تھیٹر، اسٹیج، ریڈیو اور فلم کے اداکار مسعود اختر


” پھر عجیب معاملے ہونے لگے۔ مجھے پتا نہیں ہوتا تھا کہ میں کب آیا اور وہاں سے کب گیا۔ ایسے بزرگ سے ملنے کا میرا پہلا تجربہ تھا۔ میرے والد اور والدہ دین کے پیرو تھے۔ میرے والد صاحب کے پاس بھی سفید اور کالا موتیا نکالنے کا کوئی روحانی نسخہ تھا۔ پھر ان بزرگ نے کہا کہ سردی ہو گرمی ہو یہاں قمیص کے بغیر آنا۔ ایک دن مجھ سے کہا کہ میں تم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج رہا ہوں۔ تا کہ تمہارے بچے یہ نہ کہیں کہ تمہارے مرشد نے ہم سے شفقت پدری چھین لی تھی۔ جاؤ ان کی کفالت کرو“ ۔

”ہم تو گاؤں کے رہنے والے تھے جہاں کبھی فلم دیکھی ہی نہیں تھی۔ ہاں کبھی  ’تمبو‘  میں لگتی ہو گی۔ لاہور آیا تب بھی بہت کم فلمیں دیکھیں۔ پھر ڈرامہ مل گیا۔ فلموں میں میری آمد کا قصہ یہ ہے کہ کوئی میاں بیوی شبابؔ کیرانوی صاحب کو ڈرامہ دیکھنے کے لئے اپنے ساتھ لائے ہوئے تھے کہ ان دونوں کو فلم میں کام کرنے کو کوئی موقع ملے۔ میں اسٹیج پر اداکاری کر رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنی گولڈن جوبلی فلم“ سنگدل  ”( 1968 ) میں کام کی پیشکش کی۔

اب قدرت کا کام دیکھئے کہ میں نے تو غور سے کبھی فلم یا ٹی وی بھی نہیں دیکھا تھا۔ دلچسپی صرف اسٹیج ڈرامے کی حد تک ہی تھی۔ شبابؔ صاحب نے ان کے بجائے میرا انتخاب کر لیا۔ تین مہینے وہ میرے پاس گاڑی بھیجتے رہے کہ آؤ میرے پاس۔ میں نے ہر ایک مرتبہ طریقے سے انکار کیا۔ میں ان سے کہتا کہ اگر آپ کی فلم فیل ہو جاتی ہے تو کیا ہو گا؟ کہتے کہ تیرے ساتھ تین فلمیں کروں گا۔ کوئی تو چلے گی نا؟ میں پوچھتا کہ اگر تینوں ہی فیل ہو گئیں تو۔

میں تو بینکر ہوں میرا تو مستقبل ڈوب جائے گا۔ تین ماہ بعد میں بینک کا مستقل ملازم ہو جاؤں گا۔ وہ بھی بضد ہی رہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ جو میری آنکھ دیکھتی ہے وہ تو نہیں دیکھ سکتا۔ شبابؔ صاحب بڑے دلچسپ آدمی تھے۔ پھر پوچھا کہ تمہیں بینک سے کتنے پیسے ملتے ہیں؟ میں نے کہا کہ تین سو روپے تنخواہ اور پچاس روپے ہاؤس رینٹ۔ کہنے لگے کہ فی فلم دو ہزار روپے دوں گا اور ایک مہینے میں فلم ختم کروں گا۔ تینوں فلمیں فیل ہونے کے خدشے پر کہا کہ جب تمہیں پیسوں کی ضرورت ہو قطعہ نظر فلمی معاہدوں کے، میرے پاس آ جانا۔ میں جب ان کے پاس جاتا وہ چائے منگواتے اور ساتھ ہی ہزار پانچ سو کا چیک کاٹ کر مجھے دے دیتے۔ جب کہ اس زمانے میں پچاس روپے میں ہم ڈرامہ کرتے تھے۔ ٹیلی وژن پر سو روپے ملتے تھے۔ جس میں اشفاق صاحب اور منو بھائی بھی شامل تھے  ”۔

” آپ کی کتنی فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں؟“ ۔ میں نے سوال پوچھا۔

” میرے حساب سے یہ تعداد 200 ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ فلمساز، سرمایہ کار، ہدایتکار یا رائٹر فوت ہو گیا یا کوئی اور معاملہ پیش آ گیا لیکن ہم نے تو وہ فلمیں کیں نا خواہ کم یا زیادہ؟ ایسی فلموں کا گوگل میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے“ ۔

” مسعود اختر بھائی ٹیلی وژن پر پہلا ڈرامہ کون سا تھا؟“ ۔

” مجھے یاد نہیں! یہ دیکھیں کہ ایک وقت میں ہم فلم بھی کر رہے ہیں، تھیٹر اور ٹی وی بھی کر رہے ہیں۔ جس دن کچھ بھی نہ ہو اس دن ہم ریڈیو چلے جاتے تھے۔ کوئی برا نہ منائے ہم لوگ پاکستان ٹیلی وژن اور الحمرا تھیٹر کے بانیوں میں ہیں“ ۔

” آپ نے ہر طرح کے کردار ادا کیے ہیں۔ کیا کوئی ایسا کردار ہے جس کو کرنے کی خواہش تھی لیکن وہ کبھی ملا نہیں؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” طارق عزیز نے یہی سوال کیا تھا کہ کوئی ایسا کردار بتائیں جو آپ نے نہیں کیا ہو اور جس کے کرنے کی آپ کو خواہش ہو۔ وہ جنتی آدمی تھا۔ جاتے ہوئے اپنی جائیداد بھی حکومت کو دے گیا۔ میں نے اسے یہ جواب دیا :  ’میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ایسا کردار نہیں ہے جو مجھ سے بچ گیا ہو!‘  ۔ آپ بتائیں، میں مفلوج ہوں۔ میں نے مفلوج بننا ہے اور مفلوج کی طرح حرکت بھی کرنا ہے۔ لوگ باہر نکل کر ایسے لوگوں کو دیکھ کر پھر ان کی نقل کرتے ہیں۔

نہیں نہیں! آپ نے نقل کر لی تو کیا آپ اداکار ہو گئے؟ کئی لوگوں نے دلیپ کمار کی، سلطان راہی کی نقل کی۔ اللہ معین اختر کو جنت میں جگہ دے ایک مرتبہ میں کسی فلم کے لئے کراچی گیا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے بات چیت کی۔ وہ محمد علی، وحید مراد اور سب ہی اداکاروں کی نقل کرتا تھا۔ میں نے کہا یار میری بھی نقل اتارو۔ تین منٹ کے بعد کہا کہ نہیں کر سکتا۔ اداکار نہیں بولتا بلکہ اس کا کردار بولتا ہے! جب آپ نے اداکاری کرنا ہے تو اپنے ڈائریکٹر اور رائٹر سے پوچھیں کہ میں کس کمیونیٹی سے تعلق رکھتا ہوں؟ امیر ہوں غریب ہوں، بیمار ہوں صحتمند ہوں یا معذور؟ اس طرح کے سوالات ان سے کریں پھر گھر آ کر سوچیں۔ پھر کپڑوں کا پوچھیں۔ ہم فقیر ہیں تو ہماری قمیص پھٹی ہونا چاہیے۔ یہ اور ایسی کئی ایک چیزیں میں نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں  ”۔

” مسعود اختر بھائی آپ کی کتاب کا کیا نام ہے؟“ ۔

” اس کا نام  ’ایکٹنگ گائیڈ‘  تھا“ ۔

” اسے کس پبلشر نے شائع کیا تھا؟“ ۔

” اسے میں نے اپنے پلے سے شائع کرایا۔ ایک ہزار کی تعداد میں کتاب پرنٹ کرنے میں اس وقت 30000 ( تیس ہزار ) روپے لگے تھے۔ یہ 1986 یا 1987 کی بات ہے۔ پھر میں نے اس کی ٹی وی پر پبلسٹی کی۔ تقریباً سب ہی لوگ پریشان ہو گئے“ ۔

” میں نے ایک اور کام کیا۔ میں نے ایک  ’ایکٹنگ آور‘  Acting Hour سوسائٹی بنا لی۔ اس میں 70 طلباء نے حصہ لیا۔ اس میں ایم اے، بی اے، ایف اے اور میٹرک کے طلباء شامل تھے۔ ایک اسکرپٹ میرے پاس اور پوری پنجاب کونسل ہنس رہی ہے کہ یہ کام کیسے ہو گا! میں نے کہا کہ کر کے دکھاؤں گا۔ میں نے ان طلباء کے دس دس کے سات گروپ بنا دیے۔ ہر ایک گروپ نے ایک دن ڈرامہ کیا اور یوں سات یوم میں ساتوں گروپوں نے اسٹیج ڈرامہ کیا۔

پھر ان طلباء نے کہا کہ آپ نے کام سکھا تو دیا ہے اب کام بھی دلوائیں۔ میں نے کہا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں! البتہ آپ کو سرٹیفیکیٹ دیتا ہوں۔ میں نے اے، بی اور سی درجے مقرر کیے لیکن یہ درجے ڈرامہ دیکھنے والوں نے پرچیوں پر لکھ کر خود دیے۔ یوں ان طلباء کو اے، بی یا سی الاٹ ہوئے۔ اس وقت یونیورسٹی اور کالجوں میں داخلہ لینے والوں کے دس نمبر ڈرامے کے بھی تھے۔ میری دی ہوئی سند ان داخلوں کے مرحلہ میں بہت کام آئی  ”۔

” ریڈیو کی بات ذرا کم ہوئی ہے۔ اس پر مزید کچھ بتائیں!“ ۔

” میرا ریڈیو کا زمانہ عشرت رحمانی صاحب کا ہے۔ یہ ڈویژنل ہیڈ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ تم لوگ جو ڈرامے ریڈیو پر کرتے ہو وہ اب اسٹیج پر کرو۔ پھر انہوں نے ان ڈراموں کو لمبا کر کے تین ایکٹ کا کر دیا اور ہم سے یہ اسٹیج پر کروائے۔ ہم نے امتیاز علی تاج اور صوفی غلام مصطفے ٰ تبسم صاحب کا بھی زمانہ دیکھا۔ پاکستان کے دو صدر یہاں ریڈیو اسٹیشن پر ہم فنکاروں سے ملنے آئے۔ ایک صدر ایوب خان اور دوسرے ضیا الحق“ ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments