پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کا تلخ ماضی


سید یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر کیے جانے کے بعد پی ڈی ایم میں دراڑیں واضح طور پر نظر آ رہی ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی بیانات کی حد تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا، اس سے پہلے دونوں جماعتوں کے لیڈران ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف رہے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے سیاسی تعلقات کو سمجھنے کے لئے ان دونوں جماعتوں کے سربراہان یعنی شریف اور بھٹو خاندان کے ماضی میں کیا آپس سیاسی تعلقات رہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔

یہ غالباً ستر کی دہائی کی بات ہے ، لاہور میں ایک الیکشن ہو رہا تھا ، جس پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو حصہ لے رہے تھے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے فرزند جناب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال ان ( بھٹو ) کے مدمقابل تھے۔ میاں نواز شریف کے والد میاں شریف نے اس الیکشن میں اس وقت بھٹو کی بجائے فرزند اقبال جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو سپورٹ کیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال یہ الیکشن ہار گئے اور بھٹو جیت گئے۔

بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ شریف خاندان کی اتفاق فاؤنڈری بھی قومیا لی گئی جس کی وجہ سے شریف خاندان کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں ضیاءالحق نے مارشل لاء لگایا۔ بھٹو کو ضیاءالحق کے دور میں ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ یہ وہی ضیاءالحق تھے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نواز شریف کو لے کر آئے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز یا شریف فیملی کو لانے والے یا والوں نے بھٹو کو پھانسی دی۔

ضیاءالحق ایک طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے تو مارشل لاء کا خاتمہ ہوا۔ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد 90 کی دہائی میں دونوں خاندانوں کی سیاسی لڑائی جاری رہی۔ دونوں 90 کی دہائی میں بھی ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگانے اور ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے میں مصروف عمل رہے۔ اسی زمانے میں نواز شریف نے آصف زرداری پر کرپشن کے مقدمات بنوائے جس کی وجہ سے انہیں جیل جانا پڑا۔ بعد ازاں ( 90 کی دہائی کے آخر میں ) جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا۔

نواز شریف پابند سلاسل ہونے کے بعد ایک مبینہ ڈیل کے ذریعے ملک سے باہر گئے تو دونوں جماعتوں نے مارشل لاء کے خاتمے اور ملک میں جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے کی خاطر ایک معاہدہ کیا جسے چارٹر آف ڈیموکریسی کا نام دیا گیا۔ بے نظیر پاکستان آئیں اور انہیں ایک بم حملے میں شہید کر دیا گیا۔ 2008 کا الیکشن ہوا اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ شروع میں نون لیگ ان کی اتحادی جماعت تھی لیکن بعد میں انہوں نے راہیں علیحدہ کر لیں۔

میمو گیٹ سکینڈل میں نواز شریف اس وقت کے پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت چلے گئے۔ یعنی اس دوران بھی ان دونوں جماعتوں کے درمیان کہیں نہ کہیں سیاسی کشمکش جاری رہی۔ بعد ازاں 2018 کا الیکشن میں نون لیگ برسر اقتدار آئی تو اس پر دھاندلی کے ذریعے الیکشن جیتنے کا الزام لگا تو اس وقت اپوزیشن کی ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ان کے خلاف دھرنا دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود نون لیگ کا ساتھ دیا۔

ان کی یہ خواہش رہی کہ کسی بھی طرح جمہوریت ڈی ریل نہ ہو لیکن بعد میں جب اسی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے نون لیگ کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی یہاں تک کہ انہیں مودی کا یار تک کہا جاتا رہا۔ نواز شریف کے اس دور حکومت میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی پر مقدمات بنائے گئے جن میں آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کے نام آئے۔ 2017 میں پانامہ پیپر کے انکشافات کے بعد جب عمران خان نواز شریف کے خلاف کھڑے تھے ، تب پاکستان پیپلز پارٹی بھی نواز شریف اور ان کے خلاف تھی۔

2018 کے سینیٹ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے نواز شریف یا نون لیگ کو نہیں بلکہ تحریک انصاف کو سپورٹ کیا تھا۔ اس سے قبل بلوچستان میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے میں آصف زرداری اپنا کارڈ استعمال کر چکے تھے۔ 2018 میں جب عمران خان کی حکومت بنی تو ماضی کے حریف ایک بار پھر حلیف بنے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود سیاسی اتحاد کیا لیکن اب یہ اتحاد خطرے سے دوچار ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمان کے اندر جب کے نون لیگ پارلیمان سے باہر سیاسی لڑائی لڑنا چاہتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ان دونوں جماعتوں کا اتحاد ایک غیر فطری اتحاد تھا کیونکہ ماضی میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگانے اور ایک دوسرے کی حکومتوں کو کمزور کرنے میں پیش پیش رہی ہیں تو ایسے میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ان کے درمیان کوئی مثالی اتحاد ہو گا۔ کل تک وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹیڈ کہنے والے آج ایک دوسرے کو سلیکٹیڈ کہ کر معاملات کو ایسے موڑ پر لے گئے ہیں کہ شاید واپسی ممکن نہ ہو لیکن سیاست میں کوئی بھی چیز خارج از امکان نہیں ہوتی۔ ہو سکتا دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں۔

بہر حال اب دونوں جماعتوں کا ماضی ہم سب کے سامنے ہے کہ ماضی میں کیسے دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتی رہیں اور دونوں ایک دوسرے کی حکومتوں کی کمزور کرتی رہیں ، لیکن آج اپنی سیاست کے لئے کبھی ایک اتحاد میں ہیں تو کبھی نہیں۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کا مستقبل یا آپس میں تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی، اس بات کا علم چند دنوں میں ہی سب کو ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments