انکل سرگم جیسے آرٹسٹ مرتے نہیں، روٹھ جاتے ہیں


لاک ڈاؤن اور عیدالفطر کے انفراغ میں آج کل ہم اپنے گھر کے چھوٹے سے کتب خانے کی کیٹلاگ سازی کر کے کتابوں کو کسی ضابطے میں لانے کی سعی کر رہے ہیں۔ آج شام کو اس عمل کے دوران کتابوں کی موضوعاتی درجہ بندی کرتے ہوئے اچانک ایک کتاب نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ وہ کتاب میرے، آپ کے، ہم سب کے ”انکل سرگم“ یعنی سید فاروق قیصر کے طنزیہ قطعات، پیروڈیز، گیتوں، غزلوں، نظموں پر مشتمل ان کا مجموعہ کلام ”میرے پیارے اللہ میاں“ تھا۔

آج کی رات اس کتاب کی قربت میں بسر کرنے کا ارادہ کر کے ہم اسے ہاتھ میں لیے صحن میں بچھی چارپائی پر پدھارے ہی تھے کہ موبائل فون کی مترنم آواز نے واٹس ایپ کے دوش پر آنے والے پیامچے کی اطلاع دی۔ لاہور سے عزیزم اختر عباس کا پیامچہ تھا جسے پڑھتے ہوئے طبیعت پر یکلخت اداسی اور حزن و ملال کی لہر عود کر آئی۔ اختر عباس کا پیامچہ انکل سرگم کے سانحہ ارتحال کی اطلاع اپنے دامن میں سموئے ہوئے تھا۔

انکل سرگم کے انتقال کی اطلاع پڑھ کر ساحر لدھیانوی کی اس نظم کا ایک مصرعہ جو انہوں نے آغا شورش کاشمیری کے چھوٹے بھائی یورش کے انتقال پر کہی تھی، ہمارے حافظے میں بار بار تازہ بلکہ تروتازہ ہوتا رہا۔

”اک چراغ اور بجھا، اور بڑھی تاریکی“

سید فاروق قیصر جنہیں ہم انکل سرگم کہتے تھے۔ تھے نہیں، بلکہ کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے۔ ہماری ہم عصر نسل سمیت کئی نسلوں کی کہولت کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم، تفریح اور تربیت کی آموزش کے امین تھے۔ بچپن کے رومانس میں اٹکی 90 ء کی دہائی میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام ”کلیاں“ کے ذریعے ہم پہلی بار انکل سرگم اور ان کے ساتھ ماسی مصیبتے، ہیگا، شرمیلی، رولا، اور نونی پا جیسے پتلی کرداروں سے متعارف ہوئے۔

پی ٹی وی پر ان کا پروگرام ہر جمعرات کی سہ پہر نشر ہوتا تھا۔ قد آدم بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن کے سامنے چٹائی پر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ براجمان ہو کر ہم انکل سرگم کی مزاح و طنز کو اپنے اندر سموئے ہوئے ان کی شگفتہ شاعری اور گفتگو کو توجہ سے سنتے، ماسی مصیبتے کے بے ساختہ ”بھنڈن“ دیکھ کر کھلکھلاتے اور ”رولا“ کو معمولی معمولی باتوں پر رولا پاتے دیکھ کر تالیاں بجاتے۔

انکل سرگم ایک بے حد حیران اور مسرت و شگفتگی سے معمور کر دینے والی کلاسیکی شخصیت تھے۔ وہ زندگی بھر دلوں اور دماغوں کی دھرتی میں چراغ بوتے رہے۔ ان کی ہر گفتگو، ہر نظم، ہر غزل، ہر کارٹون اور ہر پروگرام اپنی جگہ روشنی کا ایک چھتنار اور ضد رنگ شجر ہے۔ وہ کچھ بھی لکھتے اور کہتے، ان کا ہر جملہ دیپ مالا کی طرح جگمگانے لگتا۔ وہ ہمہ جہات اور جامع الصفات شخصیت تھے۔ ان کا طرز گفتگو اتنا شگفتہ ہوتا کہ گماں گزرتا کہ چہار سو زعفران کے کھیت مہک اٹھے ہیں۔ ان کی ذات اپنی تہذیب و ثقافت کے رنگوں سے سجی ایک ایسا حجرہ تھی جس کے منقش در و دیوار کی ہر ہر بیل اور ہر ہر بوٹے میں فن کی پچی کاری دکھائی دیتی ہے۔

آج کارپوریٹ میڈیا کی چیختی چنگھاڑتی سرخیوں اور زہر اگلتے لہجوں کے درمیان پگڑی اچھال سوشل میڈیا کی چوسنی منہ میں لے کر پیدا ہونے والی ڈیجیٹل نسل اس ظرف، اس اعتدال، اس ذوق اور اس ہنر سے محروم ہے جو کہ انکل سرگم جیسے مہان فنکار کی شخصیت اور فن کی جانکاری کے لئے ضروری ہونا چاہیے۔ وہ اس لطف سے کبھی محظوظ نہ ہو سکے گی جو ”کلیاں“ پروگرام میں انکل سرگم، رولا اور ماسی مصیبتے جیسے کرداروں کو دیکھ کر ہم نے پایا۔

انکل سرگم کی طرف سے کچھ عرصہ قبل بطور تحفہ بھیجی گئی کتاب ”میرے پیارے اللہ میاں“ ہمارے سامنے رکھی ہے اور ہم لفظوں کے بانجھ پن کا شکار ہیں کہ مزید کیا لکھیں۔ ان کے بارے میں تو ”دبستان“ کا لفظ تو بہت ہی چھوٹا دکھائی دیتا ہے، انہیں ایک ”عہد“ کہتے ہوئے بھی تشنگی نہیں بجھتی۔ انکل سرگم جیسے حساس آرٹسٹ مرتے نہیں بس زمانے کی ناقدری، معاشرے کی کور ذوقی، اور لوگوں کی ناشناسی کے باعث روٹھ جاتے ہیں اور چپ چاپ اپنا مسکن عروضی زمانوں سے پرے جا آباد کر لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments