نمرہ احمد کا ناول: مصحف


اس صورت حال میں بھی وہ قرآن سے رہنمائی لیتی ہے اور اپنے آپ کو مضبوط کر کے فرشتے سے بات کرتی ہے اور اس سے اگلوا لیتی ہے کہ فرشتے واقعی ہمایوں سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ فرشتے اسے سورۃ النسا کی آیات کا حوالہ دے کر کہتی ہے کہ تم چونکہ اب خاوند کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں رہی ہو، اس لئے تم اسے چھوڑ دو یہی بہتر ہے۔

محمل اس کی بات پوری سننے کے بعد جواب میں اسے قرآن کی آیات ہی سناتی ہے، ”ان لوگوں کو اس شخص کی خبر پڑھ کر سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیات دی تھیں، پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو اس کے پیچھے شیطان لگ گیا، تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اسے انہیں آیات کے ساتھ بلندی عطا کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا، اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ تو اس کی مثال کتے جیسی ہے، اگر تم اس پر حملہ کو تو وہ زبان باہر نکالتا ہے، یا تم اسے چھوڑ دو تو بھی وہ زبان باہر نکالتا ہے۔

جسے اللہ ہدایت بخشے، پس وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے اللہ بھٹکا دے، بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ بے شک ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جنوں میں سے اور بہت سے انسانوں میں سے پیدا کیے ہیں۔ ان کے لئے دل ہیں، وہ ان سے کچھ بھی نہیں سمجھتے اور ان کے لئے آنکھیں ہیں، وہ ان سے کچھ بھی نہیں دیکھتے، اور ان کے لئے کان ہیں، وہ ان سے کچھ بھی نہیں سنتے۔ یہی لوگ مویشیوں کی طرح ہیں۔ بلکہ یہ تو زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں۔ اور اسی طرح ہم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، شاید کہ وہ پلٹ آئیں ”۔

پھر محمل نے سنا کہ فرشتے اپنے کمرے میں دعائے نور پڑھ رہی تھی اور رو رہی تھی، وہ فرشتے کے پاس چلی گئی اور خود بھی رونے لگی۔ اسے احساس تھا کہ فرشتے نے اسے قرآن سکھایا تھا، خاندان والوں سے اس کی جان چھڑائی تھی، سات سال تک اس کی خدمت بھی کی تھی، اس کے محمل پر بہت احسانات تھے۔ فرشتے نے محمل سے کہا، ”میں نے سات سال توجیحات جوڑیں، دلیلیں اکٹھی کیں اور تم نے سات آیتوں میں انہیں ریت کا ڈھیر بنا دیا۔ میں کتے کی طرح خود غرض ہو گئی تھی“ ۔

اس نے سارے اعترافات کر لئے۔ محمل کو شیخ عبد القادر جیلانی کا قول یاد آ جاتا ہے، ”انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے، اللہ اسے اسی کے ہاتھوں سے توڑتا ہے۔ انسان کو اس ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح ہونا چاہیے جس سے لوگوں کی محبت آئے اور باہر نکل جائے“ ۔ محمل نے سب کو دل سے معاف کر دیا جنہوں نے اس کے ساتھ زیادتیاں کی تھیں۔ ہمایوں اپنے کیے پر شرمندہ تھا، اس سے معافی مانگ رہا تھا اور دوبارہ رجوع کرنا چاہتا تھا مگر محمل اس پر راضی نہ ہوئی۔

اس نے ہمایوں کو فرشتے سے شادی کر لینے کا مشورہ دیا۔ اور خود اپنے بیٹے کے ساتھ باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یوں وہ الگ ہو گئی اور اپنے تایا ( آغا جان) جو فالج کے مریض تھے، کو اپنے پاس لے آئی۔ اس کو جائیداد میں سے حصہ بھی مل گیا۔ اپنے بیٹے کو قرآن کی اعلیٰ تعلیم دلوائی، بہت اچھی تربیت کی، اور پی ایچ ڈی کروائی۔ وہ بہت بڑ اسکالر بن گیا تھا، مختلف سیمینارز میں لیکچر دیتا جو کئی ٹی وی چینلز پر چلتے تھے۔

جو قرآن کو اصل میں جاننا چاہتا ہے وہ عربی زبان سیکھے اور پھر عربی میں قرآن کو پڑھے اور سمجھے۔ یاد رکھیے کہ قرآن صرف صادق اور امین کے دل میں اترتا ہے۔ جس شخص میں صداقت اور امانت ہوتی ہے اور وہ واقعی قرآن حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن اس کو دے دیا جاتا ہے۔

مصنفہ نمرہ احمد نے ہمیں صرف یاد دہانی کروانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو قرآن سے جوڑے رکھیں اور زندگی میں آنے والے تمام مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے قرآن سے راہنمائی اور مدد مانگیں تو قرآن ہماری راہنمائی ضرور کرتا ہے مگر ہمارے دلوں میں تقوٰی ہونا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments