پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا افغانستان میں اثر و رسوخ کیوں کم ہوا؟


سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور افغانستان کے سابق وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار (فائل فوٹو)
 

کراچی — پاکستان کی مذہبی جماعتیں خصوصاً جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑے ماضی میں افغانستان کے معاملات میں کافی اثر و نفوس رکھتے تھے مگر پاک افغان امور کے ماہرین کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کی ان جماعتوں کا افغانستان میں کردار نہ رہنے کے برابر رہ گیا ہے۔

گزشتہ ماہ کے وسط میں جماعتِ اسلامی کی دعوت پر حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار پاکستان کے دورے پر تھے۔

افغانستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے گلبدین حکمت یار نے اپنے وفد کے ہمراہ لاہور میں قائم جماعت اسلامی کے مرکز کا دورہ کیا اور جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت پارٹی کے اکابرین سے ملاقاتیں کیں۔

جماعتِ اسلامی کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان دونوں ممالک کی سیاسی صورتِ حال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق سے افغان رہنما گلبدین حکمت یار کی ملاقات
امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق سے افغان رہنما گلبدین حکمت یار کی ملاقات

جماعتِ اسلامی کی قیادت نے حزبِ اسلامی اور افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کی گئی کوششوں کی حمایت کی ہے اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ جماعتِ اسلامی اور حزبِ اسلامی افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک ہی پیچ پر ہیں۔

پاکستان کی مذہبی جماعتیں اور افغانستان

پاک افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی مذہبی جماعتیں افغانستان میں اپنا اثر و نفوس رکھتی تھیں جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

جامعہ کراچی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر فضا بتول نے حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی میں قائم اسٹمسن سینٹر کی فیلو شپ کے دوران پاکستان کی مذہبی اور پشتون قوم پرست جماعتوں کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے تحقیق کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف افغان گروہوں کی مزاحمت کے دوران ہی پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے افغانستان کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔

اُن کے بقول “پاکستان کی مذہبی اور پشتون قوم پرست جماعتوں کا افغانستان کے معاملات میں اہم کردار رہا ہے جس کی وجہ ان کا افغانستان کے سیاسی گروہوں اور افراد کے ساتھ کئی برسوں پر محیط تعلق ہے۔”

فضا بتول کا کہنا ہے کہ افغان جہادی اور سیاسی گروہوں کے بننے والے ‘پشاور سیون’ اتحاد کے بعد پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا افغانستان میں اثر و نفوس بڑھنا شروع ہوا۔

‘پشاور سیون’ دراصل پاکستانی ریاست کی حمایت سے پشاور میں 1988 میں افغانستان میں فعال سنی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے سات جہادی اور سیاسی گروہوں کے بننے والے اتحاد کا نام تھا جنہیں اسلامی اتحاد بھی کہا جاتا تھا۔

ان گروہوں میں گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی، مولوی یونس خالص کی حزبِ اسلامی، برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی افغانستان، احمد شاہ مسعود کی شوریٰ نظر، عبدالرسول سیاف کی اتحادِ اسلامی، احمد گیلانی کی محاذ ملی اسلامی، صبغت اللہ مجددی کی جبی نجات ملی اور مولانا محمد نبی محمدی کی حرکتِ انقلابی اسلامی شامل تھے۔

جماعتِ اسلامی اور افغانستان

اسی اور نوے کی دہائی میں افغانستان کے معاملات میں اہم کردار ادا کرنے والی جماعتِ اسلامی کا موجودہ افغانستان میں کردار انتہائی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات کے استاد اور نام ور محقق ولی نصر جماعتِ اسلامی پاکستان پر اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ “افغانستان کے معاملات میں جماعتِ اسلامی کی دلچسپی 1970 کی دہائی میں داؤد خان کی بادشاہت کے خاتمے اور کمیونسٹ رہنما نور محمد ترکئی کی بغاوت کے بعد بڑھی۔”

ان کے بقول جب داؤد خان نے پاکستان میں پختون قوم پرستوں کی حمایت شروع کی تو پاکستان نے جواب میں افغانستان میں جماعتِ اسلامی کے ذریعے اسلام پسند مزاحمتی گروہوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی۔”

ان کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کی حکومتوں نے جماعتِ اسلامی کی اس وقت کی قیادت خصوصاً قاضی حسین احمد کو بھی دعوت دی تھی تاکہ وہ ملک کی افغان پالیسی تشکیل دینے میں ان کی مدد کریں۔

ولی نصر لکھتے ہیں کہ 1980 سے 1990 تک کے عرصے کے دوران جماعتِ اسلامی کے لگ بھگ 72 طلبہ رہنما افغانستان میں سوویت فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے اور ان میں جماعتِ اسلامی کے سینئر رہنماؤں کے بیٹے بھی شامل تھے۔

اسلام آباد میں مقیم پاک افغان امور کے ماہر سینئر صحافی طاہر خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کا 80 اور 90 کی دہائی میں افغانستان میں کلیدی کردار تھا۔

اُن کے بقول “جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کے افغانستان کے جہادی رہنماؤں کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے۔ جنگ کے نتیجے میں جب پناہ گزین لاکھوں کی تعداد میں پاکستان آئے تو جماعتِ اسلامی نے ان کے کیمپوں میں ان کی فلاح وبہبود کے لیے منصوبے بھی شروع کیے۔

طاہر خان کے بقول “ایک جانب جماعتِ اسلامی کا یہ کردار بھی افغان طالبان کی تشکیل کے بعد ختم ہوتا گیا تو دوسری جانب 80 اور 90 کی دہائی کے رہنما بشمول گلبدین حکمت یار کا گروہ حزبِ اسلامی بھی اُس طرح مضبوط نہ رہ سکا۔”

فروری 2014 میں افغانستان کے اس وقت کے وزیرِ خارجہ صلاح الدین ربانی نے امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق کو ٹیلی فون کر کے دورۂ افغانستان کی دعوت دی تھی مگر یہ دورہ نہیں ہو سکا تھا۔

افغان طالبان اور جماعتِ اسلامی

ماہرین کا کہنا ہے کہ 1996 میں افغان طالبان کی جانب سے کابل میں حکومت تشکیل دینے کے بعد جماعتِ اسلامی کا کردار اختتام پذیر ہو گیا تھا اور اس کی جگہ دیو بندی مکتبۂ فکر کی پاکستانی مذہبی جماعتوں خصوصاً جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں (فضل الرحمن اور سمیع الحق) نے لے لی تھی۔

اگرچہ جماعتِ اسلامی نے افغان طالبان کی اخلاقی مدد کی اور افغانستان میں جنگ کی مخالفت کی، لیکن اس نے افغانستان میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحاد کے خلاف جنگ لڑنے والوں سے اپنا فاصلہ برقرار رکھا۔

جے یو آئی اور افغانستان

افغانستان کے جنوبی صوبے جہاں پشتون آباد ہیں، کے غیر منقسم ہندوستان کے وقت ہی سے دیو بندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں سے قریبی روابط تھے اور وہ ہندوستان کے مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی آتے رہتے تھے۔

پاکستان میں فعال دیو بندی مکتبۂ فکر کی اہم جماعت جے یو آئی کے دونوں دھڑوں سے افغانستان کے سنی جہادی گروہوں اور بعد میں افغان طالبان کے روابط جاری رہے۔

البتہ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی (ف) سے وابستہ کراچی کے ایک مذہبی رہنما کا کہنا ہے کہ شروع ہی سے جے یو آئی (ف) میں افغان جنگ یا افغان طالبان کے حوالے سے دو آرا پائی جاتی ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “جے یو آئی (ف) کے ایک حلقے کا دعویٰ یے کہ افغان جہاد کے بانی یا محرک ان ہی کی جماعت ہے۔ کیوں کہ پارٹی کے مرکزی رہنما مفتی محمود (مولانا فضل الرحمٰن کے والد) نے جہاد کا فتویٰ دیا جب کہ دوسرے حلقے کا نکتۂ نظر یہ تھا کہ یہ افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے جس میں جماعت کو ملوث نہیں ہونا چاہیے۔”

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان سے قبل جے یو آئی کے رہنما و کارکن افغانستان میں دیو بندی نظریات کے حامل افراد یا جہادی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرتے رہتے تھے۔

اُن کے بقول “ان گروہوں میں سب سے قریبی تعلق جلال الدین حقانی اور کمانڈر ارسلان رحمانی سے رہا جو 1992 میں کراچی کے نشتر پارک میں جے یو آئی (ف) سندھ کے جلسے میں بھی شریک ہوئے تھے۔”

ان کا کہنا ہے کہ جے یو آئی سے وابستہ افراد کے افغانستان کے دیگر جہادی و سیاسی گروہوں کے رہنماؤں احمد شاہ مسعود، برہان الدین ربانی اور محمد نبی محمدی کے ساتھ بھی روابط تھے۔

اپریل 2001 میں جے یو آئی کے تحت نوشہرہ میں منعقدہ عالمی دیو بند کانفرنس میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کو بھی دعوت دی گئی تھی جس پر طالبان کے وزیرِ اعظم کے طور معروف ملا محمد ربانی کی قیادت میں طالبان وفد نے شرکت کی تھی اور ملا عمر کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا تھا۔

جے یو آئی (ف) میں طالبان مسئلے پر اختلاف

جے یو آئی (ف) نے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے پلیٹ فارم سے 2002 کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ چند ہی برسوں میں جے یو آئی (ف) نے افغانستان کے معاملات اور طالبان کی حمایت کے بجائے پاکستان میں پارلیمانی سیاست پر اپنی توجہ مرکوز کر لی تھی۔

افغانستان کے اس وقت کے صدر حامد کرزئی کی دعوت پر 2013 میں مولانا فضل الرحمٰن نے کابل کا دورہ بھی کیا تھا جو 90 کی دہائی کے اواخر کے بعد ان کا افغانستان کا پہلا دورہ تھا۔

البتہ جے یو آئی (ف) کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبۂ بلوچستان کے پشتون اضلاع میں جماعت کے اندر ہی افغان طالبان کی حمایت اور مخالفت کے معاملے پر دھڑے بندی تھی۔

جے یو آئی (ف) کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالغنی افغان طالبان کے سرپرست سمجھے جاتے تھے اور ان کا افغان طالبان کے حلقوں میں بے حد احترام تھا۔

جے یو آئی (ف) سے وابستہ مذہبی رہنما کے مطابق “مولانا عبدالغنی کے کہنے پر افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی دعوت پر مولانا فضل الرحمٰن نے طالبان کے دورِ حکومت میں افغانستان کا دورہ کیا تھا اور انہیں بھرپور پروٹوکول دیا گیا تھا۔”

اکتوبر 2011 میں مولانا عبدالغنی چمن کے علاقے میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوئے تو افغان طالبان کا ایک وفد جنازے میں بھی شریک ہوا۔

دوسری جانب اس وقت جے یو آئی (ف) بلوچستان کے امیر مولانا محمد خان شیرانی اور ان کے ہم خیال رہنما شروع سے لے کر آج تک افغان جنگ میں جے یو آئی کے کردار کے خلاف رہے اور کھل کر طالبان کی مخالفت کرتے رہے۔

افغان طالبان کے خلاف سخت گیر مؤقف پر مولانا محمد خان شیرانی پر متعدد مرتبہ قاتلانہ حملے بھی ہوئے جب کہ 2004 میں ایک حملے کے بعد انہوں نے افغان طالبان کے کمانڈر ملا داد اللہ پر الزام بھی عائد کیا تھا۔

مولانا شیرانی کی افغان طالبان کی مخالفت کے سبب بلوچستان کے طالبان حامی رہنماؤں نے جے یو آئی (نظریاتی) نامی دھڑا تشکیل دیا اور 2008 کے انتخابات میں کئی نشستیں بھی حاصل کیں۔

خیال رہے کہ جے یو آئی (نظریاتی) دھڑا حال ہی میں دوبارہ جے یو آئی (ف) میں شامل ہوا ہے جب کہ مولانا شیرانی کو کچھ عرصہ قبل مرکزی قیادت نے پارٹی سے نکال دیا تھا۔

جے یو آئی (سمیع الحق گروپ) اور افغان طالبان

خیبرپختونخوا کے شہر نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے تعلق کی وجہ سے مولانا سمیع الحق افغان جہاد کے پر زور حامی اور بعد میں طالبان کی سرپرستی کرتے رہے۔ افغان طالبان کے متعدد رہنما اور کمانڈرز دارالعلوم حقانیہ کے فاضل یا پڑھے ہوئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان طالبان نے افغانستان میں جب اپنی حکومت تشکیل دی تو کابینہ کے آٹھ وزرا دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل تھے جب کہ کئی طلبہ، طالبان دورِ حکومت میں مختلف صوبوں کے گورنر، شریعہ عدالتوں کے جج اور کمانڈرز کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

افغانستان کی پاکستانی مذہبی جماعتوں کے بارے میں سوچ

افغانستان کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مذہبی اور پشتون قوم پرست جماعتیں افغانستان میں عوامی سطح پر غیر مقبول ہیں۔

کابل میں مقیم سیاسی تجزیہ کار احمد خان نورزئی کا کہنا ہے کہ 80 اور 90 کی دہائی کے حالات سے واقف افغان عوام پاکستان کی مذہبی جماعتوں خصوصاً جماعتِ اسلامی اور جے یو آئی (ف) کے کردار کی سخت ناقد ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں افغان حکومت کی دعوت پر پاکستان کی پشتون قوم پرست جماعتوں کے رہنما کابل کا دورہ کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں افغان حکومت کی دعوت پر پاکستان کی پشتون قوم پرست جماعتوں کے رہنما کابل کا دورہ کرتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “افغانستان کے پشتون اکثریتی صوبوں میں مذہبی رجحانات کے سبب پاکستان میں دیو بندی مکتبۂ فکر کے مدارس کی وجہ سے جے یو آئی (ف) کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔

احمد خان نورزئی کے مطابق گزشتہ 25 برسوں سے افغانستان میں غیر اہم سمجھی جانے والی جماعتِ اسلامی گلبدین حکمت یار جیسے غیر مقبول افغان رہنماؤں کو پاکستان میں دعوت دے کر افغان امور میں اپنی اہمیت بڑھانا چاہتی ہے۔”

ان کے بقول، “ایک طرف آج کا افغانستان 80 اور 90 کی دہائی کے افغانستان سے بالکل مختلف ہے جس کی نوجوان نسل افغان طالبان اور ماضی کے جہادی کرداروں کے شدید مخالف ہے جب کہ ڈیورنڈ لائن کے پار پاکستان کی مذہبی جماعتیں خود اپنے ملک میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔“

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے افغان حکومت کی دعوت پر پاکستان کی پختون قوم پرست جماعتوں خصوصا عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور پختون تحفظ موومنٹ کے رہنما باقاعدگی سے کابل آتے جاتے رہے ہیں مگر مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو کابل مدعو نہیں کیا جاتا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments