صحافت سیاست اور اقتدار کی تکون


سیاست صحافت اور اقتدار کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اس پیچیدہ تکون کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے ایوان اقتدار کی راہداریوں سے قریب ہونے، رابطہ رکھنے اور اس کا حصہ بن جانے میں باریک سا فاصلہ ہے کچھ دوستوں نے یہ فاصلہ برقرار رکھا ہوا ہے اور چند ایک نے اس کو عبور کر لیا، ان ایوانوں میں کسی ”خبر“ کی تلاش میں جانا اور پھر وہیں کا ہو جانے میں بہرحال زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے کچھ وزیر بن گئے کچھ مشیر اور چند ایک نے انتظامی عہدے لے لئے اور پھر صحافت میں واپس آ گئے، نہ کوئی حساب نہ کتاب اور نیا باب شروع ہو گیا

جناب مظہر عباس نے بڑی تفصیل سے سیاست کے کھیل کی نذر ہونے والی عالی دماغ ہستیوں کا ذکر کیا ہے

یہ المناک کہانی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین سے شروع ہوتی ہے جو جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر بلدیات بن گئے تھے جب نکالے گئے تو اتنے غیرت مند تھے واپس دنیائے صحافت کا رخ نہ کیا خاموشی سے گمنامی کی موت مر گئے اور پھر حضرت کوثر نیازی بذریعہ جماعت اسلامی صحافت سے میدان سیاست میں کودے قومی اسمبلی کا الیکشن جیتا وفاقی وزیر بنے پھر مشاہد حسین اور حسین حقانی نے صحافت کی سیڑھی کو اقتدار پر کمند ڈالنے کے لئے استعمال کیا تمام اخلاقی اور پیشہ وارانہ اصولوں کو دل کھول کر تاراج کیا کڑاکے نکالے کامل ایک دہائی تک بذلہ سنج چودھری شجاعت کے دربار گجرات میں ملا نصر الدین دو پیادہ بن کر دل بہلاتے رہے خلعت فاخرہ اور انعام پاتے رہے

شیریں رحمن، نسیم زہرا بھی سیاست میں آئیں لیکن دونوں خواتین نے تہذیب و تمدن اور اعلی سماجی روایات کو ہمیشہ پیش نظر رکھا

اصل لوٹ سیل شریف برادران نے اپنے دور اقتدار میں لگائی جس نے بھی ذرا خوشامد درآمد کا مظاہرہ کیا سرکاری منصب سے سرفراز کیا گیا کہ جنرل مشرف کی چاکری کرنے والے بھی ایوان بالا کی رکنیت سے سرفراز ہوئے اب اچھے دنوں کی آس پر یہ ٹولہ جمہوریت کی ”بالادستی“ کی جنگ لڑے جا رہا ہے اس طرح اقتدار تک رسائی پانے والے ”صاحب“ کی خوشنودی کے لئے ذلت کے ایسے لامتناہی سفر کے مسافر بن جاتے ہیں جس کا کوئی انجام نہیں ہوتا اس کی ایک جھلک مدتوں پہلے برادرم سلمان غنی نے دکھائی تھی کہ دورۂ امریکہ کے دوران وزیر اطلاعات نقد اور خوشامد کی سوغات لئے پہروں منت ترلے کرتے رہتے تھے کہ دوچار اچھے بول میرے لئے ”صاحب“ کے پاس بول دیجئے گا

ہماری اذیت پسند ذہنیت اور پامال سماجی اقدار کا شاخسانہ کچھ اس طرح عیاں ہوتا ہے کہ ہم صحافت کو سیڑھی بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والے مفاد پرستوں پر حرف طعن تو توڑتے رہتے ہیں لیکن بلند پایہ اصولوں کی پاسداری کر کے حرف انکار کے پرچم بلند کرنے والے فرزندان پاکستان کی ستائش اور تحسین کبھی نہیں کرتے

اقتدار سے انکار کی سب سے بڑی روشن مثال تو جنت مکانی، خلد آشیانی مجید نظامی رح نے قائم کی جنہیں ابا جی میاں شریف نے صدر مملکت کا منصب جلیلہ نقرئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا تھا لیکن جنت مکانی مجید نظامی رح نے بلا توقف معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے لئے اقلیم قلم کی سلطنت اور نوائے وقت کی ادارت ہی کافی ہے

قبلہ شاہ جی، جناب عباس اطہر کو ہر طرح کے عہدوں کی بار بار پیش کش ہوئی جنہیں وہ ہنسی مذاق میں اڑا دیا کرتے تھے پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں مختلف پیشکشوں کے جواب وہ کہا کرتے تھے کہ بی بی بے نظیر نے سفارش کر کے مجھے نوائے وقت کا ایڈیٹر بنوا دیا ہے یہی میرے لئے کافی ہے

درویش صفت ادریس بختیار

‎ساری زندگی عامل صحافی رہے، بڑی بڑی ترغیبات کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا، قومی اسمبلی، ایوان بالا، سینٹ کی رکنیت اور گورنر

‎سندھ کا بلند و بالا عہدہ انہیں کچھ بھی نہ بھایا،
‎صوت و صدا اور قلم و قرطاس سے تعلق کو
‎ہر جاہ و منصب پر ترجیح دی

مدتوں ان کی آواز بی بی سی اردو سروس کے ذریعے جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں گونجتی رہی ہیرالڈ میگزین کے لئے جو کچھ لکھا وہ صرف وہی قلم بند کر سکتے تھے اور غدار وطن الطاف حسین سے محبت اور نفرت کا عجیب و غریب رشتہ تھا کہ کبھی وہ ان کے قتل کے فتوے صادر کرتا اور بازی ہاتھ سے نکلتی دیکھ کر ایم کیو ایم کی سربراہی سے لے کر ہر ہر عہدہ قدموں میں ڈال دیتا

جب الطاف حسین پر دور ابتلا آتا تو ادریس مرحوم اس کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہو جاتے وہ

‎دوستوں کے جانثار، اور دشمنوں کے بھی ہمدرد و بہی خواہ تھے جس پر اس کالم نگار کو ہمیشہ شکوہ رہا کہ درندوں اور وحشی قاتلوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہوتے

اور جفا پرور غدار کبھی وفا شعار نہیں ہو سکتے

معروف تجزیہ کار اور اب بزرگ اخبار نویس محسن رضا خان کو 1993 سے اقتدار میں آنے اور مشاورت کی پیش کشوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن وہ ہمیشہ معذرت کرتے رہے ہیں کہ ”وہ صحافت میں صحافت کرنے آئے ہیں صحافت کو ایوان اقتدار میں جانے کی سیڑھی نہیں بنا سکتے“

محسن رضا کو

پیپلز پارٹی کے دور میں سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کا ایم ڈی بننے کی پیش کش ہوئی اس وقت وزیر اطلاعات حمدان کی پھو پھو، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی یہ پیش کش کی محسن رضا خان نے قبول کرنے سے معذرت کر لی تو فردوس عاشق اعوان نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ وہ صدر زرداری سے بات کرچکی ہیں لہذا ایک مرتبہ آصف زرداری سے مل لیں صدر زرداری سے ملاقات میں جب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ان کا تعارف کروانا چاہا تو صدر زرداری نے کہا کہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا

‎ایوان صدر میں ہونے والی اس ملاقات میں اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات تیمور عظمت عثمان اور لاہور کے ایک ٹی وی چینل کے مالک بھی موجود تھے اس ملاقات میں میڈیا امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی قبل ازیں محسن رضا خان کو 1993 میں مسلم لیگ نون اور عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت میں اس وقت وزیر اعلی پیر صابر شاہ ( موجودہ سینیٹر ) نے بھی محسن رضا خان کو مشیر بننے کی پیش کش کی تو محسن رضا نے صاف انکار کر دیا ان کا موقف تھا کہ وہ صحافت میں صحافت کرنے آئے ہیں صحافت کو ایوان اقتدار میں جانے کی سیڑھی نہیں بنا سکتے

اگر اسے تعلٰی نہ سمجھا جائے تو اب موقع اور دستور بھی ہے یہ کالم نگار محمد اسلم خاں اپنا احوال بھی بیان کر نا چاہتا ہے اپنے حمدان کی پھوپھو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان مجھے بھی ایک اعلی سرکاری عہدہ دلوانا چاہتی تھیں انہوں نے اپنے شاہ جی والا تبار سے بڑی بے تکلفی سے کہا ”ایہہ منڈا تسیں سانوں دے دیوو، شاہ جی قبلہ کو اس سوال کی کچھ سمجھ نہ آئی تو میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگیں“ اسلم خاں ”اس پر شاہ جی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا بتایا یہ صدر زرداری کا نامزد ملزم ہے جس کی آپ وزیر ہیں میڈم آپ نے اس کا کیا کرنا ہے اور یہ تجویز انجام کو پہنچی

پنجاب میں وزیر اطلاعات بننے کی دوسری پیش کش کی اطلاع کسی اور نے نہیں ہمارے ایڈیٹر ان چیف سلطان علی لاکھانی نے دی تھی ہوا کچھ یوں کہ ایک صبح غیر متوقع طور پر ان کی کال آئی اپنے مخصوص شائستہ لہجے میں استفسار کیا، کیا میں بات کر سکتا ہوں بتایا کہ اسلام آباد میں ہوں فرمانے لگے فوراً سائبر نیٹ کے دفتر آ جاؤ یہ ہمارے گروپ کی انٹرنیٹ کمپنی کا دفتر ہے، وہاں خاصا رش لگا ہوا تھا لاکھانی غیر معمولی طور پر بڑے خوش دکھائی دے رہے تھے کہنے لگے ہر خبر پر نظر ایکسپریس نیوز ہم لان میں رکھے ایک کیبن میں جا بیٹھے تو بتایا کہ تمہیں کل صبح پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات کا حلف اٹھانا ہے

میں ابھی ایک اہم میٹنگ سے آ رہا ہوں میں عرض کی
مجھے اخبار سے رخصت چاہیے ہو گی

اس کالم نگار کو علم تھا کہ یہ انہونی اور ناممکنات کا کھیل ہے اور اس کے فوراً بعد لاہور سے حلف وفاداری بارے باضابطہ آگاہ کیا گیا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں کہ مادر پدر آزادیاں مانگنے والا ’لبرو ٹو ٹولہ‘ بابا جی مجید نظامی جنت آشیانی و خلد مکانی کے پیروکار کو آگے بڑھتا دیکھ کر کیسے برداشت کر سکتا تھا آج پہلی بار ذکر کر رہا ہوں کہ حرف انکار کی کہانیوں میں حرف اقرار کو بھی شامل باجا کیا جاسکے ویسے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں

بے مثل نعت گو شاعر حضرت کوثر نیازی کے بعد اس دور جدید میں صرف دو عامل اخبار نویس ایسے گزرے ہیں جنہوں اپنے حلقہ انتخاب سے کھلے مقابلے میں جیت کر میدان سیاست میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ممتاز دانشور اور انگریزی کے منفرد اسلوب نگار بے باک تجزیہ نگار ایاز امیر اب تک متعدد بار پنجاب اور قومی اسمبلی میں چودھری ایاز امیر کی روپ میں اپنے حلقے کی نمائندگی کر چکے ہیں چونکہ سرکاری درباری مزاج شاہاں سے آشنا نہیں ہیں اس لئے ان کی عقل و دانش سے ملک و قوم استفادہ حاصل نہ کر سکی دوسری درخشندہ مثال برادرم مشتاق منہاس نے قائم کی جنہوں نے صحافتی کاروبار کو خیر آباد کہہ کر اپنے آبائی حلقے باغ بنی منہاساں سے آزاد کشمیر اسمبلی کی نشست جیت کر وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے اور اب اطلاعات سمیت بیک وقت کئی وزارتیں چلاتے ہیں اور راگ ’درباری‘ گاتے اور سناتے ہیں کہ وہ چکوال کے چودھری ایاز امیر منہاس نہیں، باغ بنی منہاساں کے راجہ مشتاق احمد منہاس، نانو کے 5 پیاروں میں شامل ہیں اور راولپنڈی کے لال حویلی والے کو شکست دے کر قومی اسمبلی میں آنا چاہتے ہیں

طرح دار رپورٹر مظہر عباس نے بڑے والہانہ انداز میں اپنے والد گرامی مرزا عابد عباس کی 40 سال پہلے کی جانے والی نصیحت کا ذکر کیا ہے بتاتے ہیں جب صحافت پڑھنے اور کرنے کا خیال آیا تو والد مرزا عابد عباس نے کہا ”بیٹا“ اچھا انتخاب ہے بس سوچ لینا عزت کمانی ہے یا پیسہ ”

ذوالفقار بھٹو کے پریس سیکرٹری جناب خالد حسن اعلی پائے کے دانشور، مصنف اور چوٹی کے نثر نگار تھے ایک شام پتہ چلا کہ واشنگٹن سے سیدھے اسلام آباد لینڈ کر چکے ہیں اگلے روز شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں ان کے دفتر حاضر ہوا تو خود ہی بتانے لگے آخری دور میں مزے کرنے کے لئے نواز شریف کا تقریر نویس بن گیا ہوں موجیں ہی موجیں ہیں

وہ سود ورزیاں کی تمام منزلوں سے گزر چکے تھے من پسند مشاغل ہی زندگی کا حاصل تھے
وہ واشنگٹن میں مل جائیں یا پھر اسلام آباد آنا پڑے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
اپنے مہربان بزرگ امجد اسلام امجد نے کیا خوب لکھا ہے
‎یہ جو سانپ سیڑھی کا کھیل ہے
‎ابھی ساتھ تھے دونوں ہم نوا
‎وہ بھی ایک پہ
‎میں بھی ایک پہ
‎اسے سیڑھی ملی وہ چڑھ گیا
‎مجھے راستے میں ًہی ڈس لیا
‎میرے بخت کے کسی سانپ نے

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments