باپردہ بیوی کے شوہر پاکستانی وزیراعظم کا ریپ پر موقف اور متضاد آراء


کچھ عالمی اعداد و شمار سے دیکھیں کیا یورپی ممالک میں قانون سخت نہیں۔

جنسی زیادتی ہمیشہ متاثرین کے لئے صدمے کا باعث ہوتی ہے لیکن اس کے پیچھے محرکات مختلف ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عصمت دری کا رویہ ذہنی خرابی کا سبب نہیں ہے، بلکہ مجرمانہ جرم ہے۔ دیگر یورپی ممالک میں عوام کے سامنے اسلامی طرز پر پردے کرنا ایک متنازع موضوع رہا ہے۔ فرانس نے 2011 میں عوام کے سامنے پورے چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ نیدرلینڈ، ڈنمارک، آسٹریا اور بلغاریہ نے عوام میں چہرے کے پردے پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کر دی تھی۔

بشمول تیونس، آسٹریا، ڈنمارک، فرانس، بیلجیئم، تاجکستان، لٹویا، بلغاریہ، کیمرون، چاڈ، کانگو، برازیل، گبون، نیدرلینڈ، چین، مراکش اور سؤٹزر لینڈ فی الوقت ایسی 16 اقوام موجود ہیں جنہوں نے برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ سری لنکا کا ’برقعہ بین‘ قومی سلامتی سے زیادہ اسلاموفوبیا کے بارے میں ہے، درحقیقت یہ اقدام سری لنکا کی چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

ورلڈ پاپولیشن ریویو ڈیٹا کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 35 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں جنسی ہراسانی کا سامنا رہا ہے۔ تاہم، کچھ اسٹڈیز کے مطابق اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 70 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں جیون ساتھی کے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا رہا ہے۔ عصمت دری کے حوالے سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، بیشتر ممالک میں 40 فیصد سے بھی کم خواتین ایسی ہیں جنہیں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ کوئی مدد لیتی ہیں اور ان میں سے 10 فیصد سے بھی کم ایسی خواتین ہیں جو کہ قانون سے مدد لیتی ہیں۔

دس ممالک ایسے جن میں زیادتی کی شرح سب سے زیادہ ہے ، ان میں پہلے نمبر پر جنوبی افریقہ ہے جو 132.4 کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ زیادتی کی شرح رکھنے والا ملک ہے۔ ایک جائزے کے مطابق، میڈیکل ریسرچ کونسل برائے جنوبی افریقہ کے مرتب کردہ سروے میں شامل افراد میں سے ہر چار میں سے ایک مرد نے عصمت دری کا ارتکاب کیا ہوا تھا۔ اس فہرست میں 92.90 کی شرح کے ساتھ دوسرا نمبر بوٹسوانا کا ہے ، لیسوتھو 82.70 کی شرح کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

چوتھے نمبر پر سوازی لینڈ ہے جہاں زیادتی کی شرح 77.50 ہے۔ اس فہرست میں برمودا پانچویں، سویڈن چھٹے، سرینام ساتویں، کوسٹا ریکا آٹھویں، نکارا گوا نویں اور گرینیڈا دسویں نمبر پر ہے۔ ان تمام ’ٹاپ ٹین‘ ممالک میں کوئی بھی مسلمان ملک شامل نہیں تھا، لیکن کچھ ایسے مسلمان ممالک بھی ہیں جن میں عصمت دری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں کل آبادی کے لحاظ سے ایک لاکھ افراد میں سے 11,682 کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کی مقامی تنظیم کے مطابق، جنوری اور ستمبر 2020 کے درمیان بنگلہ دیش میں کم سے کم 975 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 208 کیس اجتماعی زیادتی کے تھے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو ڈیٹا کے اعداد و شمار کے مطابق، 2020ء تک بھارت میں ہر ایک لاکھ شہریوں میں سے عصمت دری کے واقعات کی تعداد 22 ہزار 172 ہے۔ سال 2019ء میں بھارت میں روزانہ اوسطاً زیادتی کے 87 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ ایک مقامی این جی او نے پاکستان میں 2018ء کے دوران بچوں سے زیادتی کے 3,832 واقعات رپورٹ کیے جو کہ سال 2017ء سے 11 فیصد زائد ہیں۔

رپورٹ کے مطابق چین میں ازدواجی تعلقات کی حامل تقریباً چالیس فیصد خواتین کو جسمانی یا جنسی تشدد سہنا پڑتا ہے۔ جاپان میں 2020ء میں ایک لاکھ افراد میں سے 1,289 شہریوں میں عصمت دری کے واقعات کی رپورٹ ہوئے۔ سال 2017ء میں امریکا میں 12 یا اس سے زیادہ عمر کے ایک ہزار افراد میں سے 1.4 کے ساتھ عصمت دری یا جنسی زیادتی کے رپورٹ ہوئے جو سال 2018ء میں دگنے اضافے کے بعد بڑھ کر 2.7 ہو گئے۔ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں 7 لاکھ 34 ہزار 630 افراد کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکا میں ہونے والے واقعات میں سے 70 فیصد زیادتی کا ارتکاب کسی ایسے شخص کی جانب سے ہوتا ہے، جس کا شکار افراد اسے جانتے ہیں۔ سال 2019ء میں روس میں لگ بھگ 3.2 ہزار ریپ کی وارداتوں کے جرائم کا اندراج کیا گیا تھا۔

ایک باپردہ اور نیک بیوی کے شوہر اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے ریپ کے حوالے سے موقف پر ایک شور مچا ہوا ہے اور بعض حلقے ان سے بیان واپس لینے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عورت مارچ کی طرح عمران خان کے بیان پر بھی دو مختلف آراء سامنے آئی ہیں، ایک تو آزاد خیال معاشرے کی ان خواتین کا شور و غوغا ہے جنہیں یہ ڈر ہے کہ انہیں پردہ نہ کرنا پڑ جائے، دوسری جانب اس بیان کو حقیقت سے قریب تر نظریات رکھنے والے افراد کھلی حقیقت قرار دیتے ہیں کہ درحقیقت عورت کے تحفظ کے لئے اسلام میں پردے کا حکم دیا گیا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ بچوں کے خلاف بدکاری یا ریپ کے لئے میں صرف ایک چیز کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح کرپشن صرف قانون بنانے سے ختم نہیں ہوتی اسی طرح یہ بھی محض قانون سے ختم نہیں ہو گا، ہم نے ریپ آرڈیننس کا قانون بڑا سخت بنایا ہے لیکن قانون تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس پر پورا معاشرہ مل کر لڑے گا تو ہی اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، کئی جنگیں معاشرہ جیتتا ہے، قانون آپ بنا لیں ،اگر لوگ اس پر عمل ہی نہ کریں تو کتنے لوگوں کو آپ پکڑ لیں گے، معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ آپ جس معاشرے کے اندر بھی فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کا کوئی تو اثر ہو گا، ہمارے دین میں کیوں اسے منع کیا ہوا ہے، یہ سارا جو پردے کا تصور ہے یہ کیا ہے کہ معاشرے میں ٹیمپٹیشن نہ ہو۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ جب میں پہلی دفعہ اٹھارہ سال کی عمر میں برطانیہ گیا تو وہ معاشرہ بھی ایسا نہیں تھا جو بعد میں بن گیا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جیسے جیسے فحاشی بڑھتی گئی معاشرہ تباہ ہوتا گیا، پہلے صرف بالغوں کے لئے فلمیں بنتی تھیں پھر وہ مواد عام پھیلنا شروع ہو گیا پھر وہ میڈیا پر آنا شروع ہو گیا، اس کا براہ راست اثر ان کے فیملی سسٹم پر پڑا، جب میں برطانیہ گیا تھا تو وہاں سترہ شادیوں میں سے کسی ایک کی طلاق ہوتی تھی، آج وہاں طلاق کی شرح ستر فیصد تک ہو گئی ہے اور مزید بڑھتی جا رہی ہے۔

ہندستان میں بالی ووڈ نے جب ہالی ووڈ کو اپنانا شروع کیا وہاں بھی یہی حالات ہو گئے، دلی کو ریپ کیپیٹل کہا جاتا ہے۔ معاشرے کو ایک فیصلہ کرنا ہے، کئی چیزیں تو ہم روک نہیں سکتے، کئی فلمیں باہر سے آتی ہیں، ٹی وی، میڈیا پر سب دستیاب ہے، پہلے جس طرح بھارت کی فلمیں ہوتی تھی جو ہمیں یاد ہیں اور وہ آہستہ آہستہ ایک نئے رنگ میں ڈھل کر جو مختلف انداز میں اختیار کر گئی ہیں اس کا کوئی تو اثر ہو گا۔

ہمارے دین میں جو کہا گیا ہے، جو پردے کا تصور ہے، اس کا کوئی فلسفہ تھا، اس کا فلسفہ ہے فیملی سسٹم بچانا اور اپنے معاشرے کو ان چیزوں سے تحفظ فراہم کرنا، بطور معاشرہ ہمارے فلم میکرز اور ٹی وی پر موجود بااثر افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، بچوں کو سب سے بڑا نقصان اس وقت موبائل فون پہنچا رہا ہے۔ ان بچوں کو موبائل فون پر وہ مواد اب باآسانی دستیاب ہے جو کبھی انسانی تاریخ میں نہیں تھا، اس کے لئے ہمیں اجتماعی موقف اختیار کرنا ہو گا۔

معروف تجزیہ کار اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سو فیصد درست بات کی ہے ، انہوں نے اس معاشرے میں زندگی گزاری ہوئی ہے، ان کو پتہ ہے کہ معاشرہ کیا ہے ، وہ اس معاشرے کا ’ہارٹ تھروب‘ رہا ہے جس کے سامنے اس معاشرے کی عورتیں اس طرح طواف کرتی رہیں جس طرح مکھیاں طواف کرتی رہیں۔ وہ شخص جب یہ کہتا ہے کہ میں نے اس معاشرے کو دیکھا ہے تو وہ ان سارے لوگوں کے منہ پہ طمانچہ مارتا ہے۔

ٹی چینلز پر مباحثے جاری ہیں کہ ریپ کو روکنا تو گورنمنٹ کا کام ہے ، یہ کوئی معاشرے کا کام ہے، یعنی ہم ہیروئن پیئیں گے، شراب پیئیں گے، جوا کھیلیں گے، معاشرہ کچھ نہیں کرے گا ، بس ریپ کو روکو، 1920ء کے بعد سے یہ عمل شروع ہوا ہے کہ جب بچاری عورت کو گھر سے اٹھا کر بازار کی زینت بنا دیا گیا کیونکہ اس وقت دو تین چیزوں کی بہت ضرورت تھی، ایک تو فیشن انڈسٹری، جس کا سائز ایک ہزار پانچ سو ارب ڈالر ہے۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ حجاب ایک مذہبی ایشو ہے سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔ پردہ بنیادی طور پہ معاشی ایشو ہے، خاندانی زندگی بنیادی طور پہ معاشی ایشو ہے۔ 2019ء میں صرف انڈیا کے اندر چار لاکھ عورتوں کا ریپ کیا گیا، امریکا کے ریپ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک تہائی عورتیں یہ بتاتی ہیں کہ انہیں ریپ کیا گیا ہے باقی تو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا اور وہاں ہر دوسرے منٹ پر ایک عورت کا ریپ کیا جاتا ہے، کیا وہاں قانون سخت نہیں ہے ، مسئلہ کیا ہے، یہ معاشرہ۔

آپ نے قانون سخت بنا دیا کہ ہم انیس سال سے کم عمر بچیوں کی شادی نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے کہا ٹھیک ہے بناؤ قانون، جہنم میں جاؤ سارے کے سارے سوشل ایکٹیوسٹس، امریکا میں دس لاکھ سے زائد انیس سال سے کم عمر کی عورتیں بغیر شادی کے مائیں بنتی ہیں۔ اسلام میں بنیادی اصول تھا کہ بندے کی ضروریات کے تحت شادی کر دی جائے۔

ایک اہم چیز جس پر کوئی بات نہیں کرتا کہ ’ماڈرن ڈے ہیومن سلیوری‘ اس وقت عورتوں کی ہے۔ دنیا کے بازاروں کے اندر اس وقت ایک کروڑ کے قریب ایسی عورتیں ہیں جو مختلف جگہوں سے اسمگل کر کے لائی گئی ہیں اور یہ مساج پارلر وغیرہ جیسے بزنس کا حصہ ہیں، یورپی پارلیمنٹ کی ایک ناروے کی رکن کا کہنا تھا کہ فلپائن، بینکاک، بنگلہ دیش، چائنا جیسے ممالک سے اٹھا کر عورتوں، لڑکیوں کو لایا جاتا ہے، جو گھروں میں بڑے بڑے کتوں کی نگرانی میں قید ہوتی ہیں کہ جب وہ باہر نکلیں تو وہ کتے انہیں کاٹ ڈالیں، ان کے لئے موٹے مسٹنڈے پہلوان رکھے گئے ہوتے ہیں جو سارا دن انہیں باہر نکلنے نہیں دیتے اور رات کے وقت وہ اس بازار کی زینت بنتی ہیں، ایمسٹرڈم کا ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ جیسا بازار کس لیے کھولا گیا ہے ، اسے قانون کی آزادی کس لئے دی گئی ہے ،  جنسی جرائم کا آغاز تب سے شروع ہوا جب سے تعلیمی نظام میں اختلاط کو بڑھا گیا ہے۔

شرم و حیا عورت کا بنیادی زیور ہے۔ امریکا جس معاشرے میں گیا اسے بروتھل بنا کے چھوڑا، فلپائن میں ایک پوری یونٹ تھی جس کے لئے بارہ سے سولہ سال کی لڑکیاں لائی جاتی تھیں، بینکاک میں چھ لاکھ سے زائد سیکس ورکرز ہیں جنہیں یہ سیکس ورکر کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں معاشرے میں عزت دو، وہ بے چاری اگر دس ڈالر لیتی ہے تو صبح اٹھتی ہے، پیزا کھائے برگر کھائے پیسہ وہاں پہ خرچ، لپ اسٹک خریدے گی پیسہ وہاں پہ خرچ، نائیکی کا شوز لے گی پیسہ وہاں پہ خرچ، جینز لے گی پیسہ وہاں پہ خرچ، آخر میں وہ عورت صرف تھکن لے کر واپس اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ یہ ہے اس عورت کا المیہ۔

سائیکالوجسٹس کے خیال میں اسٹیمولائز بنیادی طور پر سب سے اہم عنصر ہوتا ہے جس سے ریپ کرنے والا جنسی ہیجان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک غیر ملکی خاتون کو کسی پاگل خانے کا دورہ کرنا تھا اور وہ سرخ رنگ کا لباس زیب تن کر کے آ گئیں تو ڈاکٹرز نے انہیں روکا کہ آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے، یہ تیز بھڑکیلا رنگ ان ذہنی مریضوں میں ایک ہیجان برپا کر دے گا اور آپ کو خطرہ لاحق ہو گا، انہیں لباس بدلوا کر دورہ کروایا گیا۔

لندن کے میئر صادق خان کا کہنا ہے کہ عورتیں جو چاہیں پہنیں ، اس کی انہیں مکمل آزادی ہونا چاہیے۔ عورتوں کو بدلنے کی ضرورت نہیں مردوں کو اپنا طرز عمل بدلنا ہو گا۔ بہرحال یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ یورپ اور امریکا میں کئی مقامات آج بھی ایسے ہیں جہاں کسی لباس کو زیب تن کر کے جانے کی قطعی ممانعت ہے اور وہ اس معاشرے کا حسن ہے کہ جہاں بے لباس انسان کو آزادی کے ساتھ کیٹ واک، فیشن شو، اور پارٹیوں میں شرکت کی مکمل اجازت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments