نمرہ احمد کا ناول: مصحف


اس نے اونچی آواز سے سب گھر والوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میری ماں کی وصیت کے وقت موجود لوگوں میں سے کون سے دو لوگ عصر کی نماز کے بعد اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر گواہی دیں گے کہ انہوں نے یہ وصیت کی تھی یا نہیں۔ کوئی گواہی دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ وہ سمجھ گئی کہ سب جھوٹ کہا جا رہا تھا لہٰذا اس نے شادی سے انکار کر دیا۔ اس کے تایا نے اسے مارنا شروع کر دیا، وہ زخمی ہو گئی، فرشتے اسے بچاتی رہی۔

فواد نے کہا کہ وہ جائیداد سے دستبردار ہو جائے۔ فرشتے نے ایک شرط رکھ دی کہ اگر تم لوگ میری پسند کے آدمی سے محمل کی شادی کر دو تو وہ جائیداد سے حصہ نہیں لے گی، وہ مان جاتے ہیں۔ فرشتے فون کر کے ہمایوں داؤد کو بلاتی ہے اور یوں محمل کا اے ایس پی ہمایوں داؤد سے نکاح ہو جاتا ہے۔ جس کو وہ پسند بھی کرتی تھی مگر وہ سوچتی ہے کہ مجھے اس پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ بعد میں اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمایوں بھی اسے پسند کرتا تھا اور اس نے اپنی مرضی سے یہ نکاح کیا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتی ہے۔

ایک سال گزر جاتا ہے، اس دوران فرشتے پی ایچ ڈی کرنے سکاٹ لینڈ چلی جاتی ہے اور فواد بھی آسٹریلیا چلا جاتا ہے۔ محمل کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام تیمور رکھا جاتا ہے۔ محمل اپنی زندگی میں خوش اور قرآن کی تعلیم کو مکمل کر رہی ہوتی ہے۔ پھر اچانک ایک دن اس کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے، چوٹ اس کے سر اور ریڑھ کی ہڈی پر لگتی ہے، وہ کومہ میں چلی جاتی ہے اور سات سال اسی کیفیت میں رہتی ہے۔ ہوش میں آنے پر وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کی دنیا بدل گئی ہے۔

اس کا بیٹا بڑا ہو چکا ہوتا ہے مگر ماں سے متنفر نظر آتا ہے۔ فرشتے واپس آ چکی ہوتی ہے، ہمایوں کے رویے میں بھی سرد مہری آ چکی ہوتی ہے جس سے محمل کو بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اسے خود کو یوں لگتا تھا جیسے وہ صرف ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئی ہو، پھر یہ صدیوں کا فرق کیسے پڑ گیا؟ وہ معذور ہو چکی تھی اور دوسروں کی محتاج بن گئی تھی۔ یہ سب کچھ اس کے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ اللہ کی رضا پر راضی ہو گئی۔

اللہ سے آگے اچھی امید رکھنا ہی صحیح معنوں میں صبر ہے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جب ایمان والوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ”انا للہ و انا الیہ راجعون“ ۔ بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ انہی لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے عنایت اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ مصنفہ نے قرآن کی آیات کے ذریعے ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی ہے کہ دراصل یہ الفاظ ان دو عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن پر جمے بغیر کوئی صبر نہیں کر سکتا۔

انا للہ ( بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں ) ، یہ عقیدۂ توحید ہے۔ و انا الیہ راجعون ( بے شک ہم اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ) ، یہ عقیدۂ آخرت پہ ایمان ہے کہ ہر دکھ اور مصیبت ایک دن ختم ہو جائے گی اور اگر کچھ باقی رہے گا تو وہ آپ کے صبر کا اجر۔ صبر کی آیات کے فوراً بعد وہ صفا، مروہ اور حج کے بارے میں آیات پڑھتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ صفا اور مروہ دراصل ایک عورت کے صبر کی نشانیاں ہیں۔ جب آپ کو بے قصور کسی تپتے صحرا میں چھوڑ دیا جائے اور آپ اس توکل پر کہ اللہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا، صبر کریں تو پھر زم زم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔

محمل کے دل کو قرار آ گیا تھا۔ وہ اپنی زندگی کا موازنہ ماضی کے مسلمانوں سے کرتے ہوئے سوچتی ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں کے حصے میں مکہ کی سختیاں، مدینہ کی ہجرت، بدر کی جیت اور احد کی شکست، طائف کے پتھر، اسرٰی اور معراج کی بلندیاں بھی آتی ہیں اور آخر میں فتح مکہ بھی آتی ہے۔ اس سفر میں کسی کا مکی دور پہلے آتا ہے اور کسی کا مدنی دور پہلے آ جاتا ہے۔ محمل کا مکی دور اب شروع ہو چکا تھا۔ ابھی طائف کے پتھر لگنے تھے۔

مگر وہ جانتی تھی کہ اگر وہ کمزوروں کا رب اس کے ساتھ ہے تو اسے بھی عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ مل جائے گی اور اسے بھی انگوروں کے خوشے مل جائیں گے۔ پس اس نے بھی وہ دعا مانگی جو نبی اکرمﷺ نے طائف میں پڑھی تھی۔ وہ ہاسپٹل سے گھر آ گئی۔ اس کا بیٹا اور شوہر اس کے نہ رہے، وہ سخت غمگین تھی اور قرآن کے مطالعہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھتی۔ فرشتے سکاٹ لینڈ سے واپس آ چکی تھی اور بظاہر اس کا خیال بھی رکھتی تھی۔

محمل نے صبر کا دامن تھام لیا اور رب کی رضا میں خود کو راضی کر لیا۔ ایک دن قرآن کھولا تو اسے یہ آیت نظر آئی، ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار محسوس ہوں“ ( سورۃ مائدہ) ۔ وہ چکرا کر رہ گئی، پھر اس نے سوچنا چھوڑ دیا۔ ایک دن ہمایوں اس کو طلاق دینے کی بات کرتا ہے، وہ اللہ سے دعا کرتی ہے کہ ”میرے مالک! تو جس حال میں رکھے میں اس پر راضی، مجھے کوئی امید کا سرا دکھا دے، کوئی روشنی دکھا دے،“ ۔

بالآخر ایک دن ہمایوں نے اس کو طلاق دے دی اور عدت کا وقت اسے اسی گھر میں گزارنے کی اجازت دے دی۔ وہ شدت غم سے رو رہی تھی مگر قرآن نے تسلی دی، ”آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو“ ۔ وہ چپکے چپکے روتی رہی اور ”یا رب المستضعفین“ ( اے کمزوروں کے رب) کا ورد کرتی رہی۔ انہی دنوں وہ جب سورۃ کہف کی تلاوت کرتی تو اس کا بیٹا تیمور اس کی طرف کھنچا چلا آتا۔ وہ اسے پیار کرتی، اس طرح ماں بیٹے کے درمیان کی دوری آہستہ آہستہ دوستی میں بدلنے لگی۔ اور بیٹے کی محبت اس کے زخموں پر مرہم کا کام کرنے لگی۔ تیمور نے اسے بتایا کہ اس کا باپ فرشتے سے شادی کرنا چاہتا ہے، یہ سن کر وہ ششدر رہ گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments