آدمی کائناتی ابتری کی روح ہے: زاہد ڈارکی یاد میں


چند معاصر تخلیق کار بھی اس کی سعی فرما چکے ہیں۔ جیلانی کامران نے ”درد کا شہر“ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ زاہد ڈار نے اپنے تجربے میں مذہبی منطقے کو منہا کیا، تجربے کی تقدیس کو دولت اور نعمت سمجھ کر اپنے لیے دیوانگی کا لباس منتخب کیا اور یہ لباس شاعر کو خود کشی سے بچاتا ہے۔ باقی رائے درست ہے، سوائے اس کے کہ زاہد ڈار نے دیوانگی کا لباس منتخب نہیں کیا۔ آگہی کی دہشت منتخب کی۔ اس آگہی کو ایک جگہ وہ ”آگ کی آغوش میں جینا“ کہتے ہیں۔ جسم، روح، دل، سارا، زمیں، آسماں سب کچھ اس آگ میں جل رہا ہے۔ دوسری جگہ اس علم کے ساتھ جینے کو وہ پاگل پن قرار دیتے ہیں۔ یہ پاگل پن، آگہی کی دہشت کا مظہر بھی ہے اور اس سے بچاؤ کی نفسی تیکنیک بھی!

یوں نہیں، پر یوں اگر ہوتا تو کیا؟
چاند کاغذ، آسماں پتھر اگر ہوتا تو کیا
اس دیس کے پیٹ میں ننھا سا اک سورج اگر ہوتا تو کیا؟
آدمی پیدا ہوا، پانی میں ڈوبا، خشک ٹہنی پہ چڑھا، پاپوں کی اگنی میں جلا، وہ مر گیا
کس لیے۔ ؟
میرا پاگل پن میری کمزوریاں مجھ سے چھپاتا ہے، مجھے
خود کشی سے روکتا ہے، میرا پاگل پن۔
(میرا پاگل پن)

دوسرا راستہ، بے درد شہر کو اس کے سارے مظالم سمیت، عام روزمرہ زندگی کو اس کی ساری میکانکیت، تنہائی، بے زاری سمیت قبول کرناتھا، کسی بڑے آدرش کی آرزو سے گریز کرنا تھا اور معمولی مسرتوں کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی آرزو کرنا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ زمیں پر کئی اور شہر ہیں جو اس شہر درد سے خوبصورت ہیں مگر ان کے لیے یہی زمین، یہی مٹی، یہی بام و در اور یہی شہر۔ جہاں ”اداسی (کبھی) بھوکے شیر کی مانند پھرتی ہے اور (کبھی) ٹھنڈی اوس کی مانند گرتی ہے“ ۔

حقیقی شہر ہے، باقی سب خیالی ہیں۔ اسی طرح یہی زمیں اور لامحدود وسعت کا حامل آسمان، جس میں ابتری ہے اور آدمی اس ابتری کی روح ہے، انھیں قبول ہے۔ قبول کر لینے سے ابتری ختم نہیں ہوتی، بس آدمی خود کشی سے بچ جاتا ہے۔ چیزیں لوگ سب تضادات کے حامل ہیں، عارضی پن اور فنا ہر جگہ ہے۔ عورت جو کبھی خوشی اور کبھی اذیت کا باعث ہے، اس سورج کی گرمی کی مانند ہے جو سردیوں میں اچھی لگتی ہے۔ عورت اور سورج سے آدمی کو مفر نہیں۔

مسرت ہو کہ رنج، سب عارضی ہے۔ بایں ہمہ آدمی چھوٹی، معمولی مسرت کا جویا ہے۔ چوں کہ معمولی مسرتوں میں عارضی پن تھا، اس لیے اپنے دہرائے جانے پر اصرار کرتی تھیں اور ایک سفاک حقیقت یہ ہے کہ جدید عہد کے اس فکری مخمصے کا فائدہ سرمایہ داریت نے اٹھایا۔ جیسے مسلسل سیاحت، مسلسل نئی سے نئی چیزوں کا استعمال، مسلسل شراب یا سگریٹ پینا۔ مسلسل کتابیں پڑھنا۔ مسلسل نئی سے نئی فلمیں دیکھنا۔ جدید انسان کے لیے زندگی کے تاریخی اور وجودی حقائق انتہائی کڑے ہیں، جن سے باقاعدہ دہشت وابستہ ہے، ان کا سامنا کرنے یا ان سے بچنے کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے۔

اگر یہ مسئلہ محض ذہنی ہوتا تو آگہی کافی ہوتی مگر یہ مسئلہ آدمی کی پوری ہستی کا تھا۔ بعض لوگوں نے اس کا حل جنگوں میں بھی دیکھا، بعض نے جنگ نما کھیلوں میں۔ ادیبوں کے پاس زیادہ سے زیادہ تخلیق کرنے اور پڑھنے کا راستہ تھا۔ زاہد ڈار نے یہ دونوں راستے اختیار کیے۔ یہ الگ بات کہ پہلا راستہ ترک کیا اور دوسرے پر رواں رہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اس مقام پر یہ رائے قائم کر سکتے ہیں کہ ان کا مسلسل مطالعہ کرنا اندر کے ایک ”وجودی زخم“ پر پھاہا رکھنے کا عمل تھا۔ نہ درد تھمتا تھا نہ اس کے درماں کا سلسلہ رکتا تھا۔

مصنف زاہد ڈار اور آصف فرخی کے ساتھ

جیسا کہ پہلے بیان کر آئے ہیں، زاہد ڈار کے عم عصر اردو ادیبوں نے ادب کے ذریعے سماج کو بدلنے کی کوشش کی یا ادب کے وسیلے سے نئے ملک کی تہذیبی بنیادیں استوار کرنے کا کام کیا۔ کچھ نے نو آبادیاتی عہد کے بارگراں سے ادب کو نجات دلانے کا قصد کیا۔ زاہد ڈار نے بھی کہیں نہ کہیں، چاہتے نہ چاہتے ہوئے، ادب کے اس کردار میں حصہ ڈالا۔ مثلاً نظموں ”امریکا کا خدا“ اور ”چوہا نامہ“ ۔ عالمی فاشسٹ طاقت کیسے آدمی کو چوہے میں، بے بس مخلوق میں بدل ڈالتی ہے، اس کا اظہار ہے۔ یوں بھی جدید عالمی ادب میں حشرات آدمی کی حالت کا استعارہ ہیں۔ مجموعی طور پر زاہد ڈار نے ادب کو، ادب کے سوا کسی اور چیز کا وسیلہ بنانے سے گریز کیا۔ وہ شاعر کو ایسا جادوگر سمجھتے تھے جو جھوٹے ہوتے ہیں، اپنے تخیل سے چیزیں گھڑتے ہیں اور ان کی سوچ کے پتے مردہ اور سوکھے ہوتے ہیں مگر

ان سوکھے پتوں میں
میں نے اکثر
پیلی پیلی من موہن کلیاں دیکھی ہیں
جن کے آگے داناؤں کی دانائی
اور سچائی کے
روشن روشن سورج کالے ہو جاتے ہیں
(شاعر)

گویا وہ جدید شاعری کی اس قوت سے واقف تھے کہ وہ موت، تاریکی، صحرا، خزاں کا ذکر کر کے ہمیں چیزوں کو ان کی اصلی حالت کے ساتھ قبول کرنے کی دانائی اوراخلاقی جرأت دیتی ہے۔ یعنی تاریکی بھی اپنے اندر نور کے کچھ نقطے رکھتی ہے۔ انسانی وجود کے انھی تاریک پہلوؤں کا ذکر ان کی کئی دیگر نظموں میں سادہ اسلوب میں ملتا ہے۔

انسان ایک دوسرے سے خوش نہیں ہیں
کوئی دو انسان بھی ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہیں رہتے
انسانی سوچ غلط فہمیوں اور خود فریبیوں کا مجموعہ ہے
انسانی زندگی تکلیفوں اور پریشانیوں سے کبھی آزاد نہیں ہوتی
اس دنیا میں
ساری محبتوں اور نفرتوں
محفل آرائیوں اور محاذ آرائیوں کے باوجود
ایک انسان کا دوسرے انسان سے کوئی حقیقی رشتہ نہیں
ہرا نسان دراصل اکیلا ہے!
(عورت اور میں، 7 )

میرے لیے دن اور رات برابر ہیں
وقت مسلسل بہہ رہا ہے
یا شاید ٹھہرا ہوا ہے
میرے لیے سب برابر ہیں
کون ظلم کر رہا ہے اور کس پر؟
کون خوش ہے اور کون اذیت میں مبتلا؟
کوئی ہنستا ہے تو ہنستا رہے
کوئی روتا ہے تو رویا کرے
کون کس لیے زندہ ہے؟
کون کس کے لیے مرتا ہے؟
میں کچھ بھی نہیں جاننا چاہتا
میں بے خبر ہی رہنا چاہتا ہوں
جو کچھ موجود ہے وہ میرے لیے نہیں ہے
جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں
کسی کو میرا نام بھی یاد نہیں
مجھے کسی سے کیوں محبت ہو؟
(عورت اور میں، 8 )

ایک شاعر کو الوداع کہنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی زندہ رہنے والی شاعری کو پڑھا جائے اور سراہا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments