میں ڈالا اور اسٹیشن سے لے گئے۔ ان میں ایک تھانے دار، ایک حوالدار اور دو تین سپاہی تھے۔ مجھے خیال آنے لگا کہ ہال میں ڈرامے سے پہلے پولیس افسر نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم آپ لوگوں کی حفاظت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب نا معلوم افراد کے ہمراہ پولیس والے جیپ میں لے آئے ہیں۔ کہیں یہ سب ملے ہوئے تو نہیں! اسی دوران مزید پولیس بھی آ گئی۔

مجھ سے پہلا سوال یہ کیا گیا کہ ان لوگوں نے آپ کو کچھ کہا تو نہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ البتہ مجھ سے چائے اور کھانے کا پوچھا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا۔ پھر جو افراد مجھے ڈرامہ کے بعد لے کر ریلوے اسٹیشن لے گئے تھے ان سے پوچھا کہ اس کو کیوں پکڑ کر اسٹیشن کے کمرہ قیام و طعام میں لائے تھے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ڈرامے میں اس کا کردار ہمیں اچھا لگا اور ہم اس کے ساتھ چائے پینا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے پھر میرے ساتھ چائے پی۔ ہماری ٹیم نے تین دن کے لئے ایک اسکول میں پڑاؤ کیا ہوا تھا۔ ڈرامہ تو رات میں ہی ہوتا تھا۔ وہاں ایک کہرام مچ گیا کہ مسعود اختر کو نا معلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں۔ میرے لئے دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔ اس پس منظر میں، میں اپنی ٹیم کے پاس پولیس کی گاڑی میں پہنچا۔ میرا رنگ زرد ہو رہا تھا  ”۔

” کیا ایسی خطرناک صورت حال کسی اور ڈرامے کے دوران بھی پیش آئی؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میں نے اس شو بزنس میں گراری والے چاقو اور کاربین بھی دیکھی ہے! میرا اپنا شعر ہے :  ’ہم امیدوں کے چراغ جلاتے رہتے ہیں، مشکلیں کٹھن سہی ہم مسکراتے رہتے ہیں‘  ۔ میں نیا نیا اسٹیج ڈرامے کی دنیا میں آیا تھا۔ ایک ڈرامے میں ایک لڑکی ہیروئن کا کردار ادا کر رہی تھی۔ ضیغم صاحب مرحوم کا ڈرامہ تھا۔ مجھے واش روم جانے کی ضرورت پیش آئی۔ ابھی میں برامدے ہی میں تھا کہ ایک اجنبی نے مجھے گالی دی اور گراری والا چاقو نکالا۔

گررررر گرررر۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو ہوش و حواس جاتے رہے اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ ادھر میں بے ہوش ہوا ادھر بجلی چلی گئی۔ اندھیرا گھپ۔ لوگ دیا سلائی جلا جلا کر دیکھ رہے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد بجلی آئی۔ میں فرش پر بیٹھا ہوا تھا۔ ساری ٹیم مجھے ڈھونڈتے ہوئے آ گئی۔ مجھے اندر لے جایا گیا۔ دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔ کسی نے کہا پانی پلاؤ کوئی دودھ کا کہہ رہا تھا۔ سب ہی کچھ پلایا گیا تب کہیں حواس ٹھکانے آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ کیا ہوا تھا۔ ڈرامے میں جس ہیروئن کا ہاتھ پکڑ کر میں مکالمے بول رہا تھا اس نے کہا کہ اچھا یہ ہوا تھا! میرے پاس آ کر میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ اب وہ ہال میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکے گا۔ اس پر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اب چاقو نہیں ہے بلکہ گولی ہے!  ”۔

” آپ میرا حشر دیکھ رہے ہیں! یہ سب فلموں کی عکس بندی کی یادگاریں ہیں! ایک فلم کی عکسبندی میں میرا کولہا اتر گیا۔ پھر کسی فلم کی شوٹنگ میں میری ٹانگ کو حادثہ پیش آیا اب وہ لمبائی میں ایک انچ کم ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے واسطے میں علیحدہ سے ایک ایڑی لگاتا ہوں۔ ایک سیریل غالباً  ’لیلیٰ مجنوں‘  تھی اس میں میرے ہاتھ کی انگلی ٹوٹ گئی۔ اس سین میں میرے ساتھ نغمہ بیگم بھی تھیں۔ سین میں پولیس کی وین کی ضرورت تھی جو اصل پولیس والوں کی منگوا لی گئی۔

ڈرائیور نے پوچھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اسے کہا کہ ایک ملزم کو پکڑنا ہے۔ پولیس وین میں دو اصلی سپاہی بھی تھے۔ ملزم نعمان اعجاز پولیس وین میں جا رہا ہے اور میں اور نغمہ بیگم نے پولیس وین پکڑ کر رونا تھا کیوں کہ فلم میں ملزم ہمارا بیٹا ہوتا ہے۔ پولیس والوں نے نعمان اعجاز کو ایک منٹ میں پکڑ کر وین کے اندر پھینکا۔ رد عمل میں ہم دونوں نے واویلا کرنا تھا۔ میں نے سین کے حساب سے ہاتھوں سے وین پکڑی ہی تھی کہ ڈرائیور نے جھٹکے کے ساتھ وین چلا دی۔ ہم دونوں دھڑام زمین پر۔ میری انگلی ٹوٹ گئی اور نغمہ بیگم کے گھٹنے چھل گئے۔ یہ پروڈکشن والوں کا قصور تھا  ”۔

” جناب! شو بزنس تو وہ کام ہے کہ جنازے گھروں میں پڑے ہیں۔ لیکن نہیں۔ ہمارا دیکھنے والوں سے ایک عہد ہے کہ ہم نے تو وہ شو کرنے لازما آنا ہی ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے ڈرامہ ختم کیا پھر جنازے میں گئے۔ یہ قربانیاں ہیں! ہماری یہی تو دعا ہے کہ یا اللہ تو ہماری ان قربانیوں کی وجہ سے ہمیں معاف کر دینا۔  ’اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے، تو میرے جسم میری روح کو اچھا کر دے، میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو، جو تیرا حکم ہو وہ میرا ارادہ کر دے‘  ۔ میں نے اپنی حالت آپ بنا رکھی ہے۔ اب تو جیسا چاہتا ہے مجھے ویسا کر دے۔ آپ نے ویسا بھی دیکھا تھا اب ایسا بھی دیکھ لیں!“ ۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے مسعود بھائی نے بتایا :  ”ریڈیو میں سب ایک سے بڑھ کر ایک اچھے لوگ تھے۔ ان میں عطا الرحمن صاحب تھے۔ اللہ انہیں جواہر رحمت میں جگہ دے۔ بڑے اچھے آدمی تھے۔ یہ ڈرامہ ریکارڈنگ سے پہلے اسکرپٹ میں ہمارے  ’زیر‘   ’زبر‘  درست کرواتے تھے۔ پھر یہ بھی بتاتے کہ کہاں وقفہ / توقف کرنا ہے اور کس لفظ پر زور دینا ہے۔ پھر کہتے کہ بازار میں اردو کی لغت ملتی ہے وہ کیوں نہیں لے آتے؟ آٹھ آنے میں دیتا ہوں چار چار آنے تم لوگ ڈال لو۔

وہ پندرہ روپے کی مل جائے گی۔ تو جناب ہم نے چندہ برائے لغت کی مدد سے یہ کر دکھایا۔ اب جھگڑا یہ پڑ گیا کہ پہلے کون زیر زبر کرے گا۔ یہاں الحمرا میں نعیم طاہر صاحب سیکریٹری تھے۔ ہم اپنا مسئلہ ان کے پاس لے گئے۔ انہوں نے ہمارے جذبات کو سمجھا اور دیکھا کہ یہ لڑکے لڑائی بہت اچھی کر رہے ہیں۔ اس وقت الحمرا میں ڈرامہ رات نو بجے ختم ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ لغت نو بجے کے بعد میری میز پر ہو گی۔ چوکیدار سے کہا کہ یہ لوگ رات جب بھی آئیں میرا دفتر کھول دینا پھر جب یہ لکھ پڑھ کر جائیں تب کمرہ بند کرنا  ”۔

” میں نے ریڈیو سے بہت کچھ سیکھا! مثلاً جملہ ہے روکو مت جانے دو۔ میں نے مت کے بعد توقف کیا تو اس کا مطلب ہو گیا کہ روکو مت! اب اگر میں روکو کے بعد توقف کروں تو وہ یوں ہو گا: روکو، مت جانے دو! ایسی ان گنت چیزیں ہم نے ریڈیو میں عطا الرحمن سے سیکھیں“ ۔

” پھر جب ہمارا وہ پورا گروپ ٹیلی وژن پر گیا تو ہمارے ڈائریکٹر پروڈیوسر دو سے تین دفعہ بتاتے تھے کہ ایسے بولنا ہے۔ پھر جب سیٹ پر کوئی اداکار بھول جاتا تھا تو اس کے ساتھ سامنے والے کو بھی جھاڑ پڑتی کہ وہ تو بھولا ہی تھا تم نے اس کی غلطی کو سنبھالا کیوں نہیں! پھر شعور آنے لگا کہ یہ تو ہماری اصلاح کر رہے ہیں لیکن دیکھنے والوں کے پاس تو وہی کچھ جائے گا جو ہم انہیں دکھائیں گے۔ لہٰذا پھر ہم نے محنت اور غلطیوں کی نشاندہی پر شکریہ کہنا شروع کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments