نمرہ احمد کا ناول: مصحف


دین کو پڑھنے سے قبل ایک بات ذہن نشین کر لیں اور گرہ سے باندھ لیں کہ دین میں دلیل صرف قرآن کی آیت یا حدیث نبوی ﷺ سے دی جا سکتی ہے۔ عربی کے الفاظ تین یا چار حروف سے بنتے ہیں جنہیں روٹ ورڈز کہا جاتا ہے۔ مثلاً ”الحمدللہ“ میں ”حمد“ کا روٹ ورڈ حا، میم اور دال (ح، م، د) ہے۔ اسی حمد (یعنی تعریف) سے حامد، حماد، احمد، محمد اور محمود بنتے ہیں۔ اس ادارے میں محمل نے عربی زبان اور قرآن کو بہت دلچسپی سے پڑھا۔ پڑھانے والے اساتذہ کا سمجھانے کا انداز اسے بہت اچھا لگا۔ عربی زبان کا درست تلفظ اور ادائیگی، اعراب کا درست استعمال وغیرہ سب سکھایا جا رہا تھا۔

اگلے ہی دن قرآن کی چند آیات کا ترجمہ پڑھ کر وہ کانپ اٹھتی ہے۔ ”تم میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو، اور صرف مجھ سے ہی ڈرو۔ اور تم جھوٹ کو سچ سے نہ ملاؤ اور حق کو نہ چھپاؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اہنے نفسوں کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا پھر تم عقل سے کام نہیں لیتے؟“ ۔ یہ آیات پڑھنے کے بعد محمل کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے اور جھوٹی گواہی دینے سے ڈر گئی۔

اس نے اللہ کی رسی، کلام کی رسی کو تھام لیا۔ کلام میں سے ہی اس کو جواب ملا کہ ”صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو، بے شک وہ (نماز) سب پر بہت بھاری ہے سوائے ان لوگوں کے جو (اللہ سے ) ڈرنے والے ہیں“ ۔ اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا اور بے اختیار بولی، ”It ’s talking to me“ اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی بولی، کلام کا مطلب ٹاک یعنی بات ہی تو ہے اسی لئے تو اس کو کلام پاک کہا جاتا ہے۔ اس نے ایک دن گھبرا کر فرشتے سے کہا کہ میں یہ پڑھائی مزید جاری نہیں رکھ سکتی، قرآن مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میں اس کیفیت کو برداشت نہیں کر سکتی جو مجھ پر طاری ہوتی ہے۔

اس نے جواب دیا کہ ہم انسان ہی تو اس کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہیں، پہاڑ ہوتے تو نہ سہ سکتے، دب جاتے، یہ اللہ کا کلام ہے، اللہ کی باتیں، اور اللہ ہی تو ہے جو سوچیں بھی پڑھ سکتا ہے۔ فرشتے کے سمجھانے پر وہ قرآن سیکھنا جاری رکھتی ہے۔ قرآن آہستہ آہستہ اس کی سوچ اور زندگی کو بدل رہا تھا۔

محمل کا کزن فواد ایک مرتبہ پھر اس کو گھیرنے کی کوشش کرتا ہے اور پچھلی زیادتی کی تلافی کے طور پر اس سے شادی کی پیشکش کر دیتا ہے، محمل اور اس کی ماں خوش ہو جاتی ہیں مگر اگلے سن جب وہ قرآن کھولتی ہے تو اس کے سامنے جو آیت آتی ہے اس کا ترجمہ یہ تھا، ”اور لوگوں میں سے کوئی ہے، تمہیں دنیا کی زندگی کے متعلق اس کی بات اچھی لگتی ہے، اور وہ اپنی بات پر اللہ کو گواہ بنا لاتا ہے، جب کہ حقیقت میں وہ سخت جھگڑالو ہے“ ۔ محمل محسوس کرنے لگی کہ قرآن اسی کی راہنمائی کر رہا ہے، فیصلے کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ ایک مرتبہ اس نے انگلینڈ جا کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکالرشپ اپلائی کیا تھا، اس وہ سکالر شپ مل گیا مگر وہ دین کی تعلیم کو چھوڑ کر دنیاوی تعلیم کے لئے نہ جانے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔

محمل نے قسم کھائی تھی کہ وہ کبھی فواد سے اکیلے میں نہیں ملے گی مگر آج کل وہ پھر اس سے بار بار تنہائی میں ملنے کی درخواست کر رہا تھا، وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی، اس نے قرآن سے مدد مانگی۔ کلاس میں ٹیچر پڑھا رہی تھی کہ رسول اللہﷺ سے ایک بار ”راسخون فی العلم“ لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”وہ جو قسم پوری کرتے ہیں اور جن کے دل مستقیم ہوں“ ۔ محمل کو جواب مل چکا تھا۔ جوں جوں وہ قرآن کو پڑھ اور سمجھ رہی تھی وہ محسوس کر رہی کہ قرآن اسی کی زندگی کے متعلق ہے اور اس سے باتیں کرتا ہے۔

عدالت میں اس نے فواد کے خلاف اور ہمایوں کے حق میں گواہی دے دی۔ فواد کی ضمانت منسوخ ہو گئی اور اسے جیل بھیج دیا گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ محمل پر انکشاف ہوا کہ فرشتے اس کی بہن ہے لیکن اس کی ماں الگ تھی اور ہمایوں فرشتے کا خالہ زاد کزن تھا۔ محمل ہمایوں کو پسند کرنے لگتی ہے مگر وہ اس بات سے لاعلم ہوتی ہے کہ فرشتے بھی ہمایوں کو پسند کرتی تھی۔ اسلامی مدرسے کے ماحول سے متاثر ہو کر اس نے عبایہ پہننا شروع کر دیا۔

پھر اچانک اس کی نظروں کے سامنے موت سے متعلق آیات آنا شروع ہو گئیں، جب بار بار ایسا ہوا تو وہ سوچنے لگی کہ کیا کوئی فوت ہونے والا ہے اور قرآن مجھے تیار کر رہا ہے۔ انہی دنوں میں اس کی والدہ اسے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گئیں۔ محمل کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا مگر اس نے قرآن کی تعلیمات کے مطابق صبر کیا۔ ماں کی وفات کے چند دن بعد تایا اور تائی نے اس کی امی کی وصیت کے بارے میں بتایا کہ وہ چاہتی تھیں کہ محمل کی شادی ان کے آوارہ اور شرابی بیٹے وسیم کے ساتھ جلد از جلد کر دی جائے۔

وہ ماں کی خواہش کی خاطر راضی ہو جاتی ہے مگر فرشتے اور ہمایوں اس کو منع کرتے ہیں۔ فرشتے اسے قرآن سے مدد مانگنے اور سورۃ مائدہ پڑھنے کا مشورہ دیتی ہے تو وہ قرآن کھول کر سورۃ مائدہ پڑھنے بیٹھ جاتی ہے۔ آیت نمبر 106 اس کے سامنے تھی، ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لئے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر لوگوں ہی میں سے دو گواہ لے لئے جائیں، پھر اگر (ان کی بتائی ہوئی وصیت میں ) کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں ) روک لیا جائے اور وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم کسی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں ) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو چھپانے والے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہگاروں میں شمار ہوں گے“ ۔ اسے قرآن نے مشورہ دے دیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments