تھیٹر، اسٹیج، ریڈیو اور فلم کے اداکار مسعود اختر


بہرحال تھیٹر کے سلسلے میں ہم نے کوئی شہر نہیں چھوڑا جہاں ڈرامہ نہیں کیا۔ ساتھ ہی کوئی ایسا ادارہ نہیں چھوڑا جس نے ہم پر پابندی نہ لگائی ہو! شاہد ندیم کا ایک تھیٹر تھا انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آ جائیں۔ میں نے کہا کہ میں تو اداکار ہوں کسی گروپ کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ جو لوگ ان کے ساتھ ہوئے ان کو تمغے بھی ملے اور تھیٹر اور ٹی وی میں کام بھی ملا  ”۔

” ایک دفعہ اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد مجھے ٹیلی وژن اسٹیشن میں مل گئے۔ میں نے کہا کہ جناب آپ، ممبر ان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہیں تو بڑھا لی ہیں لیکن 90 منٹ کے ڈرامے کے ہمیں اب بھی صرف پانچ ہزار روپے ہی ملتے ہیں۔ لیکن کچھ ہو نہ سکا۔ ہم نے ڈرامہ فنکاروں کے معاوضوں میں انصاف اور ان کی بہبود کے لئے ایک ایکؤٹی EQUITY تنظیم  ’داوا‘  DAWA یا ڈرامہ آرٹسٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن بنا کر پورے پاکستان میں احتجاج کیا۔ تقریباً بیس تیس دن یہ احتجاج چلتا رہا پھر نعیم طاہر آئے اور ہمارے مسائل سنے۔ کہنے لگے کہ حل ہو جائے گا۔ پتا نہیں انہوں نے کس کو فون کیا اور ہمارے معاوضے دگنے ہو کر دس ہزار روپے ہو گئے۔ یہ 1990 کا قصہ ہے۔ پھر ہمیں رائلٹی بھی ملنا شروع ہو گئی۔ بہت سے فنکاروں کی رائلٹی کے چیک پڑے رہتے تھے اور وہ بے خبر تھے۔ رائلٹی والا عجیب بے ربط کام ہوا تھا یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا تھا کہ چل ہی نہ سکے“ ۔

” ڈاکٹر انور سجاد کا زمانہ تھا وہ چیئر مین تھے۔ انہوں نے ہمیں باغ جناح سے نکال دیا۔ ہم نے ماریں بھی کھائیں۔ ہمارا گروپ بہت مضبوط تھا۔ اس میں عاصم بخاری، محمد قوی، میں، سی اے منیر، شکیل اور بہت سے لوگ تھے۔ ہم نے ایک فنکار سوسائٹی بھی بنا لی۔ تب میں نے 1987 میں ایک کتاب بھی لکھ ڈالی۔ اس میں بتایا گیا کہ اداکاری کیا ہے؟ ہدایتکاری کیا ہے؟ حرکت / فٹ ورک کیا ہے؟ پھر الحمرا اور کلچر ڈپارٹمنٹ سے ایک پیغام آیا کہ یہ کام تو ہم نے کرنا ہے“ ۔

” پھر ہم پر سرکاری پابندی عائد ہو گئی۔ کوئی ہوٹل، پارک اور فٹ پاتھ نہیں چھوڑا جہاں ہم نے احتجاج نہیں کیا۔ میں خود تقریر کرتا تھا :“ او گسٹاپو پولیس! کر لو جو ہمارے ساتھ کرنا ہے۔ ہم گلی گلی کونسل بنائیں گے  ”۔ اور ہم نے وہ بنا کے دکھائیں۔ پھر بعد میں ہماری صلح ہو گئی“ ۔

” گویا آپ نے بہت کٹھن وقت بھی دیکھا!“ ۔ میں نے کہا۔

” جی ہاں! بہت مشکل وقت دیکھا۔ سرکاری میڈیا کے دروازے ہم پر بند ہو گئے تھے“ ۔

” مسعود اختر بھائی سنا ہے کہ الحمرا کی مشہور زمانہ ادبی بیٹھک بند ہو گئی ہے؟ اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” اس کے بند ہونے کے پس منظر میں کوئی کہانی نہیں ہے۔ انتظامیہ کو کسی بیٹھک ویٹھک سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ فن و ثقافت کے فروغ، فنکاروں اور ہنرمندوں کی بہبود کے لئے انتظامیہ ہمیشہ مایوس کن ہی رہی۔ ماضی میں ایک مرتبہ تو میں نے مجبوراً اس عمارت کے معمار نیر علی دادا صاحب کو فون کیا اور ان سے ملنے گیا۔ میں نے پوچھا کیا یہ سچ ہے کہ جہاں آج مال روڈ، لاہور میں الحمرا کی عمارت ہے وہ در اصل ہندوؤں کی ملکیتی زمین تھی؟

انہوں نے کہا جی ہاں یہ درست ہے۔ یہ فیضؔ صاحب، صوفی غلام مصطفے ٰ تبسم اور سید امتیاز علی تاج صاحبان کا زمانہ تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ اس موضوع پر تقریر کریں۔ مجھ اکیلے آدمی نے ڈیڑھ گھنٹے تقریر کی۔ سننے والے پنجاب اسمبلی کے ممبران تھے۔ ان میں حنیف رامے صاحب خود بھی شامل تھے۔ جو سیاست، اسمبلی اسپیکر، وزارت اعلیٰ، گورنری کے علاوہ مستند خطاط، پینٹر، اہل قلم، دانشور، صحافی اور مدرس بھی تھے۔ وہاں 700 افراد بیٹھے تھے۔ میں نے مائیک مانگا تو نعیم طاہر نے کہا کہ تم تھیٹر کے اداکار ہو۔ اتنی بلند آواز سے بولو کہ جس کے کان بند ہیں ان میں آواز جائے۔ اور اتنا اونچا رد عمل دو کہ جس کی نظر کمزور ہے وہ اس کو سمجھ سکے۔ پھر اللہ کا نام لے کر میں نے ایسا ہی کیا  ”۔

” اس کے نتائج کیا نکلے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” کوئی نتائج نہیں نکلے۔ میں نے جو بھی بھاگ دوڑ کی وہ ساتھی فنکاروں کے لئے کی۔ اس میں ذاتی فائدہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ صدقۂ جاریہ ہے۔ میں ساتھی فنکاروں سے بھی کہتا تھا کہ میرا ساتھ دو۔  ’داوا‘  یا ڈرامہ آرٹسٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس وقت کے صدر پاکستان نے باقاعدہ سند پر طلائی مہر لگائی ہوئی ہے کہ اس شخص نے یہ کام کیا ہے۔ میں کچھ نہیں کہتا بس اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ تو میرا یہ کام کر دے۔ میں تو برہنہ سادات کا بالکا ہوں“ ۔

” برہنہ سادات کا بالکا!“ ۔ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

” ایک بزرگ تھے جن تک رسائی ایک فلم کے ذریعے ہوئی۔ قصہ یوں ہے کہ ایک فلم نمائش کے لئے پیش ہونا تھی جس کے ڈائریکٹر جمیل اختر صاحب، مصنف سلطان محمود آشفتہ، اور تقسیم کنندہ وحید صاحب تھے۔ یہ تینوں اور میں میٹروپول سنیما کے باہر کھڑے سوچ رہے تھے کہ اس فلم کا پتا نہیں کیا بنتا ہے۔ وحید نے کہا کہ بیگم پورہ میں ایک بزرگ بیٹھتے ہیں آؤ وہاں چلیں۔ ان کی عمر بیس بائیس سال ہو گی۔ میں تو کبھی کسی بزرگ کے پاس گیا ہی نہیں تھا۔

بہرحال وہ لوگ جیسے کر رہے تھے میں بھی ویسا کرتا گیا۔ انہوں نے ان تینوں سے کہا کہ تمہارے  ’ٹائمنگ‘  غلط ہیں۔ جمیل اختر صاحب کچھ پڑھتے تھے ان کو بھی کچھ کہا کہ اس وقت نہیں بلکہ اب جو میں بتا رہا ہوں اس وقت پڑھو۔ کیوں یہ  ’سعد گھڑی‘  ہے۔ بعض ایسے لمحے ہوتے ہیں جو آگے چلنے ہی نہیں دیتے۔ اور کوئی ایسی سعد گھڑیاں ہوتی ہیں کہ آنکھ بند کرتے ہی برائے نام سعی سے ہی کام ہو جاتا ہے۔ لیکن مجھے ان حضرت نے نظر انداز کر دیا۔

واپس جاتے ہوئے مجھے رونا آ گیا۔ جمیل اختر صاحب نے کہا کیوں رو رہے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ انہوں نے میرا نام بھی نہیں پوچھا نہ ہی مجھے کچھ بتایا۔ گھر پہنچا۔ سیڑھیاں تھیں جس کے نیچے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ ایک چارپائی اور دو کرسیاں تھیں۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ چھوٹی سی دیوار پر مجھے ان حضرت کا عکس نظر آیا جیسے وہ پاس بیٹھے ہیں۔ پوچھا کہ رو کیوں رہے ہو؟ میں نے کہا آپ نے سب سے پوچھا لیکن مجھ سے بات بھی نہیں کی۔

اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو معافی چاہتا ہوں۔ کہا چلو باہر اور میرے پاس آؤ۔ میں گھر سے باہر چوبرجی پارک آیا۔ رکشے کھڑے تھے۔ میں نے کئی ایک رکشے والوں سے بیگم پورہ جانے کو کہا سب ہی نے انکار کر دیا۔ میں چوبرجی کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ مجھے غصہ آیا اور زبان سے بے ساختہ نکلا کہ تم مجھے نہیں لے جاتے تو ساری رات یہیں کھڑے رہ کر سواریوں کو ترسو گے۔ ایک رکشہ آیا میں نے بات کی تو اس نے کہا بیٹھیں۔ بیس روپے طے ہوئے۔ میں حضرت کے پاس گیا۔ وہاں تو ہجوم تھا۔ میں نے اندر جا کر سیلوٹ مارا اور انگریزی میں اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ ادھر سے انگریزی میں جواب آیا کہ تم کو نہ صرف میں نے بلکہ میرے مرشد نے بھی بلوایا ہے!  ”۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments