تھیٹر، اسٹیج، ریڈیو اور فلم کے اداکار مسعود اختر


میں جب لاہور جاتا ہوں فلمی دنیا کے نامور ہدایتکار ایس سلیمان المعروف سلو بھائی کی خیریت معلوم کرنے زرین پنا سے ملنے الحمرا ضرور جاتا ہوں۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ کینٹین جاتے ہوئے دروازے سے پہلے ایک طرف ہٹ کر بیٹھے تھیٹر، ریڈیو، فلم اور ٹیلی وژن کے نامور فنکار مسعود اختر بھائی پر نظر پڑی۔ بے ساختہ میں ان کی جانب لپکا۔ حسب معمول تپاک سے ملے۔ موقع مناسب دیکھ کر میں نے ان سے بات چیت کی جو پیش خدمت ہے :

” مسعود اختر بھائی! لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کو اداکاری کا شوق تھا یا پھر اتفاقیہ شو بزنس میں آئے؟“ ۔

”مجھے شیخ سعدی کے دو مصرعے یاد آ رہے ہیں :  ’تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ‘  ۔ بندہ یہ سوچتا ہے کہ میں یہ بنوں گا، وہ کروں گا۔ تدبیر انسان بناتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اسے نہیں پتا کہ میں نے اس کا رزق کہاں کہاں لکھا ہے! ہمارا جو گروپ تھا وہ سارے بینکر تھے۔ یہ 1960 کے اوائل کا زمانہ ہو گا۔ ہم شام کی کلاسوں میں پڑھتے بھی تھے۔ کچھ لا کر رہے تھے تو کچھ بی اے۔ مجھے 300 روپے ماہانہ تنخواہ اور 50 روپے ہاؤس رینٹ ملتا تھا۔ ہاؤس رینٹ ہم جمع کرتے تھے جب ہمیں ڈرامے کے لئے کوئی اسپانسر نہیں ملتا تو اس سے کام چلاتے۔ پھر یہ سلسلہ اخراجات کی مد میں پھیلتا گیا۔ سب لوگوں کے ہاؤس رینٹ ملا کر اور اوپر سے اپنی تنخواہ میں سے تھوڑا تھوڑا ڈال کر ڈرامے اپنے پلے سے بھی ہوتے رہے۔ پبلک کے لئے 2 روپے ٹکٹ تھا۔ 50 روپے میں ہم 20 دن ڈرامے کی ریہرسل اور پھر 20 دن اسٹیج پر کام کرتے تھے۔ اسی طرح جب ہم ریڈیو پر گئے تو پانچ روپے اور دس روپے ملتے تھے۔ مجھے ریڈیو پر فوجی بھائیوں کے پروگرام میں باجی یاسمین، نعیم طاہر کی بیگم لے گئی تھیں۔ مجھے پہلی مرتبہ اس پروگرام کے 50 روپے ملے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:  ”میں ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ میرے والد وہاں میڈیکل افسر تھے۔ وہ اتوار کو گھوڑے یا سائیکل پر کسو وال، ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ڈسپنسریوں میں جاتے۔ پہلے اس قصبے میں لڑکوں کا مڈل اور لڑکیوں کا صرف پرائمری اسکول تھا۔ ہمارے گاؤں میں تین سماجی خدمت کرنے والے باہمت لوگ موجود تھے۔ ایک میرے والد، دوسرے امام مسجد اور تیسرے گاؤں کے نمبر دار۔ لڑکوں کا اسکول ان لوگوں نے بھاگ دوڑ اور وزیر سے کہہ سن کے میٹرک تک کروا لیا۔ اسی طرح لڑکیوں کا پرائمری سے مڈل ہو گیا۔ گاؤں کے قریب نہر پر عوام کی سہولت کے لئے پل بھی بنوایا۔ ہمارے گاؤں کا نام  ’4512 ایل فردوس‘  تھا۔ میں نے بھی لڑکوں کے اسکول سے میٹرک کیا جس کی سند ابھی تک میں نے سنبھال رکھی ہے“ ۔

” میری ایک پھوپھی مرحومہ سیالکوٹ میں رہتی تھیں۔ مجھے میٹرک کے بعد پھوپھا کے ہاں مزید پڑھائی کے لئے  ’مرے کالج‘  سیالکوٹ میں فرسٹ ائر میں داخلہ دلوا دیا گیا۔ وہاں کچھ ہی عرصہ بعد فزیکل ٹریننگ (پی ٹی) کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہماری فائنل کلاس جا رہی ہے۔ ان کی الوداع کے لئے ایک ڈرامہ کرنا ہے۔ وہ  ’کو ایجوکیشن‘  کالج تھا۔ مجھے اس ڈرامے میں  ’ہیروئن‘  کا کردار ادا کرنے کو کہا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ کس طرح ہو گا؟ دو مرتبہ ڈائریکٹر نے مجھے کہا تو میں نے کلاس میں جانا ہی چھوڑ دیا“ ۔

” ان لوگوں نے آپ کی اداکاری کے ایسے کون سے پوشیدہ جوہر دیکھ لیے جو ہیروئن کے کردار کی پیشکش ہوئی؟“ میں نے سوال کیا۔

” کیسی اداکاری؟ کون سے جوہر؟ میں نے تو اس وقت تک کوئی فلم ہی نہیں دیکھی تھی۔ میرے گاؤں میں تو بجلی بھی نہیں تھی! بہرحال میں نے اپنے پھوپھا کو یہ بات بتا دی۔ انہوں نے میرے اکنامکس کے پروفیسر، خواجہ لطیف کو کہا تو کہیں جا کے میری جان چھوٹی۔ پھر میں اپنا تبادلہ کروا کر اسلامیہ کالج گوجرانوالا آ گیا۔ اس شہر میں میری دادی کی طرف کے رشتہ دار بھی تھے۔ عجیب کہانی ہے کہ اس کالج میں بھی یہی سلسلہ ہو گیا۔

میرے رشتہ دار بھی میدان میں آ گئے اور باقاعدہ لڑائی مار کٹائی ہو گئی۔ ایف اے کرنے کے بعد میں ایم اے او کالج میں آ گیا۔ بی اے کی کلاس کے اعزاز میں الوداعی تقریب میں ڈرامہ  ’دہلی کی آخری یادگار شمع‘  میں ہیرو کے کردار ادا کرنے کے لئے نیلی آنکھوں والے ایک لڑکے کو کہا۔ یہاں بھی مجھے ڈرامے میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے کو کہا گیا۔ میں اس کالج سے بھی بھاگا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایک شخص قصبے سے اٹھ کر شہر میں آیا جو اس ماحول کو ہی پسند نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے!  ”

” میری  ’سپلی‘  آ گئی۔ وہ مضمون پاس کیا اور پھر لا کالج کی شام کی کلاسوں میں داخل ہو گیا۔ یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ کے بیٹے، جسٹس (ر) جاوید اقبال نے مجھے پڑھایا ہے“ ۔

” اسٹیج اور تھیٹر میں تو آپ شہروں شہروں گھومے ہوں گے۔ کیا کبھی کوئی خطرناک صورت حال پیش آئی؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” کئی دفعہ آئی۔ جیکب آباد میں ہم ڈرامہ“ پیسہ بولتا ہے  ”کرنے گئے۔ میرا اس ڈرامے میں نوکر کا کردار تھا۔ دیکھنے والے بے حساب تھے۔ سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ ہم فنکار ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے ساتھ ایک  ’اے ایس پی‘  صاحب آ کر بیٹھ گئے۔ میری دوسری جانب لاء کالج کا ساتھی  ’سی اے منیر‘  بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ٹیم پریشان ہو رہی ہے۔ پھر ڈی ایس پی صاحب بھی آ گئے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم آپ لوگوں کی حفاظت کے لئے بیٹھے ہیں۔

جو اداکار اپنا کام ختم کرتا جائے وہ میک اپ روم میں جا کر اندر سے کنڈی اور بولٹ لگا لے۔ آخری آدمی جس نے اسٹیج پر اپنا کام ختم کیا وہ میں تھا۔ پردہ گرنے سے پہلے میں نے ایک مختصر سی تقریر کرنا تھی :  ’لعنت بھیجتا ہوں ایسے پیسے پر جو رشتوں کو بھلا دے۔ نہیں چاہیے مجھے ایسا پیسہ!‘  ۔ اور میں اپنا لاٹری ٹکٹ پھینک کر باہر چلا جاتا ہوں۔ جب میک اپ روم میں جانے کے لئے دروازہ کھٹکھٹایا تو کسی نے نہیں کھولا۔ اتنے میں تین چار آدمی آئے انہوں نے مجھے اسی نوکر کے گیٹ اپ میں جب کہ میرے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھی زبردستی اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔

جب وہ نامعلوم افراد مجھے لے جا رہے تھے تب ڈپٹی کمشنر جیکب آباد کی بیوی اپنی گاڑی میں بیٹھ رہی تھیں۔ مجھے اپنی ٹیم کے بغیر یوں چند افراد کے گھیرے میں جاتے دیکھ کر اس خاتون نے اپنے شوہر کو وائرلیس پر فوراً اپنی تشویش کا بتلایا۔ جواباً جیکب آباد کے آنے جانے کے راستے سیل کر دیے گئے۔ وہ لوگ مجھے ریلوے اسٹیشن کے کمرہ قیام و طعام میں لے گئے۔ چائے کا پوچھا، میں نے منع کر دیا۔ کھانے کا پوچھا، میں نے انکار کر دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments