سلیم صافی کو ماں کی دعائیں راس آئیں


سلیم صافی کا تعلق مہمند قبیلے کی ذیلی شاخ ملا گوری سے ہے۔ وہ 7 مارچ 1968 ء کو مردان میں پیدا ہوئے۔ وہ تیسری جماعت میں تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور دوسری سماجی ذمہ داریاں ماں کے کندھوں پر آ پڑیں۔ ماں نے یہ ذمہ داریاں ایسے احسن طریقے سے نبھائیں جو سلیم صافی کی پیشہ ورانہ کامیابیوں، کھرے اور کوٹے کی تمیز، اپنی قوم اور علاقے سے محبت اور اس کے لیے آواز اٹھانے میں صاف نظر آتی ہیں۔

مردان کے ہائی اسکول سے میٹرک اور مردان کالج سی ایف اے کیا۔ پشاور یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے افغان جہاد میں حصہ لیا۔ یہ بھی ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ وہ نہ صرف معجزانہ طور پر موت کے چنگل سے بچ نکلے بلکہ ان کی سوچ بھی تبدیل ہوئی اور انہوں نے جہادی فلسفے سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور بحالی کے بعد اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک کامیاب انسان کے طور پر قومی افق پر ابھرے۔

اپنے صحافتی سفر کا آغاز انہوں نے نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل سے بحیثیت رپورٹر کیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ NNI کے بیورو چیف بن گئے۔ اس دوران وہ پختونخوا، فاٹا اور افغانستان کے حالات سے متعلق خبریں مانیٹر کرتے تھے۔ چوں کہ سلیم صافی فاٹا اور افغانستان کی جنگ میں برسرپیکار گروپس کے متعلق کافی معلومات پہلے سے رکھتے تھے اور بحیثیت قبائلی پختون وہ اس جنگ کی ہر خبر کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے، اس وجہ سے 9 / 11 کے بعد ان کی خبریں اور تبصرے قابل اعتبار اور معتبر سمجھے جانے لگے اور اس وجہ سے روزنامہ مشرق، آج اور روزنامہ پاکستان میں چھپنے والے ان کے مضامین لوگ بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔

لوگوں کے اس مثبت رجحان نے صافی صاحب کی اتنی حوصلہ افزائی کی کہ 2004 ء میں انہوں نے افغان جنگ پر ایک کتاب Afghanistan: The Role of US، Taliban and Pakistani Religious Parties لکھی۔ اس کتاب میں امریکہ، طالبان اور پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی اس جنگ میں کردار پر بحث کی گئی ہے۔ صافی کی بصیرت اور حالات کی تجزیاتی مہارت (Analytical Skill) کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1978 ء سے اب تک اس جنگ نے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں لیکن اس میں ان تینوں کرداروں یعنی امریکہ، طالبان اور پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی مستقل وابستگی مسلسل رہی۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنے علاقے کے اس اہم ایشو پر وہ کتنے فکرمند ہیں۔

2002 ء سے 2004 ء تک پی ٹی وی پشاور سے ان کا ”جرگہ“ کے نام سے پروگرام بہت مقبول ہوا تھا۔ یہ پشتو کا پہلا ٹاک شو تھا اور اس میں آپ نے اپنی صحافتی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ اس کے بعد وہ 2005 ء سے 2008 ء تک پی ٹی ورلڈ سے ”سلیم صافی کے ساتھ“ کے نام سے اردو میں اور خیبر ٹی وی سے سیاست کے نام سے پشتو میں ٹاک شو کیا کرتے تھے۔

2008 ء سے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اور جیو ٹی وی سے بطور اینکر، کالم نگار اور تجزیہ کار منسلک ہوئے۔ جنگ اخبار کے لیے کالم لکھتے ہیں جو آسان اور قابل فہم ہونے کے علاوہ اس میں دی گئی معلومات کا مستند حوالہ موجود ہوتا ہے جو ان کے کالم اور شو کو قابل اعتبار بنا دیتا ہے۔ جیو ٹی وی پر ان کے پروگرام ”جرگہ سلیم صافی کے ساتھ“ کو بڑی پذیرائی ملتی ہے۔ بحیثیت اینکر ان کی کامیابی کا راز ان کا پروگرام سے پہلے مثبت اور خوب صورت تمہید باندھنا، بہترین کمیونیکیشن کا ہونا، بڑے لوگوں سے بلا جھجک سوالات کرنا اور شوق اور پیشے کا ایک ساتھ ہونا ہے۔

بحیثیت پختون وہ اپنے علاقے اور قوم کا ٹھیک حق ادا کر رہے ہیں۔ پختون خوا کے مسائل بلا خوف و خطر بیان کرتے ہیں اور ہر فورم پر ان کی وکالت بھی کرتے ہیں۔ مثلاً فاٹا کے انضمام کے سلسلے میں ان کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ اس طرح سی پیک میں پختونوں کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی کو سب سے پہلے سلیم صافی منظرعام پر لے آئے تھے۔ اس پراجیکٹ کے بنیادی ڈیزائن کی بنیاد پر مغربی روٹ پر اتنی دلیل سے بات کرتے تھے کہ انجنیئرنگ اور معاشیات کے بڑے بڑوں کو لاجواب کرتے تھے۔ سی پیک پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں اس منصوبے کو سمجھنے کے لیے بہت سارا مواد موجود ہے۔ پختونوں کی فطری استعداد کے حامل لوگوں مثلاً صباؤن ننگر ہاری کو بڑے شوق سے اپنے پروگرام میں بلاتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ باور کرا سکیں کہ پختونوں کے بچے بھی خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

پختونوں کے مسائل اجاگر کرنے کے علاوہ پشتو ادب کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ پشتون شعراء، ادباء اور فن کاروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عام طور پر جب کسی نامور صحافی، سیاستدان، سائنسدان یا Celebrity سے اس کے پسندیدہ شعراء کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو فیشن کے طور پر فوراً وہ علامہ اقبال، خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا کے نام لیتے ہیں۔ اگرچہ ان شعراء کی شاعری سے وہ بالکل ناواقف ہوتے ہیں لیکن سلیم صافی اس فیشن کو توڑتے ہوئے اردو میں احمد فراز اور پشتو میں رحمت شاہ سائل اور فضل سبحان عابد کا نام لیتے ہیں۔ مالاکنڈ کے ایک بہت بڑے شاعر کے مہنگے علاج میں مالی مدد ان کے پشتون شعراء کے ساتھ محبت کا ثبوت ہے جس کا ہم مالاکنڈ کے غریب عوام اور ادبی لوگ ہمیشہ کے لیے احسان مند رہیں گے۔

ہم پختون، فن کار کے فن کی قدر کرتے ہیں لیکن فن کار اور ہنرمند کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن صافی اس روایتی قید سے بھی آزاد ہیں۔ بختیار خٹک، کرن خان، ہمایوں خان، ہارون باچا اور زیک آفریدی ان کے خاص دوستوں میں شامل ہیں اور اکثر دعوتوں میں بہت فخریہ انداز میں ان تمام کا بحیثیت دوست مہمانوں سے تعارف کرواتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صافی ایک ملنسار اور عاجز مزاج شخص ہیں۔

وہ دوسرے پیشہ ور لوگوں کی طرح خشک مزاج نہیں ہیں۔ وہ رنگین مزاج کے مالک ہیں۔ ایک انٹرویو میں نسوانی حسن پر بات کرتے ہوئے انہوں نے آنکھوں اور بالوں (زلفیں ) کو حسن کے بنیادی اجزاء قرار دیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صافی صاحب نسوانی حسن کے اسرار و رموز سے خوب واقف ہیں کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خوب صورت آنکھیں اور لمبے گھنے بال عورت کے حسن میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شاعروں نے محبوب کی آنکھوں اور زلفوں کی تعریف میں سب سے زیادہ اشعار لکھے ہیں۔

نیندیں اس کی ہیں دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کی بازو پر پریشاں ہو گئیں
(غالب)
کون جیتے گا ان سے باتوں میں
جن کی آنکھیں کلام کرتی ہیں
(نامعلوم)

اپنی ماں کے ساتھ ان کا رویہ مثالی تھا۔ گھر سے رخصتی کے دوران ماں کے قدموں میں پڑنا اور واپسی میں ان کی کمرے میں سلامی کے لیے حاضر ہونا بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ صافی کا انتہائی نامساعد حالات میں ایک کامیاب انسان بننا ماں کی دعاؤں کا مرہون منت ہے۔ جب ماں زندہ تھیں تو ان کی دعاؤں سے صافی کامیابیاں سمیٹ رہے تھے اور جب وفات پا گئیں تو ان کے دفنانے میں کثیر لوگوں کی شرکت اور تعزیت کے لئے آنے والے اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز شخصیات کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کو اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی عزت اور وقار بخشتی گئیں۔ مجھے سلیم صافی کا سب کچھ ماں کی تربیت اور دعاؤں کا نتیجہ لگ رہا ہے۔ اس لیے میں نے یہ مضمون پاکستان میں ماں کے عالمی دن کے موقع پر ان کی ماں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تحریر کیا۔

انسان مکمل نہیں ہوتا۔ کچھ نہ کچھ خامیاں اور کمزوریاں ہر ایک میں پائی جاتی ہیں۔ سلیم صافی کا ماں کی تعزیت کرنے والوں میں صرف خاص لوگوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر دینا اور عام لوگوں کو نظر انداز کرنا سماجی انصاف کے منافی ہے۔ ہم عام لوگ صافی صاحب کی صلاحیتوں کی قدر کرتے ہیں۔ یہ بڑے تو ہر وقت ان کے ساتھ ٹاک شوز میں الجھتے، جھگڑتے رہتے ہیں۔ صافی صاحب کو ایک آدھ تصویر عام لوگوں کی بھی دینی چاہیے تھی۔ ہر ایک اور خاص کر ان لوگوں کو جو دوسروں کو اخلاقیات اور تہذیب سکھانے کے پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں، ان کو سماجی میل ملاپ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ایسے کام کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے سماجی امتیاز کا اظہار ہوتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments